یوں تو نوے کی دہائی میں بھی اس قسم کے مفہوم والے الفاظ کی گونج سنائی دیتی رہی تھی کہ پاکستانی سنیما کی بحالی شروع ہوچکی ہے۔ اس لفظ بحالی کو انگریزی کے لفظ ری وائیول سے خاصہ ٹف کمپیٹیشن جھیلنا پڑتا ہے کیونکہ بیشتر لوگ ری وائیول ہی بولتے سنائی دیتے ہیں۔ سید نور کی جیوا، اور قسم، ان کی ایسی ہی فلمیں کہلائیں جو انڈسٹری کی بحالی کے نعرے کے ساتھ سنیما میں لگائی گئیں۔ سنگیتا کی گھونگھٹ، اور نکاح، کی کامیابی نے بدحال پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی کو مہمیز دی۔ لیکن یہ بحالی کا سفر کچھ زیادہ عرصے تک نہیں چل سکا اور ایک مرتبہ پھر سے پاکستانی فلموں کی بدحالی کا منظرنامہ زور شور سے لکھا جانے لگا۔ پنجابی فلمیں سلطان راہی کے قتل کے بعد کچھ عرصے شان، سعود اور معمر رانا کے ناتواں کاندھوں پر ٹکی ہوئی نظر آئیں۔ پھر ان کی بدحالی بھی نمایاں طورپر دکھائی دینے لگی۔ سلطان راہی کے چاہنے والے غالباً اس حقیقت کوتسلیم نہیں کرتے کہ پنجابی فلمیں ان کی زندگی میں ان کی موجودگی کے باوجود وسیع پیمانے پر کامیاب نہیں ہورہی تھیں اور بدحالی کے آثار ہویدا ہونا شروع ہوچکے تھے۔
اردو فلمیں اس سے بھی پہلے بدحالی کے تھپیڑوں کی زد میں آچکی تھیں۔ اس بدحالی کو ڈبل ورژن فلموں سے روکنے کی ایک بہت ہی بھونڈی کوشش کی گئی۔ یعنی فلم اصل میں پنجابی میں بنائی جاتی تھی مگر اسے کراچی سرکٹ میں اردو ڈبنگ کے ساتھ ریلیز کیا جاتا تھا۔ کراچی کے فلم بینوں نے اس بندوبست کو یکسر رد کردیا اور یوں ڈبل ورژن فلمیں اپنی موت آپ مر گئیں۔

ایک طویل خاموشی کے بعد پاکستان میں ملٹی پلیکیس سنیما کا آغاز ہوا تاہم انڈین فلموں کی نمائش کی شروعات اس سے قبل ہوچکی تھیں۔ نشاط سنیما میں ہندوستان کی عظیم تاریخی فلم مغل اعظم (جو اس وقت کے پاکستانی حکمراں کو خیر سگالی کے طور پر تحفتاً دی گئی تھی) ایک عرصے تک نمائش پذیر رہی۔ اس دوران پاکستان میں ملٹی پلیکس کلچر فروغ پارہا تھا۔ کراچی کے ساحل کے قریب یونیورس ملٹی پلیکس کے بعد ایٹریم بنا۔ اس جدید سنیما کو پاکستان میں متعارف کرانے میں نشاط سنیما کے مالکان کا بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور تھا۔
ملٹی پلیکیس کی کامیابی نے اس نوع کے معتدد سنیماز کا جال پھیلانا شروع کردیا اور پاکستان کے تین بڑے شہروں میں ملٹی پلیکیس سنیماز تیزی سے تعمیر ہونا شروع ہوگئے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ان سنیماز نے روز اول سے بزنس بھی خوب کیا اور اس کی سب سے بڑی وجہ انڈین فلموں کی بلاروک ٹوک پاکستان میں نمائش رہی جبکہ انگریزی فلمیں بھی ہندی میں ڈب ہوکر شائقین کے دیکھنے کے لیے میسر تھیں۔ انہی زمانوں میں پاکستانی فلم میکرز نے پھر سے سر اٹھایا۔ نئے اور جدید سنیماز میں لوگ ویسے ہی سنیما کے ماحول اور تعمیرات دیکھنے کے واسطے خومخواہ کی دلچسپی کی تسکین کے لیے آنے لگے تھے جس کا ازبس فائدہ فلموں اور سنیما دونوں کو پہنچنا شروع ہوگیا۔

اس موقع سے فائدہ اٹھاکر پاکستانی فلم میکرز نے معیاری اور غیر معیاری دونوں قسم کی فلمیں مسلسل بنائیں۔ ان فلموں کی ریلیز کو پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی کے نعرے کے نیچے اس طرح پیش کیا جانے لگا کہ پاکستان کے شہریوں کے جذبہ حب الوطنی کو ابھار نے کا تڑکا بھی ساتھ میں لگایا جانے لگا۔ انہیں یہ ثقافتی غیرت دلائی جانے لگی کہ اٹھو اور اپنے ملک کی فلم انڈسٹری کو سپورٹ کرنے کے لیے گھروں سے نکلو۔ پاکستانی اس قسم کے نعروں کا جواب ہمیشہ بے حد مثبت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب ان کے جذبہ حب الوطنی کو مشتعل کرنے والوں نے انھیں پور پور لوٹ کے برباد کردیا۔ فلم انڈسٹری کی بحالی کا جذباتی نعرہ ایسی اشتعال انگیزی سے عبارت تو نہیں تھا ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ پاکستانیوں کی ثقافتی غیرت ایسی زندہ جاوید بھی نہیں ہے کہ وہ اس کی خاطر اپنی ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں کازیور بیچ کر سنیما کے ٹکٹوں کی لائن میں لگ جاتے۔
یہ نہیں ہوا پھر بھی پاکستانی فلم بینوں کو میں نے خود اپنی آنکھوں سے اس قدر مہنگے ملٹی پلکیس سنیماز کے ٹکٹوں کی لائن میں لگے ہوئے دیکھا ہے کہ ان کے جذبہ حب الوطنی پر کسی بھی طرح کا شک کرنا گناہ صغیرہ ہوسکتا ہے۔ لیکن بار بار جنگ ہارنے والوں کو کب تک کوئی جذبہ حب الوطنی سے گرماسکتا ہے۔ معصوم پاکستانی فلم بینوں نے ایسی ایسی کچرا فلمیں محض اپنے ملک کی فلم انڈسٹری کی بحالی کی خاطر کامیاب کرائیں کہ ایسے فلم بین شاید دنیا میں کسی بھی فلم انڈسٹری کو میسر نہیں ہوسکتے۔ حالانکہ مذکورہ کچرا فلمیں بنانے والوں کو باقاعدہ تعزیرات پاکستان کی کسی تخلیق کی منتظر دفعہ کے تحت سزا ملنی چاہیے تھی۔ یہ سب ہوا۔ فلم بینوں نے اپنی جیبیں خالی کردیں۔ اس کے باوجود فلم انڈسٹری کی بحالی آج بھی بدحالی کے کریہہ منظر کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
اس بیچ انڈیا کی فلمیں بھی بندش کا شکار ہوگئیں۔ میدان مذید کھلا اور بنا رقابت کے سامنے مفتوح ہونے کے لیے سینہ کھولے منتظر تھا مگر ہوا کیا؟ ہوا یہ کہ پاکستانی فلم میکرز نے معیاری اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ فلم میکنگ کی ابتدا تک ڈھنگ سے نہیں کی۔ اکثریت ایسے فلم میکرز کی رہی جو پاکستان میں ٹی وی ڈرامے سے وابستہ رہے ہیں۔ پاکستان کے ٹی وی ڈرامے کا شعبہ کسے نہیں معلوم کہ آج بھی ساٹھ کی دھائی میں پیش ہونے والی پاکستانی فلموں کے موضوعات سے پیچھے نظر آتا ہے۔ وقت سے بچھڑے ہوئے شعبے کے وابستگان سے کسی مقابلہ جاتی دوڑ میں کامیابی کی توقع کیسے جاسکتی تھی۔ سو وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ فلمیں دھڑا دھڑ ناکام ہونے لگیں۔

بدقسمتی سے پیشہ ورانہ فلم میکرز جن کے کاندھوں پر ہمیشہ سے پاکستانی فلم انڈسٹری سواری کرتی رہی، فلم انڈسٹری سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کسی گوشۂ عافیت میں پناہ ڈھونڈ چکے تھے۔ کہنا چاہیے کہ لاہور جہاں پاکستان کی فلم انڈسٹری ماضی میں پھلی پھولی تھی، وہاں فلم کی دنیا میں ویرانی لوٹنے لگی اور اجڑے ہوئے قافلے کی بے سروسامانی بال کھولے دیواروں پر لیٹی نوحہ کناہ تھی چنانچہ اب اکثر فلمیں کراچی میں بنائی جانے لگی تھیں۔ اصولی طور پر تو کراچی میں فلم انڈسٹری کو بھی اسی طرح کامیابی کے ستونوں پر کھڑا ہوجانا چاہیے تھا جیسے اور مختلف قسم کی انڈسٹریز پاکستان میں سب سے زیادہ کامیابی سے کراچی میں ہی منفعت بخش طریق پر قائم ہیں لیکن فلم انڈسٹری کے معاملے میں ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کو ایسے فلم میکرز نہیں مل رہے جو اس شعبے کے تقاضوں کو درست طور پر سمجھ سکتے ہوں۔ محض پاکستانیت کے نعرے کے بل بوتے پر کسی بھی لین دین اور نقصان و منافع سے عبارت شعبے کو دیر تک نہ تو چلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی تادیر قائم رکھا جاسکتاہے۔
گذشتہ عید الفطر پر کہتے ہیں کچھ معیاری فلمیں بھی پیش کی گئیں لیکن پاکستان کے فلم بینوں کا اعتماد پاکستانی فلموں سے متزلزل ہوچکا ہے۔ انہیں اب یہ یقین نہیں رہا کہ پاکستان میں اچھی، دلچسپ اور پیسا وصول قسم کی فلم بنا ئی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا ایک اطلاع کے مطابق لوگ عید الفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کو دیکھنے ہی نہیں آئے اور جب فلم بین سنیما آئیں گے ہی نہیں تو کیسی بھی معیاری فلم کیوں نہ ہو اسے کامیابی سے ہم کنار کیسے کرایا جاسکتاہے؟

آنے والی بقرعید پھر ایک ایسا ہی موقع ہے۔ عید الفطر والی تاریخ نہ دُہرائی جائے، اس کے لیے ایسی کوششوں کی ضرورت ہے جس سے روٹھے ہوئے ناراض فلم بینوں کو پھر سے سنیما کی طرف لایا جاسکتا ہو۔ یہ کام اس وقت اور بھی کٹھن ہے جب پاکستان میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ ہر طبقے کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ ایسے کسادی حالات میں کسی بھی ملک کے شہری ہوں وہ سب سے پہلے تفریحات کے بجٹ میں کٹوتی کرتے ہیں۔ اس قسم کی خبریں بھی سننے میں آیا کرتی ہیں کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارم کی سبسکرپشن میں بھی مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ان مشکل حالات میں ہزاروں روپوں کے ٹکٹ خرید کر فلم دیکھنے کے لیے کسی کا بھی جذبہ حب الوطنی سرد پڑ سکتا ہے۔

عیدالاضحی پر کئی اچھی شہرت کی حامل فلموں کے سنیما پر نمائش ہونے کی خبریں آچکی ہیں اور امید ہے کہ فلم بین اس بار سنیماز کا رخ ضرور کریں گے۔ اس کے باجود کہ اب بھی فلم بینوں سے فلم بنانے والوں کا وہی پرانا مطالبہ ہے، فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے۔