Tuesday, March 11, 2025
پہلا صفحہتبصرےکرن جوہر کے فینز کو روکی اور رانی کی پریم کہانی، سے...

کرن جوہر کے فینز کو روکی اور رانی کی پریم کہانی، سے دھچکا لگے گا

روکی اور رانی کی پریم کہانی، کرن جوہرکی ڈائریکشن میں بنی فلم ہے جو 2016 میں ریلیز ہونے والی اے دل ہے مشکل، کے بعد سات سال کے وقفے سے آنے والی کرن کی فل لینتھ فیچر ہے۔ اس عرصے میں نیٹ فلیکس کے لیے بننے والی فلموں گھوسٹ اسٹوریز، اور لسٹ اسٹوریز، میں کرن نے اپنا حصہ ضرور ڈالا، کچھ میوزک ویڈیوز بھی ڈائریکٹ کیں لیکن کرن کی فین فولوئنگ کو اس فلم کا بے چینی سے انتظار تھا۔
بدقسمتی سے کرن کی یہ فلم 70 اور 90 کے ایرا میں سینڈوچ ثابت ہوئی۔

فلم میں دو ٹریکس پیرلل چل رہے ہیں۔ ایک دھرمیندر اور شبانہ اعظمی کی لو اسٹوری ہے جو فلم کو 70 کے دور میں لے جاتی ہے اوردوسرا ٹریک عالیہ بھٹ، رنویر سنگھ کی پریم کہانی کو لے کر چلتا ہے۔ یہ ٹریک 90 میں پھنسا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کرن کی پچھلی فلموں اے دل ہے مشکل، اسٹوڈنٹ آف دی ایئر، اور مائی نیم از خان، کے برعکس اس فلم میں کرن جوہر اپنے فینز کو 90 کی دہائی میں لے جاتے ہیں۔ فلم کی سچویشنز کچھ کچھ ہوتا ہے، کبھی الوداع نہ کہنا، اور کبھی خوشی کبھی غم، سے متاثر محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے کرن یہ فراموش کرگئے کہ آج کا سنے گوورز 2023 میں سانس لے رہا ہے۔ وہ آرٹیفشیل انٹیلی جنس کی بات کررہا ہے جبکہ روکی اور رانی، بنگالی پنجابی کلچرل ڈیفرینس اور مرد و وعورت کی حاکمیت پر جھگڑ رہے ہیں۔
یہ فلم آپ کو ایک اچھے اختتام کی وجہ سے یاد رہ جاتی ہے اور کلائمکس میں کرن بطور ڈائریکٹر خود کو منوانے میں کامیاب بھی نظر آئے لیکن اس پوائنٹ تک شاید آڈیئنس فلم کومسترد کرچکی ہوگی۔

روکی اور رانی کی پریم کہانی، کا آغاز اس انداز میں ہوتا ہے، جیسے انڈین کرکٹ ٹیم پچاس اوورز کی اننگز میں ایک بڑے حدف کے تعاقب میں ابتدا میں ہی اپنے فرنٹ لائن بیٹس مین گنوادے اورپاور پلے سے بھی فائدہ نہ اٹھاسکے۔ پھر اچانک سے آپ کا مڈل آرڈرچارج سنبھال لے اور آپ ایک ہارا ہوا میچ جیت جائیں لیکن شرط یہ ہے کہ تب تک کراؤڈ مایوس ہوکرگھر کی راہ نہ لے چکا ہو۔

روکی اور رانی کی پریم کہانی، کا آغاز اس انداز میں ہوتا ہے، جیسے انڈین کرکٹ ٹیم پچاس اوورز کی اننگز میں ایک بڑے حدف کے تعاقب میں ابتدا میں ہی اپنے فرنٹ لائن بیٹس مین گنوادے اورپاور پلے سے بھی فائدہ نہ اٹھاسکے۔ پھر اچانک سے آپ کا مڈل آرڈرچارج سنبھال لے اور آپ ایک ہارا ہوا میچ جیت جائیں لیکن شرط یہ ہے کہ تب تک کراؤڈ مایوس ہوکرگھر کی راہ نہ لے چکا ہو۔
روکی اور رانی کی پریم کہانی، میں بھی کرن سے یہی غلطی ہوئی ہے۔ روایتی انداز سے شروع ہونے والی فلم آڈیئنس کو 90 کی دہائی کی فلموں کی یاد دلاتی اور بور کرتے ہوئے آڈیئنس کے 40 قیمتی منٹ ضائع کرتی ہے۔ تب کہیں جاکر فلم کا پہلا ٹوئسٹ آتا ہے اور دراصل فلم کا آغاز ہوتا ہے۔
کہیں یہ فلم آپ کو کبھی خوشی کبھی غم، لگنے لگتی ہے، پھر دل والے دلہنیا لے جائیں گے اور اس کے بعد مادھوری کی بیٹا۔ عالیہ اور رنویر کے کرداروں کی کلچرل ٹسل آپ کو 2 اسٹیٹس، اور چنائے ایکسپریس ، کی یاد دلاتی ہے۔ فلم کے کئی مناظر ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر آپ کو لگتا ہے کہ یہ پہلے بھی کہیں ہوچکا ہے۔

فلم کا پہلا ہاف آپ کو جس قدر بورنگ، روایتی اور ڈریگ محسوس ہوتا ہے۔ دوسرا ہاف اس سے یکسر مختلف اور سرپرائزنگ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ نے اچانک اپنی سواری بدل کر ٹیکسی سے رولر کوسٹر رائیڈ لے لی ہے۔
اب آتے ہیں فلم کی کہانی کی طرف۔
روکی (رنویر سنگھ) کے دادا پاپا جی کنول رندھاوا (دھرمیندر) کی یادداشت کام نہیں کرتی۔ انہیں کچھ یاد ہے تو صرف 1978 میں شملہ میں ایک بنگالی لڑکی جامنی چٹر جی (شبانہ اعظمی) سے ملاقاتیں اور اسی دوران پروان چڑھنے والی محبت۔ چونکہ دونوں شادی شدہ تھے لہٰذا اپنی محبت کو آگے نہ بڑھاسکے اور پھر کبھی نہ مل سکے۔
رنویر کو دادا کی ڈائری سے جامنی کی تصویر ملتی ہے، جس کے پیچھے صرف جامنی لکھا ہوتا ہے۔ وہ گوگل سے چند منٹ میں چٹر جی فیملی کا کنکشن نکال لیتا ہے۔ جامنی کی پوتی رانی (عالیہ بھٹ) ٹی وی چینل انڈیا ناؤ، کی اینکر پرسن ہے۔ وہ پلک جھپکتے میں رانی سے ملتا ہے اوراسے دادا کی محبت کے بارے میں بتاتا ہے۔ برسوں بعد کنول اور جامنی ملتے ہیں لیکن روکی کی دادی دھن لکشمی (جیا بچن) کو یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ دوسری جانب رانی اور روکی، آناً فاناً ایک دوسرے کی محبت میں اس طرح پاگل دکھائی دیتے ہیں کہ سڑک پر، لفٹ میں یا گاڑی میں کہیں بھی ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں۔ محبت کی یہ شدت چند دنوں میں ہی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ یعنی جامنی اور پاپا جی کی ادھوری پریم کہانی کو رانی اور روکی، آگے بڑھاتے ہیں۔ پھر اچانک ایک دن رانی کو یہ احساس ہوتا ہے کہ انہیں ایک دوسرے کو جاننا چاہیے۔ وہ دونوں متضاد فیملی بیک گراؤنڈ سے ہیں۔ ایک بنگالی اور پنجابی میاں بیوی کیسے ہوسکتے ہیں؟ دونوں یہ طے کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کی فیملیز کو پرکھنے کے لیے وہ تین ماہ تک ایک دوسرے کے گھر رہیں گے۔ روکی، رانی کی بنگالی فیملی میں رہنے لگتا ہے جہاں اسے تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ (اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی اور نہ ڈائریکٹر نے وضاحت کی کہ بنگالی آخر پنجابیوں سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟) دوسری جانب رانی کے ساتھ روکی کے گھر میں بھی ویسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی اس نفرت کی کوئی وجہ یا بیک گراؤنڈ نہیں ہے۔ رانی، دھن لکشمی جی کو سبق سکھانے کے لیے بیٹا، کی مادھوری ڈکشت بن جاتی ہے اورروکی، کی ماں اور بہن کواحساس دلاتی ہے کہ وہ گھٹ گھٹ کر زندگی نہ جیئیں۔ عورتوں کو بھی آزادی سے جینے اور اپنے فیصلے لینے کا پورا اختیار ہے۔ حد تو تب ہوتی ہے جب ایک فیملی فنکشن میں دھن لکشمی، رانی کے باپ چندن چٹرجی سے رقص پرفارمنس پیش کرنے کی فرمائش کردیتی ہیں جو کہ ڈانس ماسٹر ہیں اور اس فرمائش کو ایک کلاکار کے طور پرلیتے ہیں لیکن جب انہیں معاملے کی نزاکت کا احساس ہوتا ہے تو وہ اسٹیج چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ روکی، کو یہ سب برا لگتا ہے اور وہ خود ڈانس سیکھنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اگلے ایونٹ کے ہوسٹ چٹر جی فیملی ہوتی ہے جہاں چندن جی کے ساتھ دیوداس کے گانے پر روکی، کی پرفارمنس دیکھ کر رندھاوا خاندان کو ہزیمت کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر رانی، روکی ، کے باپ تجوری رندھاوا (عامر بشیر) سے بدتمیزی کرجاتی ہے، جس پر روکی، رانی سے ناراض ہوکر اپنے باپ کے ساتھ گھر آجاتا ہے۔ اس مرحلے تک رندھاوا فیملی میں اچھی خاصی ٹوٹ پھوٹ ہوچکی ہوتی ہے اور روکی گھر چھوڑ کر جانے کی بات کرتا ہے، جس پر پاپا جی (دھرمیندر) بیٹے سے کہتا ہے کہ گھر نہیں توڑا کرتے۔ اس جملے کے ساتھ پاپا جی کا دیہانت ہوجاتا ہے۔ پاپا جی کے دنیا سے جانے کے بعد رندھاواز کو احساس ہوتا ہے کہ کھوکھلے اصولوں کے سہارے زندگی نہیں جاتی۔ یوں دونوں خاندان ایک دوسرے سے معافیاں مانگ کر ایک ہوجاتے ہیں۔ ایک اور ڈانس نمبر کے ساتھ فلم کا اختتام ہوتا ہے۔

فلم کے میوزک کی بات کریں تو پریتم نے ذیادہ متاثر نہیں کیا۔ ایک بھی گانا ایسا نہیں ہے جو لوگوں کو یاد رہ جائے۔ اس کے برعکس پرانے گانوں کے ری مکس ورژن ذیادہ اثر انگیز رہے۔ مثلاً نازیہ حسن کا آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے، یا 60 کی دہائی کی ہم دونوں ، کا ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر، کی گونج فلم میں کئی بار سنائی دیتی ہے۔
اب ذکر کرتے ہیں، اس فلم کی بنیادی خامیوں کا، جن کی وجہ سے دھرما پروڈکشن کی یہ میگا پروڈکشن متاثر کرنے میں ناکام رہی۔
فلم کے پہلے سین سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کرن جوہر 70 اور 90 کے ایرا میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ گانوں کے لیے زبردستی سچویشنز کری ایٹ کی گئی ہیں۔ فلم کے آغاز میں روکی اور رانی، کے کرداروں کا ایٹی ٹیوڈ ظاہر کرتا ہے کہ جیسے وہ کبھی بھی کسی سے متاثر نہیں ہوسکتے لیکن ان کے پہلے ان کاؤنٹر کے بعد جس تیزی سے دونوں قریب آتے ہیں، ایسا لگا کہ ڈائریکٹر اور رائٹر کہانی کو تیزی سے آگے بڑھانا چاہتا ہے لیکن پہلے دو سینز میں ایک دوسرے کے ساتھ ڈیٹ پر آمادہ روکی اور رانی، چالیس منٹ تک چوما چاٹی کرنے اور ایک دوسرے کو لپٹانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ پھر جس تیزی سے وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں، اتنی تیزی سے پیچھے ہٹنے لگنے لگتے ہیں۔
روکی کو ایک بڑی بزنس فیملی کا اکلوتا وارث دکھایا گیا ہے لیکن اسے انگریزی نہیں آتی۔ نجانے اس نے کبھی اسکول کی شکل بھی دیکھی ہے یا نہیں۔ ایٹی ٹیوڈ سے کہیں وہ رندھاوا فیملی کا رئیس زادہ لگتا ہے تو اگلے ہی سین میں وہ ورار کی کسی چال کا لونڈا لگنے لگتا ہے۔

