Tuesday, June 24, 2025
پہلا صفحہتبصرےپاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی ہٹ فلم زرقا

پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی ہٹ فلم زرقا

پاکستانی سلور سکرین کی معروف اداکارہ نیلو بیگم آج کے سپر اسٹار شان شاہد کی والدہ اور اپنے زمانے کے معروف ہدایت کار ریاض شاہد کی اہلیہ تھیں۔ نیلو 1940 میں سرگودھا کی تحصیل بھیرا میں پیدا ہوئیں۔ نیلو بیگم کا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے تھا اور ان کا اصل نام پروین الیگزینڈر تھا۔ انہیں فلمی دنیا میں نیلو بیگم کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 16 سال کی عمرمیں لاہور میں فلمائی جانے والی ہالی وڈ فلم ’بھوانی جنکشن‘ سے انہوں نے فلمی سفر کا آغازکیا۔ انہوں نے ایک کے بعد ایک کامیاب فلم دی اور پھر ان کا وجود پاکستانی فلموں کے لیے ناگزیر ہو گیا۔ نیلو بیگم پر کئی مشہور گانے فلمائے گئے جن میں فلم سات لاکھ کا گانا ’آئے موسم رنگیلے سہانے‘ اور فلم عذرا، کا ’کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے‘ نمایاں ہیں۔ نیلوبیگم نے متعدد فلموں میں کام کیا جن میں دوشیزہ، ناگن، ڈاچی، عذرا، جی دار، شیر دی بچی، آخری نشان، چنگیز خان، کوئل، سہرا ، اوربلندی، نمایاں ہیں۔

نیلوبیگم نے ہدایت کار ریاض شاہد سے شادی کے وقت اسلام قبول کیا اور ان کا نام پروین سے تبدیل کر کے عابدہ رکھا گیا۔ساٹھ کی دہائی میں جب نیلو بیگم شہرت کی بلندیوں پر تھیں تو مغربی پاکستان میں اس وقت کے گورنر نے شاہ ایران کے دورہ پاکستان کے دوران نیلو بیگم کو ان کے سامنے رقص کرنے کے لیے کہا لیکن نیلو بیگم نے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں انہیں ہراساں کیا گیا۔ اس جرات پر ریاض شاہد نے نیلو سے شادی کر لی تھی جب کہ معروف شاعر حبیب جالب نے نیلو کے عنوان سے ایک نظم لکھی ’تو کہ ناواقف آداب شہنشاہی تھی، رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔‘ اس نظم کو بعد میں فلم زرقا، میں نیلو بیگم پرفلمایا گیا۔ یہ فلم فلسطین کے موضوع پر بنائی گئی تھی، اس لیے جالب کی اس نظم کے مصرعوں کو تبدیل کر کے ’تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے، مگر رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘ کر دیا گیا۔ اس فلم نے باکس آفس پر نمائش کے 100 ہفتے پورے کیے۔ یوں زرقا، پاکستان کی پہلی ڈائمنڈجوبلی فلم قرار پائی۔ اس فلم کے بعد جب نیلو اور ریاض شاہد کی بیٹی پیدا ہوئی تو اس کا نام بھی انہوں نے زرقا، رکھا۔
زرقا،کے ہدایت کار ریاض شاہد مرحوم تھے۔ ”زرقا“ سے قبل” شہید“ میں انہوں نے عربوں کے تیل کے ذخائر پر انگریزوں کے قبضہ کو موضوع بنایا ۔”سسرال “ ، ” زرقا “ ، ”یہ امن “ اور ” غرناطہ “ چار ایسے شاہکار انہوں پیش کیے جو اپنی مثال آپ ہیں ۔ ”زرقا“ میں ریاض شاہد نے مسئلہ فلسطین پر قلم اٹھایا۔

OLYMPUS DIGITAL CAMERA

فلم کا آغا ز ایک فلسطینی مجاہد حسن (یوسف خان) کی تقریر سے ہوتا ہے جس کے سامنے ایک اندھا فلسطینی مجاہد شعبان لطفی (علاﺅالدین) موجود ہے ۔ نوجوان اپنے ساتھیوں سے شعبان لطفی کے عزم و ہمت اور آزادی فلسطین کے لیے دی گئی قربانیوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس موقع پر شعبان لطفی اپنی داستان کا آغاز کرتا ہے اور کہانی فلیش بیک میں چلی جاتی ہے۔ اسکرین پر ایک نقشہ جلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ایک فلسطینی سردار خالد (فضل حق) اپنی بیوی ( بیگم عارف) سے محو گفتگو ہے اور اسرائیلی فوج کی جارحیت پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ خالد کی بیٹی زرقا (نیلو) اپنے والد کی گفتگو پر اس قدر توجہ نہیں دیتی، اسے بس عمار (اعجاز) کا خیال ہے جو اس سے محبت کرتا ہے اور اس کا منگیتر ہے۔ خالد، زرقا سے عمار کے بارے میں دریافت کرتا ہے ۔ جس پر وہ کہتی ہے کہ عمار بیت المقدس گیا تھا آج واپس آرہا ہے۔

اسی اثناءمیں عمار کی پکار اس کے کانوں میں ٹکراتی ہے۔ وہ والہانہ انداز میں باہر کی جانب دوڑ پرتی ہے۔ عمار اور زرقا ملتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کا میجر ڈیوڈ ( طالش ) ان کے گاﺅں پہنچ جاتا ہے۔ اپنے ایک یہودی فوجی کے قاتل کے بارے میں زرقا کے والد خالد سے جواب طلب کرتا ہے۔ خالد کے انکار پر وہ اسے قتل کردیتا ہے۔ خالد کی بیوی اپنے کم سن بیٹے حسن کو لے کر وہاں سے چلی جاتی ہے جبکہ عمار، زرقا کو اپنے ساتھ لے کر چلا جاتا ہے۔

خالد کے قتل کے بعد زرقا اپنے باپ کے مشن کی تکمیل کے لیے تحریک آزادی میں شامل ہوجاتی ہے۔ اس تحریک کا سربراہ شعبان لطفی ہے۔ اس کی تنظیم کا نام ”العاصفہ“ ہے۔ شعبان لطفی کی تحریک میں شامل افراد کی سرگرمیوں کا محور علاقہ کا قہوہ خانہ ہے جہاں فلسطینی نوجوان آتے ہیں جنہیں رقص و سرور کی محفل میں فلسطین کی آزادی کی تحریک میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ یہودی میجر ڈیوڈ کو جب مخبر کے ذریعے العاصفہ تحریک کی اس سرگرمی کا علم ہوتا ہے تو وہ قہوہ خانہ کی رقاصہ کو گرفتار کرلیتا ہے۔ قہوہ خانہ بند ہوجاتا ہے ۔ شعبان لطفی زرقا کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ رقاصہ کے طور پر اپنا فرض ادا کرے۔ ابتداءمیں زرقا انکار کرتی ہے بعدازاں عمار کے اصرار اور سمجھانے پر وہ قہوہ خانہ میں رقص کرنے لگ جاتی ہے۔

ادھر یہودی میجر ڈیوڈ کی بیوی انجلا ( ناصرہ) اپنے شوہر کو بتاتی ہے کہ العاصفہ تحریک میں ایک لڑکی شامل ہوئی ہے جو تحریک کو آگے بڑھار ہی ہے۔ میجر ڈیوڈ اپنے کیپٹن (انور مرزا) کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کے خلاف کاررروائی کرے ۔ کیپٹن بھیس بدل کر شعبان لطفی کے گروہ میں شامل ہوجاتا ہے اور ایک کارروائی میں زرقا ، شعبان لطفی ، عمار اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرادیتا ہے لیکن گرفتاری سے قبل شعبان لطفی پر یہودی کیپٹن کا راز فاش ہوجاتا ہے اور وہ اس کو قید میں ڈال دیتا ہے۔ شعبان لطفی کو چہرے سے کوئی نہیں جانتا ۔ اس لیے تمام گرفتار ہونے والے خود کو شعبان لطفی ظاہرکرتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کا جذبہ دیکھتے ہوئے شعبان لطفی اقرارکرتا ہے کہ یہ سب جھوٹ بولتے ہیں، میں ہی شعبان لطفی ہوں ۔

شعبان لطفی کا ایک دوست ثنائی جو چور ہے اس سے ملنے آتا ہے تو اڈے پر کوئی نہیں ملتا۔ قید خانہ میں کیپٹن اسے ملتا ہے ۔ جس کے ذریعے تمام کہانی اسے معلوم ہوتی ہے تو وہ شعبان لطفی کو آزاد کرانے کے لیے کیپٹن سے رہائی کا سودا کرتا ہے اور بالاخر ایک کارروائی کے ذریعے شعبان لطفی کو آزاد کرکے لے جاتا ہے۔ تاہم زرقا، ان کی قید میں ہی ہوتی ہے ۔میجر ڈیوڈ طیش میں آکر زرقا پر ظلم کرتا ہے اور اسے رقص کرنے پر مجبور کردیتا ہے ۔زرقا کے سامنے اس کی ضعیف والدہ کو بھی قتل کردیا جاتا ہے ۔ میجر ڈیوڈ زرقا سے راز اگلوانے کے لیے اپنی بیوی انجلا کو ذمہ داری سونپتاہے۔
انجلا،زرقا سے ملاقات کرتی ہے۔ زرقا کی باتوں سے اس کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے اور وہ اپنے کپڑے زرقا کو پہناکر وہاں سے فرار کرادیتی ہے۔ کیپٹن نشے میں دھت وہاں پہنچتا ہے اور انجلا کی عزت زرقا سمجھ کر لوٹ لیتا ہے ۔ میجر ڈیوڈ کو جب اس حقیقت کا علم ہوتا ہے تو اپنے کیپٹن کو گولی ماردیتا ہے۔ شعبان لطفی، زرقا، عمار، ثنائی اور دیگر یہودی فوج کے ہیڈکوارٹر کو تباہ کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ وہ ہیڈکوارٹر کو تباہ کرنے کے لیے نکلتے ہیں تو شعبان لطفی ایک بار پھر گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن عمار اور زرقا بچ نکلتے ہیں۔

اس معرکہ میں ثنائی اور عمار مارے جاتے ہیں جبکہ میجر ڈیوڈ شعبان لطفی کی آنکھیں ضائع کردیتا ہے ۔ زرقا یہودی ہیڈکوارٹر کو خودکش حملہ کرکے تباہ کردیتی ہے۔ شعبان لطفی اندھا ہوکر کم سن حسن کے ساتھ فلسطین کی آزادی کا گیت گاتا ہے اور اس یقین کا اظہار کرتا ہے کہ فلسطین کی آزادی کے لیے قربانیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
جہاں اس فلم کی کہانی منفرد اور مکالمے انتہائی اثر انگیز تھے وہیں اس کا شعبہ موسیقی بھی قابل تعریف ہے۔
فلم میں چھے گیت ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ مہدی حسن ، منیر حسین ، نسیم بیگم اور مالا نے ان گیتوں کو اپنی عمدہ گائیکی سے امرکردیا۔
مرکزی کردار میں نیلو اپنے فنی کیریئر کی سب سے بڑی پرفارمینس کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

جس زمانے میں ” زرقا “ بنی، اس وقت زیادہ تر فلمیں بلیک اینڈ وائٹ بناکرتی تھیں لیکن یہ فلم کلر نیگیٹیوپر فلم بند کی گئی۔ریاض شاہد کے اثر انگیز مکالمے آج بھی لوگوں کو ازبر ہیں جبکہ بحیثیت ہدایتکار وہ فن کی بلندیوں پر دکھائی دیتے ہیں۔

زرقا، کی نمائش 17 اکتوبر 1969 کو ہوئی۔ کراچی میں کوہ نور سنیما پر اس فلم کی نمائش ہوئی تو عوام نے اس فلم کا فقید المثال استقبال کیا۔ زرقا، نے 101 کمبائنڈ ہفتے مکمل کرتے ہوئے پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔ اس سے قبل تک پاکستانی فلموں کی کامیابی کا دائرہ کارجی دار ، ارمان،چکوری، کی شکل میں صرف پلاٹینم جوبلی (یعنی 75ہفتے) تک محدود تھا ۔ ”زرقا“ کی کامیابی سے پاکستانی سنیما کو شائقین کا اعتماد ملا۔ نیلو کی زرقا، بلاشبہ پاکستان فلم انڈسٹری کا فخر ہے ۔

نیوز ڈیسک

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس