Thursday, April 18, 2024
پہلا صفحہ مضامین دلیپ کمار کو اپنے آبائی شہر پشاوراور پاکستان سے عشق تھا

دلیپ کمار کو اپنے آبائی شہر پشاوراور پاکستان سے عشق تھا

عمر خطاب خان

یوں تو دلیپ صاحب کئی سالوں سے صاحب فراش تھے اور ناصرف فلم اسکرین بلکہ فلمی محفلوں سے بھی دورتھے اور شاید اُن کے مداحوں نے بھی کبھی اسکرین اور خبروں سے ان کی دوری کو محسوس تک نہ کیا ہو لیکن جونہی ان کے انتقال کی خبر آئی، دنیا بھر میں ان کے مداح یوں بے قرار ہوگئے گویا گھر کا کوئی بزرگ اچانک سے چلا جائے۔ دلیپ صاحب کی مثال فلم انڈسٹری کے لیے ایسے ہی بزرگ کی تھی جو گھر کے ایک کمرے میں تنہا پڑا رہتا ہے لیکن اس کے ہونے کا احساس ہی پورے گھر کو زندہ رکھتا ہے۔
دلیپ صاحب، اب اس دنیا میں نہیں ہیں تو ان کی یادوں نے شدت اختیار کرلی ہے۔ بار بار اُن پر فلمائے گانے دیکھنے کو دل کرتا ہے، ان کی ادائیں، ان کی سادگی، ان کا لاابالی پن، ان کے ڈائیلاگز، ان کی فلمیں۔ اگرچہ وہ ایک بھرپور اور طویل زندگی جیے لیکن پھر بھی اُن کا یوں دنیا سے چلے جانا’اچانک‘ سی موت لگتی ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے یوسف خان المعروف دلیپ کمارپیدائشی اداکار تھے اور نہ ہی اُنہوں نے اسٹار بننے کا کبھی کوئی سپنا دیکھا تھا۔ دلیپ صاحب11 دسمبر 1922 پشاور کے محلے خداداد میں پیدا ہوئے۔ متوسط خاندان سے تعلق رکھنے والے یوسف خان کی فیملی کے بیشتر لوگوں کا پیشہ تجارت تھا یا پھر اس خاندان کے لوگ برٹش آرمی میں ملازم تھے۔یوسف خان بھی چھاﺅنی کی کینٹین میں ملازمت کرتے تھے جہاں اُن کا عہدہ تو اسسٹنٹ منیجر کا تھا لیکن وہ گوروں کے کھانے کے لیے سبزیاں دھوتے اور کھانے کی میزیں لگایا کرتے تھے۔یوسف خان اس زندگی سے اُکتائے ہوئے تھے لیکن یہ ملازمت اُنہیں بڑی سفارش سے ملی تھی لہٰذا وہ کسی طور بغاوت کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن درحقیقت وہ گوروں کی خدمت کو غلامی تصور کرتے تھے اور جب کسی بات پر کوئی گورا افسر اُنہیں بُری طرح جھاڑ دیتا تو یوسف خان کا خون پوری شدت سے جوش مارتا اور اُن کے اندر کا جذباتی پٹھان باہر آجاتا۔ اپنے افسروں سے بدکلامی پر کئی بار اُن کی سرزنش کی گئی اور جب برداشت کی حد ہو گئی اور وہ گوروں کے عتاب کا شکار ہونے لگے تو ایک روز نوکری چھوڑ کریوسف خان صاحب گھر لوٹ آئے اور فیصلہ کیا کہ پرائی غلامی سے بہتر ہے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا جائے۔ انہوںنے فروٹ کا اسٹال لگا لیا اور اس چھوٹے سے کاروبار کو ترقی دینے میں جُٹ گئے۔ وقت کا پہیہ گردش کرتا رہا‘آنے والے کل کا اسٹار‘ ایک زمانہ جسے ملنے‘ دیکھنے اور چھونے کو اپنے لیے اعزاز و افتخار سمجھتا‘ وہ یوسف خان اپنی دُکان پر گاہکوں سے پھلوں کے بھاﺅ ‘ تاﺅ کرنے میں مگن تھا۔ ایک روز اچانک کسی بات پر ان کی اپنے والد سے تکرار ہو گئی ۔وجہ صرف اتنی سی تھی کہ یوسف خان کی بہن نے اُنہیں واپسی پر بازار سے سلائی کا دھاگہ لانے کو کہا تھا جو وہ لانا بھول گئے‘ والد نے ان کی خوب درگت کی‘ یوسف اپنی یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکے اور اس بات کو دل پرلے کر فیصلہ کیا کہ وہ یہ گھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑدیں گے۔ضدی باپ کا بیٹا بھی ضدی نکلا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ یوسف خان پونا ‘چلے گئے۔ قسمت اُنہیں ممبئی بلا رہی تھی‘ جہاں تقدیر اپنی دونوں بانہیں پھیلائے دلیپ کی مُنتظر تھی۔ ممبئی میں کُچھ عرصہ اُنہوں نے صحافت بھی کی ‘ وہ ایک فلمی پیپر کے لیے اداکاروں کے انٹرویوز کیا کرتے تھے۔ ایک روز اسائمنٹ ملا کہ دیویکا رانی کا انٹرویو کر کے لائیں۔ یوسف خان ‘دیویکا رانی سے ملاقات کا وقت طے کر کے جب اسٹوڈیو پہنچے تو دورانِ انٹرویو ہی دیویکا نے یوسف خان کو آفر دی کہ فلموں میں کام کیوں نہیں کرتے؟ یوسف خان کی چارمنگ پرسنالٹی اور بھولی بھالی اداﺅں نے دیویکا کو اس قدر متاثر کیا کہ اُنہوں نے اس نوجوان کو اپنی فلم کمپنی، بمبئے ٹاکیز‘ میں باقاعدہ ملازم رکھ لیا۔ ان دنوں بمبئے ٹاکیز‘ کی جوار بھاٹا‘ کا پیپر ورک جاری تھا اور ہیرو کے لیے کسی نئے چہرے کی تلاش جاری تھی‘ جب یوسف خان نے بمبئے ٹاکیز کو جوائن کر لیا تو یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا اور دیویکا رانی کی سفارش پر یوسف خان کو اس فلم کا ہیرو بنا دیا گیا۔ ان دنوں بیشترمسلمان فن کار ‘ہندو ناموں سے تھیٹر اور فلموں میں کام کیا کرتے تھے کیوں کہ مذہبی حلقوں اور خاندان کی جانب سے انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یوسف خان بھی چوں کہ مسلمان تھے اور پھر پختون ہونے کے ناطے ان کے قبیلے کے لوگوں کی جانب سے اعتراض ممکن تھا لہٰذا یوسف خان کا نام دلیپ کُمار تجویز ہوگیا۔ خود یوسف خان کی خواہش تھی کہ اُنہیںجہانگیریا پھر واسو دیوکا نام دیاجائے لیکن دلیپ کُمار کے نام پر سب نے اتفاق کیا اور یوں کرافورڈ مارکیٹ میں فروٹ کی آڑھت کرنے والے خان صاحب کا بیٹا یوسف ‘ممبئی فلم انڈسٹری کا ہیروبن گیا۔
جن دنوں دلیپ انڈسٹری میں داخل ہوئے ‘ وہ دور بلراج ساہنی ‘اشوک کمار جیسے ہم عصروں کا تھا لیکن دلیپ نے ہندی سنیما کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا اور اپنی اداکاری کے وہ نقوش چھوڑے کہ بعد میں آنے والے ان کی تقلید پر مجبور ہوئے‘ راجندر کمار کے علاوہ کئی ایکٹرز نے دلیپ کو کاپی کیا لیکن کوئی بھی ان کی ہم عصری نہ کر سکا۔ دلیپ جیسا کوئی دوسرا ایکٹر ہندی سنیمااسٹیبلش نہ کر سکا حالانکہ ان کی کامیابیوں سے خائف متعصب اور بنیاد پرست ذہن رکھنے والے ہندوفلم میکرز نے دلیپ کے مقابلے پر راج کپور‘ راجندر اور شمی کپور وغیرہ کو پیش کرنے کی کوشش کی لیکن دلیپ نے اپنی اداکاری کا جو سحر اور سکہ جما دیا تھا اسے کوئی نہ ہلا سکا۔ جوار بھاٹا، 1944ء میں ریلیز ہوئی‘ یہ فلم دلیپ صاحب کو اس سے زیادہ فائدہ نہ پہنچا سکی کہ اسے دلیپ کی پہلی مووی ہونے کا اعزاز حاصل ہے ورنہ تو باکس آفس پر اس فلم کو خاطر خواہ ریسپانس نہ مل سکاتھا۔ جوار بھاٹا، کے ڈائریکٹر امیہ چکرورتی اور ہیروئن مردولا ‘تھی۔ اس کے بعد بمبئے ٹاکیز کی اگلی دو فلموں پر تیما اور ملن ‘میں بھی دلیپ ہیرو تھے‘۔پرتیما ‘ کے ڈائریکٹر جے راج اور ہیروئن سورن لتا‘ تھیں جب کہ ملن ‘ جتن بوس کی ڈائریکشن میں تکمیل پائی۔ دلیپ کُمار کو رومانٹک ہیرو کے روپ میں شناخت دینے والی فلم جگنو(شوکت حسین رضوی)۔ تھی جس کی ہیروئن نورجہاںتھیں۔اس فلم کے بعد ہی دلیپ کاچارم لوگوں کو محسوس ہوا۔جگنو،کا ایک گانا جو نور جہاں اور دلیپ کمار پر پکچرائز ہوا‘ یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے(رفیع‘ نور جہاں)، آج تک فلم بینوں کی سماعتوں میں محفوظ ہے۔ جہاں فیروز نظامی کی موسیقی نے اس گانے میں اپنا جادو بھر دیا ‘وہیں دلیپ اور نور جہاں نے اس گانے کی پکچرائزیشن میں کمال دکھایا۔ جگنو‘ کی کامیابی نے دلیپ کمار کو اس قابل بنا دیا کہ وہ ماہانہ بنیاد پر اپنا معاوضہ وصول کرنے کی بجائے ڈیمانڈ ریٹ طلب کرنے لگے۔ محبوب خان کی فلموں آن ‘ اور انداز‘ نے دلیپ کو ہندی سنیما کا ایک معتبر اداکار ثابت کیا تو دیوداس‘ اور دیوار‘ میں وہ اداکاری کی معراج پر دکھائی دیئے۔ کریٹکس کو کہنا پڑا کہ دیوداس‘ کے کیریکٹر میں دلیپ کمار نے بنگالی ناول کے ہیرو کو پیچھے چھوڑدیا۔میلہ‘ شہید‘ گنگا جمنا‘ سے لے کر مزدور‘ دُنیا‘ ودھاتا‘ کرما جیسے کرداروںنے دلیپ کی امیج کے کئی رنگ پیش کیے۔جہاں رومانٹک فلموں میں اُنہیں رومانس کا شہزادہ تصور کیا گیا ‘ وہیں جذباتی کردا ر نگاری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ دیوداس‘ انداز‘ اور دیدار‘ جیسی فلموں میں پرفارمنس کی بُنیاد پر دلیپ کو ٹریجڈی کنگ کا ٹائٹل دیا گیا۔ جن دنوں بمبئے ٹاکیز میں دلیپ ملازم تھے‘ ان کو ماہانہ مشاہرہ 12سو روپے ملا کرتا تھالیکن پھر ان کو ایک فلم کے 30ہزار ملنے لگے۔ ایک دور آیا جب وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار کہلائے۔ نرگس کے ساتھ انداز‘ میلہ‘ دیدار‘ بابل‘ جوگن‘ دیوآنند کے ہمراہ انسانیت‘وغیرہ میں کام کرنے کے بعد دلیپ کی ہر ادا اور انداز کے لوگ دیوانے ہوئے۔ خصوصا ً ان کے بالوں کا اسٹائل بے حد مقبول ہوا اور ممبئی کی ہر سیلون پر دلیپ کے فوٹوز اور ہیئر کٹ دکھائی دینے لگے۔

سائرہ بانو کے ہمراہ

دلیپ کمار انتہا درجے کے حُسن پرست مشہور تھے۔اُن کے دل کو گدگدانے میں جو پہلی لڑکی کامیاب ہوئی وہ اپنے زمانے کی حسین ساحرہ مدھو بالا تھی‘ دونوں طرف برابر کی آگ لگی ہوئی تھی‘ دلیپ اگر مدھو بالا کو دیکھ نہ لیتے تو اُن کا دن کٹنا مشکل ہو جاتا تو دوسری طرف مدھو بالا کی کیفیت بھی بِن جل مچھلی کی مانند تھی‘ اسی زمانے میں وجنتی مالا کے ساتھ بھی دلیپ کا افیئر بے حد مشہور ہوا جس کا سارا فائدہ اُن کی فلموں کو ملا۔لوگ ریل لائف کپل کو رئیل لائف میں ایک ہوتا دیکھنے کے منتظر تھے مگر دلیپ نے سب کے ارمانوں پر پانی پھیرتے ہوئے اچانک ہی سائرہ بانو سے شادی کر لی۔ ان کی شادی نے جہاں کئی ہیروئنوںکو مایوس کیا وہاں دلیپ کمارکے فین کلب کو بھی سخت دھچکا لگا اور لڑکیوں کے دل و دماغ میں حکومت کرنے والا خوابوں کا شہزادہ ان کے دل سے نکل گیا۔فلم کا ہیرو خواب بیچنے والے بزنس سے منسلک ہوتا ہے، جب وہ اپنے چاہنے والوں کے خواب توڑ دیتا ہے تو پھر پرستار بھی اس کی تصویر دل کے فریم سے کھرچ دیتے ہیں۔ دلیپ کمار کی شادی کی خبر بھی بولی وڈ میں کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ 62ء میں جب لیڈر‘ میں دلیپ کمار کے مقابل سائرہ بانو کو کاسٹ کیا جا رہا تھا تو دلیپ نے یہ کہہ کر سائرہ کو فلم سے کٹ کروا دیا تھا کہ ان کے مقابلے میں وہ خاصی کم عمر لگتی ہے لیکن شادی کا فیصلہ کرتے ہوئے دلیپ نے یہ بات نظر انداز کردی کہ خود اُن کی عمر اس وقت 44 اور سائرہ کی بائیس سال تھی۔ دلیپ کمار نے سب سے زیادہ کام مدھو بالا کے ساتھ کیا اور ان کی جوڑی بے حد کامیاب ہوئی۔ امر‘ ترانہ‘ مغلِ اعظم‘ وہ نا قابلِ فراموش فلمیں ہیں جن میں دلیپ اور مدھو بالا نے اپنی جذباتی اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ 1955ء میں دلیپ کمار نے ساﺅتھی فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور جنوبی ہند میں بننے والی پروڈیوسر ایس کاروانس کی فلم انسانیت‘ کی۔ اس فلم میںدلیپ کمار کے ساتھ دیو آنند اور بینا رائے بھی کام کر رہے تھے۔ ایس ایم نائڈو کی آزاد‘ دلیپ اور مینا کماری کی ایک یادگار فلم ہے۔یہ ایک تامل فلم ملائی کلن ،کا ہندی ری میک تھی۔ دیوداس (55ئ) ،وجنتی مالا کے ساتھ دلیپ صاحب کی پہلی فلم تھی۔ دیوداس‘ میں سچترا سین نے پارو کا رول پلے کیا تھا جب کہ وجنتی مالا ‘ چندر مُکھی کے رول میں تھی۔ بمل رائے کی دیوداس‘ کئی حوالوں سے ہندی سنیما کی انمول فلم ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ دلیپ نے اس فلم میں ایکٹنگ کا جو معیار دیا ‘وہ اس کردار میں کوئی دوسرا اداکار نہیں دے سکا۔ نتن سنہا کی سگینہ‘ دلیپ کی واحد ایسی فلم ہے جو ہندی اور بنگالی‘ زبان میں بنائی گئی تھی۔ ان کی زندگی میں سب سے بُرا دور اُس وقت آیا جب دلیپ کمار کی ذاتی فلم گنگا جمنا‘ چھے ماہ تک سنسر میں پھنسی رہی‘ دلیپ نے یہ فلم بے حدچاہت اور لگاﺅ سے بنائی تھی اور وہ اس کا کوئی ایک سین کٹ کروانے کے خلاف تھے‘ فلم کو پاس کروانے کے لئے اُنہوں نے ممبئی سے دہلی تک کئی چکر کاٹے‘ سنسر بورڈ کو فلم پر تین اعتراضات تھے‘ نمبر ایک فلم کی پوربی زبان‘ نمبر دو فحش مناظر اور تیسرے نمبر پر فلم کے بعض مناظر میں دکھایا گیا بے پناہ تشدد‘ دلیپ نے جواہر لال نہرو سے ملاقات کی اور اُنہیں بتایا کہ ان کی فلم شہید ‘انگریزوں کے دور میں سنسر کی گئی تھی لیکن تب تو کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا اور آج آزاد وطن میں اپنے ہی لوگ اُنہیں تکلیف پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں‘ سنسر بورڈ نے فلم سے 200 فٹ حصہ کاٹنے کا آرڈر جاری کیا تھا‘ بالآخر طویل جدوجہد کے نتیجے میں گنگا جمنا‘ پاس ہوئی۔

مغل اعظم میں مدھو بالا کے ہمراہ

انہیں ہالی وڈ اور برطانیہ سے بھی کام کرنے کی آفرز ہوئیں لیکن وہ اپنی مصروفیات کے سبب ان فلموں میں کام نہ کر سکے ۔ ڈیوڈ لین کی لارنس آف عربیہ‘ کی آفر ڈیوڈ کی بیوی لیلا نے دلیپ کو دی لیکن وہ ڈیٹس پرابلم کی وجہ سے اس فلم میں کام نہ کر سکے۔الزبتھ ٹیلر اور رچرڈ برٹن کو لے کر شروع ہونے والی فلم تاج محل‘ میں کام کرنے کے لیے دلیپ کمار نے رضامندی ظاہر کر دی تھی لیکن یہ پروجیکٹ بند ہو گیا‘ اس فلم کے شروع نہ ہو سکنے کا دلیپ کمار کو خود بھی بہت افسوس تھا۔ یہ فلم ایک زبردست اسکرپٹ پر بن رہی تھی اور دلیپ صاحب کا یہ کہنا تھا کہ تاج محل‘ ہالی وڈ کی مغلِ اعظم، ثابت ہوتی۔ تاج محل‘ میں دلیپ کمار ‘شیراز کا رول پلے کرنے والے تھے۔

دلیپ اور مدھو بالا

دلیپ کمار کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں اور چلی گئیں لیکن چند ایسے نام ہیں جو دلیپ صاحب کی کتابِ حیات میں نقش ہو کر رہ گئے۔جب دلیپ نے اچانک ہی سائرہ بانو سے شادی کرکے سارے دل چکنا چور کر دیئے تھے، اس زمانے میں دلیپ اور مدھو بالا کا معاشقہ عروج پر تھا۔ دلیپ نے مدھو بالا سے اپنی محبت کا اقرار بھی کر لیا اور قریب تھا کہ دونوں شادی کر لیتے‘ مدھو بالا کے والد عطا اللہ خان نے بیچ میں آکر اپنی کماﺅ پُتری کو اس شادی سے زبردستی روک لیا۔ مدھو بالا کا اصل نام ممتاز تھا‘ اپنی اسکرین بیوٹی اور سحر انگیز شخصیت کے سبب مدھو بالا کو ہندی سینما کی وینس کہا گیا۔ دلیپ کی محبت میں مدھو بالا کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ اس نے اپنے کیریئر کی بھی پرواہ نہ کی‘ اس کی زندگی کا ایک ہی مقصد دلیپ کمار کو حاصل کرنا تھا۔ امر ‘کی ناکامی کے بعد مدھوبالاکا کیریئر ڈاﺅن فال کا شکار ہونے لگا‘ دلیپ سے بہت زیادہ انوالومنٹ نے دوسرے ہیروز کو اس کے خلاف کر دیا اور وہ اسے اپنی فلموں سے کٹ کروانے لگے‘ دلیپ کے علاوہ ہرشخص اُس کے خلاف دکھائی دینے لگا‘ فلم میکرز کی ناراضی نے بھی مدھوبالا کے کیریئر کو سخت نقصان پہنچایا اور وہ فلموں سے ہاتھ دھونے لگی۔ دلیپ کمار میں دلچسپی رکھنے کی وجہ سے ہی بی آر چوپڑہ نے اسے نیا دور‘ سے نکال دیا۔اس نے شادی سے انکار کے بعد خود کو سنبھالا اور چلتی کا نام گاڑی‘ مغلِ اعظم‘ جیسی سُپر ہِٹ فلمیں دیں اور ماضی سے پیچھا چھڑانے کا فیصلہ کر لیا۔ کشور کمار سے شادی کر کے مدھو بالا نے اپنے زخم بھرنے کی پوری کوشش کی لیکن یہ شادی محض نام کی شادی ثابت ہوئی‘ دل میں جلنے والے محبت کے دیپ نے مرتے دم تک اس کے دل میں دلیپ کی یاد روشن رکھی اور اسی دل کے ہاتھوں اس کی موت ہوگئی۔ دل کے داغ سینے سے لگائے‘ 9سال تکلیف میں گزارنے کے بعد 1969ء میں مدھو بالا کا انتقال ہو گیا۔
دلیپ کی زندگی میں چور دروازے سے داخل ہونے والی ہیروئن وجنتی مالا کو ہندی سینما کی پہلی مکمل ہیروئن تصور کیا جاتا ہے جو نہ صرف اداکارہ بہت اچھی تھی بلکہ اچھی رقاصہ بھی تھی‘ لوگ وجنتی کے رقص دیکھنے کے لئے ہی سینما جایاکرتے تھے خصوصاً ناگن‘ میں وجنتی مالا پر فلمایا گیا تن ڈولے میرا من ڈولے‘ زبردست ہٹ ڈانس نمبر ثابت ہوا۔ ‘ آڈینس صرف اس گانے میں وجنتی کا رقص دیکھنے کے لئے سینما ہال جاتے تھے۔ دلیپ کی ذاتی فلم گنگا جمنا‘ میں بھی وجنتی مالا کو ہیروئن لیا گیا‘ دلیپ کمار سے قبل وجنتی اور راج کپور کا معاشقہ چلا لیکن اس عشق میں ناکامی کے بعد وجنتی نے دلیپ کمار پر اپنی اداﺅں کے ڈورے ڈالے۔دلیپ کمار‘ وجنتی سے ہمدردی ضرور رکھتے تھے لیکن وہ کبھی اس کے لیے سنجیدہ نہیں ہوئے‘ دو مردوں کی بے رُخی نے وجنتی مالا کو بہت تکلیف دی ‘ وجنتی کی ذاتی فلم امربالی‘ کی ناکامی سے وہ مزید مسائل میں گھر گئی اور اس کا کیریئر بحران کا شکار ہو گیا۔
دلیپ اور سائرہ بانو کی شادی کسی فلمی سچویشن کا حصہ معلوم ہوتی ہے‘ جب دلیپ ‘سائرہ کی لولائف میں سپورٹنگ رول ادا کرنے گئے تھے لیکن خود کہانی کے ہیرو بن گئے۔سائرہ بانو‘ لی جنڈ ایکسٹریس نسیم بانو کی بیٹی ہیں جنہیں اپنے ملکوتی حُسن کی بدولت پری چہرہ کہا جاتا تھا۔

دلیپ، سائرہ۔ شادی کی ایک یادگار تصویر

سائرہ بانو 23 اگست1944ء کومسوری ‘میں پیدا ہوئیں۔ پہلی ہی فلم جنگلی (61) سے اس قدر شہرت ملی کہ اسے دلیپ کے مقابل لیڈر ‘کی ہیروئن بنا دیا گیا۔ جنگلی‘ میں سائرہ کے مقابل شمی کپور ہیرو تھے‘ جلد ہی سائرہ بانو کا نام وجنتی مالا‘ وحیدہ رحمان‘ آشا پاریکھ‘ مالا سنہا‘ اور شرمیلا ٹیگور کے ساتھ لیا جانے لگا‘ لیڈر‘ میں دلیپ نے اپنے مقابل سائرہ کو بطور ہیروئن مسترد کر دیا تھا کیوں کہ سائرہ اس وقت دلیپ کے مقابلے میں کافی کم عُمر تھی‘دلیپ کا خیال تھا کہ سائرہ بانو ان کے مقابلے پر بچی لگتی ہے‘ یوں سائرہ‘ دلیپ کی ہیروئن بنتے بنتے رہ گئی۔ سائرہ کی دلکشی اور معصومیت کا پہلا شکار سنجیو کمار بنے جنہوں نے سائرہ بانو کو شادی کے لیے باقاعدہ پروپوز کیا تھا مگر سائرہ نے اپنے کیریئر کی خاطر اس رشتے سے انکار کر دیا۔ نسیم بانو کو اگر پری چہرہ‘ کا ٹائٹل ملا تو سائرہ بھی کچھ کم نہ تھی۔ پہلی ہی فلم سے سائرہ کو بیوٹی کوئن کا ٹائٹل مل گیا اور پروانے‘ دیوانہ وار اس کی طرف لپکنے لگے۔راجندر کمار کے ساتھ آئی ملن کی بیلا‘ کے ہٹ ہوتے ہی ان دونوں کی جوڑی بھی ہٹ ہو گئی۔ راجندر کمار تو سائرہ کے عشق میں اتنا پاگل ہوا کہ شادی کی خاطر اسلام قبول کرنے پر بھی آمادہ ہو گیا۔ اس موقعے پر سائرہ کے ماموں سلطان بیچ میں آئے اور اس شادی سے انکار کر دیا لیکن سائرہ کب ماننے والی تھی۔ نسیم بانو کی پریشانی بڑھی تو اُنہوں نے دلیپ کمار اور محبوب خان سے رابطہ کیا جن کے بیچ میں آنے سے راجندر کمار اس شادی سے دست بردار ہو گئے۔ دلیپ نے سائرہ کو اتنی محبت اور شفقت سے سمجھایا کہ وہ ان کی گرویدہ ہو گئی اور جب سائرہ بانو نے یہ سوال اٹھایا کہ اتنی بدنامی ہوجانے کے بعد اب اس سے کون شادی کرے گا تو دلیپ کے اندر کا غیرت مند انسان فوراً جاگ اُٹھا اور انہوں نے نسیم بانو اور ان کے بھائی سلطان سے سائرہ کا رشتہ طلب کر لیا۔بالآخر سائرہ ‘ دلیپ کمار کی دُلہن بن کر ان کے گھر آ گئی۔ سائرہ اور دلیپ کی شادی ایک بے حد کامیاب فلمی شادی مانی گئی۔شادی کے بعد یہ جوڑی گوپی‘ اور بیراگ‘ میں اکٹھی ہوئی اور لوگوں نے اُنہیں پسند کیا ۔ اولاد سے محرومی کا دُکھ ‘ دلیپ کمار کی زندگی میں رہ جانے والا ایسا خلا تھا جسے تقدیر نے بھی پُر ہونے نہیں دیا۔ 1972ء میں سائرہ ماں بنتے بنتے رہ گئیں۔ ڈاکٹروں نے دلیپ کمار کو یہ خوشی کی خبر سنائی تو وہ ایک بار پھر ٹین ایج کے کھلنڈرے یوسف کے روپ میں آگئے لیکن قدرت کو شایدیہ خوشی منظور نہ تھی۔ سائرہ بانو‘ باتھ روم میں پاﺅں پھسلنے سے زخمی ہو گئیں جس سے ان کا حمل ضائع ہو گیا اور یوں دلیپ کمار ‘ سائرہ کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کی کلکاریاں نہ سُن سکے۔

اولاد کی خاطردلیپ کمار نے چپکے سے دوسری شادی کا فیصلہ کیا اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ایک طلاق یافتہ اسماءسے نکاح کر لیا‘ اس شادی کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی گئی لیکن یہ راز زیادہ عرصہ چھپا نہ رہ سکا اور بہت جلد اخبارات و میڈیا نے دلیپ کی دوسری شادی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ لوگوں کو یہ جان کر زیادہ حیرت ہوئی کہ اسماءایک طلاق یافتہ عورت اور تین بچوں کی ماں تھی‘ اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دلیپ کمار نے اس عورت کے بچوں کی کفالت کے لیے یہ شادی کی تھی اور یہ شادی ہمدردی کے جذبے کے تحت کی گئی تھی لیکن میڈیا نے اس اشو کو اتنا اُچھالا کہ دلیپ کمار کو اس سے جان چھڑانا مشکل ہو گیا۔سائرہ بانو نے ان بحرانی دنوں میں بھی اپنے شوہر کی وفاداری کا بھرم رکھا اور ان پر اپنے مکمل بھروسے کی مہر ثبت کر دی۔ دلیپ کی زندگی میں آنے والی بے شمار لڑکیوں میں صرف ان کے ہمراہ فلموں میں کام کرنے والی ہیروئنز ہی نہیں بلکہ دیگر بھی اُن کے دامِ اُلفت میں گرفتار رہیں‘ ان میں سے بیشتر عشق یک طرفہ تھے۔ نورجہاں‘ جگنو‘ میں دلیپ کمار کی ہیروئن تھیں اور صرف اسی وجہ سے شوکت رضوی‘ دلیپ سے خائف ہو گئے تھے کہ کہیں پٹھان چھوکرا ‘اُن کی گوری حسینہ کو نہ لے اُڑے۔ نرگس‘ نادرہ‘ اور ممتاز شانتی وغیرہ بھی دلیپ کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھیں لیکن دلیپ نے اُن میں کوئی دلچسپی نہ دکھائی۔
دلیپ نے انداز(46) سے شہرت پائی ‘ اس کے بعد آن‘ داغ‘ جیسی فلموں سے اپنا سکہ جمایا تو 50ء میں دلیپ کمار کی دو فلمیں آزاد ‘اور دیوداس‘ ریلیز ہوئیں‘ کوہِ نور ‘کے بعد مُغلِ اعظم‘ میں جب دلیپ پر ایک خاص امیج کی چھاپ لگائی گئی تو دلیپ نے خود کو بدل کر سب کو چونکا دیا۔ دلیپ نے ہمیشہ تبدیلی کی طرف پیش قدمی کی اورمختلف قسم کے کرداروں کو ترجیح دی۔ آن ‘ میں وفادار محبوب‘ کا کردار نبھانے والا دلیپ ‘ شکست‘ میں اپنے محبوب کو دھوکہ دے کر بے وفائی کا الزام اپنے سر لے لیتا ہے۔ امر‘ میں دلیپ نے ایسے ہیرو کا کردار نبھایا جو اپنی ہی محبت نمی‘ کی عزت سے کھیل جاتا ہے۔گنگا جمنا‘ میں دلیپ نے دیہاتی لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے عوامی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ وجنتی مالا سے رومانس کرتے ہوئے اُن کے چہرے پر آنے جانے والے تاثرات کو فلم بینوں نے محسوس کیا۔ دلیپ نے رومانی فلموں اور کرداروں میں ایک خاص شناخت بنائی۔ مغلِ اعظم‘ کا باغی شہزادہ ہو یا پھر رام اور شیام‘ میں دلیپ کی کامیڈی ‘ان کرداروں میں دلیپ نے زبردست ورائٹی دینے کی کوشش کی۔ مشکل ‘ میں مایوسی کا شکار نوجوان کا کردار ادا کرتے ہوئے لوگ کچھ لمحوں کے لیے دلیپ کو بھول کر اس کیریکٹر کے سحر میں آگئے اور یہی دلیپ کا کمال رہا جس کے باعث دلیپ کو ایک ہمہ جہت ایکٹر کہا‘ مانا اور تسلیم کیا گیا۔ دلیپ کی ٹریجڈی کنگ امیج کی شروعات 52ء میں محبوب کی آن‘ سے ہوئی۔چانکیہ کی رام اور شیام، میں دلیپ کمار نے ڈبل رول پلے کیا اور دونوں کرداروں میں الگ رنگ بھرنے کی کوشش کی‘ یہ فلم سُپرہِٹ رہی۔ اس کے بعد داستان‘ میں بھی دلیپ نے ڈبل رول پلے کیا۔ بیراگ‘ ایسی فلم ہے جس میں دلیپ‘ بیک وقت تین کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں اور ہر کردار کا اپنا موڈ‘ ٹون‘ اور گیٹ اپ ہے۔ لیڈر‘ میں دلیپ نے کیریکٹر رول میں زبردست چونکا دینے والی پرفارمنس دی ہے۔کردار نگاری کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ودھاتا‘ مشعل‘ شہید‘ میلہ‘ مغلِ اعظم‘ امر‘ گنگاجمنا‘ دیدار‘ آن وغیرہ دلیپ کمار کی مضبوط پرفارمنس سے آراستہ فلمیں ہیں۔

پشاور کے قصہ خوانی بازار کے عقب میںمشہور ڈوما گلی ہے جہاں دلیپ صاحب کا ڈھائی سو سال پُرانا آبائی مکان ہے جسے حکومت پاکستان نے قومی ورثہ قرار دیا ہے۔پرا نی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے چند سال قبل جب دلیپ کمار پاکستان آئے تھے تو اُنہوں نے پشاور جا کر اپنا وہ گھر بھی دیکھا اور اس قدیمی محلے کے مکینوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔

دلیپ کمار کی فیملی

دلیپ کمار کے بھائی بہنوں کی تعداد بارہ تھی ‘ جن میں سے ایک بھائی ناصر خان‘ پاکستانی فلموں کے ہیرو رہ چکے ہیں‘ ناصر خان کو پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد ‘کا ہیرو‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ناصر خان کا بیٹا ایوب خان بھی بولی وڈ فلموں میں کام کرچکا ہے۔ دلیپ کمار کے ایک اور بھائی احسن خان بھی کبھی اُن کے گھر میں ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔بڑی بہن کووہ آپا کہا کرتے تھے‘ بڑی آپاسے دلیپ صاحب بہت زیادہ اٹیچڈرہے اور انہیں ماں کا درجہ دیتے تھے۔

سات جولائی کی صبح اُن کے مداحوں کے لیے یہ دردناک خبر لائی کہ دلیپ کمار اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ دلیپ کمار طویل عرصے سے سانس میں مشکلات، پھیپھڑوں اور گردوں کی بیماری کی وجہ سے زیر علاج تھے۔ ممبئی کے ہندوجا ہسپتال میں ان کا انتقال ہوا۔ نماز جنازہ کے بعد ان کی تدفین سانتا کروز کے علاقے میں جوہو قبرستان میں ہوئی۔

ان کی آخری فلم ‘قلعہ’ 1998 میں ریلیز ہوئی تھی۔ دلیپ کمار کو 1991 میں پدمابھوشن، 1994 میں دادا صاحب پھالکے اور 2015 میں پدماوی بھوشن ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔

دلیپ صاحب کو حکومت پاکستان بھی 1998 میں نشان امتیازسے نواز چکی ہے۔ انہیں اس وقت کے صدر محمد رفیق تارڑ نے یہ اعزاز دیا۔
دلیپ صاحب،بظاہر دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی فلمیں اور اَمر کردار انہیں مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔

دلیپ کمار کی زندگی پر مبنی ڈاکیو مینٹری کا پہلا حصہ
دلیپ کمار کی زندگی پر مبنی ڈاکیو مینٹری کا دوسرا حصہ
دلیپ کمار کی یادگار فلم مغل اعظم کی تیاری پر مبنی ڈاکیومینٹری

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس

عیدالفطر پر گاڈزیلا ایکس کانگ، اور دغاباز دل، کا شان دار بزنس

عیدالفطر سے پاکستانی سنیماؤں پر کئی مہینوں سے طاری جمود کا خاتمہ تو ہوگیا تاہم عید کے طویل ویک اینڈ کے...

اس عید پر کون سی فلمیں ریلیز ہورہی ہیں؟

پاکستانی سنیما اور فلم انڈسٹری میں شدید بحران کا اندازہ عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد اور معیار سے...

عیدالفطر پر پشتو فلموں کا راج، ریجنل سنیما، اُردو فلموں پر بازی لے گیا

پاکستانی سنیما اور فلم انڈسٹری میں شدید بحران کا اندازہ عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد اور معیار سے...
- Advertisment -

مقبول ترین

عیدالفطر پر گاڈزیلا ایکس کانگ، اور دغاباز دل، کا شان دار بزنس

عیدالفطر سے پاکستانی سنیماؤں پر کئی مہینوں سے طاری جمود کا خاتمہ تو ہوگیا تاہم عید کے طویل ویک اینڈ کے...

اس عید پر کون سی فلمیں ریلیز ہورہی ہیں؟

پاکستانی سنیما اور فلم انڈسٹری میں شدید بحران کا اندازہ عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد اور معیار سے...

عیدالفطر پر پشتو فلموں کا راج، ریجنل سنیما، اُردو فلموں پر بازی لے گیا

پاکستانی سنیما اور فلم انڈسٹری میں شدید بحران کا اندازہ عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد اور معیار سے...

ڈاکٹر خالد بن شاہین کی حجازِ مقدس میں پزیرائی

سینئر اداکار، پروڈیوسر اور چیئرمین سینسر بورڈ سندھ خالد بن شاہین ان دنوں اعتکاف عمرہ کی ادائیگی کے سلسلے میں حجاز...

ریسینٹ کمنٹس