فلم کے سیکنڈ ہاف میں فیملی فنکشن میں رانی کے باپ کو ڈانس کے لیے کہنا اور روکی کی ماں کا شوہر کے سامنے گانے والا سین بھی ہمیں 90 کی فلموں کی یاد دلاتے ہیں۔ فلم کے کلائمکس میں اتنی معافیاں مانگی گئی ہیں کہ دو گھنٹے 48 منٹ کی فلم میں پانچ منٹ صرف معافیوں کی نذر ہوگئے۔
فلم کی سب سے نمایاں خوبی اگر کوئی ہے تو وہ ڈائیلاگز ہیں جو کہیں کہیں بہت اچھے لکھے گئے ہیں۔

ایکٹنگ کی بات کی جائے تو رنویر سنگھ کئی جگہ اوور ایکٹنگ کا شکار نظر آتے ہیں۔ محض چند سینز ہی ایسے ہیں جن میں رنویر نے اپنی ایکٹنگ کو سنبھالا۔ عالیہ بھٹ نے البتہ متاثر کیا اور رنویر کے مقابلے میں ذیادہ بہتر انداز میں اپنے کردار کو لے کر چلی۔ دھرمیندر گنتی کے سینز میں نظر آتے ہیں لیکن ہر سین میں اچھے لگے۔ جیا بچن نے بھی اپنے کردار سے بھرپور انصاف کیا۔ شبانہ اعظمی کا کردار فلم کی ہائی لائٹ ہے۔ رانی کے باپ کے کردار میں ٹوٹا رائے چوہدری نے بھی بے حد متاثر کیا۔ خصوصاً دونوں ڈانس سیکوئنسز میں وہ میلہ لوٹنے میں کامیاب رہے۔

روکی کے باپ کے کردار میں عامر بشیر کی پرفارمنس بھی بہتر رہی لیکن مذید بہتر ہوسکتی تھی۔ ایک پنجابی کردار نبھاتے ہوئے کہیں تو ان کی اردو ممبئی والوں کی طرح ہوجاتی ہے اور ایک آدھ سین میں وہ باقاعدہ پنجابی بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ خصوصاً رانی، جو کہ بنگالی ہے، اس کے سامنے ان کی پنجابی فر فر نکلنے لگتی ہے لیکن اپنے گھر والوں سے وہ پنجابی لہجے میں اردو میں بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
دیگر کرداروں میں روکی کی ماں (شیتی جوگ) اور بہن (انجلی آنند) اوررانی کی ماں (چرنی گنگولی) نے بھی اپنے کرداربہتر نبھائے۔

اسکرپٹ کی بات کریں تو فلم کا پلاٹ ایک مہنگی پروڈکشن کو لے ڈوبا ہے۔ کئی کہانیوں کو جوڑ کر ایک نیا پلاٹ بنانے کی کوشش میں فلم کے تینوں رائٹرز ناکام رہے، البتہ فلم کے سیکنڈ ہاف کا اسکرین پلے اور ڈائیلاگز کے فل مارکس بنتے ہیں۔
ڈائریکشن کے شعبے میں کرن جوہر کے کریڈٹ پر یہ فلم ایک ڈیزاسٹر کے طور پر درج ہونے جارہی ہے۔ کرن کے فینز کو یہ فلم دیکھ کر شدید مایوسی ہوگی کیونکہ وہ کچھ کچھ ہوتا ہے، اور اے دل ہے مشکل، جیسی فلموں کے میکر سے اس فلم کی توقع ہرگز نہیں کررہے تھے۔ پونے تین گھنٹے دورانیے کی فلم کے سیکنڈ ہاف نے ڈائریکٹر کی تھوڑی بہت لاج رکھ لی ہے، ورنہ اس فلم کو کرن جوہر کے کیریئر کی بدترین فلموں میں شمار کیا جانا تھا۔ اوور آل یہ فلم تھری اسٹار کی مستحق ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس