Monday, March 10, 2025
پہلا صفحہتبصرےفلسطین پر اسرائیلی قبضے اور نہتے مسلمانوں کی جدوجہد کی عکاسی کرتی...

فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور نہتے مسلمانوں کی جدوجہد کی عکاسی کرتی فلم زرقا، کو لوگ آج بھی نہیں بھولے

فلسطین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ اور اس کے خلاف جاری جدوجہد 1948 سے بین الاقوامی حالات و واقعات میں تبدیلی کا سبب بنتا آرہا ہے ۔ اسرائیل کی ناجائز حمایت دنیا بھر میں امریکہ کی مخالفت میں اضافہ کا سبب بنتی آئی ہے۔ آج سے 42 سال قبل پاکستان فلم انڈسٹری میں ریاض شاہد مرحوم نے اس مسئلہ کے پس منظر میں ”زرقا“ کے نام سے فلم بنائی اور دنیا کے سامنے موثر انداز میں نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیلی افواج کے مظالم کو پیش کرکے اپنا فریضہ ادا کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ”زرقا “ یوں بھی واحد فلم قرار پاتی ہے کہ شائقین فلم نے کبھی تاریخی موضوعات پر بننے والی فلموں کو اس قدر پذیرائی نہیں بخشی جو کامیابی و پذیرائی ”زرقا “ کے حصے میں آئی ۔ یہی وجہ تھی کہ ”زرقا “ کی فقید المثال کامیابی کے بعد اس موضوع پر کئی اور فلمیں بھی بنیں۔

مرکزی خیال
فلم زرقا کے ہدایت کار ریاض شاہد مرحوم تھے۔ جن کا تعارف ان افراد کے لئے نیا نہیں جو پاکستان فلم انڈسٹری سے دس فیصد بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر صحافی تھے اور معاشرتی برائیوں پر مکمل نظر رکھتے تھے۔ اسی لئے بحیثیت منصف ان کی فلموں میں ہمیں ایسے موضوعات ملتے ہیں جن میں ان برائیوں کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ جبکہ بین الاقوامی و تاریخی واقعات کو بھی انہوں نے اپنی فلمی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ جن میں ”زرقا“ سے قبل ”شہید“ میں انہوں نے عربوں کے تیل کے ذخائر پر انگریزوں کے قبضہ کو موضوع بنایا۔ ”زرقا“ میں ریاض شاہد نے مسئلہ فلسطین کو موضوع بنایا۔ جب انہوں نے بحیثیت ہدایت کار اپنے فنی کیریئر کی شروعات کی تو ”سسرال“ ، ”زرقا“ ، ”یہ امن“ اور ”غرناطہ“ چار ایسے شاہکار پیش کئے جو وقت سے آگے کی فلمیں ثابت ہوئیں۔

فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والی نیلو، ریاض شاہد کی بیگم اور اداکار شان کی والدہ تھیں۔

فلم کا آغاز ایک فلسطینی مجاہد حسن (یوسف خان) کی تقریر سے ہوتا ہے جس کے سامنے ایک اندھا فلسطینی مجاہد شعبان لطفی (علاﺅالدین) موجود ہے۔ نوجوان اپنے ساتھیوں سے شعبان لطفی کے عزم و ہمت اور آزادی فلسطین کے لیے دی گئی قربانیوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس موقع پر شعبان لطفی اپنی داستان کا آغاز کرتا ہے اور کہانی فلش بیک میں چلی جاتی ہے۔ اسکرین پر ایک نقشہ جلتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور کیمرہ روشن دان کو نمایاں کرتا ہوا ایک کمرے میں پھیل جاتا ہے جہاں ایک فلسطینی سردار خالد (فضل حق) اپنی بیوی (بیگم عارف) سے محو گفتگو ہے اور اسرائیلی فوج کی جارحیت پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ خالد کی بیٹی زرقا (نیلو) منظر میں دکھائی دیتی ہے۔ جو اپنے والد کی گفتگو پر اس قدر توجہ نہیں دیتی اسے بس عمار (اعجاز) کا خیال ہے جو اس سے محبت کرتا ہے اور اسکا منگیتر ہے ۔ خالد زرقا سے عمار کے بارے میں دریافت کرتا ہے۔ جس پر وہ کہتی ہے کہ عمار بیت المقدس گیا تھا۔ آج واپس آرہا ہے۔ اسی اثنا میں عمار کی پکار اس کے کانوں میں ٹکراتی ہے۔ وہ والہانہ انداز میں باہر کی جانب دوڑ پرتی ہے۔ عمار اور زرقا ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے عہد وپیماں کئے جارہے تھے کہ اسرائیلی فوج کا میجر ڈیوڈ (طالش) ان کے گاﺅں پہنچ جاتا ہے۔ اپنے ایک یہودی فوجی کے قاتل کے بارے میں زرقا کے والد خالد سے جواب طلب کرتا ہے۔ خالد کے انکار پر وہ اسے قتل کردیتا ہے۔ خالد کی بیوی اپنے کم سن بیٹے حسن کو لے کر وہاں سے چلی جاتی ہے جبکہ عمار زرقا کو اپنے ساتھ لے کر چلا جاتا ہے۔ خالد کے قتل کے بعد زرقا اپنے باپ کے مشن کی تکمیل کے لئے تحریک آزادی فلسطین میں شامل ہوجاتی ہے۔ اس تحریک کا سربراہ شعبان لطفی ہے۔ اس کی تنظیم کا نام ”العاصفہ“ ہے۔ شعبان لطفی کی تحریک میں شامل افراد کی سرگرمیوں کا محور علاقہ کا قہوہ خانہ ہے جہاں فلسطینی نوجوان آتے ہیں، جنہیں رقص و سرور کی محفل میں فلسطین کی آزادی کی تحریک میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ شعبان لطفی کے اس طریقہ کار سے بڑا فائدہ ہوتا ہے اور کئی نوجوان تحریک میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہودی میجر ڈیوڈ کو جب مخبر کے ذریعے العاصفہ تحریک کی اس سرگرمی کا علم ہوتا ہے تو وہ قہوہ خانہ کی رقاصہ کو گرفتار کرلیتا ہے۔ یوں یہ قہوہ خانہ بند ہوجاتا ہے۔ شعبان لطفی زرقا کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ رقاصہ کے طور پر اپنا فرض ادا کرے۔ ابتدا میں زرقا انکار کرتی ہے بعدازاں عمار کے اصرار اور سمجھانے پر وہ قہوہ خانہ میں رقص کرنے لگ جاتی ہے۔ ادھر یہودی میجر ڈیوڈ کی بیوی انجلا (ناصرہ) اپنے شوہر کو بتاتی ہے کہ العاصفہ تحریک میں ایک لڑکی شامل ہوئی ہے جو تحریک کو آگے بڑھار ہی ہے۔ میجر ڈیوڈ اپنے کپیٹن (انور مرزا) کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کے خلاف کاروائی کرے۔ کپیٹن بھیس بدل کر شعبان لطفی کے گروہ میں شامل ہوجاتا ہے اور ایک کارروائی میں زرقا، شعبان لطفی، عمار اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرادیتا ہے لیکن گرفتاری سے قبل شعبان لطفی پر یہودی کیپٹن کا راز فاش ہوجاتا ہے اور وہ اس کو قید میں ڈال دیتا ہے۔ چونکہ شعبان لطفی کو چہرے سے کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے تمام گرفتار ہونے والے خود کو شعبان لطفی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کا جذبہ دیکھتے ہوئے شعبان لطفی اقرا رکرتا ہے کہ یہ سب جھوٹ بولتے ہیں، میں ہی شعبان لطفی ہوں۔ جس پر ایک ساتھی عارف (فومی) کہتا ہے کہ عربوں میں سردار وہی ہوتا ہے جو زیادہ طاقتور ہو۔ میں شعبان لطفی ہوں۔ یہ شخص جھوٹ بولتا ہے اور اگر یہ سچا ہے تو مجھ سے مقابلہ کرے۔ فومی کی للکار پر مجبوراً شعبان لطفی اس سے مقابلہ کرتا ہے اور ہار جاتا ہے۔ میجر ڈیوڈ عارف کو شعبان لطفی جان کر قتل کردیتا ہے۔ کیپٹن چونکہ شعبان لطفی کو جانتا ہے۔ وہ قید میں ہوتا ہے۔ شعبان لطفی کا ایک دوست ثنائی جو چور ہے، اس سے ملنے آتا ہے تو اڈے پر کوئی نہیں ملتا۔ قید خانہ میں کیپٹن اسے ملتا ہے۔ جس کے ذریعے تمام کہانی اسے معلوم ہوتی ہے تو وہ شعبان لطفی کو آزاد کرانے کے لئے کیپٹن سے رہائی کا سودا کرتا ہے اور بالاخر ایک کاروائی کے ذریعے شعبان لطفی کو آزاد کرکے لے جاتا ہے۔ تاہم زرقا ان کی قید میں ہی ہوتی ہے۔ میجر ڈیوڈ کو کیپٹن تمام صورتحال سے آگاہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ثنائی چور وعدے کا پکا تھا۔ مجھے اس نے آزاد کیا اور اپنے دوست شعبان لطفی کو آزاد کراکے لے گیا۔ جس پرمیجر ڈیوڈ طیش میں آکر زرقا پر ظلم کرتا ہے اور اسے رقص کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ زرقا کے سامنے اس کی ضعیف والدہ کو بھی قتل کردیا جاتا ہے۔ میجر ڈیوڈ زرقا سے راز اگلوانے کے لئے اپنی بیوی انجلا کو ذمہ داری سونپتا ہے۔ انجلا زرقا سے ملاقات کرتی ہے۔ زرقا کی باتوں سے اس کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے اور وہ اپنے کپڑے زرقا کو پہناکر وہاں سے فرار کرادیتی ہے۔ کیپٹن نشے میں دھت وہاں پہنچتا ہے اور انجلا کی عزت زرقا سمجھ کر لوٹ لیتا ہے۔ میجر ڈیوڈ کو جب اس حقیقت کا علم ہوتا ہے تو اپنے کپیٹن کو گولی ماردیتا ہے۔ ادھر شعبان لطفی، زرقا، عمار، ثنائی اور دیگر یہودی فوج کے ہیڈ کوارٹر کو تباہ کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ وہ ہیڈکوارٹر کو تباہ کرنے کے لئے نکلتے ہیں تو شعبان لطفی ایک بار پھر گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن عمار اور زرقا بچ نکلتے ہیں۔ اس معرکہ میں ثنائی اور عمار مارے جاتے ہیں جبکہ میجر ڈیوڈ شعبان لطفی کی آنکھیں ضائع کردیتا ہے۔ زرقا یہودی ہیڈ کوارٹر کو خودکش حملہ کرکے تباہ کردیتی ہے۔ شعبان لطفی اندھا ہوکر کم سن حسن کے ساتھ فلسطین کی آزادی کا گیت گاتا ہے اور اس یقین کا اظہار کرتا ہے کہ فلسطین کی آزادی کے لئے قربانیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور ہمیں یقین ہے کہ ظلم کی یہ سیاہ شام اپنے انجام کو پہنچے گی اور آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا ۔

میجر ڈیوڈ کا کردار ادا کرنے والے اداکار طالش

فلم کی موسیقی
جہاں اس فلم کی کہانی منفرد اور مکالمے انتہائی اثر انگیز تھے وہیں اس کا شعبہ موسیقی بھی قابل تعریف ہے۔ یہاں یہ معلومات فراہم کرتے چلیں کہ فلم ”زرقا“ بنانے کا فیصلہ ریاض شاہد اور ان کے دیرینہ ساتھی وہم خیال فلم ڈائریکٹر خلیل قیصر نے فلم ”فرنگی“ کی کامیابی کے بعد کیا تھا ۔ فلم کا اسکرپٹ مکمل ہوچکا تھا اور موسیقار رشید عطرے نے مہدی حسن کی آواز میں حبیب جالب کا ایک گیت ”رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے“ ریکارڈ بھی کرلیا تھا ۔ بعدازاں انہوں نے فلم کے دیگر چار گیت اور ریکارڈ کئے۔ فلم کا ایک گیت خواجہ پرویز کا تحریر کردہ ”میں پھول بیچنے آئی“ ان کے صاحبزادے وجاہت عطرے نے کمپوز کیا تھا۔ تاہم ان کا نام فلم کے موسیقار کے طور پر نہیں ہے بلکہ پس منظر موسیقی میں وجاہت عطرے کا نام شامل ہے۔ فلم میں دو، دو گیت حبیب جالب، ریاض شاہد اور خواجہ پرویز کے تحریر کردہ ہیں جبکہ ایک گیت سلطان محمود آشفتہ نے لکھا۔ فلم کے گانے کہانی کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ مہدی حسن، منیر حسین، نسیم بیگم اور مالا نے ان گیتوں کو اپنی عمدہ گائیکی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یادگار بنایا۔ یہاں فلم کے ایک گیت کا خصوصی طور پر ذکر ہوجائے۔ وہ ہے رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔ حبیب جالب کا یہ گیت فلم کی ریلیز سے قبل ہی مقبول ہوچکا تھا۔ حقیقی معنوں میں حبیب جالب نے یہ نغمہ نیلو اور اس کے وقت کے حکمرانوں کے درمیان ایک واقعہ کے پس منظر میں لکھا تھا اور اتفاق سے یہ گیت فلم میں نیلو پر ہی فلم بند ہوا۔

نیلو اور طالش فلم کے اہم منظر میں

فلم کے دیگر شعبے
زرقا مجموعی طو رپر ہر شعبہ میں اعلیٰ مہارت و صلاحیتوں کے اظہار کی مثال ہے۔ فلم کی کاسٹ میں موجود ہر فنکار نگینے کی طرح فٹ دکھائی دیتا ہے۔ اداکاری کا تمام تر بوجھ آغا طالش اور علاﺅالدین کے کاندھوں پر رہا جبکہ مرکزی کردار میں نیلو اپنے فنی کیریئر کی سب سے بڑی پرفارمینس کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اعجاز فلم کا روایتی ہیرو ہے لیکن وہ کسی طو رپر بھی نظر انداز نہیں کئے جاسکتے۔ ان کے کردار میں جس قدر جان تھی اسے انہوں نے اس کو میرٹ کے مطابق پرفارم کیا۔ فلم میں کئی فنکار مختصر کرداروں میں نظر آتے ہیں لیکن اسکرین سے غائب ہونے کے بعد بھی اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں جن میں ساقی (ثنائی چور) کمال ایرانی (حبشی غلام) زلفی (مجاہد) اور فومی (عارف) قابل ذکر ہیں۔ فومی زندگی بھر غیر اہم کرداروں میں دکھائی دیئے لیکن زرقا کے مختصر کردار میں ان کی پرفارمنس دیکھنے والوں کو آج بھی نہیں بھولتی۔ دیگر فنکاروں میں فضل حق، الیاس کشمیری، اسلم پرویز، انوار مرزا، چھم چھم، بیگم عارف، یوسف خان، ناصرہ، ایم ڈی شیخ، شوکت گل، شوکت ملتانی، حامد اور دیگر شامل ہیں۔ فلم کی تکمیل کے لئے اس زمانے میں کثیر سرمایہ خرچ کیا گیا۔ آوٹ ڈور اور ان ڈور میں سیٹ لگائے۔ جن میں ایورنیو اسٹوڈیوز میں لگایا گیا یہودی ہیڈ کوارٹر کا سیٹ اور قہوہ خانہ کا سیٹ اپنی مثال آپ تھا۔ جو حقیقی معنوں میں عرب ماحول کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کارکردگی پر حبیب شاہ بلاشبہ تعریف کے مستحق ہیں۔ شعبہ تحریر، ہدایتکاری، اداکاری اور موسیقی کے بعد فلم کی بڑی خوبی اس کی عکاسی ہے۔ جس میں نبی احمد کی کارکردگی قابل تعریف ہے۔ ان کے کیمرہ مین بابر بلا ل نے ہر منظر کو بے حد خوبصورت فلمبند کیا۔ جس زمانے میں ”زرقا“ بنی، اس وقت زیادہ تر فلمیں بلیک وہائٹ بنا کرتی تھیں لہٰذا اسے رنگین بنانے میں کثیر سرمایہ خرچ کیا گیا۔ ریاض شاہد خود ہی فلم کے پروڈیوسر تھے جنہوں نے سرمایہ خرچ کرنے میں کہیں کنجوسی نہیں کی۔ ہم یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ اگر آج اس فلم کو فلمایا جائے تو ایک ارب روپے خرچ کرکے بھی ایسا معیار حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ریاض شاہد کے اثر انگیز مکالمے آج بھی لوگوں کو ازبر ہیں جبکہ بحیثیت ہدایتکار وہ فن کی بلندیوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ مضبوط اسکرین پلے جو ان ہی کا تحریرکردہ ہے، فلم کی جان ہے۔

کراچی میں فلم کی نمائش کوہ نور سنیما میں ہوئی جہاں عوام کے جم غفیر نے فلم کا استقبال کیا

بزنس
زرقا کی نمائش 17 اکتوبر 1969 کو پورے پاکستان (اس وقت مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش الگ نہیں ہوا تھا) میں کی گئی اور دونوں سرکٹس میں یہ فلم یکساں طور پر سپرہٹ رہی۔ کراچی کے کوہ نور سینما پر اس کی نمائش ہوئی تو عوام نے اس فلم کا فقید المثال استقبال کیا۔ کراچی میں زبردست بزنس کرتے ہوئے زرقا نے 101 کمبائنڈ ہفتے مکمل کرتے ہوئے پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔ اس سے قبل تک پاکستانی فلموں کی کامیابی کا دائرہ کار ”جی دار“ ، ”ارمان“ ، ”چکوری “ کی شکل میں صرف پلاٹینم جوبلی (یعنی 75ہفتے) تک محدود تھا۔ ”زرقا“ کی کامیابی سے پاکستانی سینما کو شائقین کا اعتماد ملا اور آنے والے دنوں میں درجنوں ڈائمنڈ جوبلی فلمیں اسی ایک کامیابی کے پیدا کردہ رحجان کا نتیجہ تھیں ۔

لاہور کے تاریخی ایورنیو فلم اسٹوڈیوز میں آج بھی فلم زرقا، کے لیے لگایا گیا سیٹ اسی حالت میں موجود ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس