Thursday, October 3, 2024
پہلا صفحہتبصرےڈنکی، کہیں سے بھی راجو ہیرانی کی فلم نہیں لگتی

ڈنکی، کہیں سے بھی راجو ہیرانی کی فلم نہیں لگتی

جب آپ کسی فلم یا میکر سے بہت ذیادہ توقعات وابستہ کرکے بیٹھے ہوں تو پروڈکٹ ہلکی نکلنے پر مایوسی کا لیول بھی اتنا ہی ہائی ہوتا ہے۔
ایسا ہی کچھ شاہ رخ خان کی حالیہ ریلیز ڈنکی، کا معاملہ ہے۔ فلم کی پری ریلیز ہائپ جس قدر ہائی تھی، فلم دیکھنے کے بعد مجھ جیسے فلم بین کو مایوسی بھی اسی قدر ہوئی ہے۔
راج کمار ہیرانی جو اس سے قبل منا بھائی ایم بی بی ایس، لگے رہو منا بھائی، تھری ایڈیٹس، پی کے، اور سنجو، جیسی فلموں سے اپنا اسکول آف تھاٹ منواچکے ہیں، وہ اس قدر ہلکی فلم بنائیں گے، یہ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا۔
دیکھا جائے تو منا بھائی کے بعد راج کمار ہیرانی کی ہر اگلی فلم پچھلی سے قدرے کم زور محسوس ہوتی ہے اور یہ گراف گرتے گرتے ڈنکی، کی سطح پر آگیا ہے۔

یہ فلم راجو ہیرانی سے ذیادہ یش راج کا برانڈ محسوس ہوتی ہے۔ فلم کا بڑا حصہ آپ کو ویر زارا، کی یاد دلاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ڈنکی، دیکھنے کے بعد اس موضوع پر بنی پنجابی فلم ’آجا میکسیکو چلیے‘ آپ کو ذیادہ بڑی فلم لگتی ہے۔
ایک اور پنجابی فلم چل میرا پت، سے بھی کافی کچھ اُڑایا گیا ہے۔ خاص طور پر فلم کے ایک کردار بلی ککڑ، کا لندن کی سڑکوں پر اسٹیچو بن کر پیسے کمانے والا پورا سیکوئنس چل میرا پت، سے لیا گیا ہے۔ یہ سب آپ راجو ہیرانی سے توقع نہیں کرسکتے۔

فلم کا آغاز منو رندھاوا (تاپسی پنوں) کے لندن کے ایک ہاسپٹل سے فرار سے ہوتا ہے۔
دوسری جانب پنجاب کے ایک گاؤں للتو میں بوڑھوں کی ریس سے ہوتی ہے، جس میں نسبتاً کم بوڑھا شاہ رخ بھی دوڑتا ہے اور ریس جیت جاتا ہے۔ یہ ہردیال سنگھ ڈھلون ہے جسے سب ہارڈی کہتے ہیں۔ ریس کے اختتام پر اسے لندن سے پرانی گرل فرینڈ منو رندھاوا کا فون آتا ہے کہ وہ دبئی پہنچ رہی ہے۔

یہاں سے ویر زارا، کی طرح کہانی فلیش بیک میں جاتی ہے اوردکھایا جاتا ہے کہ پنجاب کے اس گاؤں للتوکے چار کردارمنو، سکھی (وکی کوشل)، بلی ککڑ (انیل گروور) اور بلیندر بگو (وکرم کوچھر)، لندن جانے کی تگ و دو میں ہیں اورکئی بار ایجنٹس کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں لیکن لندن جانے کا سپنا دیکھنا نہیں چھوڑا۔
کہانی میں ایک نئے کردار کی انٹری ہوتی ہے اور وہ بھی یش چوپڑا کی رومینٹک فلموں کے ہیروکی طرح۔
ٹرین سے للتو پہنچنے والا ہارڈی ایک فوجی ہے جو پٹھان کوٹ سے آیا ہے۔ وہ منو کے بھائی مہیندر رندھاواکا شکریہ ادا کرنے یہاں آیا ہے، جس نے اس کی جان بچائی تھے لیکن مہیندر کی ایک حادثے میں موت ہوچکی ہے۔
ہارڈی اس فیملی کی مدد کے ارادے سے للتو میں ہی رک جاتا ہے۔ اس دوران بلی ککڑ کا لندن کا اسٹوڈنٹ ویزہ لگ جاتا ہے اور وہ لندن چلاجاتا ہے۔ ہارڈی منو اور اس کے دوست بگوکو لندن لے جانے کے لیے ڈنکی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔

سکھی (وکی کوشل) ایک لڑکی جسی سے پیار کرتا ہے جس کے باپ نے اس کی شادی لندن میں کردی ہے۔ وہ اس سے ملنے جانا چاہتا ہے لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس نے خودکشی کرلی ہے تو سکھی بھی اپنی جان دے دیتا ہے۔ یہاں فلم کا انٹرول اور ٹرننگ پوائنٹ بھی ہے لیکن فلم کے آغاز سے انٹرول تک کا سوا گھنٹہ وکی کوشل کے نام رہا۔ اپنے مختصر سے کردار میں بھی وکی کوشل نے اس قدر گہرا اثر چھوڑا کہ وہ فلم کے اختتام تک آپ کو یاد رہتا ہے۔
ڈنکی، شروع ہوتی ہے انٹرول کے بعد لیکن یہ جرنی جس قدر ایڈوینچرس ہونی چاہیے تھی، اس قدر فلمائی نہیں گئی۔ بظاہر بڑی مشکلوں سے لیکن جیسے تیسے یہ چاروں کردار لندن پہنچ جاتے ہیں۔ یہ مناظر فلمانے سے پہلے راجو ہیرانی کو آجا میکسیکو چلیے، دیکھ لینی چاہیے تھی۔

لندن پہنچنے کے بعد پولیس سے چھپتے پھرنے اور سروائیول کی جنگ شروع ہوتی ہے جو اس سے قبل کئی فلموں میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ ایک انڈین وکیل ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان سب کو سیاسی پناہ کے لیے قائل کرتا ہے لیکن اچانک ہارڈی کے اندر کا ہندوستانی جاگ جاتا ہے اور وہ جج کے سامنے یہ بیان دینے سے انکار کردیتا ہے کہ اس کی جان کو ہندوستان میں خطرہ ہے۔ سیاسی پناہ کی درخواست اسی بنیاد پر دی جاسکتی ہے۔ جج بھی اتنا کوآپریٹیو ہوتا ہے کہ وہ ہارڈی کو خود برطانوی شہریت کا چور راستہ دکھاتا ہے اور بار بار جوھٹ بولنے پر قائل کرتا ہے لیکن ہندوستانی ہارڈی، نہیں مانتا۔ باقی تینوں مان جاتے ہیں اور انہیں انگلینڈ میں سیاسی پناہ مل جاتی ہے۔

برسوں بعد ان سب کووطن کی یاد آتی ہے اور وہ سب چھوڑ چھاڑ کر انڈیا واپس آنے کے لیے ہارڈی سے رابطہ کرتے ہیں۔ انڈیا میں برٹش پاسپورٹ پر ان کا داخلہ کیوں ممنوع ہے؟ اس کا جواب دینے کی راجو ہیرانی نے ضرورت محسوس نہیں کی۔
منو کی بیماری آخری اسٹیج پر ہے لہٰذا وہ اپنے گھر لوٹنا چاہتی ہے۔ اس کے پاس صرف ایک ماہ بچا ہے لیکن باقی دونوں کردار کیوں لندن چھوڑکر انڈیا آنا چاہتے ہیں؟ ہیرانی نے اس کا فیصلہ بھی آڈیئنس پر چھوڑدیا۔
بہرحال یہ تینوں دبئی پہنچتے ہیں جہاں سے ان کی انڈیا واپسی کے لیے ایک ڈرامائی سچویشن کری ایٹ کی گئی ہے۔ دبئی سے یہ لوگ سعودیہ لے جائے جاتے ہیں اور وہاں سے انڈیا۔ یعنی ایک بار پھر ڈنکی۔

فائنلی یہ سب اپنے گاؤں للتو پہنچ جاتے ہیں۔ کہانی یہاں ختم ہوچکی ہے لیکن آڈیئنس کے مذید 15 منٹ ضائع کرنے کے لیے ان سب کرداروں کو ان کے گھروں تک پہنچایا جاتا ہے اور پھر روایتی کلائمکس میں اپنے گھر کی چھت پر ہارڈی کے کاندھے پر سر رکھ کر منو کی موت ہوجاتی ہے۔
اب آتے ہیں، فلم کی ان خامیوں کی طرف، جن کا جواب راجو ہیرانی کے پاس ہی ہے۔
کہانی اور اسکرین پلے دونوں اس قدر کم زور ہیں کہ فلم کسی موڑ پر آپ کو گرفت میں نہیں لیتی۔
فلم کے مکالمے بھی جاندار نہیں، حتیٰ کہ وکی کوشل نے انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے اور قیام کے حوالے سے جو مکالمے ادا کیے، وہی دوسرے سین میں شاہ رخ ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

ہارڈی یعنی شاہ رخ، ڈنکی لگانے کے لیے انڈین پنجاب سے پاکستانی علاقے سندھ میں کشتی کے ذریعے داخل ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ میں داخلے کے لیے سمندی چٹانوں سے گھری ہوئی جو حسین ترین گھاٹی دکھائی گئی ہے، وہ اگر پاکستان آنے والے ٹورسٹ ڈھونڈنے نکل پڑے تو پھرکیا ہوگا؟
دریاؤں اور سمندروں میں بھیگتے بھاگتے یہ کردار جب سندھ میں داخل ہوتے ہیں تو شاہ رخ اپنی گرل فرینڈ کو سفری بیگ میں سے بلی کی لندن سے بھیجی ہوئی فوٹو پرنٹ تصاویر دکھاتا ہے۔
کیا یہ تصویریں ہارڈی کو ڈنکی کے دوران ڈاک سے موصول ہوتی ہیں؟ اور کیا ان سب کے پاس واٹر پروف بیگز تھے کہ یہ تصویریں بھیگتی تک نہیں ہیں؟

ان چھوٹی موٹی غلطیوں کو نظر انداز بھی کردیں تو اس روٹ کو کیسے نظر انداز کریں جو ڈنکی، کے لیے راجو ہیرانی نے اختیار کیا۔
سندھ سے یہ لوگ افغانستان جاتے ہیں اور وہاں سے ایران تاکہ ٹرین سے ترکی اور پھر یورپ میں داخل ہوسکیں۔
راجو ہیرانی کا جغرافیہ اگر کم زور ہے توگوگل میپ سے ہی مدد لے لیتے تو انہیں علم ہوتا کہ سندھ سے ایران کا بارڈر قریب ہے۔ ایران جانے کے لیے افغانستان نہیں جانا پڑتا۔
بھارتی فلم میکرز کا پرابلم یہی ہے کہ وہ ریسرچ پر ذرا دھیان نہیں دیتے۔ صحافتی زبان میں انہیں ٹیبل اسٹوریزکہا جاتا ہے۔
خیر ایران پہنچنے کے بعد انہیں ٹرین سے ترکی جانا ہوتاہے لیکن ڈائریکٹر اس پوائنٹ پر بھول جاتا ہے کہ وہ کچھ ہی سین پہلے اس روٹ کی تفصیلات بتاچکا ہے۔ ایران سے یہ لوگ ایک مال گاڑی میں بیٹھ کر ترکی روانہ ہوتے ہیں۔

اسی طرح فلم کے کلائمکس میں جب یہ سب دبئی سے انڈیا واپسی کا پلان بناتے ہیں تو پہلے سعودی عرب جاتے ہیں اور پھر وہاں سے خود کو ڈی پورٹ کرواکر باعزت طریقے سے انڈیا میں داخل ہوتے ہیں۔ کیا ڈائریکٹر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ انگلینڈ میں سیاسی پناہ لینے کے بعدآپ برٹش پاسپورٹ پر انڈیا نہیں جاسکتے؟
ایکٹنگ کی بات کی جائے تو وکی کوشل کی اداکاری شاہ رخ سمیت دیگر ایکٹرز پر بھاری محسوس ہوتی ہے۔ پہلا ہاف تو مکمل طور پر وکی کوشل کے نام رہا۔

سیکنڈ ہاف میں شاہ رخ کی اوور ایکٹنگ سمیت بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ شاہ رخ کی فلم محسوس ہی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ راجو ہیرانی اس فلم میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ شاہ رخ کا گیٹ اپ بھی متاثر کن نہیں۔ کنٹی نیوٹی کے بے شمار جمپس ہیں۔ اولڈ گیٹ اپ میں شاہ رخ کو ضرورت سے ذیادہ بوڑھا دکھایا گیا ہے اور جہاں زبردستی کا جوان دکھایا گیا ہے، وہاں بھی کچھ ذیادہ ہی ہوگیا۔

تاپسی پنوں نے بھی کچھ ذیادہ متاثر نہیں کیا۔ سپورٹنگ کاسٹ نے اپنے کرداروں سے انصاف کیا۔
فلم کی سنیماٹوگرافی بے داغ ہے اور کافی گرینڈ لُک دیتی ہے۔
پریتم کے میوزک کو غیر معمولی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایک دو سونگز سماعتوں پر اچھا اثر چھوڑتے ہیں لیکن کوئی بھی گانا ایسا نہیں ہے کہ جو یاد رہ جائے۔

اسکرپٹ کے شعبے میں راجو ہیرانی سمیت تین نام ملتے ہیں لیکن یہ ڈپارٹمنٹ فلم کا سب سے کم زور پہلو ہے۔ اگر آپ کے پاس سنانے کو اچھی کہانی اور اسکرین پلے نہ ہو تو معیاری فلم کیسے بن سکتی ہے۔
فلم کے کریڈٹس میں ڈائریکشن اور ایڈیٹنگ کے حوالے سے راجو ہیرانی کا نام جگمگا رہا ہے لیکن اس فلم کے بعد شاید راجو گہری نیند سے جاگ جائیں۔یہ کہہ دینا کافی ہے کہ ڈنکی، میں ہمیں منا بھائی اور تھری ایڈیٹس، والا ڈائریکٹر کہیں نظر نہیں آیا۔
اوور آل یہ ایک روایتی قسم کی انٹرٹیننگ بولی وڈ مووی ہے لیکن بولی وڈ شاید اس سنیما سے آگے نکل چکا ہے۔
میں اس فلم کو پانچ میں سے تین اسٹار دوں گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس