Friday, April 19, 2024
پہلا صفحہ تبصرے عشق کی شدّت اور حدّت سے محروم لندن نہیں جاؤں گا، بنا...

عشق کی شدّت اور حدّت سے محروم لندن نہیں جاؤں گا، بنا روح جسم کی مثل ہے

لندن نہیں جاؤں گا، کا ٹریلر دیکھنے کے بعد ہی اس فلم سے وابستہ امیدیں دم توڑ چکی تھیں کہ فلم کا فرسٹ لک ہی وہ تاثر نہ جما پایا جو میں توقع کررہا تھا۔ فلم دیکھنے کے بعد میرا خیال درست ثابت ہوا۔ یہ فلم انتہائی عجلت میں بنائی اور مکمل کی گئی ہے۔ عام طور پر ندیم بیگ اور ہمایوں اپنی کسی بھی پروڈکشن کو مکمل کرنے کے بعد کئی بار اس کا ٹرائل شو رکھتے ہیں اور اس کی خامیاں دور کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس بار انہیں جلدبازی کے باعث یہ موقع نہ مل سکا کہ کووڈ سے پہلے شوٹ کی گئی نصف فلم کا بقایا نصف شوٹ کرنے لندن جانا تھا اور پھر اس کی پوسٹ پروڈکشن کرکے اسے ہر حال میں عید پرریلیز کرنا تھا۔ فلم کا بقایا نصف کام کس قدر عجلت میں فلمایا گیا اور پھر اسے جوڑا گیا، وہ سب اسکرین پر نظر آتا ہے۔

کہانی میں وہ شدت نہیں ہے جو پنجاب نہیں جاؤں گی، میں تھی۔ نہ کرداروں کی بُنت بہتر انداز میں کی گئی ہے۔ فلم کے مکالمے بھی خلیل الرحمان قمر کی اسی ٹیم کے ساتھ پچھلی فلم پنجاب نہیں جاؤں گی، جتنے پراثر نہیں ہیں۔ پنجاب نہیں جاؤں گی، کا ایک مکالمہ ہیلپ می دردانہ، تو زبان زدِ عام ہوا لیکن لندن نہیں جاؤں گا، میں آپ کو ایک بھی ایسا مکالمہ نہیں ملتا جو فلم دیکھنے کے بعد آپ کو یاد رہ جائے۔

لندن نہیں جاؤں گا، کا فرسٹ ہاف قدرے فاسٹ لیکن سیکنڈ ہاف کا ٹیمپو سست روی کا شکار نظر آتا ہے۔ فلم میں ایک بھی ایساگانا نہیں جو آپ کو کہانی سے جوڑے رکھے بلکہ ایک پنجابی گانا ’جان کے توں بلاں تو جان کڈی جانی ایں‘ تو اچانک شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے سچویشن کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ باقی گانوں کا بھی یہی حال ہے۔ گانوں کے بول لبوں پر چڑھتے نہیں اور کہانی کو آگے بڑھانے کی بجائے بریک کردیتے ہیں۔ اس دوران آڈیئنس کو واش روم یا ریفریشمنٹ کے لیے ہال سے باہر جانے کا بہانہ مل جاتا ہے۔ گانے بہرحال فلم کے ٹیمپو کو برباد کرنے کا سبب بنے ہیں۔

اس فلم کے اسکرپٹ کی سب سے بڑی خامی تو یہ ہے کہ فلم ٹرائی اینگل لو اسٹوری ہے۔ ہیرو کے نصیب میں ایک چھوڑ دو، دو ہیروئنیں ہیں۔ ایک (کبریٰ خان) ہیرو(ہمایوں سعید) کی منگیتر ہے اور اسے شدت سے چاہتی ہے۔ دوسری (مہوش حیات) کو خود ہیرو شدت سے چاہنے لگتا ہے۔ بدقسمتی سے نہ ہی ان کرداروں کی محبت میں وہ شدت اور حدت ہے اور نہ سچویشنز اور مکالموں کے ذریعے وہ حدت و شدت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی یا یوں کہہ لیں کہ رائٹر اور ڈائریکٹر پیار اور عشق کی وہ شدت اسکرین پر انڈیلنے میں ناکام رہے جس کے یہ کردار متقاضی تھے۔
اتنا روکھا اور پھیکا عشق تو آج کل کالج اور یونیورسٹیز کے لڑکے بالے بھی نہیں کرتے۔

ایک لڑکی (مہوش) جو اپنی ماں اور مقتول باپ کا انتقام لینے پنجاب آتی ہے اورہیرو کو ماموں (سہیل احمد) کی حویلی خریدنے کا چیلنج دیتی ہے، کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس کے باپ کو قتل کرانے میں اس کا بھی کردار ہے لیکن وہ نہ حویلی خریدتی ہے، نہ انتقام لیتی ہے بلکہ ہیرو کے دل میں پیار کی جوت جگاکر واپس ماں کے پاس لندن بھاگ جاتی ہے، یہ سوچ کرکہ شاید سب کچھ پالیا۔ ہیرو اپنی اسٹیپنی (گوہر رشید) کے ساتھ لندن پہنچ جاتا ہے اور ہیروئن پر اپنی محبت کا رعب ڈالنے کے لیے دیدار یار کی خاطربارش میں بھیگتا رہتا ہے کہ شاید 1980 کی فلموں کی طرح ہیروئن اس پر رحم کھالے لیکن ان سب کے باوجود آڈیئنس کو نہ ہیرو کی حالت زار پر ترس آتا ہے اور نہ ہیروئن کی نفرت پر غصہ۔ کیونکہ دونوں مصنوعی لگ رہے ہیں۔ مسئلہ وہی کہ عشق اور پیار کی شدت اسکرین پر محسوس نہیں کروائی جاسکی۔ مانا کہ ہیرو اوور ایج ہے لیکن ہیروئن بھی کچھ بالی عمر کی نہیں ہے۔ دونوں میچور ہیں۔ چلو ٹین ایجرز والا عشق نہ سہی لیکن پیار تو پھر پیار ہے۔ محبت میں وقار تو دکھایا جاسکتا تھا؟

فلم کی کہانی اپنے آپ میں کنفیوزڈ لگتی ہے۔ ہیرو اپنی حسین منگیتر کو چھوڑکر پہلے سے طے کرکے بیٹھا ہے کہ وہ پاکستانی لڑکی سے شادی نہیں کرے گا۔ کیونکہ آنے والے سینز میں مہوش جو لندن سے آرہی ہے۔
خلیل الرحمان قمر اچھے رائٹرہیں لیکن خطا تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے، وہ اسکرپٹ میں مطلوبہ جذبات نہ انڈیل سکے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ندیم بیگ اسے اچھے انداز میں پیش نہ کرسکے ہوں۔ بہرحال یہ خامیاں اسکرین پلے کے زمرے میں آتی ہیں جس کی وجہ سے یہ فلم ناظر کو پوری طرح جکڑنے میں ناکام رہی۔

اداکاری کی بات کریں تو مہوش حیات اس فلم کی بیک بون ہے۔ مہوش اسکرین پر اچھی لگی۔ کردارمیں پرفارمنس کا جتنا مارجن تھا، وہ مہوش نے ادا کیا۔ ہمایوں سعید کو اس کومپلیکس سے نکلنا ہوگا کہ وہ اوور ایج ہوگیا ہے اور اس عمر کا عشق اچھا نہیں ہوتا۔ ہمایوں سے ذیادہ عمر کے ہیروز بولی وڈ میں ٹین ایج ہیروئنوں کے ساتھ آرہے ہیں اور ہرگز برے نہیں لگتے۔ ہمارا مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ ہمارے اوور ایج ہیروز کے لیے ویسے کردار لکھے نہیں جارہے یا وہ خود بھی اپنے لیے ایسے کردار نہیں لکھواتے جیسا کہ انیل کپور، اجے دیوگن، یا اکشے کمار اپنے لیے لکھواتے ہیں۔ فلم کی سیکنڈ ہیروئن کبریٰ خان کو ضائع کیا گیا۔ صرف چند سینز میں کبریٰ کے پاس کرنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ سہیل احمد روایتی کرداروں سے باہر نکل نہیں پارہے۔ اس کے باوجود وہ اپنے کردار میں اچھے لگے۔

گوہر رشید کو اس فلم میں کیوں لیا گیا اور وہ کیا کرنے کے لیے اس فلم میں موجود ہے؟ یہ سوال ہنوزجواب طلب ہے۔ اتنے اچھے اداکار کو خود بھی سوچنا چاہیے کہ وہ ایک اسٹیپنی کے طور پر کیوں ایسے کردار قبول کرتا ہے۔ فلم میں باقی چھوٹے کرداروں میں بھی بڑے اداکاروں کو ضائع کیا گیا ہے جیسا کہ آصف رضا میر، سلمان شاہد، عفت عمر، سیف حسن، وغیرہ۔ واسع چوہدری نے البتہ بھرتی اور زبردستی کے کردار میں رنگ بھرنے کی کوشش کی۔ صبا حمید نے اپنے کردار سے انصاف کیا۔

فلم کا پروڈکشن ڈیزائن بہت اعلیٰ ہے کیونکہ فلم کا بجٹ بھی اعلیٰ ہے۔ پروڈکشن میں کہیں کوئی کمپرومائز نظر نہیں آتا ۔ دل کھول کر پیسہ خرچ کیا گیا ہے۔ تاہم فلم جلد بازی کی نذر ہوگئی۔
ندیم بیگ بطور ڈائریکٹر پنجاب نہیں جاؤں گی، میں جس قدر اونچائیوں پر نظر آئے تھے، اس بار وہ توقعات پوری نہ کرسکے۔ اس فلم میں بہت کچھ بہتر کرنے کی ضرورت تھی۔ سب سے پہلے تو اسکرپٹ ڈیمانڈ کرتا تھا کہ اس کی سچویشنز، مکالمے اور اسکرین پلے مذید کرسپی کیا جاتا۔ پھر میوزک میں بھی وہ بات محسوس نہیں ہوئی جو کہ اس ٹیم کی پچھلی فلموں کا خاصا ہوا کرتی تھی۔ سب سے آخر میں ڈائریکشن کا شعبہ، جو ظاہر ہے، اچھے اسکرپٹ اور اسکرین پلے سے مشروط ہے۔ ندیم بیگ نے فلم کو سجانے میں تو بہت محنت کی ہے لیکن اس میں وہ روح نہ ڈال سکے، جس کی ایسی کہانیاں متقاضی ہوتی ہے۔
مجموعی طور پر اسے ایک کمرشل مسالہ فلم کا ٹچ دینے کی کوشش کی گئی ہے اور اسی لیے شاید یہ ماسز کو پسند بھی آرہی ہے لیکن ایسی فلمیں صابن کے جھاگ کی طرح ہوتی ہیں جو دیرپا اثر نہیں رکھتیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس

عیدالفطر پر گاڈزیلا ایکس کانگ، اور دغاباز دل، کا شان دار بزنس

عیدالفطر سے پاکستانی سنیماؤں پر کئی مہینوں سے طاری جمود کا خاتمہ تو ہوگیا تاہم عید کے طویل ویک اینڈ کے...

اس عید پر کون سی فلمیں ریلیز ہورہی ہیں؟

پاکستانی سنیما اور فلم انڈسٹری میں شدید بحران کا اندازہ عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد اور معیار سے...

عیدالفطر پر پشتو فلموں کا راج، ریجنل سنیما، اُردو فلموں پر بازی لے گیا

پاکستانی سنیما اور فلم انڈسٹری میں شدید بحران کا اندازہ عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد اور معیار سے...
- Advertisment -

مقبول ترین

عیدالفطر پر گاڈزیلا ایکس کانگ، اور دغاباز دل، کا شان دار بزنس

عیدالفطر سے پاکستانی سنیماؤں پر کئی مہینوں سے طاری جمود کا خاتمہ تو ہوگیا تاہم عید کے طویل ویک اینڈ کے...

اس عید پر کون سی فلمیں ریلیز ہورہی ہیں؟

پاکستانی سنیما اور فلم انڈسٹری میں شدید بحران کا اندازہ عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد اور معیار سے...

عیدالفطر پر پشتو فلموں کا راج، ریجنل سنیما، اُردو فلموں پر بازی لے گیا

پاکستانی سنیما اور فلم انڈسٹری میں شدید بحران کا اندازہ عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد اور معیار سے...

ڈاکٹر خالد بن شاہین کی حجازِ مقدس میں پزیرائی

سینئر اداکار، پروڈیوسر اور چیئرمین سینسر بورڈ سندھ خالد بن شاہین ان دنوں اعتکاف عمرہ کی ادائیگی کے سلسلے میں حجاز...

ریسینٹ کمنٹس