آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سینئر آرٹسٹ اکبر خان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، معروف اداکار و شہزاد رضا، کشور زہرا، عشرت کمال، سلیم صدیقی، عمران شیروانی، اقبال لطیف، سلیم آفریدی، شاہدہ خورشید، نذر حسین، مجیب شہزاد، دانش بلوچ، مجید وارثی، عارف، مہتاب علی، آدم راٹھور، سہیل عباس، فرحان اعوان، کریم کاظمی، منصور ساحر، انور حسین اور اکبر خان کے بچوں سفیان، عمامہ، ایمان، مناہل کے علاوہ شوبز انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ معروف مجسمہ نگار و آرٹسٹ انجم ایاز نے ویڈیو پیغام کے ذریعے تعزیت کا اظہار کیا۔ اکبر خان نے اپنی زندگی میں جو کام کیے اس پر مبنی شوریل پیش کی گئی جبکہ پروگرام کی نظامت کے فرائض نعمان خان نے سرانجام دیے، قاری وقار نے تلاوت کے بعد مرحوم اکبر خان کے لیے دعائے مغفرت کروائی۔ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اکبر خان بہت اچھا فن کار اور مجسمہ ساز ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھا انسان بھی تھا۔ اکبر ساری زندگی سب کو ہنساتے رہے۔ کمال احمد رضوی اکبر خان کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ کام وہ کرتا تھا اور نام استادوں کا ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ اس کا بہت قریبی تعلق تھا۔ آرٹس کونسل اکبر خان کی فیملی کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ میں اکبر خان کے بیٹے کو آرٹس کونسل میں نوکری دینے کا اعلان کرتا ہوں۔

اداکار سلیم آفریدی نے کہا کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں اکبر خان کی وجہ سے ہوں۔ اس نے اداکاری و مجسمہ سازی میں خود کو منوایا۔ وہ کام پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ میں شرمیلا اور اکبر خان پورے خان دان کی جان تھے۔ ہر ایک کو ہنساتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ صدر آرٹس کونسل نے ان کے بیٹے کو نوکری دے کر اپنا حق ادا کردیا۔ معروف ڈائریکٹر اقبال لطیف نے کہا کہ اکبر خان بہت خودار انسان تھا۔ اس کو دل جیتنے کا ہنر آتا تھا۔ اکبر سے جو شخص ملتا وہ اس کی طرف کھینچا چلا جاتا۔ ایسے محنتی انسان بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ انجم ایاز نے ویڈیو پیغام کے ذریعے تعزیتی ریفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اکبر خان نے کافی عرصہ میرے ساتھ کام کیا۔ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھے مگر کبھی کسی کو محسوس نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے ہمیشہ لوگوں کو کچھ نہ کچھ دیا۔ وہ دینے والا انسان تھا۔ معروف اداکار و گورننگ باڈی ممبر شہزاد رضا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجسمہ سازی اور اداکاری میں اکبر خان کا جواب نہیں تھا، وہ میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح تھا۔ وہ لوگوں کے مزاج کو سمجھتا تھا۔

شاہدہ خورشید کنول نے کہا کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اکبر خان کہیں سے آئے گا اور کہے گا کیسا رُلایا۔ وہ ویڈیو اور تصاویر بنانے میں ماہر تھا۔ انہوں نے اپنی ذات سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔ نذر حسین نے کہاکہ اکبر خان ناصرف بہت بڑا آرٹسٹ تھا بلکہ انسان بھی بہت اچھا تھا۔ میں نے اکبر کو کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ اس نے اپنے کام کے ذریعے ایک مقام حاصل کیا۔ وہ بہت ملنسار اور لوگوں کو ہنسانے والا انسان تھا۔ اکبر خان کے چھوٹے بھائی انور حسین نے کہا کہ اللہ ایسا بھائی ہر کسی کو دے۔ انہوں نے کبھی ذاتی مفاد کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ وہ سب کا خیال رکھتے تھے۔ نہ دن دیکھتے تھے نہ رات کام کرتے رہتے تھے۔ پتھر تراشنے کا کام بخوبی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے 40 سال قبل ہی فنی ویڈیوز بنانا شروع کردی تھیں۔ اکبر خان کے صاحب زادے سفیان نے کہا کہ ابو کی موت نے ساری کایہ ہی پلٹ کر رکھی دی۔ انہوں نے ہمیں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی، وہ کچھ نہ کچھ سکھاتے رہتے تھے۔ مجھے آرٹ پسند نہیں تھا لیکن انہوں نے مجھے اداکاری سکھائی، وہ کسی کو پریشان ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہر کسی کے لیے ہمیشہ مثبت سوچ رکھی۔ صاحبزادی عمامہ نے کہا کہ میرے والد اکبر خان نہیں بلکہ اکبر بادشاہ تھے۔ اچھے اخلاق اور خلوص سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ ہمیشہ لوگوں میں خوشیاں بانٹتے دیکھا۔ انہوں نے حقوق العباد بخوبی نبھائے۔