Friday, March 29, 2024
پہلا صفحہ مضامین بولی وڈ کی ببلی گرل دیویا بھارتی کی امر کہانی

بولی وڈ کی ببلی گرل دیویا بھارتی کی امر کہانی

ہندی فلموں کے کروڑوں پر ستار5 اور 6 اپریل 93ء کی درمیانی شب پیش آنے والے اُس المناک واقعے کی یادیں اپنے دل سے کبھی نہیں نکال پائے جس میں اسکرین کی ایک حسین ساحرہ اور دل کش اداکارہ کی موت واقع ہوئی۔ دیویا بھارتی کی اچانک موت کو اس کے چاہنے والوں نے پہلے تو قبول ہی نہیں کیا لیکن جب اخبارات نے چیخ چیخ کر دیویا کی موت کی گواہی دی تو اس انوسینٹ بیوٹی کے مداحوں کے دل دہل گئے۔ یہ حادثہ اپریل کے مہینے میں ضرور پیش آیا لیکن اپریل فول یا تقدیر کا ساجد نڈیا ڈوالا اور دیویا کے پرستاروں سے مذاق ہر گز نہیں تھا۔ محض کچھ سال اور چند مہینوں میں سلور اسکرین پر اپنی شہرت و مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے کے بعد یہ ببلی گرل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے چاہنے و پسند کرنے والوں کو اُداسیاں دے کر رخصت ہوگئی اور اپنے پیچھے دردناک یادوں کا ایک کبھی نہ مٹنے والا سلسلہ چھوڑ گئی۔ دیویا کی موت ایک سوال بن کر رہ گئی۔ اس کی زندگی بھی تو ایک پر اسرار معمہ ہی تھی۔ جس طرح لوگ اس کے اندر کی عورت سے بے خبر اور لا تعلق رہے عین اسی طرح دیویا کے مرنے کے بعد اس کی موت سے متعلق بھی صرف اندازے ہی لگائے جاسکے۔

سلور اسکرین پر اپنے ڈیبیو کے پہلے ہی برس ریکارڈ تعداد میں فلمیں کرنے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہرت و کامیابی کی بلندی کو چھولینے والی بیوٹی کوئن کی پر اسرار موت حادثہ تھی، خودکشی یا پھر قتل؟ البتہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے یہ واضح کر دیا تھا کہ دیویا کی موت غیر فطری انداز میں ہوئی اور اس کے پس پردہ ضرور کوئی پر اسرار معاملہ تھا۔ دیویا کی کہانی بھی ان ایکٹریسز سے متاثر لگتی ہے جنہوں نے شہرت کی بھاری قیمت چکائی اور سب کچھ پالینے کے باوجود انہیں صرف موت سے ہم آغوش ہونے کے بعد ہی اطمینان حاصل ہوسکا۔ زندگی میں کامیاب لوگوں کو اگر ڈپریشن اور فرسٹریشن جیسے عارضے لاحق ہوجائیں تو پھر انہیں مر کر ہی دائمی سکون اور راحت ملتی ہے۔ مارلن منرو،سے لے کر مینا کماری اور دیویا بھارتی تک، تصویر کے کئی رخ دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ بظاہر حالات سے مقابلہ کرنے والا انسان جو اپنی مضبوطی کا احساس بھی دلاتا ہے ،صرف ایک لمحے کی کاری ضرب نہیں سہہ سکتا اور اس ایک لمحے میں جس کش مکش سے وہ دو چار ہوتا ہے، بس ذرا سی خطا، بظاہر اس مضبوط انسان کو خاک کا ڈھیر بنا دیتی ہے ۔دیویا بھی اس ایک لمحے کی نذر ہوگئی۔

دیویا، جوکل تک حسن کی دیوی بنی ایک زمانے کو اپنی اداﺅں سے گھائل کرتی رہی، لمحہ بھر میں خاک ہوگئی۔ تاریخ کا پنّا پلٹا، 6 اپریل 93ء کی ساعتیں پاﺅں پاﺅں چلنے بھی نہ پائی تھیں کہ ایک مدھرسی سسکی فضا میں گونجی، اس شکست خوردہ سسکی کے ساتھ ہی مبہم سی چیخ…. اور لاشہ گرنے کی ایک خاموش آواز ….آہ….!! دیویا بھارتی کی موت تقدیر کا اٹل فیصلہ بن کر نازل ہوئی اور ہندی سینما ایک اور کرب ناک صدمے سے دوچار ہوا۔ دیویا کی بے چین آتما کو شانتی مل گئی لیکن دیویا کی محبت ساجد جسے اس معصوم اداکارہ کی موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا اپنی محبوبہ کی موت کے بعد ضمیر کا مجرم قرار پایا۔ کچھ اور لوگ بھی اس کی خودکشی یا قتل میں برابر کے حصے دار ہیں جن کو دنیا کی کسی عدالت میں سزا نہیں دی جاسکی لیکن اس معصوم اداکارہ کی لاش چیخ چیخ کر اپنے قاتلوں کے نام گنوارہی تھی جنہیں ثبوت نہ ملنے کی بنا پر چھوڑ دیا گیا۔ دیویا کی فلمیں اور کردار آج بھی اس ببلی اداکارہ کی یاد دلاتے ہیں اور اس کے مداح اب تک اپنی فیورٹ ایکٹریس کی محبت دل سے نہیں نکال پائے۔ حالانکہ دیویا کا کیریئر صرف دوسالوں تک محدود رہا لیکن کامیابی کے جس اونچے گراف کو صرف دوسالوں میں دیویا نے چھولیا تھا، اس کی مثال ہندی سینما کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔

دیویا، صرف ایکٹریس تھی لیکن فلم بینوں کے لئے، اپنے فلم میکرز کے لئے اور اپنی معاشی مجبوریوں کے لئے۔ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اس نے شوبز کی فیلڈ اختیار کی تاکہ ڈھیر سارا روپیہ کما کر ناصرف اپنی ہوس زدہ ماں کے پیٹ کی آگ بجھاسکے بلکہ دوسری لڑکیوں کی طرح وہ سارے عیش و آرام بھی پاسکے جو اسے اپنے آس پاس دکھائی دیتی تھے۔ خود اپنے لئے اس نے کبھی دولت کے انبار نہیں چاہے اور جب ساجد نڈیاڈ والا کی صورت میں اس نے اپنے من مندر کا دیوتا پالیا، اس کے بعد تو دیویا کی تمام آرزوئیں پوری ہوگئیں۔ وہ سمجھنے لگی تھی کہ اس تلاطم خیز زندگی میں اس کی کشتی کو کنارا مل گیا ہے اور اب وہ تمام عمر اپنے محبوب کی آغوش میں گزار سکتی ہے لیکن جیسا کہ لوگوں نے اسے سمجھا، وہ واقعی معصوم تھی۔ زندگی کی حقیقتوں سے نا آشنا، خود فریبی اور خودستائشی کا شکار۔ اس نے لڑنے کا حوصلہ نہیں پایا تھا، اسی لئے تو باآسانی ہار مان جاتی تھی۔ ساجد نے اُسے بے حد ستایا۔ دیویا اُسے ٹوٹ کر چاہتی تھی لیکن وہ اپنی فرینڈ انیتا نانگیا سے پیچھا چھڑانے پر آمادہ نہ تھا۔ تھک ہار کر دیویا نے انیتا سے ہار مان لی اور صاف لفظوں میں اسے کہہ دیا کہ وہ اس کے رہتے بھی ساجد سے پیار کرسکتی ہے۔ اس دور میں ساجد کی قربت پانے کے لئے اسے انیتا سے بھیک کے چند لمحے مانگنے پڑے ،تب بھی وہ ذرا نہیں ہچکچائی۔ ساجد اس کی ان حرکتوں کو بچکانہ پن سمجھ کر نظر انداز کرتا رہا لیکن جب اسے اندازہ ہوا کہ دیویا واقعی اس پر فریفتہ ہے تو ساجد بھی اس کے لئے سنجیدہ ہوگیا۔ ان کی محبت میں ایک موڑ وہ بھی آیا کہ جب شادی کی ضد پوری نہ کرنے پر دیویا نے خودکشی کی دھمکی دے دی اور ساجد کو دکھانے کے لئے نیند کی گولیوں کا پورا بیلٹ نگل گئی۔ اس واقعے نے ساجد کو دیویا کے بارے میں اچھی طرح آگاہی د ے ڈالی اور اسے اندازہ ہوگیا کہ اس دھرتی پر اسے دیویا سے زیادہ پیار کرنے والی لڑکی نہیں مل سکتی۔ دیویا واقعی ساجد کو دیوانگی کی حد تک چاہتی تھی اور اس کا مظاہرہ وہ کئی بار کرچکی تھی لیکن ساجد نے کبھی دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے کھل کر اظہار نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جس فلیٹ میں وہ رہتی تھی وہ گھر بھی ساجد نے ہی لے کر دیا تھا جہاں دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے ازدواجی زندگی گزار رہے تھے لیکن اس فلیٹ کی بالکونی سے گرنے کے نتیجے میں موت کے بعد بھی ساجد نے میڈیا سے یہ چھپانے کی کوشش کی کہ وہ دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے رہتے تھے۔ دیویا کو شمشان گھاٹ کی نذر کردینے کے بعد ساجد نے پولیس حکام کو دیویا سے اپنے نکاح کا ثبوت پیش کیا اور اس بات کا پہلی بار کھل کر اظہار کیا کہ وہ میاں بیوی تھے۔

دیویا کو زندگی میں کبھی جی بھر کر محبت نہ دینے والے ساجد نے اس کی موت کے بعد اپنی پروڈیوس کردہ فلموں کے ٹائٹل اپنی من موہنی بیوی کے نام سے منسوب کرنا شروع کر دیئے لیکن اس کوشش سے یہ واضح نہ ہوسکا کہ اس طرح ساجد اپنا احساس ندامت ظاہر کر رہا ہے یا واقعی وہ بھی دیویا کو شدّت سے چاہتا تھا۔ساجد کے دل میں اپنی محبوب بیوی کے لئے اُس کے مرنے کے بعد اتنا پیار دیکھ کر فلم والوں کو کمال امروہوی اور مینا کماری کی کہانی یاد آگئی لیکن فلم نگری میںتو ایسی ان گنت کہانیاں بکھری پڑی ہیں اور اُنگلیاں اٹھانے والوں کو اس وقت شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے جب وہ اپنی ہی چار انگلیوں کا اشارہ اپنی طرف دیکھتے ہیں۔

دیویا کی موت کے کئی ذمہ دار ہمیں اس کے خون کی لکیر میں نظر آتے ہیں ۔ایک طرف ساجد تھا جس نے دیویا کو ثناءساجدکااسلامی نام تو دے ڈالا لیکن اس کی روح کو اپنے نام نہ لگا سکا۔ دوسری طرف دیویا کی ماں جو اُسے سونے کی چڑیا سمجھ کر کیش کراتی رہی اور اُس کا باپ اوم پرکاش بھارتی ‘ جسے یہ فکر ہی نہ تھی کہ اس کی اولادوں پر کیا بیت رہی ہے۔ مزید گہرائی میں جائیں تو خود دیویا بھی اپنی قاتل نظر آتی ہے جس نے خود غرضی کی انتہا کردی۔ایک اسٹار جسے لاکھوں لوگ پسند کرتے ہوں اور وہ اُن کے دلوں میں بھی بسیرا کیے ہو، کس طرح اتنی آسانی سے کسی ایک پیارے کے لیے زمانے بھر کے پیاروں کو رونے پر مجبور کرسکتا ہے۔ دیویا نے لمحے بھر میں ناصرف اپنی بلکہ اپنی چاہنے والوں کی خوشیاں چھین لیں اور آج زمین کا وہ ستارا، دور کہیں آسمانوں پر ٹمٹما رہا ہوگا۔ دیویا ایک یاد بن کررہ گئی اور یادیں انسانوں سے زیادہ قابل بھروسہ ہوتی ہےں کہ دیر تک ساتھ نبھاتی ہیں۔

دیویا کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا۔ اس کے والد اوم پرکاش بھارتی نے دو شادیاں کر رکھی تھیں لیکن پہلی بیوی سے الگ ہوگئے تھے۔ البتہ بچے انہوں نے اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ اوپی بھارتی کی پہلی بیوی سے دو بچے (ایک بیٹا اور ایک بیٹی) تھے۔ ان دونوں بچوں کی پرورش دیویا کی ماں نے کی۔ دوسری بیوی سے بھی ان کی دو اولادیں بیٹا اور بیٹی ہوئے جن میں دیویا بڑی بیٹی اور کنال اُس سے چھے برس چھوٹا تھا۔ چاروں بچوں نے ایک ساتھ پرورش پائی لیکن گھر کا ماحول ایسا تھا کہ کسی بچے نے سوتیلا پن محسوس نہیں کیا۔ دیویا کے جوان ہونے سے پہلے ہی مسٹر بھارتی کے بڑے بچوں کی شادیاں ہوچکی تھیں جس کے بعد اوپی بھارتی کا بوجھ کافی حد تک کم ہوگیا تھا۔ اپنی فیملی کی جانب سے اُن کا دھیان بٹ گیا اور اپنی نجی مصروفیات و سماجی محفلوںمیں وہ اتنے گم ہوگئے کہ چھوٹے بچوں کی تربیت اور ان کی معاشی ضرورتوں کا انہیں احساس ہی نہ رہا۔ یہ بات بچوں کی تربیت پر اثر انداز ہوئی اور ماں کی زیر نگرانی دونوں بچے کنال اور دیویا احساس کم تری کا شکار ہونے لگے۔ اوم بھارتی ایک معروف انشورنس ایجنسی میں جاب کرتے تھے لیکن ان کے اپنے اخراجات اس قدر تھے کہ بچوں کی تعلیم وپرورش کے لئے وہ بیوی کو مطلوبہ رقم نہیں دے پاتے تھے۔ اس کا اثر بچوں نے یہ لیا کہ وہ تعلیمی میدان میں کمزور ثابت ہونے لگے۔ دیویا نے اگرچہ اپنے انٹرویوز میں فیملی ایشوز کو اس طرح پیش نہیں کیا اور وہ اس کی تردید کرتی تھی کہ اس کا فیملی بیک گراﺅنڈ معاشی لحاظ سے مضبوط نہیں تھا لیکن حقیقت یہی تھی کہ دیویا کی ماں نے بچوں کی پرورش بڑی مشکلات اُٹھا کر کی تھی اور باپ نے کبھی بچوں کی پرواہ نہیں کی۔ میاں بیوی کے اختلافات کے نتیجے میں بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہوئی اور دیویا صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے گھر کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لئے فیلڈ میں آگئی۔

دیویا چاہتی تھی کہ کسی طرح اس کا بھائی پڑھ لکھ جائے اور وہ ان چیزوں کو محسوس نہ کرے جو اُس کی زندگی میں پیش آئی ہیں ۔اُس کے لئے وہ کچھ بھی کرسکتی تھی۔ ممبئی کی لڑکیوں کے لئے سب سے زیادہ آسان جاب ماڈلنگ یا فلم میں ٹرائی کرنا ہوتی ہے اور بولی وڈ یا گلیمر ورلڈ تو ایسی دنیا ہے کہ جہاں تک رسائی کے لئے دور دراز شہروں سے بھی لڑکیاں گھرسے بھا گ کر اپنے سپنے سچ کرنے پہنچ جاتی ہیں۔ان امکانات پر گور کیے بغیر کہ چانس پانا ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا۔اس مدراسی گرل نے بھی شوبز میں قسمت آزمانے کا ارادہ کیا اورپہلے ماڈلنگ میں خود کو جانچا۔ اپنے پہلے فوٹوسیشن کی مقبولیت نے ہی دیویا کو سری دیوی اور مادھوری کے لئے خطرہ ثابت کر دیا۔ اس وقت یہ دونوں ہیروئنز ٹاپ پر تھیں۔ دیویا کے بارے میں تو میگزینز نے یہاں تک لکھ دیا کہ سری دیوی کی ڈپلی کیٹ ہونے کی وجہ سے یہ ببلی گرل جلد ہی چال باز ہیروئن کی چھٹی کرادے گی اور جب بھوری آنکھوں والی اس براﺅن ہیئر گرل نے سیما ٹیوب لائٹس اینڈ بلب کے کمرشل میں سری دیوی کی جگہ لی تو میڈیا کا دعوا درست ثابت ہوا ۔جلد ہی ماڈلنگ کی دنیا میں دیویا کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔ اپنے مختصر سے کیریئر میں دیویا خود بھی اپنی کامیابی کو پوری طرح محسوس نہیں کر پائی تھی۔ لکس کمرشل کی ماڈل بن جانا بھی اس کے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔ امامی کاسمیٹکس والوں نے بھی اپنی اشتہاری فلموں کے لئے اسے بک کرلیا جو اپنی مصنوعات کے لیے ہمیشہ بولی وڈ کی بیوٹی کوئنز کو منتخب کرتے ہیں۔ ان پے درپے کامیابیوں نے انڈسٹری کی ہیروئنز کو دیویا سے خبردار کر دیا تھا۔

دیویا کی پیدائش 25 فروری 74ء کو ممبئی میں ہوئی۔ اس اعتبار سے اس کا اسٹار حوت بنتا ہے۔ اس اسٹار کے تحت جن لوگوں کی پیدائش ان تاریخوں میں ہوتی ہے ،وہ بے حد حساس،جنونی اور پیار کے معاملے میں کسی قسم کی رقابت کو نہ قبول کرنے والے مشہور ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے دیویا بھی انہی خصوصیات کی نذر ہوگئی۔ اس نے ساجد کی محبت کو سینے سے لگائے رکھا اور جب اس نے محسوس کیا کہ اس کا محبوب اسے وہ توجہ نہیں دیتا جس کی وہ توقع رکھتی تھی تو اندر ہی اندر گھلنے لگی اور بجائے اس کے کہ وہ ساجد کو اس کی بے وفائی کا الزام دیتی، اپنی گھٹن کو اس نے سینے کے اندر ہی دبائے رکھا۔ آخر ایک روز لاوا پھٹ گیا اور ساجد سے دیویا کی زور دار دھینگا مشتی ہوئی۔ یہ 5 اپریل کا واقعہ ہے۔ اس تکرار اور توڑ پھوڑ کے چند ہی گھنٹوں بعد دیویا کی موت پر اس جنونی محبت کرنے والی لڑکی کا انجام ہوا۔

احساس محرومی نے بچپن سے جس کا ساتھ نبھایا تھا۔ تیکھے نقوش اور بھرے بھرے جسم والی اس ببلی گرل کی شخصیت ایسی تھی کہ بے اختیار ہی اس کی سادگی اور معصومیت پر پیار آجاتا تھا۔ ساجد بھی اسی کا شکار ہوا ور نہ دیویا، میں بولی وڈ کی گلیمرس ڈولز والی کوئی کشش یا اٹریکشن نہیں تھی۔ عام زندگی کا ذکر ہویا فیملی پارٹیز، عموماً وہ سادا لباس اور ہلکے پھلکے میک اپ پر انحصار کیا کرتی تھی۔ شلوار قمیض اُس کا پسندیدہ لباس تھا۔ دیویا نے مانک جی کپور اسکول سے میٹرک کیا اور اس کے فوراً بعد پریکٹیکل لائف میں قدم رکھ دیا۔ اس کا گھریلو نام سونی، تھا اور سری دیوی سے وہ بہت زیادہ متاثر تھی۔ اس نے ایکٹنگ کی کلاسز اٹینڈ کیں اور ناہی رقص سیکھنے کے لئے کوئی اکیڈمی جوائن کی۔ اسے ایکٹنگ کے بارے میں جو تھوڑا بہت تجربہ تھا وہ بھی صرف ویڈیو پر فلمیں دیکھنے تک محدود تھا اور اسی ذریعے سے وہ ڈانس اسٹیپس سیکھنے میں بھی کامیاب ہوئی۔ فلموں میں آنے سے پہلے دیویا کی سوشل لائف ایک لا اُبالی لڑکی کی طرح گزری اور ایک عام مڈل کلاس گرل ہونے کے باوجود اس نے کبھی کچن وغیرہ کے کاموں کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔ حتیٰ کہ اسے چائے بنانا بھی نہیں آتی تھی۔ یہ سب کچھ اس نے ساجد کی بیوی بننے کے بعد سیکھا جب دونوں کو علیحدہ فلیٹ میں رہنا پڑا جہاں ملازمہ ہونے کے باوجود اکثر دونوں قربت کے لمحات اکیلے شیئر کرنا پسند کرتے تھے۔ دیویا مزاجاً چونکہ بے حد آزاد خیال اور بولڈ لڑکی تھی لہٰذا مردوں سے دوستی اور تعلقات کو بھی اس نے کبھی معیوب نہیں سمجھا اور ساجد وہ پہلا شخص نہیں تھا جس کے لئے دیویا کے دل میں گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔ ساجد سے پہلے کئی مردوں سے دیویا کی دوستی رہی اور کئی ایک سے تو اس کے تعلقات اس حد تک بھی رہے کہ وہ اس کی زلفوں اور گالوں سے آگے تک جانے میں بھی کامیاب ہوگئے لیکن دیویا ان سب مردوں میں محبت کھوجنے میں ناکام رہی۔ جس پیار کی وہ طلب رکھتی ہے وہ محبت تو اسے ساجد سے بھی نہیں ملی لیکن کم از کم ساجد دوسرے مردوں سے اس حد تک ضرور مختلف تھا کہ اس نے باقاعدہ دیویا کو اپنانے کے بعد اس کے جسم کو ہاتھ لگانا منظور کیا۔ فلرٹ کرنا اور جنس مخالف سے اپنے حسن و سراپے کی تعریفیں کرانا دیویا کی وہ کمزوریاں تھیں جن کا فائدہ مردوں نے خوب خوب اُٹھایا ۔دیویا کو اکثر اسپاٹ بوائز کے ساتھ اسٹوڈیوز کے فلورز کے اندھیرے کو نوں میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔

وجیہہ ‘ نوخیز اور نوعمرلڑکے، دیویا کومتاثر کرتے تھے اور وہ یہ بھول جاتی تھی کہ اب وہ ممبئی کے مضافات میں رہنے والی کوئی عام لڑکی نہیں جس کے افیئرز لوگوں سے چھپے رہ سکیں۔ کئی اسٹوڈیو ملازمین اور بوڑھے عیاش فلم سازوں نے اسے فلموں میں کام دلانے کے بہانے سے بھی خوب استعمال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی انہی حرکتوں کی وجہ سے کیرتی کمار نے اسے اپنی فلم رادھا کا سنگم، سے نکال دیا تھا کیونکہ اسٹوڈیوز میں اس کی شہرت اچھی نہیں تھی۔ فلموں میں ہیروئن بننے کا چانس پانے کے لئے دیویا نے بولی وڈ کے عیاش فلم میکرز اور پروڈیوسرز کو ہر طرح سے رجھایا۔ وہ ان کے ساتھ ڈرنک کرنے پر بھی راضی ہوجاتی تھی۔ کئی لوگوں نے اسے باپ کی عمر کے پروڈیوسرز کے ساتھ سوئمنگ کرتے بھی دیکھا اور وہ منظر بھی فلم نگری کے باسیوں کی آنکھوں میں محفوظ ہوگیا کہ سوئمنگ کے بعد کس طرح سرمایہ دارپروڈیوسر کو گاﺅن پہنانے کے بعد وہ اس کی بانہوں میں جھولتی اس کے کمرے تک جاتی تھی۔ فلموں میں آنے سے پہلے دیویا کے حوالے سے ایسی کئی کہانیاں مشہور ہوئیں لیکن انڈسٹری میں آنے اور کامیابی ملنے کے بعد خوش قسمتی سے اسے کچھ ایسے خیر خواہوں کا ساتھ بھی نصیب ہوگیا جو اسے اپنا رویہ تبدیل کرنے کا مثبت مشورہ دیتے رہے اور دیویا کو فلم انڈسٹری کے طور طریقے سمجھاتے رہے۔دل کے ہاتھوں مجبور دیویا اپنے فلرٹس پر قابو نہ پاسکی، کام کی تلاش میں وہ ساﺅتھی انڈسٹری میں بھی گئی جہاں اسے دو تیلگو فلموں میں کام تومل گیا لیکن اس کے بدلے میں مدراسی گرل کو اپنے ہم زبانوں نے خوب استعمال کیا۔ ساﺅتھ میں اس کا افیئر موہن بابو کے ساتھ چلا جو اس وقت ساﺅتھ کا سپر اسٹار تھا۔ دیویا نے بھی موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس افیئر کو جانتے بوجھتے مشہور ہونے دیا تاکہ ساﺅتھ میں اس کی ڈیمانڈ بن سکے لیکن آخر کار اسے ممبئی ہی لوٹنا پڑا جہاں ایک شان دار مستقبل اس کا منتظر تھا۔ ممبئی میں ایک کروڑ پتی بزنس مین فیملی سے تعلق رکھنے والے اوباش نوجوان ہیمال ٹھاکر کو بھی دیویا نے کچھ عرصہ اپنی زلفوں کا اسیر رکھا اور اُس کی دولت پر عیش کرتی رہی۔ فائیو اسٹار ہوٹلز، فراٹے بھرتی نئے ماڈلز کی لگژری گاڑیاں اور لاکھوں کی شاپنگ، یہ سارے خواب پلک جھپکتے پورے ہونے کی دیویا کو اُمید نہ تھی لیکن تقدیر نے چونکہ اس کو بہت مختصر وقت دیا تھا لہٰذا وہ سب کچھ جو دوسرے دگنی عمر جی کرپاتے ہیں، دیویا نے تیزی سے سمیٹنا شروع کر دیا تھا۔ ہیمال ٹھاکر نے دیویا کو خوش دیکھنے اور اس کی قربت پانے کے لئے اپنی تجوری کا منہ کھول دیا تھا لیکن دیویا نے بھی اس کی برابر قیمت چکائی۔ اس نے ہیمال کی ہر خواہش پوری کی۔ دونوں اکثر ویک اینڈ منانے کے لئے گوا، یا منالی میں ہوتے ۔ہیمال اپنی ماڈل دوست کا تعارف فخر یہ انداز میں اپنے دوستوں سے کراتا اور دیویا اُن سب کو برابر کمپنی دیتی کیونکہ وہ ہر محفل کی جان بننے کا ہنرجانتی تھی۔

فلموں میں کامیابی پانے کے بعد جب ساجد سے اس کی شادی کی خبریں شائع ہوئیں تو ہیمال کو دیویا کی بے وفائی کا بے حد ملال ہوا۔ اُس نے دیویا کو بدنام کرنے کے ارادے سے وہ انکشافات کیے جن کا مقصد محض دیویا کو ساجد سے دور کرنا تھا تاکہ وہ دوبارہ اپنے بوائے فرینڈ کے پاس چلی جاتی لیکن دیویا کے بارے میں ساجد پہلے سے ہی بہت کچھ جانتا تھا۔لہٰذا ہیمال کے انکشافات کا اُس نے کوئی نوٹس نہیں لیا لیکن دیویا کی اسی بدنامی نے بیوی کی موت تک ساجد کو یہ حوصلہ اور جرات نہیں دی کہ وہ دیویا سے اپنی شادی کی تصدیق کرسکتا۔ دیویا کی شخصیت کے اسی منفی پہلو نے اسے بیوی کی حیثیت سے زمانے کی نظروں میں وقار نصیب نہیں کیا اور ساجد کے ساتھ ازدواجی تعلقات اور میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے باوجود بھی دیویا احساس محرومی کا شکارر ہی۔ ہیمال نے عین اس وقت دیویا سے اپنے جنسی تعلقات کا انکشاف کیا جب وہ ٹاپ ہیروئن بن چکی تھی۔ ہیمال نے اس کے ساتھ راتیں گزارنے اور اس پر لاکھوں روپے لٹانے کی بات کرکے گویا بھونچال لانے کی کوشش کی تھی جس پر دیویا سے خوف زدہ اس کی رائیول ہیروئنز میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن خوش قسمتی دیویا کے دروازے پر دستک دے چکی تھی۔ اُسے برباد کرنے والوں کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ دیویا کو کامیابی کے راستے پر جھنڈے گاڑنے سے کوئی نہ روک سکا اور فلم انڈسٹری میں اپنے ڈیبیو کے پہلے ہی برس اس نے ریکارڈ 9 فلمیں دے کر ایسی مثال قائم کردی جس کی نظیر ہندی سینما کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔

بولی وڈ میں دیویا بھارتی کی پہلی سائننگ گووندا کے ساتھ ہوم پروڈکشن رادھا کا سنگم، تھی جسے گووندا کا بھائی کیرتی کمار ڈائریکٹ کر رہا تھا۔ اس فلم کے لئے دیویا نے اپنے کردار پر ورک بھی شروع کر دیا تھا اور ڈانس کی تربیت کے لئے باقاعدہ کلاسز اٹینڈ کرنے لگی تھی لیکن اچانک خبر آئی کہ دیویا کو اس فلم سے کٹ کر کے جوہی چاﺅلہ کو لے لیا گیا ہے۔ اس ان اور آﺅٹ گیم کے پیچھے جو کہانی تھی، اس کی ذمہ دار دیویا خود تھی۔ اپنی عادت کے مطابق دیویا نے رادھا کا سنگم، کے ڈائریکٹر کیرتی کمار کو بھی لفٹ کرانا شروع کردی تھی جس کے نتیجے میں کیرتی کی فیملی ڈسٹرب ہوئی اور جب بھابھی نے گووندا سے کیرتی اور دیویا کے تعلقات اور بدنامی کا ذکر کیا تو گووندا کے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھی کہ وہ دیویا جیسی فلرٹی گرل کو اس پروجیکٹ سے الگ کردے اور اپنے خاندان کو ایک بڑی تباہی سے بچالے۔ اس وقت تک دیویا کو انڈسٹری کے لوگ جاننے لگے تھے اور یہ کہا جا رہا تھا کہ اگر دیویا کو فلموں میں چانس مل گیا تو یہ اداکارہ سری دیوی کانعم البدل ثابت ہوسکتی ہے۔

بولی وڈ میں دیویا کی انٹری مئی 89ء میں ہوئی۔ جب اس نے رادھاکا سنگم، سائن کرنے کے لئے اپنی ماں کے ساتھ اسٹوڈیو کا وزٹ کیا۔ اس وقت وہ صرف 15 سال کی تھی اور فلمی دنیا کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی لیکن اس کا اعتماد ناقابل یقین تھا۔ کیرتی کمار سے انوالومنٹ کے بعد جب دیویا اس پروجیکٹ سے گووندا کی ڈیمانڈ پر الگ ہوئی تو کیرتی نے دھمکی دی تھی کہ وہ اس اداکارہ کو انڈسٹری میں ٹکنے نہیں دے گا اور اسے واپس گھر بھجوا کر ہی دم لے گا لیکن جب یکے بعد دیگرے کامیابیوں کے بعد خود گووندا بھی دیویا کا ہیرو بننے سے خود کو نہ روک سکا تو کیرتی کی دھمکی بے اثر ہوگئی۔ رادھا کا سنگم، اور کیرتی کمار سے دیویا کو اورکچھ ملا ہو یا نہیں لیکن اس فلم میں سائننگ اور کیرتی سے تعلقات کو کیش کراتے ہوئے دیویا نے بولی وڈ میں اپنے مضبوط تعلقات ضرور استوار کر لیے۔اس کی ملاقات راجیو رائے سے ہوگئی جو اُن دنوں وشواتما، کی کاسٹنگ کر رہے تھے۔ اس ملٹی اسٹارر فلم میں دیویا کو ایک گلیمرس رول آفر ہوا جو اُس نے خوشی خوشی قبول کرلیا۔ یہ پروجیکٹ اسے کیرتی کمار کی فلم کے مقابلے میں اس لئے بھی اچھا لگا کہ اس فلم میں وہ سنی دیول جیسے مضبوط ہیرو کے ساتھ کاسٹ کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ اٹریکشن بھی تھی کہ راجیو رائے نے اس پر وشواتما، کی ریلیز سے پہلے باہر کی فلمیں سائن کرنے پر کوئی پابندی بھی نہیں لگائی تھی۔ دیویا چونکہ اپنی معاشی ضرورتوں کے لئے انڈسٹری میں آئی تھی اور اس کا پہلا مقصد پیسہ کمانا ہی تھا لہٰذا ایک ہی جست میں ببلی گرل نے ڈھیر ساری فلمیں سائن کرلیں اور خود پر کام کا اس قدر دباﺅ لے لیا کہ رات دن شوٹنگز میں بزی رہنے کے باعث اس کا اعصابی نظام بُری طرح متاثر رہنے لگا۔ وہ بے خوابی کے مرض کا شکار ہوگئی اور اعصابی تناﺅ کو دور کرنے کے لئے مجبوراً ڈرگز کا استعمال کرنے لگی۔ شراب تو وہ فلموں میں آنے سے پہلے بھی پیتی تھی لیکن اس کی مقدار بولی وڈ میں آنے کے بعد کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔ اکثر سیٹس پر بھی وقفے کے دوران وہ ایک دو پیگ چڑھا لیتی تھی لیکن جب کبھی موڈ میں ہوتی تو گلاسوں کی گنتی نہیں کرتی تھی۔ ساجد نے اسے شراب اور اسموکنگ سے منع کر دیا تھا لہٰذا اُس کی موجودگی کا لحاظ کرتی البتہ فلمی پارٹیوں میں، یا جب وہ بہت زیادہ خوش ہوتی تو ترنگ میں آکر جام پر جام خالی کر دیتی تھی۔

دیویا کی یہ ساری برائیاں بہت زیادہ کام کی وجہ سے تھیں۔ایک ٹین ایج لڑکی جس کی عمر اس وقت بمشکل سترہ سال تھی، آٹھ دس فلموں کی شوٹنگوں میں بیک وقت بزی رہتی تھی ۔آﺅٹ ڈور شیڈولز کے لئے اسے بیرون ملک اور ممبئی سے باہر دیگر شہروں میں بھی جانا پڑتا تھا۔ اکثر وہ ایئر پورٹ سے سیدھی لوکیشن پر پہنچتی اور پھر اگلی فلائٹ پکڑنے کے لئے لوکیشن سے ہی سیدھا ایئر پورٹ جانا ہوتا تھا۔ اتنے ٹائٹ شیڈولز میں وہ اپنے لیے بہت کم جی سکی۔ اس کا زیادہ تر وقت ٹریولنگ اور شوٹنگوں میں ہی گزرتا رہا۔ ایسے حالات میں اُسے کسی ہمدرد دوست یا ساتھی کی ضرورت تھی جو اس کی خوشیاں اور کامیابیاں شیئر کرسکے لیکن اس معاملے میں وہ بد قسمت تھی۔ انسان کے لیے کامیابیاں ‘دولت اور شہرت کتنی بے معنی ہوجاتی ہیں جب کوئی ان چیزوں کو شیئر کرنے والا نہیں ہوتا۔ان دنوں دیویا، کم و بیش ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھی۔ ساجد کے پاس اتنا وقت ہی کہاں تھا کہ وہ دیویا سے اس کی شہرت اور کامیابیاں شیئر کرسکتا۔ پھر خود اس کے پاس دولت کی کیا کمی تھی۔ وہ اپنے شعبے میں بے حد کامیاب اور انڈسٹری کا مقبول نام بن چکا تھا اور ایسے وقت میں اس کے بزنس کو توجہ درکار تھی ناکہ وہ دیویا سے اس کی اچیومنٹس کے قصے سننے میں یہ سنہرا وقت گزار دیتا۔ یہ خلش اور اکیلے پن کا احساس، دیویا کی موت کا اصل سبب بنا۔

محسوس کرنے والا دل ہوتو اندازہ ہوتا ہے کہ دیویا کی موت 6 اپریل سے بہت پہلے ہوچکی تھی جب اس نے خود کو زندہ ہونے کا احساس دلانے کے لیے فلمی پارٹیوں میں کثرت سے شرکت شروع کردی تھی اور ضرورت سے کچھ زیادہ ہی پرجوش ہوگئی تھی۔ جس طرح شمع گل ہونے سے پہلے اچانک بھڑکنے لگتی ہے۔ دیویا بھارتی کا اسکرین ڈیبیو راجیو رائے کی فلم وشواتما،سے ہوا جو 9 جنوری 92ء کو ریلیز ہوئی اور ناکامی کے باوجود دیویا کو بہت کچھ دے گئی۔ سنی دیول‘ سونم‘ چنکی پانڈے جیسے ستاروں پر مشتمل فلم میں دیویا بھارتی پر فلمایا گیا ہٹ سونگ سات سمندر پار‘ اس ببلی اداکارہ کی شناخت بن گیا اور دیویا کی موت کے بعد بھی اس کی گونج سنائی دیتی رہی۔ پہلے سال ہی دیویا بھارتی نے 9 ریلیزز کا ایک انوکھا ریکارڈ دے کر بولی وڈ کی ٹاپ ہیروئنز کو خطرے کا سگنل دے دیا تھا۔ یہ ریکارڈ اس حوالے سے بھی اہم مانا گیا کہ اس نئی اداکارہ نے اپنی آمد کے ساتھ ہی بڑے بینرز اور ہیروز کو قبضے میں لے لیا اور جو فلمیں دیویا کے کریڈٹ پر آئیں ان میں بڑے اسٹارز نے کام کیا۔ شعلہ و شبنم، جان سے پیارا، گووندا کے ساتھ، دیوانہ، دل آشنا ہے ،شاہ رخ کے ساتھ، دشمن زمانہ، ارمان کوہلی کے ساتھ، شطرنج‘ دل ہی تو ہے‘ جیکی شیروف کے ساتھ‘ وشواتما‘ سنی دیول کے ساتھ اور شتریا‘ سنجے دت کے ساتھ، دیویا کی ریلیز شدہ فلمیں تھیں۔ دل کا کیا قصور ‘ دیویا کی سیکنڈ ریلیز تھی جس میں نئے ہیرو پرتھوی نے اپنا اسکرین ڈیبیو کیا ۔اس کے علاوہ دو بڑے اسٹارز شاہ رخ اور سنیل سیٹھی نے بھی دیویا کی فلموں سے ہی اپنا کیریئر اسٹارٹ کیا۔سنیل کی ڈیبیو مووی بلوان، ریلیز کے اعتبار سے دیویا کی چھٹی فلم تھی ۔اس سے پہلے ریلیز ہونے والی دیوانہ، سے شاہ رخ خان نے اسٹارٹ لیا۔ یہ دونوں فلمیں آگے پیچھے ریلیز ہوئیں۔

دیویا نے گلیمرس کرداروں سے ہٹ کر انوسینٹ امیج اپنا کر شہرت حاصل کی اور اسی امیج نے اسے ٹین ایجرز سے لے کر ہر طبقے کی مقبول اداکارہ بنا دیا۔ اگر دیکھا جائے تو دیویا کا کیریئر صرف دو سالوں تک محدود رہا۔ اس عرصے میں اس کی 13 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ شطرنج‘ اور رنگ ‘ اس کی موت کے بعد ریلیز کی گئیں۔ اس محدود ٹوٹل کے باوجود دیویا نے انڈسٹری کی گولڈن گرل کا ٹائٹل پایا اور اس سحر انگیز اداکارہ کا سحر اس تیزی سے پھیلا کہ سری دیوی ‘ مادھوری ‘ جوہی چاﺅلہ‘ روینا ٹنڈن‘ جیسی مقبول ہیروئنیں اس سے خوف محسوس کرنے لگیں۔ کرداروں کے حوالے سے دیویا نے اپنی جدا گانہ شناخت بنائی۔و شواتما، میں روایتی گلیمر گرل کو پلے کرنے کے بعد دل کا کیا قصور، سے اس چلبلی ہیروئن نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ اس فلم میں وہ ایک شاعرہ کے روپ میں دکھائی دی جو اپنے محبوب گلوکار( پرتھوی) کے لئے گیت لکھتی ہے اور اپنے گیتوں میں ہی اسے محبت کا پیغام دیتی ہے۔ شعلہ اور شبنم، میں دیویا نے ایک منہ زور اور لا ابالی لڑکی کا کردار ادا کیا جو وقت کے ساتھ کبھی شعلہ تو کبھی شبنم بن جاتی ہے اور پھر خوب زوروں سے اپنے محبوب پر برستی ہے۔ اس کردار نے دیویا کی رومینٹک گرل امیج کو اُبھارا۔ گوونداکے ساتھ ایک اور فلم جان سے پیارا، میں دیویا نے ایک بار پھر رومینٹک کردار میں بہترین کردار نگاری کا مظاہرہ کیا۔ اس فلم میں دیویا پر فلمایا گیا ایک گیت چنچل چاندنی مہکی رات ہے، زبردست ہٹ ہوا۔ رومانوی فلموں کے سوشل کرداروں میں مقبول اس ہیروئن کی خوش قسمتی اس حوالے سے بھی زوروں پر محسوس ہوئی کہ دیویا پر فلمائے گئے بیشتر گانے سپر ہٹ ہوئے مثلاً سات سمندر پار، جیسے اسٹریٹ ہٹ نمبر کا ذکر ہویا دل کا کیا قصور، دیوانہ‘ دشمن زمانہ‘ دل آشنا ہے‘ اور رنگ جیسی رومانوی فلمیں،ان کے دلکش نغمات کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔

دیوانہ، میں دیویا نے رشی کپور کی بیوی کا رول پلے کیا جو شوہر کی گم شدگی کے بعد اسے مردہ تصور کرکے شاہ رخ سے شادی کرلیتی ہے لیکن اچانک اس کا شوہر سامنے آجاتا ہے۔ اس اِن ٹینس ڈرامہ مووی میں دیویا نے اپنے فیس ایکسپریشنز کا سہارا لیتے ہوئے خوب صورت اداکاری پیش کی۔ گیت، میں دیویا نے اپنی رئیل لائف امیج سے قریب ایک زندہ دل لڑکی کا رول پلے کیا جس کے معصومیت اس کے حسن کو مزید نکھارتی ہے۔ دل آشنا ہے، میں وہ ایک طوائف کے کردار میں نظر آئی جس کی روح کو گھائل دکھایا گیا۔ ایک ایسی معصوم لڑکی جو معاشرے سے تذلیل ملنے کے بعد خود سماج کو ذلیل کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ اس فلاپ فلم کے خوب صورت کردار میں اگر یا درکھا گیا تو صرف دیویا کو جس نے امرتا سنگھ‘ ڈمپل کپاڈیا اور سونو والیا جیسی سینئر ہیروئنز کے سامنے جم کر پر فارمنس دی۔ دیویا نے ساؤتھی انڈسٹری میں بھی چند فلمیں کیں جن میں دو تامل اور دو تیلگو زبان میں ریلیز ہوئیں۔ ان فلموں کو ممبئی میں ڈسکس نہیں کیا گیا۔دیویا جسے یوگیتا بالی اور سری دیوی کا مکسچر کہا جاتا تھا، اپنے گداز بدن،پرکشش مسکراہٹ اور بہترین اداکاری کی وجہ سے پسند کی گئی۔ دیویا نے چند ایک مناظر میں نیم عریاں لباس کے علاوہ اپنے پورے کیریئر پر کوئی داغ لگنے نہیں دیا اور اپنی بولڈامیج کا اثر اپنے کرداروں پر ہونے نہیں دیا۔ دل آشنا ہے، کے ایک گانے یا شعلہ و شبنم، میں گووندا کے ساتھ ایک بارش کے گانے کے علاوہ دیویا نے کبھی اپنے جسم کو ننگا کرکے دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ ان دو فلموں میں بھی وہ کیریکٹر کی ڈیمانڈ پر ایسا کرتی نظر آتی ہے ۔دیویا کی زبردست ڈیمانڈ کی وجہ یہی تھی کہ اس وقت انوسینٹ ببلی گرل امیج والی کوئی ہیروئن انڈسٹری میں نہیں تھی جسے فلم میکرز ٹین ایج رومینٹک اسٹوریز میں کاسٹ کرسکتے۔ روینا ٹنڈن‘ مادھوری‘ جوہی‘ سری دیوی‘ وغیرہ میں سے کوئی ہیروئن اس معیار پر پوری نہیں اُترتی تھی۔ سری دیوی اور جوہی کو دیویا کی مقبولیت نے زبردست نقصان پہنچایا۔ خصوصاً سری دیوی جو اس وقت سب سے زیادہ معاوضہ ڈیمانڈ کر رہی تھی، اس کا نعم البدل پروڈیوسرز کو دیویا میں مل گیا جو فریش لگنے کے ساتھ معاوضہ بھی مناسب لے رہی تھی۔ بد قسمتی سے ابھی وہ اپنے معاوضے میں اضافے کی صرف پلاننگ کر رہی تھی کہ تقدیر نے اسے خود کو کیش کرانے کی مہلت دینے سے انکار کر دیا۔

دیویا کے جس قدر افیئرز مشہور ہوئے، اس سے کہیں زیادہ وہ منہ پھٹ لڑکی کی حیثیت سے بد نام ہوئی۔ یہ دیویا کا نفسیاتی مسئلہ تھا کہ وہ کسی سے زیادہ عرصہ تعلقات استوار نہیں رکھ سکتی تھی۔جلد ہی اس کی دوستیاں دشمنی میں بدل جاتی تھیں۔ بوائے فرینڈ ہیمال جس کے ساتھ دیویا نے زیادہ وقت گزارا وہ جب دشمنی پر آیا تو دیویا کو ذلیل کرنے پر تل گیا۔ دیویا کے حوالے سے یہ بھی مشہور رہا کہ اس نے فلموں میں چانس حاصل کرنے کے لئے پہلاج نہالنی اور ساون کمار ٹک جیسے فلم میکرز سے بھی قربت رکھی جو اس سے عمر میں کافی بڑے تھے۔ پہلاج کی ازدواجی زندگی اس کی وجہ سے کافی ڈسٹرب ہوگئی تھی جس کے بعد اس نے میڈیا کے سامنے پہلاج کو ڈیڈی کہہ کر جان چھڑائی ورنہ اس افیئر سے دیویا کا تو کچھ نہ جاتا البتہ نہالنی اپنی بیوی سے ضرور جاتا۔ اپنی فلرٹی فطرت کے باعث دیویا نے کیرتی کمار کا گھر برباد کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن صرف کیرتی ہی کیا، اپنے ڈائریکٹر کے بھائی گووندا کو بھی اس نے نہیں بخشا اور جب بات زیادہ بڑھی تو مجبوراً گووندا کو اپنی ہوم پروڈکشن سے اُسے کٹ کرنا پڑا۔ ساجد نڈیا ڈوالا سے دیویا کا تعارف گووندا نے ہی کرایا تھا جس کے بعد دونوں مرتے دم تک ساتھ رہے۔ اُن دنوں ساجد کی دوستی ماڈل گرل امیتا نانگیا سے مشہورتھی اور اُن کی شادی تک کی باتیں ہو رہی تھیں لیکن دیویا نے ساجد کو کچھ اس طرح اپنے گھیرے میں لیا کہ امیتا کی وہاں سے چھٹی ہوگئی۔ مشہور ہے کہ ساجد کو شادی کے لئے آمادہ کرنے کے لیے دیویا نے خودکشی کی دھمکی دے دی تھی جس کے باعث امیتا اس جنونی لڑکی کے آگے ایک لمحہ نہ ٹھہر سکی۔ البتہ کچھ عرصے تک امیتا اور دیویا دونوں ساجد کے ساتھ رہیں اور مشترکہ طور پر اپنی اپنی محبت جتاتی رہیں۔ جیت بالآخر ہٹ دھرم اور ضدی لڑکی کی ہوئی۔ ساجد اور دیویا کے بارے میں پہلی بار میڈیا کو خبر دینے والی امیتا ہی تھی جس نے ان دونوں کی شادی اور جنسی تعلقات کے بارے میں بھی حیران کن انکشافات کیے۔ تاہم اس متنازع شہرت کے باوجود دیویا کی اسکرین امیج پر کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ ان بھیانک آف اسکرین حوالوں کے باوجود پاپولر ہیروئن اور ڈریم گرل بنی رہی۔ ساجد نڈیا ڈوالا اور دیویا بھارتی کی عشقیہ داستان میں کئی حوالے مینا کماری اور کمال امر وہوی کی کہانی سے مماثلت رکھتے محسوس ہوتے ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ جہاں ایک ٹوٹ کر چاہنے والی عورت اور اپنی بدنامی سے خو ف ذدہ، ڈرے سہمے بزدل مرد کا ذکر آئے گا وہاں ایسی مماثلت یقینی ہوتی ہے۔

کمال نے مینا کو طوائف زادی ہونے کی وجہ سے اپنانے سے گریز کیا تو ساجد بھی دیویا کے لا ابالی پن سے خوف زدہ تھا ۔وہ دیویا کی آوارہ گردیوں کے قصے سن چکا تھا اور جانتا تھا کہ یہ عورت ایک دن اسے چھوڑ کر چلی جائے گی لیکن دیویا تو اپنی زندگی کے فل اسٹاپ کی تلاش میں سرگرداں تھی۔ وہ ساجد کو اپنی آخری منزل سمجھ بیٹھی تھی اور اسے ٹوٹ کر چاہنے کی بھول کرچکی تھی۔ دوسری جانب وہ ڈرا ہوا خوف زدہ مرد جو جانتا تھا کہ یہ شادی ایک دھمکی کے نتیجے میں ہوئی ہے،وہ تو صرف دیویا کو سہارا دینے کے لئے اس کے قریب آیا تھا۔ شادی کے باوجود ساجد یہ اقرار کرنے سے ڈرتا تھا کہ کبھی اسپاٹ بوائز کے ساتھ فلرٹ کرنے والی لڑکی اُس کی بیوی بن چکی تھی۔ حالانکہ اس سچائی کو دنیا کے سامنے لانے کا زیادہ نقصان دیویا کو ہی ہوتا جو اس وقت ٹاپ ہیروئن کا ٹیگ لگوا چکی تھی لیکن دیویا نے اپنی زندگی کا باب مکمل کرلیا تھا ۔وہ چاہتی تھی کہ اب صرف ساجد کی بیوی بن کر رہے اور ایک خوب صورت ساگھر بسائے، جہاں وہ، اس کے خوابوں کا شہزادہ اور ان کے بچے ہوں۔ اس کے علاوہ وہ کچھ اور نہیں چاہتی تھی مگر قدرت اس کی زندگی میں فل اسٹاپ لگانے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ ساجد سے شادی کے لئے اس نے دیویا سے ثنا ساجد بننا بھی قبول کرلیا اور اسلامی لاءکے تحت ممبئی سول کورٹ سے دونوں نے نکاح کرلیا جس کی خبر ملتے ہی سب سے پہلے دیویا کی ماں نے اس پر اپنا غصہ اُتارا۔ یہ یقین دلانے کے باوجود کہ وہ اپنی فلموں کی آمدنی ہر گز ساجد کو نہیں دے گی اور نہ ساجد کو اس کی ضرورت تھی لیکن مسز بھارتی نے یہ جان لیا تھا کہ ان کی سونے کی چڑیا اب ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ ماں نے بیٹی سے اپنے تعلقات خراب کر لیے اور اپنی ذات میں تنہا دیویا کو مزید تنہا کر دیا۔ باپ اوم بھارتی جو دیویا کے فلموں میں آنے کے فیصلے کے ہی خلاف تھا ،خاموش رہا۔ بھائی کنال نے بھی زبان بند رکھی۔ اس کم عمر لڑکے کو ان مسائل کا پوری طرح ادراک بھی کہاں تھا؟

دیویا اور ساجد نے شادی کے بعد ورسووا میں تلسی اپارٹمنٹس کے ایک فلیٹ میں رہائش اختیار کرلی جہاں انہوں نے اپنا عارضی آشیانہ بنایا لیکن وہ ایک گھر خرید نے کی پلاننگ کر رہے تھے جس کے لئے ان کا ارادہ تھا کہ شادی کے باقاعدہ اعلان کے بعدوہاں شفٹ ہوجاتے۔ اس خفیہ شادی کے بعد میڈیا نے ان کی ڈومیسٹک لائف میں بھونچال لانے میں اہم کردار ادا کیا اور دونوں ایک دوسرے کے افیئرز یا تعلقات پر اکثر جھگڑتے نظر آتے۔ لندن میں بولی وڈ اسٹارز کے شو میں سلمان اور عامر خان سے دیویا کی بے تکلفی پر ساجد نے برا منایا تو ساجد کی اپنی فلموں کی ہیروئنز میں دلچسپی لینے کی خبروں پر دیویا بھی مشتعل ہوجاتی تھی۔ دیویا کی شخصیت اس حوالے سے بھی متنازع بنا دی گئی کہ وہ زندگی سے فرار پانے کے لئے ڈرگز لینے لگی ہے اور کثرت سے مے نوشی کرتی ہے۔ لڑاکا اور جھگڑا لوتو وہ پہلے سے ہی مشہور تھی جس کا ثبوت گووندا کی وائف سنیتا‘ کرشمہ کپور‘ روینا ٹنڈن‘ فرح‘ پہلاج‘ پرتھوی‘ سنیل سیٹھی‘ وغیرہ سے اس کے مشہور تصادم تھے۔ اسے دوسروں سے الجھ کر شاید مزا بھی آتا تھا کیونکہ اکثر واقعات میں غلطی اُس کی اپنی ہی ہوتی تھی لیکن اس طرح شایدوہ اپنے کسی پوشیدہ جذبے کی تسکین کیا کرتی تھی۔ اپنے مضبوط فلمی تعلقات کو استعمال میں لاتے ہوئے اس نے کئی ہیروئنز کو مختلف پروجیکٹس سے آﺅٹ کروایا اور ان کی جگہ خود لے لی مثلاً رنگ، کی کاسٹ سے کرشمہ کو آﺅٹ کرواتے ہوئے اپنا نام ایڈ کروالیا تھا جس پرکرشمہ کپور اس سے باز پرس کرنے پر مجبور ہوئی۔ راج کنور کی فلم کرتویا، میں سنجے کپور کی ہیروئن تبو کو لیا گیا تھا۔ یہ فلم دیویا نے ہتھیالی۔ قسمت کی ستم ظریفی سے دیویا اس فلم کی تکمیل سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلی گئی۔اس فلم کی 50 فیصد سے زائد شوٹنگ کی جاچکی تھی ،بعد ازاںاس فلم کو جوہی چاﺅلہ کو لینے کے بعد ری شوٹ کیا گیا۔

دیویا بھارتی کی موت بھی اس ایکٹریس کے کیریئر، ذات اور شخصی حوالوں کی طرح ڈرامائی ثابت ہوئی۔ ایسی اچانک موت جسے کچھ لوگوں نے مرڈر مسٹری کانام دیا تو کچھ نے اسے ایک حادثے سے زیادہ اہمیت نہیں دی البتہ ایک خیال جو بولی وڈ میں عام ہوا اور جس میں وزن بھی محسوس ہوتا ہے وہ اقدام خود کشی کے حوالے سے چہ مگوئیاں تھیں جسے انڈسٹری کے لوگوں نے ساجد کی دیویا سے بے وفائی کے تناظر میں لیا۔

اس شام دیویا بہت خوش تھی، شام کو اپنے دوستوں کے ساتھ ایک پارٹی میں وہ بے حد مست دکھائی دی۔ اس نے وہاں رقص کیا، ڈرنک بھی معمول کے مطابق لیا اور کافی دیر وہاں گزارنے کے بعد گھر لوٹی۔ 25 فروری 93ء دیویا نے اپنی زندگی کی آخری سال گرہ ایک زیر تکمیل فلم کرتویا، کے سیٹ پر منائی تھی جو اُس کی 19 ویں سال گرہ تھی۔ اس روز وہ بہت خوش دکھائی دے رہی تھی جیسا کہ عموماً اسے دیکھا گیا۔ نارمل لائف میں وہ ایک زندہ دل لڑکی تھی جو ہر وقت خوش رہنا چاہتی تھی لیکن 5 اپریل کو ذرا مختلف دن تھا۔ ایک روز پہلے وہ ایک فلم کی شوٹنگ سے فارغ ہوکر مدر اس سے لوٹی تھی۔ 5 اپریل کو اسے حیدرآباد جانا تھا لیکن تھکاوٹ کے باعث دیویا نے شیڈول میں تبدیلی کرالی اور 5 کی بجائے 6 اپریل کو روانگی رکھی۔ اس دن اس نے مکمل آرام کیا۔ شام کو وہ گڈی ماروتی کی برتھ ڈے پارٹی میں شریک ہوئی تھی۔ پارٹی سے واپسی پر وہ بہت زیادہ اپ سیٹ تھی۔ کسی ذہنی الجھن کو لے کر وہ پریشان دکھائی دے رہی تھی جس کا نوٹس گھر کی ملازمہ نے بھی لیا، اس رات ساجد سے بھی اس نے کسی بات پر ناراضی کا اظہار کیا جس پر دونوں میں تکرار شروع ہوگئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ دیویا پر ہسٹریائی دورہ پڑ گیا۔

ساجد کے بقول اس پر اکثر ڈپریشن کے دورے پڑتے تھے اور ایسی حالت میں وہ چیزوں کو توڑنا پھوڑنا شروع کر دیتی تھی۔ غصے کی حالت میں وہ زور زور سے چلاتی اور رونے لگتی تھی جس کے بعد اسے کچھ ہوش نہ رہتا تھا۔ا س رات بھی کچھ ایسا ہی عالم ملازمہ نے دیکھا۔ تھوڑی دیر بعد دیویا کا بھائی کنال بھی وہاں آگیا، دیویا نے فون کرکے اپنی ڈریس ڈیزائنر فریڈ نیتا لولا کو بھی بلا لیا جو اپنے شوہر ڈاکٹر شیام لولا کے ساتھ رات گیارہ بجے 503 تلسی اپارٹمنٹ، 2 سیون بنگلوز، اندھیری روڈ، ورسووا، پہنچ گئیں جہاں ماحول میں کشیدگی واضح محسوس کی جا رہی تھی۔ نیتا نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے دیویا کے بھائی کنال کو وہاں سے رخصت کر دیا اور دیویا کو دلاسہ دینے لگی۔ تھوڑی دیر بعد ساجد بھی یہ کہہ کر وہاں سے نکل گیا کہ وہ لوکھنڈ والا کو مپلیکس تک جا رہا ہے جہاں اس کی کسی ڈسٹری بیوٹر سے میٹنگ تھی۔ ساجد کے جانے کے بعد دیویا نے کچن میں جاکر پیگ بنایا اور ایک ہی سانس میں انڈیل گئی۔ چند منٹوں میں ہی اس نے یکے بعد دیگرے کئی پیگ چڑھا لیے جس کے بعد وہ مدہوش ہونے لگی۔ اس دوران نیتا اس سے باتیں کرتی رہی تاکہ اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے۔ دیویا نے نیتا اور ڈاکٹر شیام سے ساجد کی بے وفائی کا تذکرہ کیا اور یہ گلہ کیا کہ وہ اسے بالکل بھی اہمیت نہیں دیتا اور جو توجہ اسے چاہئے وہ اُسے نہیں مل رہی۔ اسی اثناء میں دیویا نے ساجد کو فون کرکے دھمکی دی کہ وہ فوراً اس کے پاس پہنچ جائے ورنہ وہ اُسے کہیں دکھائی نہیں دے گی۔ ساجد چونکہ ان دھمکیوں کا عادی ہوچکا تھا لہٰذا اس نے اطمینان سے فون سنا اور اسے دس منٹ میں آنے کا کہہ کر فون رکھ کر بھول گیا۔ تقریباً ساڑھے بارہ بجے کے وقت دیویا پیگ بنانے کے لئے کچن کی طرف گئی جہاں ملازمہ کام کر رہی تھی۔ پیگ لے کر دیویا واپس کمرے میں آئی جہاں ڈاکٹر شیام اور نیتا موجود تھے۔ دیویا نے ٹی وی آن کیا اور کمرے سے نکل کر بالکونی کی طرف بڑھی جہاں ٹی وی دیکھنے کے لئے وہ اکثر بالکونی کی دیوار پر چڑھ کر بیٹھ جاتی تھی۔ صوفے پر بیٹھے مسٹر اینڈ مسز لولا اسے ایک نظر دیکھ بھی نہ پائے تھے کہ اچانک ایک زور دار چیخ اور کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ یہ دونوں بھاگتے ہوئے بالکونی کی طرف بڑھے جہاں دیویا موجود نہیں تھی۔

دونوں نے بلڈنگ کے پانچویں فلور کی بالکونی سے نیچے جھانک کر دیکھا تو دیویا کی لاش نیچے گراؤنڈ میں بے سدھ پڑی تھی۔ کچھ سوچنے سمجھنے کی فرصت نہیں ۔تھی اسی اثناءمیں بلڈنگ کا چوکیدار اور اپارٹمنٹس کے دیگر مکین بھی باہر نکلنا شروع ہوگئے۔ ڈاکٹر شیام اور سیکنڈ فلور کے رہائشی فلم ڈائریکٹر وی مینن، دیویا کی لاش لے کر آر این کوپر اسپتال پہنچے جہاں اس کی موت کی تصدیق کردی گئی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق اس کے بائیں کولہے کی ہڈی کے علاوہ گردن اور ریڑھ کی ہڈی میں بھی فریکچرز ہوئے تھے جن کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی۔ ڈاکٹرز نے شراب کی زیادہ مقدار کی بھی تصدیق کی۔ دیویا کی موت کی خبر جوں جوں پھیل رہی تھی، کو پر اسپتال میں رش بڑھتا جا رہا تھا۔ دیویا کے والدین کو نیتا لولا اور ملازمہ نے خبر دی۔ سب سے پہلے دیویا کے والد اپنے بیٹے کے ساتھ آئے تو دھاڑیں مار مار کر دیویا کی والدہ کو اس کی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔ دیویا کا بھائی اس بات سے پر یشان تھا کہ وہ اس واقعے سے صرف چند منٹ پہلے اپنی بہن کو زندہ دیکھ کر آیا تھا۔ ساجد کو اطلاع ملی تو وہ لڑکھڑا تے قدموں کے ساتھ اپنی محبوبہ کی لاش دیکھنے پہنچا۔ اس وقت بھی دیویا کے چہرے پر انتظار اور یاس کی کیفیت تھی۔ اس کا معصوم چہرہ گواہی دے رہا تھا کہ اس نے ہمیشہ ساجد کا انتظار کیا۔ لاش کی حالت دیکھ کر ساجد پر سکتہ طاری ہوگیا جس کے بعد اُسے فوری طور آئی سی یو منتقل کر دیا گیا جہاں اسے نیند کا انجکشن لگا دیا گیا۔

مسٹر اوم پرکاش بھارتی پر ہسٹریائی دورے پڑ رہے تھے اور وہ بار بار اپنی بیٹی کی باتیں یاد کرکے رونے لگتے جس کے باعث انہیں نفسیاتی وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔ ایک عجیب منظر تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی اور کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس موت کا ذمہ دار کون ہے؟ پہلاج نہالنی‘ گووندا‘ بونی کپور‘ راہول گپتا (کرتویا‘ کے پروڈیوسر)‘ مورانی برادرز‘ سنجے کپور، سیف علی خان‘ کمل سدانا‘ سمیت انڈسٹری پیپل کی اچھی خاصی تعداد اسپتال میں جمع ہوگئی لیکن دیویا کی ماں واقعے کے کئی گھنٹے بعد پونے چار بجے صبح پہنچی اور صرف بیٹی کا چہرہ دیکھ کر وہاں سے رخصت ہوگئی۔ کسی نے اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تھوڑی دیر بعد مسز بھارتی دوبارہ اپنے بھائی کے ساتھ لوٹیں اور پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کرادیا۔ پولیس موقع کے گواہوں سے لیے گئے بیانات کی روشنی میں کوئی نتیجہ اخذ نہ کرسکی لہٰذا کچھ عرصے بعد کیس کی فائل سوالیہ نشان کے ساتھ بند کر دی گئی۔ ساجد ‘ نیتا ‘ ڈاکٹر شیام لولا‘ ملازمہ، کنال (بھائی) اور بلڈنگ کے مکینوں کے بیانات بھی لیے گئے لیکن کوئی ایسی کڑی پولیس کو نہ مل سکی جو اس سچائی سے پردہ اٹھا سکتی کہ یہ قتل تھا، حادثہ یا خودکشی؟

دیویا اپنے والد اوم پرکاش بھارتی کے ہمراہ

ساجد کو اس کیس میں پولیس نے خصوصی رعایت دی۔ اپنے ابتدائی بیان میں اس نے دیویا سے شادی سے ہی انکار کیا لیکن اگلے روز اُس نے ناصر ف دیویا کی چتا کو آگ دی (جوہندو دھرم کے مطابق صرف شوہر کا حق ہوتا ہے) بلکہ پولیس کو اپنے قانونی نکاح کا ثبوت بھی پیش کر دیا جو ممبئی کی سول کورٹ میں 10 مئی 92ء کو ہوا تھا۔ نکاح نامے پر دیویا کانام ثنا ساجد لکھا گیا لیکن ساجد فیملی کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہ تھا کہ اس نے اسلام قبول کیا تھا یا نہیں لہٰذا دیویا کی آخری رسومات ہندو دھرم کے مطابق ادا کی گئیں جس میں ساجد کی والدہ اور چند دیگر فیملی ممبرز نے بھی حصہ لیا۔ دیویا کو دلہن کی طرح سجایا گیا اور چند ہی لمحوں میں اس کی لاش راکھ کا ڈھیر بن گئی۔ ایک فلمی اداکارہ کا اس سے خوبصورت انجام نہیں ہوسکتا جو کسی میلوڈراما کی طرح آنسوﺅں‘ سسکیوں اور آہوں سے بھرپور تھا۔

دیویا کی موت کے سانحے پر فلم انڈسٹری نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا، کوئی شوٹنگ کینسل ہوئی اور نا اس کی آخری رسومات میں انڈسٹری پیپل نے شرکت کرنا گوارہ کیا۔ تمام اسٹارز اپنی شوٹنگوں میں مصروف رہے۔ 7 اپریل کو دیویا کی آخری رسومات کی ادائیگی کے اگلے روز بیشتر بولی وڈ اسٹارز اداکار جتیندر کے گھر پر شیمپئن اور کوک ٹیل سے جی بہلا رہے تھے۔ بولی وڈ کے کام معمول کے مطابق چلتے رہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں لیکن دیویا کے پرستاروں کے دل آج تک اُداس ہیں۔ یہ کیوٹ گرل جو اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں گھر کر گئی تھی، اُن دلوں کو داغ مفارقت دے گئی۔ دیویا کی جواں سال موت سے کم از کم ان رائیول ہیروئنوں کو ضرور فائدہ ہوا جو اس کی آمد کے بعد سروائیول کی جنگ لڑ رہی تھیں۔ دیویا بھارتی کی 10 سے زیادہ زیر تکمیل فلمیں دوسری ہیروئنوں کو مل گئیں جن میں وہ اپنا کافی سے زیادہ کام شوٹ کر واچکی تھی۔ کئی پروجیکٹس جو دیویا بھارتی کو لے کر شروع کیے گئے تھے، بند کر دیے گئے کہ کوئی دوسری اداکارہ اُن کرداروں میں سوٹ نہیں کرتی تھی ۔وکی کمار کی سنی دیول اسٹارر جس کے ڈائریکٹر روی راجہ تھے۔اس فلم کی بارہ ریلوں کا کام ہونے کے بعد یہ پروجیکٹ بند کر دیا گیا۔ راج کنور کی لاڈلا‘ سری دیوی کو مل گئی۔ اسی ڈائریکٹر کی کرتویا‘ میں جوہی چاﺅلہ کو لے لیا گیا۔ دھیرو بھائی شاہ کی وجے پتھ‘ میں تبو ‘ آگئی۔ ساجد نڈیاڈ والا نے آندولن، میں دیویا والے رول میں صومی علی‘ کو سائن کرلیا اور فلم کو دیویا کی یادوں سے منسوب کر دیاگیا۔ راجیو رائے،سدھا کر بوکاڈے (کنیادان)، آرجوشی (چال پہ چال)، رام سیٹھی (دو قدم آگے)، کی فلمیں بھی دوسری ہیروئنز کو مل گئیں یا ان فلم میکرز نے اپنے پروجیکٹس رول بیک کر دیے۔

دیویا کی موت کے بعد اس کی مکمل فلمیں پروڈیوسرز کے لئے کوہ نور ہیرا بن گئیں اور اس کی المناک موت کو کیش کرانے کے لئے پروڈیوسرز نے اس ایلی منٹ کو بھی پبلسٹی سٹنٹ کے طور پر استعمال کیا ۔دیویا کی موت کے وقت زیر نمائش فلم شتریا، میں سنجے دت اور دیویا کا ایک ایڈیٹ شدہ گانا شامل کرکے فلم کا بزنس بڑھانے کی کوشش کی گئی تو اس کی دو مکمل فلموں رنگ، اور شطرنج، کے پروڈیوسرز نے اپنی فلموں کو دیویا کی موت کے فوراً بعد ریلیز کرکے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ طلعت جانی ڈائریکٹڈ رنگ، میں دیویا ایک گانے کی فلم بندی بھی نہ کراسکی تھی ۔اس طرح شطرنج، کی ڈبنگ کسی دوسری آرٹسٹ سے کروائی گئی۔ موقع کی مناسبت سے ریلیز کیے جانے پر ان فلموں کو عام حالات سے زیادہ بزنس ملا۔ 6 اپریل جب بھی آتی ہے، دیویا بھارتی کی حادثاتی موت کا واقعہ اس کے پرستاروں کو بے چین کر دیتا ہے۔ یہ ایک ایکٹریس کی مختصر سی زندگی کا ایک باب تھا جس کے اختتام کے ساتھ ہی ہندی سینما کا ایک باب بھی بند ہوگیا۔ تقدیر نے نہ جانے کس مصلحت کے تحت اتنی جلدی دیویا بھارتی کی زندگی کے آگے فل اسٹاپ لگا دیا لیکن جیتے جی گھٹن سے دوچار دیویا، مر کر گویا امر ہوگئی ہے۔

دیویا بھارتی کی زندگی اور فلموں پر مکمل ویڈیو رپورٹ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس

اداکار خالد بن شاہین نے صدر پاکستان سے تمغۂ امتیاز وصول کیا

ملک کے پانچوں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں یوم پاکستان کے موقع پر جہاں مختلف شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی کا...

یوم پاکستان کے موقع پر سول اعزازات حاصل کرنے والی شخصیات

ملک کے پانچوں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میںیوم پاکستان کے موقع پر جہاں مختلف شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ...

خلیجی ممالک میں ہندوستانی پروپیگنڈہ فلموں پر پابندی، آرٹیکل 370 بھی ریلیز نہ ہوسکی

خلیجی ممالک نے مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف ہندوستانی پروپیگنڈے کو رد کردیا۔ خلیجی ممالک میں بولی وڈ فلمیں مسلسل پابندیوں...
- Advertisment -

مقبول ترین

اداکار خالد بن شاہین نے صدر پاکستان سے تمغۂ امتیاز وصول کیا

ملک کے پانچوں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں یوم پاکستان کے موقع پر جہاں مختلف شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی کا...

یوم پاکستان کے موقع پر سول اعزازات حاصل کرنے والی شخصیات

ملک کے پانچوں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میںیوم پاکستان کے موقع پر جہاں مختلف شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ...

خلیجی ممالک میں ہندوستانی پروپیگنڈہ فلموں پر پابندی، آرٹیکل 370 بھی ریلیز نہ ہوسکی

خلیجی ممالک نے مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف ہندوستانی پروپیگنڈے کو رد کردیا۔ خلیجی ممالک میں بولی وڈ فلمیں مسلسل پابندیوں...

پنکج اُدھاس اپنے مداحوں کو اُداس کرکے دنیا سے رخصت ہوگئے

تحریر: عنبرین حسیب عنبر پنکج ادھاس سے ہمارا پہلا تعارف ان کا مقبول زمانہ گیت "چٹھی آئی...

ریسینٹ کمنٹس