تحریر: عنبرین حسیب عنبر
پنکج ادھاس سے ہمارا پہلا تعارف ان کا مقبول زمانہ گیت “چٹھی آئی ہے، آئی ہے، چٹھی آئی ہے” بنا۔ وہ عجیب زمانہ تھا ہر چیز کی طرح وقت میں بھی بڑی برکت تھی۔ پڑھائی، کھیل کود اور شرارتوں کے بعد بھی ڈھیر سارا وقت بچ جاتا تھا۔ رات کو ہوم ورک اور کھانے کے بعد ہمارا معمول تھا کہ بستر پر لیٹنے کے بعد سرہانے چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر رکھ لیتے، جو ہمیں بے حد عزیز تھا کیوں کہ یہ ہمیں ہمارے بھائی جان نے اپنی پاکٹ منی جوڑ جوڑ کر ہماری سالگرہ پر گفٹ کیا تھا۔ ہم جب گھر میں ہوتے یہ ٹیپ ریکارڈر ہمارے ساتھ ساتھ حرکت میں رہتا کہ جہاں ہم وہاں ٹیپ ریکارڈر اور گانے۔ سونے سے قبل ہم آنکھیں بند کیے گانے، غزلیں سنتے اور آخر میں جگجیت سنگھ کو سنتے سنتے سو جاتے۔ کبھی ان کی جگہ نیرہ نور لے لیتیں مگر زیادہ تر ہم جگجیت کو ہی سننا پسند کرتے۔ ہمیں جگجیت کی آواز بہت پسند تھی۔ ملائم آوازیں، ملائم رویے ہمارے لیے ہمیشہ پرکشش رہے ہیں جب کہ کھردری آوازیں اور رویے ہمیں سخت ناپسند ہیں۔ ہمیں جگجیت سے ملائم آواز انڈیا میں کسی کی نہیں لگی جب کہ پاکستان میں اخلاق احمد، غلام عباس اور جنید جمشید کی آواز میں ہمیں مٹھاس اور ملائمت محسوس ہوتی تھی۔
ایسے میں اچانک پنکج ادھاس کی آواز نے ہمارے پسندیدہ گلوکاروں کی لسٹ میں جگہ بنا لی۔ بھائی جان سے فرمائش کر کر کے پنکج کے کیسٹ منگوائے جانے لگے مگر رات سونے سے پہلے ہم جگجیت ہی سنتے۔
پنکج کا “چٹھی آئی ہے” سنتے سنتے ہم اکثر رو پڑتے اور جب “نام” فلم دیکھ لی تو اور رونا آنے لگا۔ اس فلم میں جب کمار گوروو سنجے دت کو بھگانے کے لیے آوازیں لگا رہا تھا تو بے ساختہ ہم سب بھی چیخ پڑے تھے کہ کاش وہ بھاگ جائے اور بچ جائے۔ اس زمانے میں سب مل کر کسی کو مارنے کی نہیں بچانے کی خواہش کیا کرتے تھے۔
اس تعارف کے بعد پنکج ادھاس کی یکے بعد دیگرے کئی غزلوں، گیتوں نے ہمیں متاثر کیا جن میں “چاندی جیسا رنگ ہے تیرا، سونے جیسے بال” ہمیں بہت پسند تھا حالاں کہ ہم گاتے ہوئے ہمیشہ الٹ گا دیتے تھے اور گاتے کہ “سونے جیسا رنگ ہے تیرا چاندی جیسے بال” اس حماقت پر ہم اور سننے والے سبھی ہنس پڑتے حالاں کہ اب سوچتے ہیں کہ کیا سونے جیسے رنگ اور چاندی جیسے بال والی دھنوان نہیں ہو سکتی؟ یہ تفریق چھوٹی سوچ کو ظاہر کرتی ہے ورنہ وہ دھنوان ہے جس کا دل سونے کا ہو بس۔
اس وقت ایک بڑا لطیفہ بھی ہوا کہ ہمارے بھائی جان ایک کوچنگ سینٹر میں پڑھاتے تھے، وہاں امتحانات کے قریب ہمیں آفر ہوئی کہ ہم کرش گروپ کو اردو پڑھا دیں سو ہم پہنچ گئے۔ اس وقت ہم خود آٹھویں جماعت میں تھے اور دسویں جماعت کو اردو پڑھاتے تھے۔ امتحانات کے بعد ایک ورائٹی شو کا پروگرام بنا۔ خوب جوش و خروش، ریہرسلز چل رہی تھیں کہ اس زمانے میں شاید ہر شخص گلوکار ہوتا تھا سب بے دھڑک جیتے تھے، خیر ایک صاحب آئے اور کہا میں “کل پنکج ادھاس کی کیسٹ سن رہا تھا کہ کوئی گانا سلیکٹ کر لوں ارے بھئی ایک گانا اس نے کتنا عجیب گایا ہے۔” ہم سب نے حیرت سے پوچھا”کون سا؟” موصوف گویا ہوئے، ” اے غم زندگی کچھ تو دے مشورہ۔۔۔اک طرف اس کا گھر اک طرف میں گدھا”… بس پھر جو قہقہوں کا سیلاب آیا تو پوچھیے مت اور پھر کافی عرصہ انھیں سب “تو گدھا ” کہہ کر پکارتے رہے۔ اس زمانے میں بُلنگ کس چڑیا کا نام ہے کوئی نہیں جانتا تھا۔ اچھا وقت تھا لہجوں اور رویوں میں شدت پسندی نہیں آئی تھی۔
پنکج ادھاس کا ایک اور گیت دل میں گھر کر گیا تھا, “اور آہستہ کیجیے باتیں، دھڑکنیں کوئی سن رہا ہوگا” ہم دسویں بار ایک ہی وقت میں یہ گیت سنتے مگر طبیعت سیر نہ ہوتی۔ آج وہ دھڑکن خاموش ہو گئی۔ جگجیت پہلے ہی جا چکے اور اب پنکج بھی چلے گئے۔ اس بلند آہنگ اور منتشر دور میں نرم آوازیں، نرم رویے پنپ بھی نہیں سکتے۔ سب جھلس رہا ہے، دھوپ کی تمازت بڑھ رہی ہے۔ مسکراہٹیں پگھل کر بہہ کر غائب ہو چکی ہیں اور آنکھوں میں منجمد آنسو پگھل کر گالوں پر بہہ نکلے ہیں۔ ایسی آوازیں دم توڑتی جا رہی ہیں جو ان آنسوؤں کو مسکراہٹوں میں بدل دیں۔ کرخت، رعونت زدہ چہرے ہجوم بنتے جا رہے ہیں، جنونیت اور جہالت چاروں طرف ناچ رہی ہے، اپنا گھیرا تنگ کر رہی ہے اور معصومیت، مسکراہٹ، آزادی ہاتھ جوڑے، منہ چھپائے کھڑی رو رہی ہے۔ اداسی کے موسم میں پنکج ادھاس اس اداسی کو اور گہرا کر گئے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ وہ ہم سب کے پسندیدہ تھے۔ ہمارے درمیاں جو مشترک تھا ختم ہوتا جا رہا ہے۔