Friday, October 18, 2024
پہلا صفحہتبصرےکٹھل۔ آجیک فروٹ مسٹری، ایک فضول سی کامیڈی فلم

کٹھل۔ آجیک فروٹ مسٹری، ایک فضول سی کامیڈی فلم

نیٹ فلیکس پر دنیا بھرکی پروڈکشنز اسٹریم کی جارہی ہیں لیکن دنیا کے سب سے مقبول او ٹی ٹی پلیٹ فارم کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ اس کی سب سے بڑی مارکیٹ انڈیا سے جو پروڈکشنز اس پلیٹ فارمز پر پیش کی جارہی ہیں، وہ انتہائی سطحی اور معیار کے نچلے درجے پر نظر آتی ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں نیٹ فلیکس پر بھارتی پروڈیوسرز کی جانب سے محض چند ایک ہی معیاری پروڈکشنز دیکھنے کو ملی ہیں جن کا تناسب دس فی صد بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس امریکہ، ساؤتھ کوریا، برطانیہ، اسپین، کولمبیا، میکسیکو، کینیڈا، فرانس، پولینڈ، جاپان، جرمنی، اٹلی، چائنا اور روس کی پروڈکشنز کی ریٹنگ کافی بہتر ہے۔ بھارت کا نمبر اس فہرست میں کافی نیچے آگیا ہے۔ اس کی وجہ مسلسل غیر معیاری پروڈکشنز ہیں۔

آج ہماری زیرتبصرہ فلم بھی ایک سطحی مرکزی خیال پر بیسڈ ہے جس کا نیٹ فلیکس پر دکھایا جانا ہی آڈیئنس کے لیے حیرت کا باعث ہے۔ ہم بات کررہے ہیں، کٹھل۔ آ جیک فروٹ مسٹری، کی۔ جس کی کاسٹ میں ثانیہ ملہوترا، وجے راز، راج پال یادیو، رگھوبیر یادیو، اور برجیندرا کالا جیسے منجھے ہوئے ایکٹرز نے کام کیا ہے لیکن فلم دیکھ کر انتہائی مایوسی کے ساتھ ڈائریکٹر کی جرات پر حیرت ہوتی ہے کہ اس نے کس طرح ایک فضول سی کہانی کو ایک گھنٹہ 55منٹ دورانیے پر پھیلانے کی ناکام کوشش کی اور آڈیئنس کا وقت برباد کیا۔

سب سے پہلے کہانی کی بات کرلیتے ہیں۔
ایم ایل اے (وجے راز) کی حویلی کے برآمدے میں لگے کٹھل کے درخت سے دو وزنی کٹھل چوری ہوجاتے ہیں جن کی مالیت بمشکل تین سو روپے ہوتی ہے۔ اب پوری پولیس فورس ان دو کٹھل کی تلاش میں لگ جاتی ہے۔ انسپکٹر ماہیما بسرور (ثانیہ مہلوترا) کو یہ کیس سونپا جاتا ہے۔ ماہیما کا بوائے فرینڈ سورابھ (آننت جوشی) کانسٹیبل ہے۔ جس کا باپ ماہیما سے شادی کے خلاف ہے کیونکہ وہ نچلی ذات کی ہے اور پھررینک میں بھی اس کے اوپر ہے۔ کٹھل کی بازیابی کی انویسٹی گیشن کے دوران ایم ایل اے کے مالی کی بیٹی امیہ کے اغوا کا معاملہ سامنے آتا ہے تو ماہیما تفتیش کا رخ موڑ کر اغوا کا کیس حل کرنے نکل جاتی ہے۔ اس دوران سو سے زائد مذید لڑکیوں کے اغوا کا معاملہ سامنے آتا ہے۔ کٹھل چوری کے معاملے کی جانچ میں ایک سراغ رساں شری واستو (برجندرا کالا) اور ایک یوٹیوب چینل چلانے والا نیوز رپورٹرانوج سانگھوی (راج پال یادیو) بھی لگے ہیں لیکن کٹھل چورکا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ امیہ کے بارے میں پولیس کی تفتیش سے سامنے آتا ہے کہ وہ معمولی گٹکے کی طلب میں ایک گینگ کے ہاتھ لگ کر اغوا ہوئی اورایک حلوائی گلاب سیٹھ (رگھوبیر یادیو) کو فروخت کردی گئی، جسے ماہیما بازیاب کرالیتی ہے لیکن کٹھل چوری کا معمہ پھر بھی حل نہیں ہوتا۔ آخری سین میں دکھایا جاتا ہے کہ دراصل کٹھل بندروں نے درخت سے توڑ کر حویلی کی چھت پر لے جاکر کھالیے تھے۔ گلاب سیٹھ اغوا کی گئی لڑکیوں کا کیا کرتا تھا؟ باقی سو سے زائد لڑکیوں کو کس نے اغوا کیا؟ ان سوالوں کا جواب دینے کی رائٹر یا ڈائریکٹر نے ضرورت محسوس نہیں کی۔ حتیٰ کہ امیہ کی بازیابی کے لیے گلاب سیٹھ کے گھر دھاوا بولنے والی پولیس کے پورے آپریشن کو کامیڈی سیکوئنس میں تبدیل کردیا گیا
اس قسم کی فضول کہانی بھارتی رائٹرز کے خالی دماغ میں ہی سماسکتی ہے۔ کہانی تو فضول ہے ہی، فلم کا اسکرین پلے اور ڈائیلاگز میں بھی کوئی ایسی بات نہیں کہ آڈیئنس کے دوگھنٹے بربادی کی کسی حد تک تلافی ہوسکے۔

بولی وڈ انڈسٹری کے تمام نامی کامیڈی ایکٹرز کو جمع کرکے بھی ان سے کوئی کام نہیں لیا گیا۔ ثانیہ ملہوترا کے علاوہ سبھی ایکٹرز بھرتی کے محسوس ہوتے ہیں۔ خود ثانیہ کے کردار میں بھی کرنے کو کچھ نہیں تھا ماسوائے پولیس کی وردی میں ادھر ادھر گھومنے اور فضول قسم کے مکالموں سے کردار کو سنبھالنے کی کوشش، جس میں وہ ناکام رہی۔

حالیہ برسوں میں باکس آفس پر بولی وڈ فلموں کی درگت بنتے دیکھ کر اور ساتھ انڈین فلموں سے آئیڈیاز لے کر فلمیں بنانے کی ممبئیا فلم میکرز کی کوششوں سے ثابت ہوگیا ہے کہ بولی وڈ کے پاس اب سنانے کو نئی کہانیاں نہیں ہیں۔ بولی وڈ اسٹوری ٹیلنگ کے معاملے میں قلاش ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلائنڈ، بناتے ہوئے وہ ساؤتھ کوریا کی فلم سے آئیڈیا مستعار لیتا ہے اور جوان، بناتے ہوئے ساؤتھ انڈیا سے کہانی ادھار لینے پر مجبور ہے۔ کچھ فلم میکرز بیس سال پرانی غدر، کو دوبارہ بنانے پر مجبور ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب دنیا بدل چکی ہے۔ ہینڈ پمپ اکھاڑنے والے فارمولے تو اب پاکستانی فلم میکرز بھی نہیں آزمارہے لیکن شاید بولی وڈ کے پاس اب سوچنے سمجھنے اور دماغ لڑانے کی صلاحیت نہیں رہی۔

حالیہ برسوں میں باکس آفس پر بولی وڈ فلموں کی درگت بنتے دیکھ کر اور ساتھ انڈین فلموں سے آئیڈیاز لے کر فلمیں بنانے کی ممبئیا فلم میکرز کی کوششوں سے ثابت ہوگیا ہے کہ بولی وڈ کے پاس اب سنانے کو نئی کہانیاں نہیں ہیں۔ بولی وڈ اسٹوری ٹیلنگ کے معاملے میں قلاش ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلائنڈ، بناتے ہوئے وہ ساؤتھ کوریا کی فلم سے آئیڈیا مستعار لیتا ہے اور جوان، بناتے ہوئے ساؤتھ انڈیا سے کہانی ادھار لینے پر مجبور ہے۔ کچھ فلم میکرز بیس سال پرانی غدر، کو دوبارہ بنانے پر مجبور ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب دنیا بدل چکی ہے۔ ہینڈ پمپ اکھاڑنے والے فارمولے تو اب پاکستانی فلم میکرز بھی نہیں آزمارہے لیکن شاید بولی وڈ کے پاس اب سوچنے سمجھنے اور دماغ لڑانے کی صلاحیت نہیں رہی۔

واپس کٹھل۔ آ جیک فروٹ مسٹری، پر آتے ہیں۔
فلم کے ڈائریکٹر یشووردھن مشراکا یہ ڈیبیو پروجیکٹ ہے۔ اس سے قبل وہ چند شارٹ فلمیں کرچکے ہیں۔ اپنی پہلی فلم میںوہ قطعی متاثر نہیں کرسکے۔ ایک ہلکی پھلکی کامیڈی فلم بنانے کی کوشش میں وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ فلم میں بے شمار جھول جمپس ہیں۔
اس کہانی میں جہاں کئی خامیاں ہیں، بھارتی معاشرے کی کمزوریاں اور سسٹم کے ساتھ سماجی برائیوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ مثلاً پس ماندہ علاقوں کے ایک ایم ایل اے کے پاس اتنی پاور ہوتی ہے کہ وہ پوری پولیس فورس کو اپنی انگلیوں پر نچا سکتا ہے۔
دوسرا نکتہ ذات پات کا نظام ہے۔ بھارتی سوسائٹی خود کو اکیسویں صدی میں بھی ہندو دھرم میں ذات پات اور اونچ نیچ سے محفوظ نہیں رکھ پارہی، جیسا کہ فلم میں ماہیما اور سورابھ کے کرداروں سے واضح ہے۔
تیسرا کڑوا سچ مالی کی بیٹی امیہ کے کردار میں واضح ہے کہ ایک لڑکی کو محض اس وجہ سے آوارہ اور چالو قراردیا جاتا ہے کیونکہ وہ پھٹی ہوئی جینز اوربڑے گلے والی شرٹ پہنتی ہے۔ یہ سوال اس سے کورٹ روم میں بھی کیا جاتا ہے کہ وہ بولڈ ڈریسنگ کیوں کرتی ہے؟ اس طرح تو وہ خود لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ سوالات ایک ایسی سوسائٹی اور ملک میں اٹھائے گئے ہیں جو خود کو بہت ذیادہ لبرل اور ماڈرن تصور کرتا ہے۔

یہ فلم بالا جی ٹیلی فلمز کی پروڈکشن کی ہے۔ یعنی ٹی وی انڈسٹری کے بڑے نام شوبھا کپور اور ایکتا کپورکا دماغ اس فضول قسم کی فلم کے پیچھے ہے۔ حیرت ہے کہ اس فلم کو آئی ایم ڈی بی پر 6.7 کی ریٹنگ حاصل ہے۔ میرے خیال میں اس فلم کو صرف ڈیڑھ اسٹار دینا کافی ہے۔ جبکہ نیٹ فلیکس کو اپنی ساکھ بچانی ہے تو اس نوعیت کی ٹائم برباد پروڈکشنز سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس