Thursday, October 3, 2024
پہلا صفحہتبصرےعمروعیار، آ نیو بگنینگ، کیسی فلم ہے؟

عمروعیار، آ نیو بگنینگ، کیسی فلم ہے؟

سب سے پہلے صاف اور سیدھی بات، اس عید پر ریلیز ہونے والی چاروں پاکستانی فلموں عمروعیار، آ نیو بگنینگ، ابھی، نابالغ افراد، اور بھیڑیا، کی بات ہو اور مجھ سے پوچھا جائے کہ سینما جاکر دیکھنے کے لیے آپ  کاانتخاب کون سی فلم ہوگی تومیرا جواب “عمروعیار، آ نیو بگنینگ” ہی ہوگا۔ مزید واضح کرکے پوچھیں گے کہ ان چاروں فلموں میں سے سب سے بہتر فلم کون سی ہے تو میرا جواب پھر”عمروعیار، آ نیو بگنینگ” ہی ہوگا۔ یہ بات تھوڑی عجیب ہے، مگر سچ یہی ہے۔

اس فلم کا ٹیزر اور ٹریلر دیکھنے تک یہی رائے تھی، بلکہ فلم دیکھنے کے بعد بھی یہ رائے قائم ہے لیکن وہ کیا کمزوریاں اورخامیاں ہیں جس کی وجہ سے میرے اندازے کے مطابق یہ فلم شائقین کی امیدوں پر پوری نہ اترسکے گی۔ اس سوال کے جواب کے لیے یہ مفصل تجزیہ پیش خدمت ہے، ہم بالترتیب علمی رویے کے ذریعے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تکنیکی طورپر ایک اچھی بنی ہوئی فلم بھی کیسے شائقین فلم کو مایوس کرسکتی ہے۔

مرکزی خیال/کہانی کاتاریخی پس منظر

اس فلم کا مرکزی خیال داستان امیرحمزہ کا معروف کردار”عمروعیار”ہے۔ یہ داستان سینہ بہ سینہ منتقل ہوکر پہلی بار دسویں صدی کے زمانے میں مسلمان حکمران محمود غزنوی کے دور میں کاغذ پر منتقل ہوئی۔ اس کے بعد تقریباً پانچ سو سال کے لگ بھگ، مغل شاہنشاہ اکبر کے زمانے میں اس کو متصور کیاگیا اورفارسی زبان میں لکھی گئی اس داستان کو ہندوستان کی دھرتی پر مقبولیت ملنا شروع ہوئی۔ ماضی قریب میں یہ داستان اردو زبان میں منتقل ہوئی تو اس کے ابتدائی نسخے کی چھیالیس جلدی مرتب ہوئیں اور پینتالیس ہزار سے زائد صفحات تھے۔ دورحاضر میں اس داستان کو مزید اختصاراورجامعیت کے ساتھ پیش کیاگیا، بالخصوص قیام پاکستان کے بعد، اس داستان کو بہت شہرت ملی، سب سے بڑھ کراس کا ایک کردار”عمروعیار” بہت مقبول ہوا اور بچوں کے ادب میں اس کو خاص پذیرائی حاصل ہوئی۔

اس فلم کی کہانی سے پہلے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ داستان کی اپنی کہانی اور عمروعیار کا کردار کیاہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ عمروعیار ایک چالاک، مکار، فریبی، موقع پرست شخص ہے جو سیاسی جوڑ توڑ اورگٹھ جوڑ کابھی ماہر ہے۔ مختلف حکمرانوں اور اشرافیہ کے ساتھ نتھی رہتاہے۔ اس کے پاس ہر مسئلے کا حل ایک “زنبیل” ہوتی ہے۔ ایک ایسا تھیلا، جس میں ہاتھ ڈال کر وہ کچھ بھی نکال سکتا ہے۔ اس تصور کو مشہور جاپانی کارٹون “ڈورائے مون”میں استعمال کیا گیا ہے۔ عمروعیار کی حاضر دماغی، چالاکی اور اس کی زنبیل ہی اس کی کہانیوں کی جان ہیں، جن سے قارئین اچھی طرح واقف ہیں، مقامات اور واقعات بدلتے رہتے ہیں مگر عمروعیار کا کام ایک ہی ہوتاہے، جن کو ہم نے بچوں کے ادب میں تفصیل سے پڑھاہے۔ اتفاق سے انہی دنوں پاکستان کی ایک اینی میٹیڈ فلم “دی کرونیکل آف عمروعیار” بھی عنقریب ریلیز کے لیے تیار ہے، اس فلم میں عمروعیار کے اسی تصورکو پیش کیا گیا ہے جو مندرجہ بالا سطورمیں بیان کیا گیا ہے جو کہ اس کے ٹیزر اور ٹریلر کو دیکھ کر محسوس ہواہے۔

بے سمت اور الجھا ہوا اسکرپٹ

اس مذکورہ فلم “عمروعیار،آ نیو بگنینگ” کے اسکرپٹ میں پہلی بڑی اور بنیادی خامی “عمروعیار” کے تصور کو غلط پیش کرناہے۔ فلم کے اسکرپٹ کے مطابق عمروعیار کو ایک ذہین شخص کے طورپر پیش کیا گیا ہے اورنیکی کی علامت کے طورپر دکھایا گیاہے، جس کے چاہنے والے اس کے بہت سارے پیروکار ہوتے ہیں جو خود کو عمروعیار کے قافلے کا سپاہی سمجھتے اور خود کو “عیار” کہلواتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ایک بدی کا استعارہ “لقا” ہے، جس کا راستہ روکنے کے لیے یہ سارے “عیار” جمع ہوکر اپنے راہنما کی سرپرستی میں لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

اب عمروعیارتو ذہین نہیں تھا بلکہ چالاک تھا، وہ ہمیشہ نظرکے دھوکے کو استعمال کرتا تھا، حکمرانوں کی خوشامد کرتا اور فریب دینے کا ماہر تھا، اس کو نیکی کااستعارہ بنا کر پیش کرنا اس فلم میں اسکرپٹ نویسی کی بدترین غلطی ہے۔ اس کے بعد فلم کی مرکزی تھیم واضح نہیں ہے۔ فلم کی کہانی میں ابتدائی طورپر مکالمات اور کرداروں سے یہ محسوس ہوتا ہے ہے کہ یہ کہانی سائنس فکشن کا موضوع ہے، جس میں کائنات کے اسرارورموز کی بات ہورہی ہے، پھر وہ کچھ آگے چل کر سپرہیرو میں تبدیل ہونے لگتی ہے، جن اور جادوگروں کی لڑائی کی طرف چل پڑتی ہے۔

اس میں بھی یہ واضح نہیں کہ انسان کون ہے، جن کون اورجادوگرکون؟ اسی کہانی میں کئی جگہ تصوف کے فلسفے کی آمیزش کے ساتھ ساتھ مغربی فلسفیانہ افکار کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں اور پھر بات گھوم پھر کر واپس نیوٹن اور آئن اسٹائن پر آجاتی ہے۔ اس کہانی کی کوئی تھیم نہیں ہے، بہت سارے فلسفے، ایک کہانی میں ڈال کر، ان کی آمیزش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ اس سے کہیں بہتر تھا کہ اسکرپٹ نویس عمروعیار کی کہانیوں کو ماخوذ کرکے اپنی کہانی کی بنیاد رکھتے، جیسا کہ ادب پر مبنی فلموں کے اسکرپٹس میں ہوتا ہے۔

اس فلم کے اسکرپٹ رائٹرعاطف صدیقی ہیں جنہوں نے ایسا اسکرپٹ لکھا ہے، جس میں کہانی کا کوئی سر پیر نہیں ہے، پوری کہانی میں کہیں کوئی کلائمکس نہیں ہے، سیدھی سیدھی کہانی چل رہی ہے، البتہ کہیں کہیں چند اچھے مکالمے ضرور تخلیق کیے گئے ہیں، مگر مجموعی طورپر کہانی کا کوئی محور نہیں، اسی لیے آدھی فلم ہونے تک آتے آتے، کہانی فلم بینوں کے لیے اکتاہٹ کا سبب بنے گی۔ اس مذکورہ فلم “عمروعیار، آ نیو بگنینگ” میں کئی خوبیاں ہیں مگر جس خامی کی وجہ سے یہ فلم ناکام ہوگی، وہ ایک کنفیوژ کہانی پر مبنی اسکرپٹ ہے اور جس عمروعیار کے نام کو اتنا استعمال کیا ہے، اس کے کردار کاایک فیصد بھی کہانی میں شامل نہ کرپائے۔ فلم کے اسکرپٹ میں عمروعیار کاکردار اور اس کی تاریخی اہمیت کو سوائے مسخ کرنے کے اور کچھ نہیں کیاگیا۔ اس فلم کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ برا اسکرپٹ ہوگا۔ داستان امیرحمزہ والے عمروعیار کا اس فلم سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔

فلم سازی،ہدایت کاری ،اداکاری

اس فلم کے لیے کہا جارہا ہے، یہ پاکستان کی سب سے مہنگی فلم ہے۔ دس مختلف ممالک سے تکنیکی ہنرمندوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ ہالی ووڈ کے اسٹنٹ میکر سے لے کر مختلف تکنیکی شعبوں میں غیرملکی ہنرمندوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کی لمبی چوڑی تشہیری مہم  بھی چلائی گئی، میڈیا ٹاکس بھی رکھی گئیں، یعنی وہ تمام طریقے، جن سے فلم کو شہرت ملے، وہ کامیابی سے اختیار کیے گئے۔ پروڈکشن ڈیزائن بھی قدرے بہتر رہا، کاسٹیوم، جیولری، ملبوسات، آلات حرب کی ڈیزائننگ، ایڈیٹنگ، لائٹنگ سمیت کافی کچھ اچھا خاصا اور تخلیقی ہے مگر بطور ڈائریکٹر وہ اس فلم میں ناکام دکھائی دیے۔

اس بات کو مزید یوں سمجھتے ہیں کہ بطور ہدایت کار ان کا کام تھا، وہ اسکرپٹ کو اچھی طرح کھنگالتے، اب جب کہانی میں ہی دم نہ ہو، کوئی واضح سمت نہ ہو تو ڈائریکٹر یا ایکٹرز کیا کریں گے۔ اس فلم کے ہیرو عثمان مختار نے اپنی بساط کے مطابق اچھی اداکاری کی۔ فلم کے ولن “فاران طاہر” نے اپنے ہالی وڈ کے تجربے کو یہاں خوب برتا، ایک انتہائی کمزور کردار میں جان ڈالی اور اپنی اداکاری سے فلم کے فریم کو مضبوط کیا۔ علی کاظمی سائیڈ ہیرو کے طورپر اپنا کام بہتر طورسے کرتے دکھائی دیے، البتہ ثنا نوازاورصنم سعید نے بوگس اداکاری کی۔

اس پوری کاسٹ میں ڈائریکٹر کا اثر کہیں دکھائی نہیں دیا جو اچھا اداکار تھا، اس نے اچھا پرفارم کیا اور جو اچھا نہیں تھا، وہ اچھا نہیں رہا بلکہ کچھ مزید ذیلی کردار تو انتہائی برے ثابت ہوئے۔ اب اگر کہانی میں ہی دم نہیں ہے تواداکار بھی کتنا زور لگاتے؟ اس لیےاس فلم کے ناقص ہونے میں اداکاروں کاکوئی دوش نہیں ہے۔ ہدایت کار کاکام ہوتاہے، وہ اداکاروں سے کام لے، اگر وہ فلم میں ویسے ہی دکھائی دے رہے ہیں، جیسے وہ عام طورپر اداکار ہیں توپھر ہدایت کار نے کوئی کمال نہیں دکھایا۔

وی ایف ایکس اوربیک گراؤنڈ میوزک

اس فلم کی سب سے عمدہ اور شاندار بات اس کے وی ایف ایکس ہیں، اس کے گرافکس ہیں، اس کا یہ سارا تخلیقی کام ہے، جو بہت عمدہ ہے۔ فلم کا اصل پروڈکشن ڈیزائن اسی کام پر کھڑا ہے، اسی کی وجہ سے اس فلم سے امیدیں وابستہ ہوئی تھیں کہ یہ فلم کچھ کردکھائے گی۔ ناقص کہانی کے باوجود فلم کے فریمز خوبصورت تھے، جس کا کام اس کو ساجھے والی بات ہے۔ اس کی ایک مثال ان کی فلم “اللہ یاراینڈ دی لیجنڈ آف مار خور” ہے، جس کی اینی میشن کے یہ ہیڈ تھے۔ اینی میشن ان کا سیگمنٹ ہے، اس میں وہ بھرپور  کامیاب رہے۔ انہوں نے جو مناظر تخیل کیے، وہ لاجواب ہیں، خاص طورپر ولن “لقا” کے وی ایف ایکس اور ہیرو کے تخلیقی کمالات بہت اچھے طریقے سے تخلیق کیے اور فلمائے ہیں۔

اس فلم کا صرف ایک ٹائٹل سونگ تھا جو فلم کی کہانی کی طرح بے روح تھا، البتہ پوری فلم میں جس چیز نے حیران کیا، وہ پس منظر کی موسیقی ہے، یعنی بیک گراؤنڈ میوزک نے پوری فلم کے دوران فریمز میں کچھ کچھ جان ڈالنے کی کوشش کی اور مکالمات کے تاثرات جگانے کی کوشش کی۔ اس عمدہ موسیقی کو مرتب کرنے پر بیک گراؤنڈ اسکورکرنے والے میوزیشن مبارکباد کے مستحق ہیں، جن کا تشہیری مہم میں کہیں ذکر نہیں ہے، نہ ہی اس فلم کی آفیشل ویب سائٹ پر ان کے بارے میں کچھ دستیاب ہے۔ کاش عمروعیار کے اوریجن کو ذہن میں رکھ کر موسیقی ترتیب دی جاتی تو مزید چار  چاند لگ جاتے لیکن اس کے باوجود فلم کا بیک گراؤنڈ میوزک شاندارہے۔

مذکورہ فلم ، پی آر کا کلچر اور پاکستانی میڈیا

اس فلم کے لیے بہت بڑے پیمانے پر تشہیر ی مہم کا اہتمام کیاگیا۔ فلم کی کاسٹ کراچی اور لاہور میں موجود رہی۔ مین اسٹریم میڈیا اورسوشل میڈیا پر اس کو بہت شوروغوغا رہا، فلم کی پروڈیوسر “ہما جمیل بابر” نے ایک بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں شرکت کی، ہالی ووڈ اداکاروں ول اسمتھ اور جونی ڈپ کو فلم کی علامت سمجھنا جانے والا لڑائی کا ہتھیار،جس کے لاکٹ تیار کیے گئے، وہ ان دونوں اداکاروں کو انہوں نے پیش کیے، ایسے مزید کئی حربے، لیکن اونچی دوکان پھیکا پکوان کے مصداق فلم میں سے کچھ نہیں نکلا۔ اگرفلم میں دم نہیں ہوگا تو پی آر، پریمیئر شوز اور میڈیا پر بلند وبانگ دعوے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ عوام فلم دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔

حرف آخر

اس فلم کا موازنہ بلال لاشاری کی فلم “دی لیجنڈ آف مولاجٹ” سے کیا جارہا تھا، پروڈکشن ڈیزائن میں بھی یہ فلم کسی حد تک متاثر دکھائی دی لیکن مذکورہ فلم “عمروعیار،آ نیو بگنینگ “کا اگر “دی لیجنڈ آف مولاجٹ”سے موازنہ کیا جائے تو اظفر جعفری کی فلم بلال لاشاری کی فلم کی آدھی بھی نہیں۔ شاید چوتھائی بھی نہیں، باکس آفس سب بتادے گا۔ یہ فلم “عمروعیار،آ نیو بگنینگ ” اگر اپنی لاگت بھی پورا کرلے توبڑے بات ہوگی۔

پاکستانی فلم سازوں کو ایک بات ابھی تک سمجھ نہیں آرہی، آپ جس فلم بین کو اپنی فلمیں دکھارہے ہیں، وہ پوری دنیا کا سینما اسٹریمنگ پورٹلز پر دیکھ رہا ہے، وہ دور بھی چلا گیا کہ جب ناظرین کے پاس اور کچھ آپشن نہیں ہوا کرتے  تھے، اب ایسا نہیں ہے، فلم بنانی ہے تو “دی لیجنڈ آف مولاجٹ” کی طرح بناؤ ورنہ پھر تجربات کرنے کی بجائے وہ بناؤ، جس کو بنانا آپ کو آتا ہے۔

یہ ایک اچھی فلم ہوسکتی تھی اگر کہانی، اسکرپٹ اور کانسپٹ ٹھیک ہوتا، کاش، لاہو رمیں جتنے دھوم دھڑکے سے اس فلم کا پریمئر کیاہے، اسی شہر میں داستان امیر حمزہ پر مشرف علی فارقی جیسی مستند علمی شخصیت رہتی ہے، جو اس داستان امیر حمزہ پر اتھارٹی ہیں۔ ہدایت کار یا اسکرپٹ رائٹر نے ان سے ہی فلم کا اسکرپٹ لکھتے وقت کچھ مشاورت کرلی ہی ہوتی تو آج اس فلم کا نتیجہ مختلف ہوتا لیکن کوئی بات نہیں، ہربری غلطی ایک اچھا سبق بھی دیتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس