Thursday, September 19, 2024
پہلا صفحہتبصرےفلمی نقاد عمر خطاب خان کی نظر میں عید کی ٹاپ فائیو...

فلمی نقاد عمر خطاب خان کی نظر میں عید کی ٹاپ فائیو فلمیں

عید الفطر پر کئی سالوں بعد ایسا ماحول دیکھنے میں آیا ہے کہ بیک وقت سات اُردو اورپنجابی فلمیں ریلیز کی گئی ہیں۔ جن میں پانچ میگا بجٹڈ فلمیں ہیں جو ملٹی پلیکسز کی زینت بنی ہیں جبکہ دو پنجابی فلمیں گوگا لاہوریا، اور میرا محافظ، صرف پنجاب سرکٹ کی حد تک نمائش کے لیے پیش کی گئی ہیں جو محدود پیمانے پر سنگل اسکرینز پر زیر نمائش ہیں۔
عید پر جو پانچ میگا موویز ریلیز کی گئی ہیں، ان میں دم مستم، گھبرانا نہیں ہے، چکر، اور پردے میں رہنے دو، کے علاوہ ایک پنجابی فلم تیرے باجرے دی راکھی، شامل ہیں۔ آخر الذکر فلم کراچی کے سنیماؤں میں دیگر عید ریلیزز کے شوز کے باعث جگہ نہ بناسکی اور حیدرآباد کے ایک سنگل اسکرین سنیما بمبینو کے علاوہ صرف پنجاب سرکٹ میں ہی ریلیز کی جاسکی۔
عید الفطر پر اتنی بڑی تعداد میں فلموں کی نمائش کے سبب عام فلم بین پریشان ہے کہ پہلے کون سی فلم دیکھے اور اگر اس کے معاشی حالات اجازت نہیں دیتے کہ وہ ایک یا دو سے ذیادہ فلمیں دیکھ سکے تو اس کے پاس کیا چوائس ہوسکتی ہے؟
ایسے فلم بینوں کے لیے میں نے فلموں کی تشہیر، پروڈکشن بجٹ اور بینر سے قطع نظر ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر یہ ریٹنگ ترتیب دی ہے جو کہ خالصتاً فلموں کے کانٹینٹ اور کوالٹی کو مدنظر رکھ کردی گئی ہے اور اس سے فلمی پنڈتوں کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

1- Chakkar

یاسر نواز کی ڈائریکشن میں بنی اس فلم کی بنیادی خوبی تو اس کا اسکرپٹ ہے۔ چکر ، کی کہانی بھلے ہی کسی غیرملکی فلم سے متاثر ہو، اہم بات یہ ہے کہ فلم کا اسکرین پلے اس قدر مربوط ہے کہ آپ پہلو بدلنا بھول جاتے ہیں۔
دوسری خوبی فلم کا میوزک ہے جوکہ قطعی فلمی انداز کا میوزک ہے اور کمرشل سنیما کی ڈیمانڈز سے ہم آہنگ ہے۔
فلم کی اسٹار کاسٹ بھی ایسی ہے کہ جو آڈیئنس کو سنیما آنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ نیلم منیر، احسن خان، یاسر نواز، محمود اسلم تو مقبول نام ہیں ہی لیکن ایک اور ایکٹر جو یہ فلم دیکھنے کے بعد آپ کو متوجہ کرتا ہے وہ احمد حسن ہے۔

