پاکستان کی فلمی صنعت میں کئی فن کاروں اور فلم سازوں کی موت طبعی نہیں ہوئی بلکہ انہیں قتل کردیا گیا یا پھر ان کی موت کو خود کشی قرار دے کر ان کی فائل بند کردی گئی۔ پاکستان کے معروف پروڈکشن ہاؤس میٹرو لائیو نے ایسی کئی ان سنی ان دیکھی کہانیوں کو ایک ڈاکیومینٹری کی صورت پیش کیا ہے۔ اس دستاویزی فلم سیریز کا ٹائٹل مرڈر مسٹری، ہے۔ اس سیریز کی پہلی قسط پاکستان کے مقبول یوٹیوب چینل میٹرو لائیو ٹی وی پر ریلیز کردی گئی ہے، جسے ناظرین نے بے حد پسند کیا ہے۔ اس سیریز کے خالق معروف صحافی عمر خطاب خان ہیں۔
پاکستان میں ہائی پروفائل شخصیات کے قتل کی تاریخ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے شروع ہوتی ہوئی ایک اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل تک جا پہنچتی ہے۔ اور پھر اس کے بعد اُن کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو اور صاحب زادی، بے نظیر بھٹو کو بھی راولپنڈی میں گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا، جو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔
یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں ہے۔
پاکستان میں صرف سیاسی افراد کو ہی سفاکانہ قتل کا نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ اس میں بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو انٹر ٹین منٹ انڈسٹری سے وابستہ تھے۔
اور ان میں سے بیشتر ہلاکتوں کے پیچھے تھی۔ انڈر ورلڈ
فلم ڈائریکٹر خلیل قیصر سے لے کر بڑے پردے کی ڈانسنگ کوئن نادرہ اور پنجابی فلموں کے سپراسٹارسلطان راہی کے قتل کو انڈر ورلڈ کی ناراضگی سے جوڑا گیا۔
پاکستان کی فلم انڈسٹری جہاں ایک عرصے تک بولی وڈ کی طرح انڈر ورلڈ کا راج رہا۔ یہ لوگ ناصرف فلموں میں پیسہ لگاتے تھے بلکہ اس انڈسٹری سے جڑے دیگر معاملات میں بھی ملوث تھے۔
ان کی جڑیں آج بھی ٹی وی سے لے کر فلم انڈسٹری تک کافی گہری اور مضبو ط ہیں۔
کئی نامی گرامی ایکٹرز اور ہیروئنیں ان کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔
انٹر ٹین منٹ انڈسٹری میں کالے دھن کی سرمایا کاری کوئی نئی یا اچھنبے والی بات نہیں لیکن۔۔۔
تشویش کی بات تب ہوتی ہے۔۔۔ جب کوئی ان کی بات ماننے سے انکار کرتا ہے۔
انڈر ورلڈ کو ناراض کرنے والوں کو بالاخر زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے کسی قتل کا سراغ کبھی نہیں ملا۔
یہ پراسرار قتل ہمیشہ معمہ ہی رہے۔
فلمی زبان میں انہیں مرڈر مسٹری مانا جاتا ہے۔
پاکستان فلم انڈسٹری میں ہونے والا پہلا قتل واقعتا پہلا تھا یا نہیں، تاہم یہ واقعہ اس قدر سنسی سے بھرپور تھا کہ اس سے پوری فلم انڈسٹری میں خوف کی لہردوڑ گئی۔ ہر کوئی خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگا۔
یہ قتل تھا ایک مشہور فلم ساز اور ہدایت کار خلیل قیصر کا۔
جنہیں لاہور میں 21 ستمبر 1966 کی شب رات کی تاریکی میں نامعلوم شخص نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اس قتل کے محرکات جاننے کی کوشش کریں تو خلیل قیصر کی فلموں کے موضوعات میں ان سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔
اس قتل کا معمہ بھی آج تک حل نہ ہوسکا۔
خلیل قیصر کا شماران فلم میکرز میں کیا جاتا تھا جن کے اسکرپٹس انقلابی سوچ کو اجاگر کرتے تھے۔ انہوں نے عرب اسرائیل جنگ کے تناظر میں ایک فلم شہید، بنائی تھی ، جسے اس دور میں بے حد توجہ ملی تھی۔ اس فلم نے کئی ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔
شہید، کی ریلیز کے چند سال بعد خلیل قیصر کی ایک اورانقلابی فلم فرنگی، کی نمائش ہوئی۔ جس میں پاکستان کے قیام سے قبل برٹش سامراج کی سازشوں کا پردہ چاک کیا گیا تھا۔
ان کی ایک اور فلم عجب خان، بھی پاکستان کی تحریک ِ آزادی کا احاطہ کرتی ہے، جس میں ایک حریت پسند کی جدوجہد کو موضوع بنایا گیا ہے۔
اگرچہ خلیل قیصر نے دیگر کمرشل موضوعات پر بھی کامیاب کمرشل فلمیں بنائیں، تاہم سوشل موضوع پر بنی کلرک، سمیت شہید، فرنگی، اور عجب خان، ایسی فلمیں ہیں، جن کی بنیاد پر ان کے بہیمانہ اور پراسرار قتل کے محرکات سامنے آتے ہیں۔
خلیل قیصر جیسے انقلابی سوچ کے حامل فلم ساز کی موت کے بعد میڈیا سمیت انڈسٹری کے حلقوں نے بھی ان کی فلموں کو اس قتل کی اصل وجہ قرار دیا۔
لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہونے والادوسرا قتل ۔ جس نے پوری فلمی صنعت کو ہلاکر رکھ دیا۔
قاتل اداؤں والی ایکٹریس نِگو، کا قتل۔
ایک اور مرڈر مسٹری۔
اس قتل کے بعد سب سے ذیادہ خوف لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا یعنی بازارِ حسن سے تعلق رکھنے والی اداکاراؤں میں تھا۔ کیونکہ قتل کا نشانہ بننے والی اداکارہ کا تعلق لاہور کی مشہورہیرا منڈی سے تھا۔
اس قتل کے بعد سب سے ذیادہ خوف لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا یعنی بازارِ حسن سے تعلق رکھنے والی اداکاراؤں میں تھا۔ کیونکہ قتل کا نشانہ بننے والی اداکارہ کا تعلق لاہور کی مشہورہیرا منڈی سے تھا۔
نِگو، کے قتل نے فلم انڈسٹری کے علاوہ پورے لاہور میں سنسی پھیلادی تھی۔ یہ اس زمانے کی ایک مشہورمرڈر مسٹری تھی۔
نِگو، کا تعلق بازارِ حسن تھا۔ اس کا اصل نام نگار تھا۔ خوب صورتی میں یکتا اس اداکارہ کو رقص کی صلاحیت کی وجہ سے فلم انڈسٹری میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
لاہور کے نامی گرامی بزنس مین اس کے ایک اشارے کے منتظر رہتے تھے۔ وہ اس کے ناز نخرے اٹھانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
اسے ذیادہ تر ایسے گانوں کے لیے کاسٹ کیا جاتا تھا، جنہیں فلمی زبان میں مجرے کہا جاتا ہے۔ یہ ڈانس پرفارمنس دراصل اس دور کے آئٹم نمبرزہوا کرتے تھے۔ جو بسا اوقات فلموں کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔
ستر کی دہائی کے اوائل میں نِگو، ایسے ڈانس نمبرز کے لیے فلم سازوں کی اولین ترجیح ہوا کرتی تھی ۔
ایسے ہی فلم سازوں میں سے ایک کا نام خواجہ اظہر حسین تھا۔ جو نِگو، کے عشق میں بری طرح گھائل تھا۔
اور پھر ان دونوں کی شادی ہوگئی۔
شاید نِگو، بھی بازارِ حسن کی زندگی چھوڑ کر اپنا گھر بسانا چاہتی تھی۔
طوائف کا ٹیگ مٹاکربیوی بننا چاہتی تھی۔
لیکن یہ شادی نِگو، کے خاندان والوں کوایک آنکھ نہ بھائی۔
- آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام 35روزہ ورلڈ کلچر فیسٹیول کا آغاز
- پا کستان میں ای کامرس کی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کیلئے ایسٹ ریور ڈیجیٹل اور چینی کمپنی جے ڈی ٹیکنالوجی کا شراکت داری کا اعلان
- ملالہ کی غزہ کے اسکولوں پر اسرائیلی حملوں کی مذمت
- ایشین ہاکی چیمپیئنز ٹرافی 2024 میں پاکستان کو انڈیا کے ہاتھوں شکست
- بلاول بھٹو کی عمران خان پر کڑی تنقید
سونے کی چڑیا کو یوں ہاتھ سے جاتا دیکھ کر کوئی خوش نہیں تھا۔ انہوںنے اداکارہ پرشوہر سے علیحدگی کے لیے دباؤ ڈالا لیکن جب کوئی تدبیرکام نہ آئی تو تونِگو کی ماں نے بیٹی کو گھر واپس لانے کی ایک آخری کوشش کی۔
نِگو، کی ماں نے بیٹی کو پیغام بھجوایا کہ وہ شدید بیمار ہے، لہٰذا آخری خواہش کے طور پر وہ بیٹی کا چہرہ دیکھنا چاہتی ہے۔
نِگو،ماں سے ملنے بازارِ حسن میں اپنے گھر آئی لیکن اس کے بعد اسے وہاں سے جانے نہیں دیا گیا۔
اور پھر ایک روز خبر آئی کہ نِگو، کو بازار ِ حسن میں قتل کردیا گیا اور قتل کرنے والا کوئی اور نہیں، اس کا اپنا شوہر تھا۔
فلم پروڈیوسر خواجہ اظہر، نِگو، کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔ عشق کا بھوت سرچڑھا تو وہ اپنی منکوحہ کو لینے ہیرا منڈی جاپہنچا۔ نِگو، فیملی کے شدید دباؤ میں تھی۔ اس نے شوہر کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ جس کے بعد خواجہ اظہر کو اسے قتل کرنے کا جواز مل گیا اور یوں اپنے وقتوں کی ایک مشہوراداکارہ کا قتل فلمی تاریخ کا سیاہ باب بن گیا۔
یہ واقعہ 5 جنوری 1972 کو پیش آیا۔
اس کیس میں ایکٹریس نِگو کا ماموں بشیر اور اس کا ساتھی امجد کا نام بھی سامنے آیا لیکن عدالت نے انہیں عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا۔
اس واقعے کی گونج کئی سال تک سنائی دیتی رہی۔نِگو کی ماں نے قتل کے اس مقدمے کی پیروی کی اوربالاخر خواجہ اظہرحسین کو اس کیس میں عمر قید کی سزا ہوگئی۔ جیل میں اپنی سزا پوری کرنے کے بعد خواجہ اظہر کی طبعی موت آبائی شہر گوجرانوالہ میں ہوئی۔
نِگو، کا قاتل اپنے انجام کو پہنچا لیکن اس قتل سے متعلق فلم انڈسٹری کے ہر شخص کے پاس سنانے کو ایک الگ کہانی ہے۔ یعنی بظاہر قاتل کی شناخت ہونے کے باوجود اداکارہ نِگو، کا قتل ایک مرڈر مسٹری ہی رہا۔