افشاں سنیما کبھی کراچی کا ایک معیاری سنیما ہوا کرتا تھا لیکن وقت اور حالات کی گردش نے اسے خستہ حالی کی آخری حد کو پہنچادیا ہے۔ افشاں سنیما، کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ، جسے کبھی بندر روڈ بھی کہا جاتا تھا، اس کے عقب میں واقع مارسٹن روڈ پر واقع ہے۔ جسے وحید مراد کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ کبھی اس عقبی سڑک پر درجن بھر سنیما گھر ہوا کرتے تھے۔ اس سڑک پر اب صرف دو ہی سنیما بچے ہیں۔
افشاں کے برابر ہی نشیمن سنیما واقع ہے جو کافی عرصے سے بند پڑا ہے اور اطلاعات یہی ہیں کہ اس کے مالکان اسے فروخت کرنا چاہتے ہیں۔
افشاں سنیما میں پچھلے کئی سالوں سے پشتو فلمیں دکھائی جارہی ہیں اور یہ سنیما بھی جیسے تیسے بس چل رہا ہے۔ افشاں سنیما کا افتتاح 1977 میں فلم درد، کی نمائش سے ہوا تھا۔ یہ فلم 16 ستمبر 1977 کو ریلیز ہوئی تھی۔ اس اعتبار سے افشاں سنیما کو قائم ہوئے 46 برس بیت چکے ہیں۔ درد، کے فلم ساز اقبال اختر اور ڈائریکٹر سلیم شہزاد تھے۔ کاسٹ میں بابرہ شریف، ندیم، طلعت اقبال ، نجمہ محبوب، محبوب عالم اور دیگر شامل تھے۔ یہ فلم ذیادہ اچھا بزنس نہ کرسکی۔
افشاں سنیما حاجی ابراہیم صاحب نے تعمیر کروایا تھا اور اب تک یہ سنیما انہی کی ملکیت ہے۔




- بھارت کے لیے نئی مشکل۔ پاک بھارت جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت میں علیحدگی پسندانہ تحریکوں نے کارروائیاں تیز کردیں
- عیدالفطر پر فلموں کا مایوس کن بزنس۔ کیا لاک ڈاؤن کے بعد اب سنیماگھر شٹ ڈاؤن دیکھیں گے
- عیدالفطر پر ریلیز ہونےوالی فلموں کا جائزہ
- پاکستان کی تیسری فلم شاہدہ (1949)
- آٹھواں ادب فیسٹیول دس نومبر کو منعقد کیا جائے گا
افشاں سنیما پر جو یادگار فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں اور جن کا مین سنیما افشاں تھا۔ ان فلموں میں پلے بوائے، میں چپ رہوں گی، عورت راج، نشانی، آئی لو یو، پیاری، کبھی کبھی، کشمکش، سنگرام، کالو، چوڑیاں، انگارے، مہندی والے ہتھ، رانی بیٹی راج کرے گی، آندھی اور طوفان، اور آتش ، قابل ذکر ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے اس سنیما کا بزنس نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ اب یہاں پشتو فلموں کا کاروبار بھی نہیں رہا۔
کبھی افشاں سنیما فیملیز کا پسندیدہ سنیما ہوا کرتا تھا۔ گنجان آبادی والے علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے یہاں فلم بینوں کا رش لگا رہتا تھا لیکن اب یہاں الّو بولتے ہیں۔
سنیما کی سیٹیں نکال کر لوہے اور لکڑی کی بینچز لگادی گئی ہیں۔
فلموں کی پروجیکشن بھی ایک چھوٹے سے پروجیکٹر سے کی جاتی ہے۔ جبکہ اسکرین اور ساؤنڈ کی کوالٹی بھی متاثر نہیں کرتی۔
دس سال پہلے تک 35 ایم ایم پر فلمیں بنتی تھیں تو سنیما کا پرانا پروجیکٹر زیر استعمال تھا لیکن اب وہ اسکریپ کردیا گیا ہے ۔
پشتو فلمیں چونکہ ایم پی فور فارمیٹ پر بنتی ہیں تو ان کی پروجیکشن ایک سادہ سے پروجیکٹر سے ہوجاتی ہے جس کی مالیت مارکیٹ میں ایک لاکھ سے بھی کم ہے۔




اگر اس سنیما کو ڈیجیٹل پروجیکٹر سے آراستہ کرکے اور اسکرین و سنیما کی حالت کو قدرے بہتر کرلیا جائے تو افشاں کی تقدیر پھر سے جاگ سکتی ہے لیکن شاید مالکان اب اس سنیما کو چلانے میں انٹرسٹ نہیں رکھتے۔
یہی وجہ ہے کہ د ن بدن اس سنیما کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔
کوئی بعید نہیں کہ آنے والے کچھ مہینوں یا سالوں میں ہم صرف ایک دوسرے کو افشاں سنیما کی کہانیاں سناتے رہ جائیں۔ جیسا کہ کراچی اور پاکستان کے دیگر شہروں کے سنیماؤں کی اب صرف یادیں ہی رہ گئی ہیں۔