اس مرڈر مسٹری کی کہانی ایک اداکارہ اور ماڈل کے قتل کے گرد گھومتی ہے۔ زارا خان (نیلم منیر) ایک سپر ماڈل اور ایکٹریس ہے، جس کی ایک ہم شکل بہن مہرین، کبیراحمد(احسن خان) کی بیوی ہے۔ کبیر، کو اس کے آفس کولیگز اس کی سالی زارا کی بولڈنیس کی وجہ سے اکثر طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ اسی دوران اچانک زارا کا قتل ہوجاتا ہے اورکبیرپر پولیس کے شک کی سوئی اٹک جاتی ہے۔ اس کیس کی تفتیش اسپیشل برانچ کے ایک قابل آفیسر انسپکٹرشہزاد کے سپرد کی جاتی ہے۔ اب معمہ یہ ہے کہ قتل کس کا ہوا ہے؟ مہرین کایا اس کی ہم شکل بہن زاراکا؟ پولیس اس گتھی کو جتنا سلجھانے کی کوشش کرتی ہے، معاملہ اس قدر الجھتا جاتا ہے۔ اس دوران قتل ہونے والی زارا، کی سو کروڑ کی انشورنس کا انکشاف کہانی میں نیا ٹوئسٹ ثابت ہوتا ہے۔ قاتل، مہرین کا شوہر کبیر ہے یا پھر کوئی اور جو پولیس کو مسلسل چکر دے رہا ہے؟ انہی تانوں بانوں کے گرد اس فلم کی کہانی گھومتی ہے۔ فلم کا دورانیہ 126 منٹ ہے جو کہ ملٹی پلیکسز کے لیے آئیڈیل رن ٹائم ہے۔
کرکٹ اسٹار شعیب ملک، سلور اسکرین اسٹارشہریارمنور اور حسن شہریار کا کیمیو فلم کی ورتھ بڑھاتا ہے۔ مجموعی طور پر چکر، ایک کمپلیٹ انٹرٹیننگ پیکج آفر کرتی ہے اور اسی لیے میری نظر میں اس عید کی سب سے بہترین فلم ہے۔

2- Ghabrana Nahi Hai

ٹی وی ڈائریکٹر ثاقب خان کا یہ سلور اسکرین ڈیبیو ہے لیکن اپنی پہلی ہی فلم میں ثاقب خان نے خود کو ایک بہترین کمرشل فلم ڈائریکٹر ثابت کردکھایا ہے۔ گھبرانا نہیں ہے، اگرچہ ایک فارمولا فلم ہے لیکن عام فلم بین کے لیے اس میں سارے مصالحے موجود ہیں۔
اس فلم کی پہلی خوبی توباکس آفس ورتھی اسٹار کاسٹ ہے۔ صبا قمر، زاہد احمد، نیر اعجاز، سہیل احمد جیسے اسٹارز کی کسی فلم میں موجودگی ہی پروڈکشن ویلیو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ فلم کی سپورٹنگ کاسٹ میں شامل سید جبران، جان ریمبو اور سلیم معراج بھی آڈیئنس کی توجہ پانے میں کامیاب ہیں۔
اس فلم کا دورانیہ 158منٹ ہے جو کم کرکے فلم کا ٹیمپو مذید فاسٹ کیا جاسکتا تھا۔
گھبرانا نہیں ہے، کی دوسری خوبی فلم کا میوزک ہے۔ اسکرپٹ کو میں تیسرے درجے پر ریٹ کروں گا۔

فلم کی کہانی زیب النساء(صبا قمر) کے انتقام سے شروع ہوتی ہے اور ڈرامائی موڑ لیتے ہوئے ایسے مقام پر آکھڑی ہوتی ہے جہاں زوبی کی محبت امتحان سے دوچار ہوجاتی ہے۔ زوبی، کے والد (سہیل احمد) بیٹی کی شادی کے لیے اپنا کراچی والا پلاٹ بیچنے لاہور سے آتے ہیں لیکن انہیں کراچی آکر سرپرائز ملتا ہے کہ وہ تو لینڈ مافیا کے قبضے میں ہے اورشہر کا سب سے بڑا ڈان بھائی میاں (نیراعجاز) اس پر قابض ہے۔ زوبی، بھائی میاں کو سبق سکھانے کراچی آتی ہے جہاں اس کا سامنا ایک کرپٹ پولیس آفیسر سکندر حسن (زاہد احمد) سے ہوتا ہے جو بھائی میاں کے لیے کام کرتا ہے۔ زوبی، کا کزن وِکی (سید جبران) اس لڑائی میں زوبی کا ساتھ دیتا ہے کہ شاید کبھی زوبی کو اس پر ترس آجائے اور وہ اس کے عشق کو سنجیدگی سے قبول کرلے لیکن زوبی، سکندر کو دل دے بیٹھتی ہے۔ ادھر زوبی، بھائی میاں سے قریب ہونے کی کوشش کرتی ہے اور اس کی پرانی محبوبہ جہاں آرا بیگم کا روپ دھارکربھائی میاں کا اعتماد حاصل کرلیتی ہے لیکن جونہی زوبی، بھائی سے پلاٹ کی پوری رقم لے کر واپس لاہور جاتی ہے اور بھائی میاں کو اس دھوکے کا علم ہوتا ہے وہ بارات لے کر زوبی کے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں۔ اب لڑکی ایک ہے اور امیدوار 2۔ اس جنگ میں جیت کس کی ہوتی ہے؟ زوبی ، کو اس دھوکے کی کیا سزا ملتی ہے؟ ان سوالوں کے جواب آپ کو فلم دیکھ کر ہی مل سکیں گے۔

3- Parde Mein Rehne Do

اس فلم کی بنیادی خوبی تو سبجیکٹ ہے جو کہ ہماری روایتی فلموں سے قطعی ہٹ کر ہے۔ اس کے بعد اسکرین پلے اور ڈائیلگز کو فل مارکس جاتے ہیں۔ فلم کا دورانیہ 92منٹ ہے جو کہ اس فلم کی ایک اور نمایاں خوبی ہے۔ کم دورانیے کے باوجود جب آپ یہ فلم دیکھ کر اٹھتے ہیں تو آپ کو ڈائریکٹرکی جانب سے پورے ڈھائی گھنٹے والی فلم جیسی پیسہ وصول پرفارمنس کا احساس ہوتا ہے اور یہ کریڈٹ وجاہت رؤف کو دینا پڑے گا۔ فلم کا میوزک بھی بہتر ہے جبکہ اسٹار کاسٹ میں خصوصاً ہانیہ عامر اور جاوید شیخ دو ایسے نام ہیں جن کی وجہ سے آپ کو یہ فلم پسند آئے گی

پردے میں رہنے دو، کی کہانی کچھ یوں ہے کہ رانا صاحب (جاوید شیخ) اپنے بیٹے کاشان (علی رحمان خان) کی شادی اپنے بھائی شیفے (نورالحسن) کی بیٹی لالی (سعدیہ فیصل) سے کرانا چاہتے ہیں لیکن کاشان اور نازو (ہانیہ عامر) ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور خفیہ نکاح کرچکے ہیں۔ رانا صاحب کو بیٹے پر غصہ تو بہت آتا ہے لیکن بیوی کے سمجھانے پر نازو کو دلہن بناکر گھر لے آتے ہیں۔ اب رانا کو بیٹے سے اولاد کی طلب ہے لیکن کئی سال گزرنے کے بعد بھی ان کی اولاد نہیں ہوتی۔ نازوکے کہنے پردونوںاپنا اسپرم ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ نازو کی رپورٹ تو ٹھیک ہوتی ہے لیکن کاشان، ڈرامائی طریقے سے اپنی منفی رپورٹ بیوی سے چھپاتا ہے اور اپنی کم زوری ظاہر نہیں کرتا۔ ساس اور سسر کے طعنوں سے تنگ آکر نازو اپنے باپ (سیف حسن) کے گھر آجاتی ہے۔ ادھر رانا صاحب ایک بار پھر بیٹے کو اپنی بھتیجی لالی سے شادی پر مجبور کرتے ہیں اور کاشان اپنا جھوٹ چھپانے کے لیے مان بھی جاتا ہے۔ کیا ان دونوں کی شادی ہوجاتی ہے؟ کیا نازو کبھی شوہر کی اصلیت جان پائے گی؟ ان سوالوں کے جواب آپ کو فلم دیکھنے کے بعد ہی مل سکیں گے۔ قدرے بولڈ موضوع پر بنائی گئی یہ فلم مکمل طور پر ایک تفریحی کمرشل اورلائٹ رومینٹک کامیڈی ہے۔ اس فلم کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ عید کی فلموں میں یہ سب سے کم لاگت میں مکمل کی گئی ایک سستی فلم ہے لہٰذا پردے میں رہنے دو، نے عید کا پہلا ویک بھی باکس آفس پر اچھا بزنس کرلیا تو یہ فلم جلد پرافٹ میں آجائے گی۔

4- Tere Bajre Di Rakhi

عید الفطر پر ریلیز کی جانے والی سید نور ڈائریکٹڈ پنجابی فلم تیرے باجرے دی راکھی، چوڑیاں، اور مجاجن، کے بعد اس معیار کو چھوتی تیسری فلم ہے لیکن میری ریٹنگ میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس فلم کا یونیک سیلنگ پوائنٹ ٹک ٹاک اسٹار جنت مرزا ہے، جس کی یہ ڈیبیو فلم ہے۔ نیا ہیرو عبداللہ خان بھی انڈسٹری میںاچھا اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
فلم کا سبجیکٹ گوکہ روایتی پنجابی فلموں جیسا ہی ہے لیکن سید نور کے اسکرین پلے اور ٹریٹ منٹ نے فلم کوقابل قبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ صائمہ کی سیدنور کی ہر فلم میں موجودگی پر اعتراض کرنے والوں کو یہ فلم مطمئن کرتی ہے کہ صائمہ نے اس میں وہی کردار نبھایا ہے جو ان پر جچتا ہے۔
فلم کی پہلی خوبی اس کا کیچی میوزک ہے۔ دوسرے نمبر پر فلم کی ڈائریکشن اور تیسرا نمبر پوسٹ پروڈکشن اور ساؤنڈ ڈیزائن کافی بہتر ہے۔

تیرے باجرے دی راکھی، کی کہانی کا مرکزی کردار تاری، یعنی صائمہ ہے۔ تاری کا محبوب ڈاکو عالم (بابر علی) ایک لاوارث بچی کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے اور پولیس کے ہاتھوں گرفتاری دیتے ہوئے اس بچی کو اپنی محبوبہ تاری کے حوالے کرجاتا ہے۔ تاری، اس بچی کو بڑے نازوں سے پالتی ہے جو بڑی ہوکر لالی (جنت مرزا) کا روپ دھارتی ہے۔ سمندر پار سے آنے والا مکھن (عبداللہ) لالی، کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے جو کہ مصطفی قریشی کا دوسری بیوی (تاری کی بہن جو مرچکی ہے)سے بیٹا ہے لیکن پہلی بیوی عشرت ، مکھن کو اپنے گھر میں ایک پل نہیں دیکھنا چاہتی۔ وہ اپنے بیٹے سلطان (عامر قریشی) کو جائیداد کا اکلوتاوارث بنانا چاہتی ہے۔ مکھن کو راستے سے ہٹانے کے لیے وہ داور (شفقت چیمہ) کی خدمات بھی لیتی ہے لیکن تاری، اپنے بھانجے اور لے پالک بیٹی لالی کے پیار کو بچانے کے لیے جان کی بازی لگادیتی ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا، کہانی روایتی پنجابی فلموں جیسی ہی ہے لیکن کامیڈی، میوزک اور رومینس کا تڑکا لگاکر اسے ایک تفریحی فلم کا روپ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلم کا دورانیہ 145منٹ ہے جو کہ بالکل بھی بورنگ نہیں ہے۔

5- Dum Mastam

اس فلم سے ٹریڈکو بہت ذیادہ امیدیں وابستہ ہیں لہٰذا میری ریٹنگ میں اس کا نمبر پانچ پر ہونا بعض لوگوں کے لیے سرپرائزنگ ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دم مستم، عام فلم بینوں کی فلم نہیں ہے۔
اس فلم کے ڈائریکٹر احتشام الدین بنیادی طور پر تھیٹر کے ایکٹر اور ڈائریکٹر ہیں اور اس سے قبل سپراسٹار، جیسی میگا مووی تخلیق کرچکے ہیں لیکن دونوں فلموں میں بنیادی خامی اسکرین پلے ہے۔ امر خان کا اسکرپٹ ڈرامہ سیریل جتنا پھیلاؤ رکھتا ہے اور اسے تھیٹر پلے کی طرح ٹریٹ کیا گیا ہے۔ فلم اس میں مسنگ ہے۔
فلم کی نمایاں خوبی میوزک ہے۔ تمام گانے شان دار کمپوز اور شوٹ کیے گئے ہیں۔ بیک گراؤنڈ اسکور بھی خاصا گرینڈ ہے۔ فلم کی اسٹار کاسٹ میں عمران اشرف ، سہیل احمد، عدنان صدیقی، جیسے ناموں کا ہونا کامیابی کی دلیل مانا جاسکتا ہے۔ خصوصاً ٹی وی کے ایک کردار بھولا سے غیر معمولی شہرت حاصل کرنے والے عمران اشرف کا نام بھی باکس آفس پر کیش ہوسکتا ہے لیکن میرے خیال میں فلم کا یہی سب سے مضبوط ایلی منٹ دم مستم، کی کم زوری بن کر سامنے آئے گا۔ دم مستم، میں عمران اشرف کا کردار باؤ، بھولا سے مختلف مینرازم ڈیمانڈ کرتا ہے لیکن وہ بھولا سے نکل نہیں پایااور بعض مناظر میں تو بھولا کو بھی کراس کرکے اوور ایکٹنگ کا شکار نظر آتا ہے۔ فلم کی ہیروئن امر خان کو کاسٹ کرنے کی واحد وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ وہ اسکرین پر ملیکا شراوت جیسی لگتی ہے لیکن یہ خوبی امر کی ڈھلتی عمر کو نہیں چھپاسکی۔ اس فلم کا ایک کردار ایسا بھی ہے جو سب پر حاوی محسوس ہوتا ہے اور وہ عارف ٹوٹی (سلیم معراج) ہے۔

دم مستم، کی کہانی اندرون لاہور کے دوعاشقوں کی کہانی ہے۔ دراصل ایک عاشق اور اس کی سرد مزاج محبوبہ کی کہانی۔ سکندر حیات خان عرف باؤ (عمران اشرف ) اندرون لاہور کا ایک سیدھا سادا گلی بوائے اور اسٹرگلر سنگر ہے جبکہ اسی کے محلے کی عالیہ بٹ (امر خان) ایک تھیٹر ڈانسر ہے، جس پر باؤ کا دل آیا ہوا ہے مگر عالیہ کے خواب بڑے ہیں۔ وہ اونچی اڑان چاہتی ہے۔ اسی دوران عالیہ کو ایک انٹرنیشنل پروموٹر (عدنان صدیقی) کا ساتھ مل جاتا ہے جو عالیہ کو ورلڈ وائیڈ شوز کے لیے بک کرتا ہے مگر ان شوز کی ریہرسل کے دوران عالیہ، باؤ کی ایک غلطی کی وجہ سے زخمی ہوجاتی ہے اور زندگی بھر ڈانس کے قابل نہیں رہتی۔ کیریئر سے دلبرداشتہ عالیہ، باؤ سے شادی کے لیے تو مان جاتی ہے لیکن اس سے پیار نہیں کرتی اور نہ اسے قریب آنے دیتی ہے۔ ادھر باؤ، کو بھی اسٹار بننے کا ایک چانس ملتا ہے لیکن اس کے بعد دونوں کی زندگی میں کیا بدلاؤ آتا ہے؟ کیا عالیہ اورباؤ کبھی ایک دوسرے کو دل سے قبول کرپاتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں، جن کے جواب آپ کو سنیما جاکر ہی ملیں گے۔ فلم کا دورانیہ 155منٹ ہے جو کم کیا جاسکتا تھا۔ عید کی فلموں میں دم مستم، سب سے مہنگی فلم ہے لہٰذا اپنی لاگت واپس لانے کے لیے ہی فلم کو 25کروڑ سے اوپر بزنس کرنا پڑے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس