جون، کہانی ہے کراچی کے ایک کرسچن لڑکے کی، جس کا تعلق ایک ایسی غریب فیملی سے ہے جنہیں ہمارے سماج میں ’چوڑا‘، ’مسلی‘، ’یا جمعدار‘ کہا جاتا ہے۔ جون (عاشر وجاہت) ایک اسکول میں خاکروب کی ملازمت کرتا ہے جہاں ایک لڑکی ماریہ (رومیسہ خان) سے اسے پیار ہوجاتا ہے۔ ایک روز اسکول پرنسپل کی جانب سے گٹر صاف کرنے کے حکم پر جون فیصلہ کرتا ہے کہ وہ یہ ملازمت چھوڑ دے گا۔ اسی دوران ایک حادثے میں جون کی ماں دنیا سے چلی جاتی ہے اور اسے گھر میں اکیلے ماں کی یاد ستاتی ہے تو وہ اپنے ایک ہمدرد محلے دار داؤد بھائی (سلیم معراج) سے کہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں جون، داؤد بھائی کے ساتھی فضل (رضا سموں) کی موت کےئ بعد داؤد کا سیدھا بازو بن جاتا ہے اور اس کے جرائم میں معاونت کرتا ہے۔ داؤد بھائی اس کی اور ماریہ کی شادی کے حق میں نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد جون ان کے کسی کام کا نہیں رہے گا۔ داؤد بھائی کا خدشہ درست ثابت ہوتا ہے اور شادی کے کچھ ہی عرصے بعد ماریہ جب جون کے سامان میں رکھا پسٹل دیکھ کر طیش میں جون کا گھر چھوڑ کر میکے آجاتی ہے تو جون کی زندگی بدل کر رہ جاتی ہے۔ وہ داؤد بھائی سے جرم کی دنیا چھوڑکر نارمل لائف جینے کی خواہش ظاہر کرتا ہے لیکن داؤد اسے اس کی اجازت نہیں دیتا۔

فلم کے کلائمکس میں گینگ لیڈر، داؤد بھائی کو جون، کو مارنے کے لیے اس کے گھر بھیجتا ہے لیکن داؤد بھائی، جون کی بجائے گینگ لیڈر کو گولی مارکرجون کی زندگی بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس ساری صورت حال سے لاعلم جون، داؤد کے ہاتھ میں گن دیکھ کر اس پر گولی چلادیتا ہے۔
فلم کے رائٹر اور ڈائریکٹر بابر علی ہیں جو اس سے قبل پنکی میم صاحب، لکھ چکے ہیں جبکہ بطور ڈائریکٹر جون، ان کی پہلی فلم ہے۔

یہ فلم دیکھتے ہوئے شدت سے بولی وڈ کرائم ڈرامہ ’سلیم لنگڑے پہ مت رو‘ (ڈائریکٹر: سعید اختر مرزا) یاد آتی ہے۔ 1989 کی اس ریلیز نے بولی وڈ میں کرائم تھرلرز کو ایک نیا موڑ دیا۔ اسی ڈائریکٹر کی البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے، اور موہن جوشی حاضر ہو، بھی مووی بفس کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ اسی مزاج کا سنیما رام گوپال ورما نے بھی تخلیق کیا لیکن انہیں کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ وہ یہ ٹائپ اختیار کرنے کے باوجود کمرشل سنیما کے کامیاب ڈائریکٹر قرار پائے جبکہ عام طور پر ڈارک سنیما کے نام پر ہمارے فلم میکرز کمرشل سنیما کے تقاضوں کو نظر انداز کرجاتے ہیں۔
جون، پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی کرائم ڈرامہ مووی ہے جو اس حد تک مکمل ہے کہ ہم اس کا موازنہ سلیم لنگڑے پہ مت رو، جیسی کلاسی فلموں کے ساتھ کررہے ہیں لیکن پاکستانی فلموں سے جڑے چند دیرینہ المیے اس فلم کو آل ٹائم فیورٹ فلموں میں جگہ دلانے سے روکتے ہیں۔ کمرشل سنیما والے تمام فارمولے یکجا کرنے کے باوجود جون، کو کمرشل فلم نہیں مانا جاسکتا۔
سب سے پہلے جون، کے مثبت پہلوؤں کا ذکر ہوجائے۔
فلم کا اسکرین پلے کافی مضبوط اور آڈیئنس کو اپنی نشستوں سے باندھے رکھنے والا ہے۔ کہانی کی بنت بھی بہت عمدہ ہے۔ کرداروں کا ذیادہ پھیلاوا نہیںہے۔ چند گنے چنے سپورٹنگ کرداروں کے علاوہ پوری فلم محض تین ایکٹرز عاشر، سلیم معراج اور رومیسہ کے گرد گھومتی ہے۔ فلم کے رائٹر کو مضبوط کہانی کے ساتھ پرفیکٹ کیریکٹرائزیشن کا بھی کریڈٹ دیناہوگا۔ ہر کردار کا ایٹی ٹیوڈ، بزنس، ڈائیلاگز، سچویشنز، سبھی اپ ٹو دا مارک ہیں۔

ایکٹنگ کی بات کی جائے تو یہ فلم سلیم معراج لے اُڑے ہیں۔ ان کا کردار زبردستی کا سپورٹنگ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ داؤد ہی فلم کا مرکزی کردار ہے۔ عاشر کا کردارنمایاں ہونے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ داؤد بھائی کے بغیر وہ کچھ نہیں۔ اس تناظر میں فلم کا نام بھی ’داؤد‘ ہونا چاہیے تھا کیونکہ کلائمکس میں لوگوں کو صرف داؤد بھائی یاد رہ جاتا ہے۔ جون، کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔

سلیم معراج کے بعد رومیسہ خان نے حیران کن پرفارمنس دی ہے۔ خصوصاً رومیسہ کی ڈائیلاگ ڈلیوری نے اس کردار کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مخصوص ٹون میں مکالموں کی ادائیگی اور پھر اس کو طویل عرصے برقرار رکھنا کافی مشکل ٹاسک تھا کیونکہ یہ فلم مکمل ہونے میں دو سال لگ گئے۔ جون، میں وہ لالو کھیت یا اورنگی ٹاؤن کی ماریہ کے کردار میں پوری طرح ڈھلی نظر آئی۔

عاشروجاہت کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ ڈائریکٹروجاہت رؤف کا بیٹا ہے۔ اس نے ماڈلنگ سے لے کر گلوکاری تک سبھی شعبوں میں اپنے ٹیلنٹ کو آزمایا ہے۔ ایکٹنگ رہ گئی تھی، سو یہاں بھی عاشر نے اپنی طرف سے اچھا کرنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن وہ اس میںپوری طرح کامیاب نہیں رہا۔ صرف ڈارک میک اپ اور گیٹ اپ کے سہارے آپ کسی کردار میں نہیں ڈھل سکتے جب تک اس میں ایکٹنگ کا تڑکا نہ لگائیں۔ ایک آدھ سین میں عاشر نے متاثر ضرور کیا ہے لیکن مجموعی طور پر اس کا چہرہ تاثرات سے عاری اور سپاٹ نظر آیا۔ ان مناظر میں بھی جہاں اسے بھرپور ایکسپریشنز دکھانے کا موقع ملا،عاشر کے چہرے پرکوئی جنبش محسوس نہیں ہوتی۔ مثلاً جب بیوی اسے چھوڑ کر جارہی ہوتی ہے، یا وہ پہلی بار پسٹل سے نشانہ لیتا ہے۔ حتیٰ کہ فلم کے کلائمکس میں جب وہ داؤد بھائی پر گولی چلاتا ہے، تب بھی اس کے چہرے پر سرد مہری نظر آتی ہے۔ اب اس کا جواز ڈائریکٹر کے پاس یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جون، کا کردار فطری طور پر ایسا ہے۔ ایکسپریشنز لیس۔ تو پھر باقی مناظر میں وہ کہیں جذباتی اور کہیں سرد مہری دکھاتا کیوں نظر آیا؟
حتمی فیصلہ بہرحال آڈیئنس نے کرنا ہے۔
فلم کا ساؤنڈ ڈیزائن، بیک گراؤنڈ میوزک، سونگز، سنیما ٹوگرافی، ایڈیٹنگ، آرٹ ڈیزائن، ان سبھی شعبوں میں ڈائریکٹر کی دسترس اور گرفت نظر آتی ہے۔
اور اب آتے ہیں فلم کی خامیوں کی طرف۔
سب سے پہلے تو فلم کے ٹائٹل رول میں عاشر کا انتخاب کیوں اور کس میرٹ پر کیا گیا، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک ایسی فلم جو لوگوں کو مدتوں یاد رہ سکتی تھی اور جس میں سلیم لنگڑے پہ مت رو، جیسا اسپارک موجود تھا، اس کے مرکزی کردار میں احمد علی اکبر یا اس کلاس کے کسی اور ایکٹر کو کیوں کاسٹ نہیں کیا گیا، جو اس فلم کی کمرشل ویلیو کو بھی بڑھاوا دے سکتا تھا۔ دوسری جانب اس فلم کے دو اہم سپورٹنگ کرداروں (سلیم معراج کا کرائم پارٹنر فضل اور گینگسٹرباس) کو فلم کی پروموشن میں ہائی لائٹ نہیں کیا گیا۔











سب سے اہم بات، جس کا فلم کے تبصرے سے قطعی تعلق نہیں۔ جون، کی پروموشن اورمارکیٹنگ اس قدر غریبانہ ہے کہ جس کا نتیجہ ہم نے آج پہلے روز فلم کو ملنے والے شوز کی صورت دیکھ لیا ہے۔ جب آپ ایک فلم پر لاکھوں یا کروڑوں روپے لگادیتے ہیں تو ریلیز کے وقت پروڈیوسریہ کیوں بھول جاتا ہے کہ جب ٹام کروز کی مشن امپوسیبل، اور شاہ رخ کی جوان، کو مارکیٹنگ اور پروموشن کی ضرورت ہوسکتی ہے تو آپ کے پاس اس ڈپارٹمنٹ کا بجٹ کیوں نہیں؟
فلم کا میڈیا پارٹنر ہم ٹی وی ہے لیکن اس فلم کے بارے میں ریگولر مووی بفس تک کو نہیں معلوم کہ اس نام کی کوئی فلم آرہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت ہم ٹی وی کے یوٹیوب چینل پر موجو دفلم کا ٹریلر ہے جو آج فلم کی ریلیز کے دن تک صرف 34 ہزار لوگوں نے دیکھا ہے جبکہ اس ٹریلر کو یوٹیوب پر اپلوڈ ہوئے دس روز گزرچکے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس نیوز کے بعد ہم ٹی وی کے آفیشلز اسے بوسٹ کرکے لاکھوں تک لے جائیں۔
بہرحال مجھے لگتا ہے کہ جون، ایک اچھی اور معیاری فلم ہونے کے باوجود اپنی معمولی خامیوں کی وجہ سے باکس آفس پر بڑی کامیابی سے محروم رہے گی۔