لاہور کی شہرہ آفاق فلمی منڈی رائل پارک سے متصل میکلوڈ روڈلاہور، کبھی مین سنیماؤں کی روشنیوں سے جگمگ کرتی نظر آتی تھی لیکن آج اس شاہراہ پر گنے چنے سنیماز ہی باقی رہ گئے ہیں جو پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہری دور کی یادیں زندہ رکھے ہوئے ہیں لیکن کوئی بعید نہیں کہ آنے والے کل میں یہ بچے کچھے سنیما گھر بھی یادِ ماضی بن جائیں گے۔
آج ہم آپ کو میکلوڈ روڈ کے ایک ایسے تاریخی سنیما گھر کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جہاں پاکستان کی ہی نہیں بلکہ بھارت اور ہالی وڈ کی فلموں نے بھی بزنس کی نئی تاریخ رقم کی۔
گلستان سنیما 60 کی دہائی کے وسط میں تعمیر کیا گیا اور اس کے مالکان دو بھائی ڈاکٹر امیر الدین اور میاں غلام محی الدین تھے۔
بعد ازاں انہوں نے یہ سنیما دو بھائیوں چوہدری عبدالطیف اور چوہدری عبدالمنظور کو فروخت کردیا، جو کہ جیل روڈ پر واقع انگولا سنیما اورصنوبر سنیما کے بھی مالک تھے۔ 1985 میں اس سنیما کی ملکیت ایک بار پھر تبدیل ہوئی اور اسے پشاور سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت لالہ محمد عاشق خان نے خرید لیا۔ ان کے انتقال کے بعد اب یہ سنیما ان کے بیٹے محمد عارف خان کی زیرنگرانی چل رہا ہے۔


سال 2018 میں اسے ڈیجیٹل سنیما میں تبدیل کردیا گیا اور یہاں بارکو کمپنی کا جدید پروجیکٹر نصب کردیا گیا۔ اس کے علاوہ ساؤنڈ سسٹم بھی اپ گریڈ کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں فلم اسکریننگ اور ساؤنڈ کوالٹی میں مزید بہتری آئی۔
گلستان سنیما لاہور کا افتتاح عیدالاضحی کے موقع پر ریلیز ہونے والی اُردو فلم ”کٹاری“ سے 10مارچ 1968 کو ہوا۔
اس فلم کی کاسٹ میں اعجاز، زمرد، طارق عزیز، مصطفی قریشی اور دیگر فن کار شامل تھے۔
بعد ازاں اس سنیما پر ذیادہ تر انگریزی فلموں کی نمائش کی جاتی رہی لیکن اُردو اور پنجابی فلموں نے بھی یہاں خاطر خواہ بزنس کیا۔
گلستان سنیما پر جو کامیاب فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں، ان میں رنگیلا، بہن بھائی، زرقا، لو اسٹوری، میرا نام ہے محبت، شبانہ، بیگم جان، سسرال، چن وریام، دھی رانی، چیف صاحب، جو ڈرگیا وہ مرگیا، انتہا، تیرے پیار میں، کمانڈو، یہ دل آپ کا ہوا، اور دی لیجنڈ آف مولا جٹ، نمایاں ہیں۔ ان میں سے بیشتر فلموں کا یہ مین سنیما تھا، جنہوں نے یہاں سولو سلور جوبلی کا ریکارڈ بھی بنایا۔
گلستان سنیما پر سولو سلور جوبلی کرنے والی فلموں میں رنگیلا، زرقا، دھی رانی، نمایاں کامیاب فلمیں ہیں۔
گلستان سنیما پر انگریزی فلموں نے بھی ریکارڈ بزنس کیا۔ جن میں ٹرمینیٹر2، ہارڈ ٹارگٹ، ٹائی ٹینک، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اس سنیما کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ صدر پرویز مشرف کے دور میں جب بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی خصوصی اجازت دی گئی توسب سے پہلے پاکستانی سنیماؤں میں مغل اعظم، کو ریلیز کیا گیا۔ اس فلم کا عظیم الشان پریمئر کراچی کے نشاط سنیما میں منعقد کیا گیا جبکہ اسی ہفتے لاہور میں گلستان سنیما میں مغل اعظم، کا گرینڈ پریمئر رکھا گیا، جس کے لیے سنیما کوانتہائی خوب صورتی سے سجایا گیا تھا۔

اسی سنیما میں بولی وڈ کی ایک اور بلاک بسٹر مووی ’جنت 2‘ کا گرینڈ پریمئر بھی ہوا۔ جس میں فلم کے ہیرو عمران ہاشمی، ہیروئن سونل چوہان، مکیش بھٹ اور مہیش بھٹ کے علاوہ مقامی فلم انڈسٹری کی چیدہ چیدہ شخصیات نے شرکت کی۔
پاکستان فلم انڈسٹری کے انتہائی بحران کے دنوں میں 19 جولائی 2002 کو اس سنیما پر ایک ایسی بلاک بسٹر فلم ریلیز ہوئی جس نے مردہ فلمی صنعت میں نئی روح پھونک دی۔
اداکار و ہدایت کار جاوید شیخ کی رومینٹک میوزیکل فلم یہ دل آپ کا ہوا، کا لاہور میں مین سنیما گلستان تھا۔ جسے ملائیشیا سے پرنٹ کروائے گئے پینا فلیکسز سے سجایا گیا تھا۔




اس سے قبل سنیماؤں میں فلموں کی پبلسٹی کے لیے ہاتھ سے بنائے گئے کٹ آؤٹس اور ہورڈنگز کا رواج تھا لیکن جاوید شیخ نے اپنی فلم کے لیے اس نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ یہ دل آپ کا ہوا، نے پورے ملک میں زبردست کامیابی حاصل کی لیکن گلستان سنیما پر اس فلم نے سولو 65 ہفتے مسلسل نمائش کا ریکارڈ بنایا۔
ان دنوں گلستان سنیما پر ذیادہ تر انڈین پنجابی اور ہالی وڈ کی انگریزی یا اُردو ڈب فلموں کی نمائش کی جاتی ہے لیکن عیدین اوردیگر تہواروں کے علاوہ یہاں فلم بینوں کا خاص رش دکھائی نہیں دیتا۔
سنیما کا اسٹاف ان دنوں کو یاد کرکے افسردہ ہوجاتا ہے جب یہاں فلمی شائقین ٹکٹ کے حصول میں کھڑکی توڑ رش کی مثال بنتے تھے۔
گلستان سنیما میں بھی ملک کے دیگر بچے کچھے سنگل اسکرین سنیماؤں کی طرح اب ویرانیوں کے ڈیرے ہیں لیکن کیا یہ ویرانیاں ایک اور خوب صورت اور یادگار سنیما کو نگل جائیں گی؟