Monday, March 10, 2025
پہلا صفحہتبصرےہڈی، ایک قابل ذکر فلم جو بھرپور تاثر قائم کرنے میں ناکام...

ہڈی، ایک قابل ذکر فلم جو بھرپور تاثر قائم کرنے میں ناکام رہی

فلم میکرز کسی بھی موضوع کو فلم بند کرتے وقت موضوع کی اہمیت اور اس کی مرکزیت کو کنٹرول کرنے میں کئی بار بلکہ اکثر سے ناکام رہتے ہیں۔ ایسا ہی ہوا ہے حالیہ زی 5 کے پلیٹ فارم سے ریلیز ہونے والی فلم “ہڈی” کے ساتھ۔ فلم کا ٹریلر دیکھتے وقت ایسا تاثر قائم ہوا یا کم سے کم مجھے ایسا ہی لگا کہ یہ فلم ہیجڑوں کے موضوع کو کسی نئے اینگل سے ڈسکس کرنے والی ہے۔ نواز الدین صدیقی جو فلم کا مرکزی کردار ہیں، ان کو ہیجڑے کے بہروپ میں دیکھ کر مجھ جیسے ناظرین کی نواز سے نئی توقعات وابستہ ہوگئیں جو پوری نہیں ہوسکیں۔

فلم شروع ہوتی ہے تو نواز ایک نارمل مرد کی ہیت میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ایک جنازے کا منظر ہے۔ کسی بھلا جی ہندو کا جنازہ ہے۔ ایک پولیس والا جنازے کو رات میں کریا کرم کرنے سے منع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کل آنا، ابھی ممکن نہیں ہے۔ لواحقین جرح کرتے ہیں تو اس بحث کو نہایت ہوشیاری سے نواز ایک قسم کے جھگڑے میں بدل دیتے ہیں اور جنازے کا مردہ اپنے ایک ساتھی کی مدد سے لے کر فرار ہوجاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد پتا چلتا ہے کہ پولیس ان کے پیچھے ہے اور انہیں مردے کو چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔ یہ الہ آباد ہے۔ ٹی وی کی خبروں سے نواز کو پتا چلتا ہے کہ پولیس بڑے پیمانے پر مردے چوری کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ میں سرگرم ہے لہٰذا نواز اپنے ساتھی سے کہیں اور جاکے کام کرنے کی بات کرتا ہے اس کا ساتھی بتاتا ہے کہ سب ہی علاقوں میں پولیس متحرک ہے تب پھر دلی جانے کی بات شروع ہوتی ہے اور اس بات چیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی ہیجڑہ بہت مزے سے دلی میں زندگی گزار رہا ہے۔ وہ جسم فروشی کے دھندے میں بھی ملوث ہے جبکہ اس کے اپنے عزائم یہ ہیں کہ اسے پاور کے حصول کے لئے پالیٹکس میں آنا ہے۔

نواز کا ساتھی اسے خبردار کرتا ہے کہ “اندر” اس سے نواز کے بارے میں پوری سچائی اگلوالے گا۔ یہ سنتے ہی نواز اپنے ساتھی کا چلتی ہوئی بس میں گلہ کاٹ کر اسے نہایت بے رحمی سے نیچے پھینک دیتا ہے۔ مردوں کے اعضاء کا دھندہ کرتے ہوئے وہ اس قدر بے رحم بن چکا ہے کہ اس کے لئے کسی انسان کو ذبح کرنا کوئی اہم بات نہیں ہے اور جیسا کہ نواز الدین کی فطری بے نیازانہ ایکٹنگ ان کی پہچان رہی ہے، اس انداز بے اعتنائی نے مذکورہ کردار میں ان کی بہت مدد کی ہے۔ تاہم نواز الدین کی شَقِیُ الْقَلْبی کی یہی ایک وجہ نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد جب فلم ماضی میں داخل ہوتی ہے تو اس سنگدلانہ رویے کی ایک اور بہت گہری وجہ بھی سامنے آتی ہے۔ دہلی پہنچنے کے بعد ٹی وی پر عرفان نامی ایک سوشیل ورکر یا کہنا چاہیے ہیجڑوں کے لئے سماج میں عزت دلانے کے لئے کام کرنے والے کا انٹرویو دیکھ کر نواز کے چہرے کے ایکسپریشنز بتاتے ہیں کہ اس کی کوئی ایسی کہانی ہے جس میں عرفان (ذیشان ایوب) کا کوئی کردار ہے۔ نواز، عرفان کا تعاقب کرکے اس کے آفس پہنچتا ہے۔ عرفان کی ایک ٹانگ میں نقص ہے۔ یہاں فلیش بیک سے پتا چلتا ہے کہ ماضی قریب میں نواز اور عرفان ریلیشن شپ میں تھے۔ بعد میں دونوں کی شادی بھی ہوئی۔ اس شادی کے لیے نواز نے تکلیف سے بھری اذیت ناک سرجری بھی کروائی لیکن ماضی اس سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔

پرمود اہلاوت (انوراگ کشیپ) نے اپنا ایک پلازہ کھڑا کرنے کے لیے ہیجڑوں کی قیام گاہ جس میں ہیجڑوں کی اماں (گرو) کا حکم چلتا ہے۔ بہت سے بے سہارا ٹوٹے پھوٹے ہیجڑوں کے ساتھ رہتی ہے۔ پہلے تو پرمود لالچ اور دھونس دھمکی سے اس بلڈنگ کو ہتھیانے کی کوشش کرتا ہے اور ناکامی کی صورت میں نہایت بربریت کے ساتھ تمام موجود ہیجڑوں کا قتل عام کرادیتا ہے۔ اسی روز نواز اور عرفان کی شادی ہوئی ہوتی ہے۔ اس قتل عام کے بعد جس میں عرفان کو بھی گولی لگ جاتی ہے۔ (گولی ٹانگ میں کیسے لگی یہ سمجھنا دشوار ہے) بہرحال وجہ کوئی بھی رہی ہو۔ عرفان اب لنگڑا کے چلتا ہے۔ اس قتل عام کو نواز اور عرفان نے چھت سے چھپ کر دیکھا اس لئے نواز کی جان بچ گئی۔

بعد ازاں نواز واقعاتی سطح پر اس گینگ میں شامل ہوجاتا ہے جس کا سرغنہ ایک ہیجڑہ ہی ہے اور یہ گینگ کام کرتا ہے سیاست دان پرمود کے لئے۔ جس کا انسانی ہڈیوں کی اسمگلنگ کا ایک باقاعدہ کاروبار ہے اور انسانوں کے مردہ جسموں کی کاٹ چھانٹ ایک فیکٹری میں ہوتی ہے جس کا حصہ ہڈی کے نام سے منسوب نواز بھی بن جاتا ہے۔ نواز کا مقصد بدلہ لینا ہے اور ایک دن وہ بدلہ لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ بدلہ لینے والا یہ پورا منظرنامہ مضحکہ خیزی سے اٹا ہوا ہے۔ جس نے فلم کو کمزور کرنے میں کسر اٹھا نہیں رکھی۔ انجام کار نواز پرمود کو کلہاڑی سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہلاک کردیتا ہے اور فلم ایک لایعنی مکالماتی ایکسپریشن پر ختم ہوجاتی ہے۔

فلم کی سب زیادہ ناقابل برداشت شخصیت پرمود کا کردار ہے جسے انوراگ کیشپ نے ادا کیا اور ثابت کیا ہے انہیں ایکٹنگ کی الف ب بھی نہیں آتی۔ فلم کو ڈبونے میں انوراگ کیشپ کا سب سے اہم کردار ہے۔ یہ کردار کسی باقاعدہ اداکار سے ادا کرانا چاہیے تھا۔ نواز الدین نے اس کے باوجود باکمال ایکٹنگ کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان کا کردار بھی کئی زاویوں سے انتشار کا شکار ہے۔ فلم کو بیان کرنے میں ڈائریکٹر اکشت اجے شرما نے ایسے اناڑی پن سے کام لیا ہے کہ فلم بکھری ہوئی سی لگتی ہے۔ فلم میں مرکزیت کی شدید کمی ہے۔ نواز الدین کے علاوہ غیر معروف فنکاروں کی ایک بھیڑ جمع کی گئی ہے۔ جس سے فلم اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ انسانی جسم کی کاٹ چھانٹ کے مناظر دیکھنا کسی بھی حساس انسان کے اختیار کی بات نہیں ہے۔ ان سے دانستہ گریز نہیں کیا گیا تاکہ فلم کو زیادہ دہشت ناک تاثر دیا جاسکے۔ فلم کا موضوع انسانی مردوں کی ہڈیوں کا کاروبار ہے۔ (انڈیا ساری دنیا میں اس گھناؤنے کام کا سب سے بڑا سپلائر ہے) یا پھر ہیجڑوں کے مسائل فلم کا موضوع ہیں، جن کی نمائش فلم کی پبلسٹی میں بھی کی گئی ہے؟ یہ فیصلہ کرنا چنداں دشوار ہے۔ اسی لئے ہڈی فلم قابل ذکر ہوتے ہوئے بھی غیر اہم فلم بن کے رہ جائے گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس