Tuesday, June 24, 2025
پہلا صفحہمضامینراولپنڈی اسلام آباد میں کبھی سنگل اسکرین سینماؤں کا جال بچھا تھا

راولپنڈی اسلام آباد میں کبھی سنگل اسکرین سینماؤں کا جال بچھا تھا

ہم نے جب ہوش سنبھالا تو یہ سن ستر کا زمانہ تھا اور یہ دور مکمل طور پر فلمی دور تھا۔ لولی وڈ فلموں کی دھاک ہر طرف بیٹھی ہوئی تھی۔ چہار سو فلمیں ہی فلمیں۔ سینما پر فلمیں۔ ٹیلی وژن پر فلمیں۔ ریڈیو پر فلمی گیت۔ ہوٹلوں پر باقاعدہ گراموفون پر فلمی گیتوں کے توے (ریکارڈ) چلتے تھے۔ ایک پیالی چائے پینے کے بہانے دوتین فرمائشی فلمی گانے سن لیتے تھے۔ اخبارات میں فلمی اشتہارات کی بھرمارہوا کرتی تھی۔ چٹ پٹی فلمی خبروں اور فلمی شخصیات کی آپسی محبتوں کے اسکینڈلز کی روداد تمام روزنامہ، ہفتہ وار فلم ایڈیشن باقاعدگی اور اہتمام سے شائع کرتے تھے۔ فلمی ماہناموں کی ان گنت تعداد تھی۔ شمع لاہور، شمع کراچی، رومان، چترالی، شباب، فلمی دنیا، پلک، دھنک، ان کے علاوہ ہفت روزہ فلمی اخبارات اور رسائل الگ تھے۔ مصور، ممتاز، اجالا،سنگم، اسکرین لائٹ، نگار، فلمستان، نورجہاں باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے۔ ہر ہفتے سینماؤں پر نئی فلموں کی ریلیز کے پوسٹرز اور ٹریلرز چلتے۔ ریڈیو پاکستان پر روزانہ دوپہر دس منٹ دورانیہ کا ریڈیو پروگرام ہوتا تھا، جس میں نمائش پذیر فلموں کی کہانی کا خلاصہ، چیدہ چیدہ مکالمے اور گیتوں کے مکھڑے سنائے جاتے۔ ان تمام سینماؤں کے نام بتائے جاتے، جہاں جہاں فلم لگی ہوتی ۔ فلمی کہانیوں پر مشتمل چھوٹے کتابچے جن میں فلموں کی کہانیوں کا خلاصہ، کاسٹ اور گانے لکھے ہوتے، ہر بک اسٹال پر دستیاب ہوتے۔ ان کی قیمت ایک آنہ ہوتی تھی۔ یہ چھوٹی کتابیں مختلف ادارے شائع کرتے لیکن سب سے مشہور نوبہار بک ڈپو اندرون بھاٹی دروازہ تھا۔ اس کے روح رواں شاید کوئی ندیم صہبائی تھے۔ بے شمار اشاعتی ادارے فلمی گانوں پر مشتمل کتابیں بھی شائع کرتے تھے۔

کوئی وقت تھا جب پاکستان بھر میں 700 کے لگ بھگ سینما ہاؤسز تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 15 اگست 1947 کو آغا جی اے گل نے پشاورمیں فردوس سینما کا افتتاح کیا۔ یوں فردوس سینما پشاور، پاکستان بننے کے بعد شروع ہونے والا پہلا سینما قرار پایا لیکن عقیل عباس جعفری اپنی کتاب پاکستان کرونیکل کے صفحہ نمبر 5 پر لکھتے ہیں کہ 18 ستمبر 1947 کو قیامِ پاکستان کے بعد کراچی کے پہلے سینما گھر جوبلی کا افتتاح ہوا اور اس سینما گھر میں ریلیز ہونے والی پہلی فلم وامق عذرا، تھی جو پاکستان بننے سے قبل ہی تکمیل کے مراحل میں تھی۔

جب میں نے ہوش سنبھالی تب راولپنڈی ایک چھوٹا سا خاموش اور گم صم شہر تھا۔ اسلام آباد تو بالکل ہی نوزائیدہ تھا۔ آبادی ایک سے ڈیڑھ لاکھ تھی۔ ان دونوں جڑواں شہروں میں 25 کے قریب سینما گھر تھے جن میں سے اب شاید ایک بھی فعال حالت میں نہیں ہے۔ میری عمر کے ماہ وسال، بچپن سے پچپن تک راولپنڈی میں گزرے ہیں۔ جہاں سینماؤں کا ایک جہان آباد تھا۔ روز سینما فوارہ چوک، یہ سینما اب بھی موجود ہے۔ بہت ہی پرانا ہے بلکہ شاید یہ راولپنڈی کا سب سے قدیم سینما ہے۔ اس کا افتتاح 1926 میں ہوا تھا ۔ میرے والد بزرگوار محترم اباجی کا کہنا تھا کہ برصغیر کی پہلی بولتی فلم عالم آرا، انہوں نے روز سینما فوارہ چوک میں دیکھی تھی۔یہاں ارد گرد ہول سیل منڈیاں ہونے کی بنا پر عام طور پر مزدور طبقہ ریڑھی بان دل بہلانے کی خاطر اور کٹھن زندگی سے خوشی کے چند لمحات کشید کرنے آتے تھے۔ اب روز سینما میں فلموں کی نمائش نہیں ہوتی۔ اس سے ملحقہ سول اسپتال ہے جس کے ساتھ کشمیری بازار ہے۔ جس کے شروع میں آمنے سامنے کتب ورسائل کے دو مشہور ہول سیلرز تھے۔ شمع بک ایجنسی اور راولپنڈی نیوز ایجنسی۔ آخر الذکر کے مالک امانت ندیم تھے جن کے پاس خواتین، شعاع، کرن، سسپنس، سرگزشت، جاسوسی اور پاکیزہ ڈائجسٹ کی ڈسٹری بیوشن تھی۔ امانت ندیم صاحب 1994 میں وفات پا گئے تھے ۔

شبستان سینما کمیٹی چوک گزشتہ برس گرا دیا گیا۔ یہ سینما ہمارا عشق، ہماری ثقافت اور راولپنڈی کی پہچان تھا۔ اس کے بالکل سامنے ہمارے ابا جی کی لائبریری تھی اشرف لائبریری۔ عمران سیریز کا کرایہ ایک آنہ روزانہ ہوا کرتا تھا۔ بہتر سالہ پرانی کتابوں کی یہ شو روم الحمدللہ اب بھی پوری آب و تاب سے موجود ہے ۔ مجھے خواب کی طرح یاد ہے کہ میں نے شبستان سینما کو زیرتعمیر حالت میں دیکھا ہے کیونکہ یہ ہمارے سب سے زیادہ قریب تھا۔ کمیٹی محلہ سے کمیٹی چوک کتنا دور ہے۔ کمیٹی محلہ کے ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں ہم رہتے تھے۔ شبستان سینما مری روڈ پر کمیٹی چوک میں تھا۔ شبستان سینما پر ہم نے سب سے زیادہ فلمیں دیکھی ہیں۔ اس پر فلم دیکھنے کا ایک فائدہ یہ تھا کہ چونکہ لڑکپن میں گھر سے فلم دیکھنے کی اجازت نہ ملتی تھی اور اس زمانے میں تین چار گھنٹے گھر سے باہر رہنے کا مطلب صرف فلم دیکھنے جانا ہی ہوتا تھا لہٰذا ہم شبستان پر فلم دیکھتے اور وقفہ ہوتے ہی بھاگ کر گھر پہنچ جاتے۔ شکل دکھاتے۔ اماں فوراً ہمیں دودھ یا دھنیا یا ہلدی مرچیں لینے بھیج دیتیں۔ سودا فٹا فٹ لاکر دیا اور پھر رفو چکر ہو کر سینما پہنچ جاتے۔ یوں گھر والوں کو فلم دیکھنے جانے کا شائبہ تک نہ گزرتا۔ شبستان سینما ایورنیوسٹوڈیوز لاہور کی ملکیت تھا۔ اس کے مالک آغا جی اے گل تھے۔ بعد ازاں آغا اعجاز گل یہاں انچارج ہوتے تھے۔ میری یاداشت کے مطابق آغا اعجاز گل نے فلم میکنگ اور فلم کی تکنیک پر دو کتابیں بھی لکھی اور چھپوائی تھیں۔ 7×5 سائز میں 80 گرام آفسٹ پیپر لگا تھا۔ کافی عرصہ یہ کتابیں میرے پاس بھی تھیں پھر کسی جاننے والے نے خرد برد کر لیں۔ یہ کتابیں ایک عرصہ تک شبستان سینما کے عقبی داخلے کے بعد بڑے ہال میں جہاں انتظامی آفس اور گیلری باکس میں جانے کے لیے سیڑھیاں تھیں، وہاں شیشوں کے فریم میں لگی ہوتی تھیں۔ جہاں آنے والی فلموں کے پوسٹرز آویزاں ہوتے تھے۔بلکہ سب سے زیادہ اور خوبصورت تصاویر یا پوسٹرز کا ڈسپلے شبستان سینما میں ہی تھا جہاں ماضی کی شاندار اور کامیاب پکچرز کی تصاویر بھی دیکھنے کو ملتیں۔ ستر اور اسی کی دہائی میں یہ اردو فلموں کا مین تھیٹر تھا۔ بعد ازاں پنجابی فلمیں بھی یہاں لگتی رہیں۔ شبستان سینما، پاکستان میں پہلی رنگین اردو فلم نائلہ، کے منافع سے بنایا گیا تھا۔ اس فلم کی رائٹر معروف مصنفہ رضیہ بٹ تھیں۔ انہی کے ناول نائلہ، پر اسی نام سے فلم بنی تھی۔ نائلہ غالباً 1964 میں بنی تھی اور راولپنڈی کے ناولٹی سینما موہن پورہ پر لگی تھی۔ یہ اتنی کامیاب رہی اور اس سے فلم ساز نے اتنا پیسہ اکٹھا کیا کہ مین مری روڈ کمیٹی چوک پر بہت بڑا سینما تعمیر کر لیا۔ کیا آج کسی خاتون مصنفہ کے قلم میں اتنی طاقت ہے کہ اس کی کہانی پر بنی فلم اتنا بزنس کرے؟ شاید ممکن ہی نہیں۔ نائلہ، ایورنیو پکچرز کی فلم تھی اور ایورنیواسٹوڈیوز میں تیار کی گئی تھی۔

شبستان سینما کی تکمیل 1967 میں ہوئی۔ افتتاح والے روز فلم انڈسٹری کی چیدہ چیدہ شخصیات مدعو تھیں۔ یہاں پہلی فلم جو چلی اس کا نام چھوٹے صاحب، تھاجو مشرقی پاکستان میں تیار ہوئی تھی۔ ندیم اور شبانہ اس کے مرکزی کردار تھے۔ سینما اونر اعجاز گل صاحب نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ شبستان کا افتتاح منسٹر آف انفارمیشن شہاب الدین شہاب کے ہاتھوں ہواتھا۔ شبستان کو لولی وڈ کی بہترین فلمیں ریلیز کرنے کا اعزاز حاصل ہے جن میں دل لگی، ہم دونوں، زندگی، پاکیزہ، انمول، گھونگھٹ، زرقا، اف یہ بیویاں، وعدہ، رنگیلا اور منور ظریف،یہ زمانہ اور ہے ، سجن بے پرواہ، وغیرہ شامل ہیں۔

سجن بے پرواہ، جس دن ریلیز ہوئی تھی، اس دن پورے سینما کو جگمگاتی روشنیوں سے سجایا گیا تھا۔ جس کی وجہ اس فلم میں ملکہ ترنم کی ایک قلندری دھمال تھی۔ بری بری سرکار بری امام بری اور بری سرکار کا مزار اسلام آباد میں ہے۔ اس زمانہ میں یہ دھمال ہر گھر ہر گاڑی ہر ہوٹل پر چل رہی تھی۔

گلستان سینما کمیٹی چوک چند برس قبل زمیں بوس کرکے یہاں پنڈی مال بنا دیا گیا۔ گلستان کی تعمیر میرے سامنے ہوئی تھی۔ اس کی تعمیر 1975 میں مکمل ہوئی تھی اور یہاں پہلی فلم سرحد کی گود میں، چلی تھی لیکن پہلے دن ہی سینما میں آتش زدگی ہو گئی تھی جس پر کافی جدوجہد کے بعد قابو پایا گیا۔ اس سینما کے مالک لیاقت خان خٹک تھے جو پی ٹی آئی کے دور حکومت میں وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع رہنے والے پرویز خٹک کے بھائی ہیں۔ گلستان سینما بھی انتہائی خوبصورت اور مین تھیٹر تھا۔ مری روڈ پر دو کلو میٹر کی حدود میں سات سینما ہاؤسز تھے اور ساتوں مین تھیٹرز تھے۔

کہکشاں سینما کمیٹی چوک کی جگہ اب کہکشاں شادی ہال ہے۔ یہ راولپنڈی کا سب سے آخری سینما تھا جو تعمیر ہوا لیکن ایک آدھ عشرہ ہی چل پایا۔ اس پر پہلی فلم بسیرا، لگی تھی۔ ندیم اور بنگلہ دیشی اداکارہ شبانہ کی، جس کا ایک گانا بہت مشہور ہوا تھا۔
مجھے کیا پتہ میری منزل کہاں، جہاں تیری مرضی تو لے چل وہاں

کہکشاں سینما کی ایک جدّت یہ تھی کہ اس کے گراؤنڈ سے گیلری اور باکس پر جانے کے لیے سیڑھیاں نہ تھیں جیسا کہ ہر سینما میں ہوتی تھیں بلکہ ایک کارپٹڈ گھومتا ہوا سلوب راستہ تقریباً ساڑھے سات فی صد کی اونچائی سے اوپر جا تا تھا ۔
کہکشاں سینما کے ساتھ ایک المیہ بھی رہا کہ یہاں شاید ایک سے زیادہ بار آگ لگی تھی۔ اس سینما کی عقبی باؤنڈری وال سے ملحق قبرستان ہے جو ڈھوک کھبہ کا قبرستان کہلاتا ہے۔

ریالٹو سینما مری روڈ میں، میں نے سب سے پہلی فلم حاتم طائی، دیکھی تھی۔ ہمارے ماموں سب بچوں کو لے کر گئے تھے۔ میری عمر اس وقت کوئی سات آٹھ برس ہو گی۔ ہمارے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا اور انتہائی حیرت کی بات تھی۔ کلاسیک کردار حاتم طائی، کی کہانی پر مشتمل یہ ایک بلیک اینڈ وائٹ جادوئی فلم تھی۔ بہت مزہ آیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اس بات کے کوئی پانچ چھے سال بعد جمعہ والے دن جمعہ کی نماز پڑھ کر میں اور میرا ایک دوست آئے تو میرے ابا جی نے روک لیا۔ کہنے لگے، کیوں بھئی کبھی فلم بھی دیکھی ہے تم لوگوں نے سینما پر جاکر ؟ یہ سوال غیر متوقع بھی تھا اور امید افزابھی۔ ہمارے ابا جی، دوسرے والدین سے ذرا مختلف تھے۔ نہیں ابّا جی، کبھی نہیں دیکھی۔ میں نے صریحاً جھوٹ بولا اور میرے دوست نے ہمہ یاراں سچ اور ہمہ یاراں جھوٹ کی عملی تصویر بنتے ہوئے پورے اعتماد سے مٹکے جیسا سر اثبات میں ہلا دیا حالانکہ ہم دونوں کئی بار اسکول سے پھٹ کر کئی فلمیں پی اے ایف سینما میں دیکھ چکے تھے لیکن معصوم اور مسکین صورتیں بنائے کھڑے تھے کہ اباجی نے جیب سے ایک روپیہ اور ایک اٹھنی نکالی اور ڈیڑھ روپیہ میری ہتھیلی پر رکھ دیا۔ اس زمانے میں فلم کا سب سے سستا ٹکٹ بارہ آنے کا ہوتا تھا۔ جاؤ دونوں فلم دیکھ کر آؤ۔ ابا جی شانِ بے نیازی سے بولے۔ میں نے جھٹ لقمہ دیا کہ ابا جی اٹھ آنے اور دیں۔
وہ کیوں ؟
ابا جی، بارہ بارہ آنے کے تو ٹکٹ آئیں گے اور آٹھ آنے کی دو بوتلیں ملتی ہیں، وہ پئیں گے کالا کوکا کی ۔
یہ سن کر ابا جی مسکرائے اور کہنے لگے اوئے تم تو کہہ رہے تھے کہ کبھی سینما نہیں گئے ،پھر تمہیں ٹکٹوں کا ریٹ اور بوتلوں کی قیمت کا کیسے پتہ ہے۔
یہ بات سن کر ہم چپ ہو گئے۔ ہمارے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ یہ پکڑو آٹھ آنے اور آئندہ اجازت لیے بغیر کبھی فلم دیکھنے نہ جانا۔ میں نے ان کا آخری نصیحت آموز جملہ سنا ان سنا کیا، اٹھنی پکڑی اور بھاگے۔ ان دنوں فلم ثریا بھوپالی، کے گیت خوب مشہور تھے۔ لہٰذا ہم بھی سیدھے ریالٹو سینما پہنچے۔ مریڑ چوک سے ذرا پہلے اس جگہ کو ریالٹو چوک بھی کہا جاتا تھا۔ ہمارے گھروں سے فاصلہ ایک ڈیڑھ میل تھاجو اس عمر میں محسوس ہی نہ ہوتا تھا۔ ثریا بھوپالی، تھی رانی شاہد وحید مراد کی۔
تھا یقین کہ آئےں گی یہ راتاں کبھی
تم سے ہووےں گی ملاقاتاں کبھی
جس طرف آنکھ اٹھاؤں تیری تصویراں ہے
نہیں معلوم کہ خواباں ہے کہ تعبیراں ہے
نام آئے نہ تیرا پیار کی رسوائی میں
ہائے مر جاؤں کسی گوشہ تنہائی میں

موتی محل سینما مری روڈ پر بڑا ہی خوبصورت سینما تھا بلکہ ابھی تک موجود ہے۔ جب کبھی یہاں سے گزر ہوتا ہے تو میں اس کی سمت بغور دیکھے بغیر رہ نہیں سکتا۔ ان دو تین سیکنڈز میں ہی سارا ماضی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتاہے۔ سب سے بڑی ذاتی پارکنگ موتی محل کی تھی۔ سب سے زیادہ نشستیں بھی موتی محل میں تھیں۔ گیارہ سو سے زیادہ سیٹوں کا سنیما تھا۔ اس سینما کے مالک گوجر خان سے تعلق رکھنے والے ملک محبوب ہیں۔ موتی محل سینما بھی میری آنکھوں کے سامنے ہی تعمیر ہوا تھا۔ راولپنڈی کا سب سے زیادہ گنجائش والا سینما جس میں دو گیلریاں تھیں۔ اس کی خاص بات اس سینما کا ایک تو کرٹن بڑی خوبصورت تھی۔ فلم شروع ہونے سے قبل پردے بڑے دلکش انداز میں کھلتے تھے لیکن اس سے بھی بڑھ کر موتی محل سینما کے اندر انتہائی خوبصورت رنگین شیشوں والا گلوب تھا جو گھومتا رہتا تھا جس پر ایک جانب سے سرچ لائٹ سے روشنی ڈالی جاتی تو سینما کے اندر دائرے میں رنگ برنگی روشنیاں چکراتی پھرتیں۔ یہ دل خوش کن مناظر فلم کے دوران کسی خاص الخاص گانے کے دوران دیکھنے میں آتے۔ میں نے سب سے پہلے یہ مناظر فلم بہارو پھول برساؤ کے گیت
یہ گھر میرا گلشن ہے، گلشن کا خدا حافظ، کے دوران دیکھے تھے ۔
ایک اور خاص بات کہ اس فلم کے ابتدائی دنوں میں جب شائقین ٹکٹ خرید رہے ہوتے تھے یا فلم دیکھ کر باہر نکل رہے ہوتے تھے تو سینما کی چھت سے شائقین پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں برسائی جاتی تھیں۔ یہ منظر آنکھوں کو اتنا بھلا لگتا تھا کہ آج پچاس سال گزرنے کے بعد بھی آنکھوں کے سامنے محسوس ہوتا ہے ۔
موتی محل پر پہلی فلم وحید مراد اور نشو بیگم کی جال، تھی جو کہ عید الفطر نومبر 1973 میں ریلیز ہوئی تھی ۔جس میں احمد رشدی رونا لیلیٰ کا ایک ہی بڑا ہی پیارا نغمہ تھا۔
دل کی دھڑکن مدہم مدہم، نظریں ملی اور جھک جائیں، یہ رنگین سماں یہ موسم کاش یہیں پر رک جائیں ۔
یہاں ریلیز ہونے والی معروف و کامیاب فلموں میں شمع، سہیلی، بنکاک کے چور، سوسائٹی، صاحب جی، اور شانی، نمایاں ہیں۔ موتی محل سینما میں جو فلم مجھے بہت زیادہ پسند آئی، وہ شانی ہے۔

برصغیر پاک وہند کی پہلی سائنس فکشن فلم 10 مارچ 1989 کو ریلیز ہوئی۔ ویژول ایفیکٹس کے خاص اثرات سے لبریز فلم شانی، ایک کامیاب ترین سائنس فکشن فلم تھی جس نے سات نگار فلم ایوارڈز حاصل کیے۔ اس فلم میں ایک خلائی انسان اڑن طشتری سے زمین پر اترتا ہے۔ نویٹاس فلمز کے بینر تلے بننے والی اس فلم کے ہدایت کار سعید رضوی تھے۔ کہانی آغا نیر نے لکھی تھی۔ فلم کے ستاروں میں محمد علی، بابرہ شریف، نیر سلطانہ، آصف خان اورنئے ادکار شیری ملک شامل تھے۔ شانی کے پروڈیوسر ہدایت کار سعید رضوی کے والد رفیق رضوی ایک سینئر ڈائریکٹر اور پروڈیوسر تھے جو پاکستان بننے سے قبل بمبئی فلم انڈسٹری میں بھی بے شمار فلمیں بنا چکے تھے۔ جن میں آواز ،کوشش، وعدہ، الہ دین کا بیٹا ، اور کاروان، وغیرہ شامل ہیں۔ تقسیم کے بعد پاکستان آگئے اور یہاں بھی منفرد نوعیت کی شاہکار فلمیں تخلیق کیں۔ جن میں 1957 میں جذبہ حب الوطنی پر مشتمل فلم بےداری بھی شامل تھی جس کے گیت
آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی، جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی، اور اے قائد اعظم تیرا احسان ہے تیرا احسان،مقبول ہوئے۔ اس کے بعد 1959 میں بطورفلم ساز و ہدایت کار فلم سویرا، بنائی جس میں ایس بی جان کا امر گیت تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے، شامل تھا۔
انیس سو تریسٹھ میں انہوں نے فلم شرارت، تخلیق کی۔ جس میں مسعود رانا کی آواز میں ایک سدا بہار نغمہ تھا جو آج تک کانوں میں رس گھول رہا ہے۔
اے دل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے، وہ سامنے بیٹھے ہیں کافی یہ عنایت ہے۔
رفیق رضوی کی کئی اور فلمیں بھی ہیں جن میں میرے بچے میری آنکھیں، اور پھر صبح ہو گی، بھی نمایاں ہیں۔
وحید مراد کی فلم سمندر، بھی انہی کی تھی، جس میں مقبول ترین گاناساتھی، تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر، شامل تھا۔ سمندر اداکارہ شبنم کی مغربی پاکستان میں پہلی فلم تھی۔ جناب رفیق رضوی کے بڑے بیٹے مسعود رضوی نے بھی 1969 میں فلم گھر داماد، بنائی تھی۔وہ فلم شانی کے کوپروڈیوسر تھے۔ مسعود رضوی، خورشید رضوی اور سعید رضوی کے علاوہ ان کے ایک اور بیٹے مشہورجج بھی ہیں جن کا نام رشید احمد رضوی ہے۔ آپ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ شانی، کو روس، کوریا اور مصر کے فلمی میلوں میں بھی خوب سراہا گیا اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شانی کو روسی زبان میں ڈب کر کے روس میں بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ شانی، کے بعد مذید سائنس فکشن فلمیں سرکٹا انسان، اور طلسمی جزیرہ، بھی اسی ادارے نویٹاس سے بنائی گئیں ۔

سنگیت سینما مری روڈ، اداکار اعجاز درانی کی ملکیت تھا جو شاید فلم ہیررانجھا، کی کمائی سے تعمیر ہوا تھا۔ سنگیت سینما، روزنامہ جنگ بلڈنگ کے عقب میں واقع تھا۔ ریالٹو اور سنگیت سینما آمنے سامنے تھے مگر درمیان میں نالہ لئی تھا۔ یہاں ہم نے پرکھ، ہیررانجھا، شیر خان، اور ان گنت فلمیں دیکھیں۔ سنگیت پر ایک بھارتی فلم نورجہاں، ایک سال سے زیادہ عرصہ تک مسلسل نمائش پذیر رہی۔ عین اسی طرح فلم شیر خان، بھی مسلسل ایک سال سے بھی ذیادہ عرصہ سنگیت سینما پر لگی رہی۔ ہمارے پڑوس میں ایک ذوالفقار صاحب رہتے تھے جو سنگیت سینما میں ٹکٹوں کی فروخت پر مامور تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تھرڈ پارٹی کے طور پر کچھ دوستوں سے مل کر سینما پر فلم بھی خرید کر لگاتے تھے۔ اب کافی عرصے سے سنگیت سینما کی جگہ پر شاپنگ مال سنگیت آرکیڈ زیر تعمیر ہے۔ نجانے کیوں مکمل نہیںہو رہا۔

ناز سینما مری روڈ، یہ سینما بھی اب ختم ہو گیا ہے اور اس کی جگہ گولڈ مارکیٹ بن گئی ہے لیکن اب بھی اس جگہ کو ناز سینما چوک ہی لکھا اور پکارا جاتا ہے۔ ناز سینما پر میں نے پہلی فلم ندیم شبنم کی بھول، دیکھی تھی جبکہ آخری فلم ہدایت کار الطاف حسین کی رستم تے خان، دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ بات بھی کم از کم تیس بتیس سال پرانی ہے۔ کہیں کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ پاکستان کے سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی ناز سینما میں آکر فلم دیکھی تھی ۔
نادر سینما سیٹلائٹ ٹاؤن بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اس کے بعد یہاں شہنائی شادی ہال بنایا گیا۔ اب وہ بھی ختم ہو کرپلازہ بن گیا ہے۔ یہاں ہمیشہ پرانی فلمیں ہی لگتی تھیں۔ نادر سینما سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کے سییا ڈی بلاک میں واقع تھا۔ معروف کمرشل سینٹر اور پارک بچوں کی دنیا کے سامنے اور سیٹلائٹ ٹاؤن پوسٹ آفس کے ساتھ خوبصورت لوکیشن پر واقع تھا۔ یہ راولپنڈی کی معروف شخصیت نادر پرویز صاحب کا تھا۔

شاہین سینما چک لالہ کینٹ، کی نئی بلڈنگ سن 85 کے بعد تعمیر ہوئی تھی۔ اس سے قبل ایک چھوٹا آڈیٹوریم تھا جسے پی اے ایف آڈیٹوریم کہا جاتا تھا۔ یہاں نئی فلم نہیں لگتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد مین سینما سے اترنے کے بعد فلمیں یہاں آتی تھیں اور ہر فلم کی نمائش صرف ایک ہفتہ کے لیے ہوتی تھی۔ یہاں ٹیکس فری ٹکٹ ہوتی تھی۔ انتہائی سستی، ایک دوروپے میں مل جاتی تھی۔ سن 85 سے قبل تک یہاں ہر اتوار کو صبح نو بجے صرف خواتین کے لیے شو ہوتا تھا جو بارہ بجے سے قبل ہی ختم ہو جاتا تھا تاکہ خواتین واپس گھروں میں پہنچ کر ہانڈی روٹی کا بندوست بھی کرسکیں۔ اس دن ارد گرد کے محلوں کی خواتین صبح انتہائی سرعت سے گھروں کے کام کاج سے فراغت پا کر پی اے ایف سینما پہنچ جاتیں کیونکہ فلم ساڑھے نو بجے شروع ہو جاتی تھی۔

کیپٹل سینما بینک روڈ صدر میں بہت کم فلمیں دیکھنے کا اتفاق ہوا کیونکہ یہ ہمارے گھر سے دورتھا۔ یہاں کوئی بس وغیرہ نہیں آتی تھی اور ہم سارے کنگلے دوست تھے۔ بڑی مشکل سے فلم کا ٹکٹ خریدتے تھے۔ رکشے ہمارے شہر میں تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے۔ ہر جانب مورس ٹیکسی چلتی تھی وہ آٹھ نو روپے کرایہ مانگتے تھے ۔

اوڈین سنیما پر فلم پیار کی جیت، کی نمائش کے دوران لی گئی تصویر

اوڈین سینما مال روڈ، صدر راولپنڈی کے بارے کہیں پڑھا تھا کہ اس کا پرانا نام لینس ڈاؤن تھا۔ یہاں عام طور پر صرف انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ میں نے یہاں سب سے پہلے انگریزی ہارر فلم دی ایگزارزسٹ، دیکھی تھی۔ رات کو آخری شو تھا۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ بڑے بھائی اور ان کے دوست تھے، ہم بھی ساتھ گھس گئے۔ اس وقت یہ اتنی ڈراؤنی فلم محسوس ہوئی کہ واپس گھر پہنچ کر ساری رات مارے خوف کے کانپتا رہا۔ جب تک اذان کی آوازیں سنائی نہ دیں۔ مجھے نیند نہیں آئی۔ ستر کے عشرے میں اوڈین سینما کے منیجر ہمارے محلے میں رہتے تھے، ان کا نام نصیر خان تھا۔ بعد میں ایک آدھ بار انہوں نے ہمیں اوڈین میں مفت پاس دے کر فلم بھی دکھائی تھی۔

پلازہ سینما

پلازہ سینما مال روڈ (مین جی ٹی روڈ) صدر میں تھا۔ اس سینما کا متروکہ نام الفنسٹن تھا۔ یہاں بھی انگلش فلموں کا راج تھا اور ہم نے انگریزی فلمیں بہت ہی کم دیکھی ہیں۔ پھر بھی مختلف وقتوں میں پانچ سات انگریزی فلمیں پلازہ سینما میں دیکھی ہیں۔ تاہم یہاں اردو اورپنجابی فلمیں بھی سائڈ تھیٹر کے طور پریا سیکنڈ رن میں چلتی تھیں۔ 1975 میں فلم دلہن ایک رات کی، یہاں نئی فلم کے طور پر ریلیز ہوئی تو پورے سات مہینوں تک کھڑکی توڑ رش لیتی رہی اور شاندار سلور جوبلی منائی۔ پلازہ بھی نسبتاً بڑا سینما تھا۔ گیلری کی دوسو سمیت کل ایک ہزار نشستوں پر مشتمل تھا۔

سیروز سینما حیدر روڈصدر، صرف انگریزی فلموں کے لیےمخصوص تھا۔ اس سینما کا شمار ان سینماؤں میں ہوتا ہے جن میں زوال کے بعد جب اکثر سینما بند ہو چکے تھے، تب بھی ایک طویل عرصے تک فلموں کی نمائش جاری رہی۔ سیروز سینما کا ساؤنڈ سسٹم بھی باقی تمام سینماؤں سے بہترین تھا۔ اس کا اے سی اور ہیٹنگ سسٹم بھی کمال تھا۔ سب سے زیادہ صاف ستھرا سینما بھی راولپنڈی میں یہی تھا۔ اس کے مالک جموں سے ہجرت کرکے آئے خورشید صاحب تھے۔

خورشید سینما راجہ بازار ڈنگی کھوئی، کا پرانا نام پرکاش سینما تھا۔ یہ پشتو فلموں کے لیے مخصوص تھا۔ اس کا حال بہت برا تھا اور اس کا ہال اس سے بھی برا تھا۔ صفائی کا انتظام ناقص، سیٹیں مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں لیکن اس پر بہت زیادہ رش ہوتی تھی۔ یہاں ٹکٹ بہت کم دی جاتی تھی۔ ہاتھ پر مہر لگا کر پیسے پکڑ کر ہال میں دھکیل دیا جاتا تھا۔

ناولٹی سینما موہن پورہ بھی صرف پشتو فلمیں ہی ریلیز کرتا تھا۔ یہاں بھی فلم کے علاوہ ٹوٹے چلائے جاتے تھے، اس لیے سینما خوب رش لیتا تھا۔ سیٹیں ٹوٹی پھوٹی تھیں۔ ماضی میںیہ مین تھیٹر ہوا کرتا تھا۔ نائلہ، جیسی مووی نےسن 64 میں یہاں گولڈن جوبلی بزنس کیا تھا۔ ناولٹی سینما کا پرانا نام ناولٹی ٹاکیز تھا۔

نشاط سینما لیاقت روڈ، راولپنڈی کے بین الاقوامی سطح پر مشہور لیاقت باغ سے راجہ بازار کی سمت صرف چار سو میٹر کے فاصلے پر آتا ہے۔ گزشتہ پچیس برسوں سے بند پڑا ہے۔ یہ تقسیم سے قبل کا سینما ہے۔ بلڈنگ ابھی جوں کی توں موجود ہے لیکن اب یہاں یقینا کوئی پلازہ وغیرہ ہی بنے گا۔ یہ بھی بہت بڑا سینما تھا۔ ہزار سے زیادہ نشستیں تھیں۔ کسی زمانے میں یہاں سنتوش کمار، صبیحہ، درپن وغیرہ کی فلمیں دکھائی جاتی تھیں لیکن گزشتہ پچاس برسوں میں میری یاداشت اور مختلف ذرائع کے مطابق یہاں دکھائی جانے والی مشہور فلموں میں سلطان راہی کی مولا جٹ، منور ظریف کی جیرا بلیڈ، الیاس کشمیری کی بنارسی ٹھگ، سدھیر اور روزینہ کی ٹھاہ، ہدایت کار یونس ملک کی شیر خان، شعلے، کالیا، شریف بدمعاش، الٹی میٹم، ماما بھانجا، وغیرہ شامل ہیں۔

امپیریل سینما راجہ بازار، کی جگہ اب موبائل الیکٹرونکس مارکیٹ ہے جو امپیریل مارکیٹ کہلاتی ہے۔ یہ روز سینما کے بالکل سامنے تھا۔ آج کی نسل اس جگہ کو امپیریل الیکٹرونکس مارکیٹ ہی کے نام سے پہچانتی ہے۔
تاج محل سینما سٹی صدر روڈ، عرصہ ہوا ختم ہو گیا۔ اس کو میں نے چلتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس وقت بھی یہ انتہائی خستہ حال تھا۔ اس کی حالت زار بتاتی تھی جیسے یہ 1920 کے آس پاس تعمیر کیا گیا ہوگا۔
ایک اور سینما تصویر محل، لال کڑتی بازار میں تھا۔ یہ راولپنڈی کی پرانی گنجان اور مشہور آبادی ہے۔ یہ علاقہ کینٹ میں آتا ہے۔ تصویر محل میں اکثر اوقات سیکنڈ رن فلمیں ہی چلتیں۔ ہم بھی یہاں بہت سی فلموں سے محظوظ ہوئے۔ اس سینما کی عمارت جوں کی توں موجود ہے تاہم عرصہ سترہ اٹھارہ سالوں سے یہ بھی گرنے کے انتظار میں کھڑا ہے۔

عابد مجید روڈ پر آر اے بازار میں گریژن سینما میں شاید 1982 کے آس پاس ہم نے دو تین فلمیں دیکھی تھیں۔ اس زمانے میں میرے ایک دوست کا سسرال وہاں تھا۔ اس دوست کی شادی کم سنی میں ہی انجام پا گئی تھی۔ ان دنوں اس کی زوجہ روٹھ کر میکے گئی ہوئی تھی۔ وہ کبھی کبھار کسی نہ کسی بہانے سے اسے منانے کے لیے جاتا تھا۔ تب میرے پاس ایک سوزوکی 50cc موٹر سائیکل ہوا کرتا تھا۔ ہمارا تیسرا دوست بھی ساتھ ہو لیتا۔ ہم دوست کو اس کے سسرال چھوڑ کر خود گریژن سینما فلم دیکھنے چلے جاتے۔ واپسی پر دوست کو سسرال سے پِک کر لیتے۔ یہ سلسلہ ایک آدھ مہینہ چلا۔ اس دوران ہم نے بھی گریژن سینما پر تین چار فلمیں دیکھ لیں جن میں آنکھوں آنکھوں میں، اور شبنم شاہد کی فلم نظر کرم، وغیرہ شامل تھیں۔ اس سے پہلے یا اس کے بعد کبھی گریژن سینما جانانہیں ہوا۔
قاسم سینما دھمیال کیمپ، وہ سینما ہے جہاں مجھے فلم دیکھنے کا کبھی نہ تو اتفاق ہوا ہے اور نہ میں نے کبھی یہ سینما دیکھا ہے۔ اتنا علم ضرور ہے کہ یہ قاسم ایوی ایشن بیس کے پاس ہے۔
ویسٹریج کینٹ ایریا نزد پشاور روڈ (جی ٹی روڈ) میں ریکس نامی سینما گھر بھی کبھی آباد تھا۔ یہ بھی سائیڈ سینما تھا۔ پرانی یا سیکنڈ رن والی فلمیں ہی یہاں نمائش پذیر ہوتیں ۔
راولپنڈی شہر سے مغرب کی سمت تقریباً 35 کلومیٹر پر واہ کا علاقہ ہے۔ اس کے تین یونٹ ہیں۔ واہ فیکٹری، واہ بستی اور واہ گارڈن۔ یہ راولپنڈی کی تحصیل ٹیکسلا کا حصہ ہے۔ یہاں بھی ایک سینما گھر تھا جس کا نام عسکریہ سینما تھا۔ عسکریہ سینما بھی اب موجود نہیں ۔
شاید کچھ اور بھی ہوں تاہم مجھے یہی نام یاد ہیں۔ یہ تمام راولپنڈی کے سینما گھر بتائے گئے ہیں۔ اسلام آباد گوکہ راولپنڈی سے ملحق ہے اور دونوں جڑواں شہر ہیں تاہم انتظامی طور پر تقسیم ہیں۔ وفاقی دارالحکومت 1964 میں اسلام آباد منتقل ہوا تھا۔
اسلام آباد اس وقت نیا نیا آباد ہورہا تھا۔ جہاں نیف ڈیک سینما کے دو ہالز تھے جو کہ سرکاری تھے۔ نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن جو فلم و ثقافت کی اشاعت و ترویج کا ادارہ تھا۔ یہ بھی باقی سرکاری اداروں کی طرح کوئی چمتکار نہ دکھا سکا۔آ خر کار نیف ڈیک سینمازبھی شدید مالی بحران کے باعث بند کردئیے گئے۔ نیف ڈیک سینما کے ہال نمبر ایک میں اردو اورپنجابی فلمیں دکھائی جاتیں جبکہ نیف ڈیک ہال نمبر دو میں صرف انگریزی فلموں کا راج تھا۔ برلب جناح ایونیو اسلام آباد، یہ انتہائی خوبصورت و پر شکوہ سینماز تھے۔ اب ان کی عمارتیں اپنی بربادی پر نوحہ کناں کھڑی سینہ کوبی میں مصروف ہیں۔

علاوہ ازیں میلوڈی سینما تھا آب پارہ سے تھوڑا آگے ، ہالی ڈے ان ہوٹل کے ساتھ ۔ یہ سینما بھی سرکاری ہی تھا۔کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 1966 میں تعمیر کیا۔کچھ عرصہ اسے خود چلایا بعد ازاں لیز پر دے دیا۔ 2003 تک تقریباً فعال تھا پھر چھے اکتوبر 2003 کو ایک مشتعل ہجوم نے جلا کر خاکستر کردیا۔ عین اس وقت جب میلوڈی سینما میں فلم جناح چل رہی تھی۔ فلم میں آزادی کے وقت کے فسادات کے مناظر دکھائے جا رہے تھے اور ادھر سینما گھر کے باہر بھی یہی منظر تھا۔ سینما میں بیٹھے لوگوں نے بھاگ دوڑ کر بمشکل جان بچائی۔ سینما کے اندر چوکیدار سو رہا تھا۔ جتنی دیر میں اس کی آنکھ کھلی، وہ آگ کے شعلوں میں گھر چکا تھا۔ اس ہنگامہ آرائی میں اس چوکیدار کی موت ہوگئی۔ اس کے بعد یہاں کبھی فلم نہ چل سکی، اب یہ جگہ میلوڈی مارکیٹ کے نام سے مشہور ہے۔
ماضی میں اسلام آباد میں کل چار سینماگھر تھے۔ چوتھا سینما تھا کوہسار۔

یہ اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون میں واقع تھا۔ درحقیقت کوہسار سینما ایسی لوکیشن پر تھا کہ جہاں کبھی بھی اس نے رش نہیں لیا۔ کم بزنس کی وجہ سے وہ تھوڑا ہی عرصہ چلا اور بند ہو گیا۔ اب یہ علاقہ کوہسار مارکیٹ کہلاتا ہے۔
اسلام آباد شاید دنیا کا واحد دارالحکومت ہوگا جہاں ایک عرصہ تک کوئی سینما گھر نہیں تھا لیکن حالیہ سالوں میں جب روایتی سینما دم توڑنے لگا تو یہاں کچھ ماڈرن ملٹی پلیکسسینماز وجود میں آئے جن میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں سنے پیکس ، اسلام آباد کلب سینما، ایرینا، سنے گولڈ پلیکس اور سینٹارس مال میں سینٹارس ملٹی پلیکس شامل ہیں۔
لاہور سے راولپنڈی آتے ہوئے روات ٹی چوک سے ذرا آگے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی فیز 2 اسلام آباد گیگا مال میں بھی ایک ملٹی پلیکس سینماہے۔ جکرانڈہ کلب کا سنیما صرف کلب ممبران کے لیے ہے۔
اسلام آباد کلب راولپنڈی سے اسلام آباد جاتے ہوئے راول ڈیم چوک سے چند سو میٹر آگے ہے۔ یہ سینما بھی ممبران کے لیے مختص ہے۔
کووڈ کے دنوں میں ایف 9پارک اسلام آباد میں ایک ڈرائیو ان سینما بنایا گیا تھا جو بعد میں بند کردیا گیا۔

راولپنڈی کے جناح پارک کچہری چوک میں بھی سنے پیکس والوں نے ملٹی پلیکس قائم کیا جو اچھا چل رہا ہے۔ اس میں چار اسکرینز ہیں۔ یادش بخیر جناح پارک راولپنڈی عین اس مقام پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں قبل ازیں پنڈی جیل ہوتی تھی۔ اسی پنڈی جیل میں 1979 کو سابق صدر اور سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔
مال روڈ سے ریلوے اسٹیشن جانے والی شاہراہ پر ایم ایچ اسپتال کے سامنے اوڈین سنے پلیکس سینما ہے جہاں دو اسکرینز ہیں۔
بحریہ ٹاؤن فیز4 راولپنڈی سوک سینٹر میں ایک انتہائی خوبصورت سینما گھر بنایا گیا ہے جو ارینا کہلاتا ہے جہاں چار بڑی اسکرینز ہیں اور بیک وقت چار مختلف فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ یہ وسیع وعریض اور دلکش سینما ہے۔

ارینا سے سات کلو میٹر کے فاصلے پر بحریہ ٹاؤن فیز 8 میں گارڈن سٹی جیسی انتہائی پوش اور مہنگی سوسائٹی میں سنے گولڈ سینما بنایا گیا ہے۔ اس کا ٹکٹ مہنگا ہے لیکن اس جیسا خوبصورت ہال شاید پورے پاکستان اور بعض عینی شاہدین کے مطابق پورے جنوبی ایشیا میں کہیں نہیں۔ یہاں بھی بیک وقت چار ہالز ہیں اور چار مختلف فلمیں ایک وقت میں دکھائی جاتی ہیں۔ اس سینما کا داخلی کوریڈور بہت وسیع وعریض ہے۔ ساؤنڈ سسٹم زبردست اور مثالی ہے۔ اس سینما کا گولڈ ہال تو آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ نشستیں کشادہ اور آرام دہ ہیں۔ یہاں عام طور پرہالی وڈ فلموں کا راج رہتا ہے۔ گزشتہ دسمبر یہاں ہم نے دی لیجنڈ آف مولا جٹ، پوری فیملی کے ہمراہ دیکھی تھی۔
دنیا بھر میں سنگل اسکرین کے روایتی سینماؤں کی جگہ اب ملٹی پلیکس سینماؤں نے لے لی ہے اور یہ رجحان پنڈی و اسلام آباد کے شہروں میں بھی دیکھا جارہا ہے کہ کسی شاپنگ مال کے ایک فلور پر سو دو سو نشستوں پر مبنی تین چار ہال بنا کر ان میں بیک وقت تین چار فلمیں چلائی جاتی ہیں۔

گو سینما کا بنیادی مقصد فلم دکھانا ہوتا ہے اور بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ فلم دکھائی جا رہی ہے لیکن کچھ گڑ بڑ تو ضرور ہے۔ ماضی میں ہمیں راولپنڈی میں ہر جگہ ہر علاقے میں بڑے بڑے سینماز دکھائی دیتے تھے۔ ان کی تعداد بھی غیر معمولی تھی اور فلمیں پروڈیوسرز کی جھولیاں کروڑوں روپوں سے بھر دیتی تھیں۔ تب انڈین فلمیں بھی نہ تھیں۔ صرف اردو، پنجابی اور پشتو فلمیں ہی پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے 700 سے زیادہ سینما گھروں کو فلم بینوں سے کھچا کھچ بھرنے میں کامیاب تھیں۔ ہر سینما میں تین شوز روزانہ ہوا کرتے تھے لیکن رش کھڑکی توڑ ہوتا تھا، جس کی وجہ سے ہر سینما اتوار والے دن صبح گیارہ بجے اسپیشل شو چلانے پر مجبور ہوتا تھا۔ بعض سینما تو اتوار کو پانچ شوز بھی چلاتے تھے۔ مارننگ شو صبح ساڑھے نو بجے ہوتا، اسپیشل شو ساڑھے گیارہ بجے، ساڑھے تین بجے میٹنی شو، ساڑھے چھے بجے پہلا شو اور دوسرا شو رات ساڑھے نو بجے چلتا تھا۔
سمجھ سے بالاتر ہے کہ موجودہ دور میں جب کہ پورے پاکستان میں ڈیجیٹل اسکرینز اور سینماز کی مجموعی تعداد سو سے بھی کم ہے لیکن ہالی وڈ اور پاکستانی فلمیں ملا کر بھی یہ دو، دو سو سیٹوں والے سینماز ہاؤس فل کیوں نہیں ہورہے؟

ماضی کے روایتی سنگل اسکرین سینما گھروں اور موجودہ ڈیجیٹل سینما ؤں میں جو فرق میں نے محسوس کیا ہے، وہ یہ ہے کہ روایتی سینما غریب اورامیر دونوں کے لیے تھا جبکہ سینما کی موجودہ شکل صرف امیر اور کھاتے پیتے طبقے کی دسترس میں ہے۔ غریب یا سفید پوشوں کا اس سینما نگری سے کوئی تعلق بچا نہیں۔ ظاہر ہے فی کس تقریباً ایک ہزار روپے کی فلم کا فی زمانہ کوئی سفید پوش متحمل نہیں ہو سکتا۔ مذید براں پہلے فلم لاہور میں بنتی تھی اور شاندار بنتی تھی۔ لاہور والے اب فلم بنانے کی تکنیک بھول چکے ہیں اور کراچی والوں کو آج تک فلم بنانا آئی ہی نہیں۔ کروڑوں کے بجٹ کے باوجود انہیں آج تک یہی پتہ نہیں چلا کہ فلم کہتے کسے ہیں۔ ٹی وی ڈرامے بنانے والے لوگ ایک ڈرامہ کی لینتھ بڑھا کر اسے فلم تصور کر لیتے ہیں۔ لاہور والوں نے اچھی بھلی فلم انڈسٹری کا ستیاناس کردیا، کراچی والے اس کا سوا ستیاناس کر رہے ہیں۔ فلم ڈائریکٹر کا میڈیم ہے اورپرانے ڈائریکٹر رہے نہیں یا کام چھوڑ کر کنارہ کش ہوگئے۔ دراصل ہمارے آج کے ڈائریکٹرز کوٹی وی ڈرامہ اور دو گھنٹے کی فلم کا فرق سمجھنا ہوگا۔

اعجاز احمد نواب

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس