باری اسٹوڈیوز کبھی لاہور کا عالی شان فلم اسٹوڈٰیوز ہوا کرتا تھا لیکن اب یہاں فلموں کی شوٹنگز کی بجائے گودام دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اسٹوڈیو کب بنا اور اس کی تاریخ کیا ہے۔ ’’جال‘‘ بھارتی اداکار ، فلمساز وہدایتکار گرودت کی ایک فلم تھی جس کی نمائش کے خلاف فلمی صنعت کے سرکردہ شخصیات نے احتجاج کیا تھا اس تحریک کی قیادت ڈبلیو زیڈ احمد کر رہے تھے۔ یہ فلم پاکستان میں باری ملک کے پاس تھی ان کا کہنا تھا کہ فلم کو چلنے دیا جائے وہ اس کی آمدنی سے لاہور میں ایک فلم اسٹوڈیو تعمیر کرینگے۔
جال تحریک کے بعد جب بھارتی فلموں پر پابندی عائد کردی گئی تو مجبورا باری ملک نے فلمسازی کی ابتدا کرتے ہوئے ملک ٹاکیز ادارے کے تحت پہلی فلم ’’ماہی منڈا‘‘ بنائی جس کی ہدایات ایم جے رانا اور موسیقی جی اے چشتی نے دی۔ شیخ اقبال کی تحریر کردہ اس کہانی کے مکالمے بابا عالم سیاہ پوش نے لکھے تھے۔ مسرت نذیر اور سدھیر نے مرکزی رومانوی کرداروں میں پیش ہوئے۔ مارچ 1956ء میں نمائش ہونے والی یہ فلم کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔ باری ملک نے اس صورتحال اور غیر متوقع کامیابی کے پیش نظر ایک دوسری فلم ’’یکے والی‘‘ فلمانے کا اعلان کردیا ۔
ماہی منڈا، کے ہی رائٹر، موسیقار، فنکاروں اور ڈائریکٹر ایم جے رانا نے ہی ریکارڈ ٹائم میں یہ فلم مکمل کرادی۔ اس فلم نے ’’ماہی منڈا‘‘ کا بھی ریکارڈ توڑ دیا اور سپرہٹ ثابت ہوئی ۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد باری ملک نے ملتان روڈ پر قطعہ اراضی خرید کر اس پر باری فلم اسٹوڈیوکی تعمیر کا آغاز کردیا اور ساتھ ہی ساتھ فلمسازی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اس اسٹوڈیو میں لاتعداد پنجابی فلمیں بنیں، باری اسٹوڈیو کو ممبئی کے چندو لال شاد کے رنجیت اسٹوڈیو سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ باری ملک عہد شباب میں بڑے حسین وجمیل ہوا کرتے تھے ان کا تعلق لاہور کی ککے زئی برادری سے ہے۔ مشہور اداکار، فلمساز وہدایتکار نذیر رشتے میں ان کے ماموں تھے۔
نذیر کی بڑی بیٹی ثریا جو دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان سے بیاہی گئی تھی اس سے علیحدگی کے بعد باری ملک سے شادی کرلی تھی لیکن یہ بندھن بھی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ باری ملک نے ابتدائی دور میں ہیروئن نجمہ سے شادی کرلی جس سے تین بیٹے راحیل، خرم اور زرق باری ہیں۔
باری ملک نے تیسری شادی اداکارہ سلونی سے کی۔ سلونی سے ان کی ایک بیٹی ہے جس کی شادی الیاس کشمیری کے صاحبزادے سے ہوئی۔ ہدایتکار حسن طارق کی فلم ’’دوسری شادی‘‘ کے فلمساز بھی باری ملک تھے۔ ہدایتکار ایم جے رانا کی ’’سہتی‘‘ اور خلیل قیصر کی اولین فلم ’’یاربیلی‘‘ کے فلمساز بھی باری ملک تھے۔
یہاں کئی سال تک اردو، پنجابی اور پشتو فلموں کی شوٹنگز ہوتی رہیں۔ رات دن فلم اسٹارز کا مجمع لگا رہتا تھا۔ باری اسٹوڈیوز کا گاؤں خاص طور پر مشہور تھا جو ایک وسیع رقبے پر مشتمل تھا، یہاں کئی فلموں کی فلم بندی ہوئی۔ لیکن اب پچھلے کئی سالوں سے یہاں ویرانیوں کے ڈیرے ہیں۔ بیشتر فلورز کی جگہ گوداموں نے لے لی ہے۔ باری ملک کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے راحیل باری، زرق باری اور خرم باری اس اسٹوڈیوز کی رونقیں بحال رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ باری اسٹوڈیو میں دلابھٹی، یکے والی، ابا جی، چاچا جی، چن مکھناں، ظلم دا بدلہ، جگری یار، ات خدا دا ویر، لارے، دلاں دے سودے، مرزا جٹ، ڈاچی اور بے شمار یاد گار فلموں کی عکس بندی ہوئی۔ یہاں نامور فنکاروں اعجاز درانی، اسلم پرویز مرحوم، اکمل مرحوم، مظہر شاہ، اجمل خان مرحوم، منور ظریف مرحوم، آغا طالش مرحوم، الیاس کشمیری مرحوم اور دیگر بے شمار فنکاروں نے کام کیا۔ اب یہ اسٹوڈیو ایک کباڑخانے کا منظر پیش کر رہا ہے اور یہاں سے فلمی دفاتر بھی کم ہو چکے ہیں۔