پاکستانی سنیما کا ایک اور بڑا نام، لیجنڈری اداکار افضال احمد بھی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔
کئی دہائیوں تک فلم بینوں کے دلوں پر راج کرنے والے افضال احمد اپنی مخصوص ڈائیلاگ ڈلیوری اور چال ڈھال کے باعث منفرد شناخت کے ساتھ مقبول عام رہے۔ پاکستانی سنیما پر اداکار اسلم پرویز اورمصطفی قریشی کے بعد وہ سب سے ذیادہ کامیاب ولن کے طورپر راج کرتے رہے۔
سید افضال احمد 1945 میں پنجاب کے شہر جھنگ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک سید گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا خاندان ”کھرکودہ“ سے تقسیم کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آ گیا تھا۔ کھرکودہ کا علاقہ اب ہریانہ میں شامل ہے۔

ان کے اباؤاجداد زمین دار تھے لہٰذا گھر میں خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ انہوں نے اچھے تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کی۔ لاہور میں ایچی سن کالج سے گریجویشن کے دوران انہیں فلموں میں ایکٹنگ کا شوق ہوا تو نگارخانوں کے چکر لگانا شروع کردیے۔
پرکشش شخصیت کے مالک تو تھے ہی، جلد ہی انہیں فلمی حلقوں میں جانا جانے لگا۔ گوری رنگت کی وجہ سے وہ افضال چٹا کے نام سے مشہور ہوئے اور جب تک انڈسٹری میں رہے، یہ نام ان کی پہچان بن گیا۔
افضال احمد کا گھرانہ چونکہ مذہبی تھا اس لئے خاندان والوں نے ان کے فلموں میں کام کرنے کی شدید مخالفت کی مگر انہوں نے اپنے گھر والوں کی مخالفت مول لے کربڑی اسکرین پر چمکنے کا ارادہ کرلیا تھا۔
اداکاری میں انہیں پہلا بریک پی ٹی وی لاہور کے پنجابی ڈرامے ’اُچے برج لاہور دے‘ سے ملا۔ یہ پی ٹی وی کی مشہور سیریز ”کاروان سرائے “ کا ایک کھیل تھا، جس کے مصنف اشفاق احمد تھے۔ اس ڈرامے میں افضال احمد نے ایک 50 سالہ بوڑھے کا کردار ادا کیا۔ جبکہ خود اُن کی عمر اس وقت 18 سال تھی۔
اس کے بعد انہوں نے ٹی وی اور تھیٹر پرخود کو مصروف کرلیا۔

افضال احمد کو فلم کے پردے پر لانے کا سہرہ بھی معروف مصنف اور دانش ور اشفاق احمد کے سر جاتا ہے۔ 1968 میں ریلیز ہونے والی اردو فلم ”دھوپ اور سائے“ اداکار افضال احمد کی پہلی فلم تھی جس کے مصنف اور ہدایت کار اشفاق احمد تھے جبکہ فلم ساز پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری تھے۔ فلم کی کاسٹ میں سلونی، اعجاز اور ادیب نمایاں تھے۔
جس فلم نے صحیح معنوں میں اداکار افضال احمد کو فلمی حلقوں میں شناخت دی، وہ دولت اور دنیا، تھی جو 1972 میں ریلیز ہوئی۔ اس کے ہدایت کار خلیفہ سعید احمد تھے۔ کاسٹ میں روزینہ، وحید مراد اور عالیہ نمایاں تھے۔
پھر وہ دور آیا کہ افضال احمد پنجابی اور اردو فلموں کی ضرورت بن گئے۔
کردار کی نوعیت کچھ بھی ہو، وہ ایک ہمہ جہت فن کار کے طور پر خود کو منوانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ سائید ہیرو سے لے کر کیریکٹر رولز اور منفی کرداروں میں اپنی جگہ بناتے چلے گئے۔
پنجابی فلم سر دھڑ دی بازی، میں انہوں نے شرابی کا رول کیا جو بے حد پسند کیا گیا۔
اسی برس ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ’ٹھاہ‘ نے درحقیقت افضال احمد کو پنجابی سنیما کا اسٹار ولن بنانے میں مدد کی۔

اس دور میں ان کی قابل ذکر فلموں میں انسان اور گدھا، وچھڑیا ساتھی، بنارسی ٹھگ، جیرا بلیڈ، نوکر ووہٹی دا، خطرناک، ہاشو خان، سستا خون مہنگا پانی، بابل صدقے تیرے، کل کل میرا ناں،، شریف بدمعاش، ریشماں جوان ہوگئی، شوکن میلے دی، شیدا پستول، نواب ذادہ، غازی علم دین شہید، وحشی جٹ، ملے گا ظلم دا بدلہ، اُچا شملہ جٹ دا، پہلاوار، خبردار، سدھا رستہ، ہتھکڑی، جیرا سائیں، حاجی کھوکھر، رنگا ڈاکو، گوگا شیر، وحشی گجر، قربانی، چن وریام، مفت بر، قانون شکن، دھیاں نمانیاں، وطن ایمان، لائسنس، سارجنٹ، پرمٹ، باغی، سنگین جرم، جبرو، گرفتار، عالی جاہ، دہلیز، مہندی، حق مہر، غلامی، انسانیت کے دشمن، یہ آدم، چڑھدا سورج، دیس پردیس، لگان، عجب خان، غلامی، باغی سپاہی، یہ آدم، پتر جگے دا، ریاض گجر، پتر شاہیے دا، کالے چور، محمد خان، بلندی، جگا ڈاکو، اللہ وارث، انٹرنیشنل گوریلے، بالا پیرے دا، فوجا، اک دھی پنجاب دی، ووہٹی لے کے جانی اے، اور شریکا، نمایاں فلمیں ہیں۔
افضال احمد نے کئی فلموں میں بطور ہیرو یا سائیڈ ہیرو بھی کام کیا۔ ان فلموں میں انہوں نے آسیہ، نجمہ، چکوری، مسرت شاہین، بندیا سمیت دیگر ہیروئنوں کے مقابل مثبت کردار ادا کیے۔
افضال احمد نے 1968 سے سال 2012 تک اپنے 44 سالہ فلمی کیریئر میں 384 کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا۔
اداکار افضال احمد نے ٹیلی وژن کے لیے بھی متعدد ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اپنے عروج کے دنوں میں بھی وہ ڈراموں کے لیے وقت نکال لیا کرتے تھے۔ ان کے چند اہم ڈراموں میں جزیرہ، چل سو چل، اور چاکر اعظم، خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔
فلموں میں انہیں ذیادہ تر منفی کرداروں میں ہی پسند کیا گیا۔ ان کی بعض فلمیں اور کردار ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ ان کی ایک فلم انٹرنیشنل گوریلے، میں ادا کردہ سلمان رشدی کا کردارکوئی بھی ایکٹر قبول کرنے کو تیار نہ تھا لیکن افضال احمد نے شدید مخالفت کے باوجود یہ کردار قبول کیا۔ اس فلم کے ڈائریکٹر جان محمد تھے۔ اس فلم نے محض افضال احمد کی کردار نگاری کی وجہ سے عالمی شہرت پائی۔

ایک اور فلم غازی علم دین شہید، میں افضال احمد نے راج پال کھتری کا کردار ادا کیا جس نے رسول اللہ کی شان میں گستاخی کی تھی۔
افضال احمد کا کیریئر ایسے منفرد منفی کرداروں اور ان میں بے مثال کردار نگاری سے بھرپور ایک باب ہے، جسے پاکستانی سنیما کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔
فلم انڈسٹری پر کئی عشروں تک راج کرنے والے افضال احمد نے جہاں فلموں میں اداکاری کے اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں وہاں ان کی تھیٹر کے لیے خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے پاکستان میں تھیٹر کونئی جہت دی اور جدید تھیٹر روشناس کرایا۔ وہ پاکستانی اسٹیج ڈراموں کو عالمی معیارتک لے جانے کے خواہش مند تھے۔ اس مقصد کے تحت انہوں نے لاہور میں تماثیل تھیٹر کی بنیاد رکھی جہاں کئی کلاسک ڈرامے اسٹیج کیے گئے۔ ان کا ایک اصلاحی معاشرتی ڈرامہ جنم جنم کی میلی چادر، کئی سالوں تک کامیابی کے ساتھ دکھایا جاتا رہا۔ مگرقسمت نے وفا نہ کی اور 22 نومبر 2001 کو فالج کے ایک حملے نے ان کی آوازچھین لی۔ گئے وقتوں کا اسٹار ولن جو اپنی گرج دار آواز سے پہچانا جاتا تھا، وہیل چیئر پر آگیا۔
ان کے مشہور تھیٹر پلے ”جنم جنم کی میلی چادر“ کا سیٹ بھی انہوں نے خود ڈیزائن کیا تھا۔ ان کے بنائے تھیٹرہال تماثیل میں پہلا ڈراما ”محبتوں کے مسافر“ پیش کیا گیا جس کی ڈائریکٹر تجمل ظہور بالم تھے۔ اس ڈرامے کو شائقین کی جانب سے بہت پزیرائی ملی تاہم کچھ عرصے بعد جب اداکار امان اللہ اور دیگر فن کاروں کی ایک الگ ٹیم بن گئی تو آرٹسٹوں کی عدم دست یابی کے باعث تین برس تک تماثیل تھیٹر کو مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ پھر افضال احمد نے آغا حسن امتثال، ناصر ادیب اور محمد پرویز کلیم کے ساتھ مل کر ”جنم جنم کی میلی چادر“ کا اسکرپٹ تیار کروایا۔ اس ڈرامے کا اسکرپٹ لکھوانے کے لیے انہوں نے تینوں مصنفین کو الگ الگ بٹھانے کا اہتمام کیا۔ انہوں نے اس ڈرامے کے لیے نئے فن کاروں پر محنت شروع کی۔ ڈرامے کی 6 ماہ تک ریہرسل ہوتی رہی۔ اس دوران تمام فنکاروں کو معاوضہ باقاعدگی کے ساتھ ادا کیا جاتا رہا اورجب یہ ڈرامہ اسٹیج کیا گیا تو اس نے پاکستان میں سنجیدہ تھیٹر کو پھرسے زندہ کردیا۔

افضال احمد تھیٹر کے فروغ کے لیے بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے تھے۔ انہوں نے لائٹ ایفیکٹس اور تھیٹر کی ڈیزائننگ کے لیے آسٹریلیا اور برطانیہ کے ماہرین کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اس ڈرامے کی بدولت کئی اسٹارز کو نئی شناخت ملی جن میں سردار کمال، عجب گل، مدیحہ شاہ، میگھا، چاندنی، سخاوت ناز اور دیگر کئی نام شامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ فالج کے اٹیک کے بعد بھی فلم انڈسٹری میں ان کے قریبی ساتھی انہیں بھولے نہیں اور ان کی عیادت و تیمارداری کے لیے باقاعدگی سے ان کی رہائش گاہ جایا کرتے تھے۔
ان کے قریبی احباب میں اداکار محمد علی اور نغمہ نگار خواجہ پرویز جب تک حیات رہے، ان سے ملنے اور افضال احمد کی دل جوئی کرنے جاتے تھے۔
اداکار ندیم جب کبھی لاہور جاتے، وہ ان سے ضرور ملتے تھے۔ اداکارہ شبنم بھی ان کی عیادت کے لیے اکثر ان کے گھر جاتی تھیں۔ہدایت کار سید نور اور اداکار عرفان کھوسٹ نے انہیں کبھی فراموش نہیں کیا، وہ ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ سید نور نے انہیں بیماری کے دنوں میں اپنی دو فلموں میں کاسٹ بھی کیا۔ سید نور کے ساتھ ہی ان کی آخری فلم شریکا، ہے۔ جس میں انہوں نے وہیل چیئر پر ہی کام کیا۔
افضال احمد کے مداحوں میں ایک بڑا نام ایٹمی سائنس دان عبدالقدیر خان کا بھی تھا، وہ ان کے قریبی دوست اور ان کی اداکاری کے معترف تھے۔
یہ بات بھی افسوس ناک ہے کہ اپنے وقت کے اس مقبول اور ورسٹائل اداکار کویوں تو بے شمار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا لیکن حکومتی سطح پر ان کی خدمات کو اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ وہ کسی سرکاری اعزازکے مستحق قرار پاتے۔
افضال احمد گزشتہ 21 برس سے فالج کے مرض میں مبتلا وہیل چیر تک محدود تھے۔ فالج کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد زبان پر لقوہ پڑ گیا جس کے باعث وہ قوت گویائی سے محروم ہوگئے اور معذوری کے باعث وہیل چیئر پر آگئے تھے۔ وہ کئی برسوں سے اپنے فارم ہاؤس میں مقیم تھے جہاں ملازمین ہمہ وقت ان دیکھ بھال میں مصروف رہتے تھے۔ ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات ان کی بیٹیاں ادا کرتی تھیں۔


رائے ونڈ روڈ پر او پی ایف سوسائٹی میں واقع ان کا فارم ہاؤس بارہ کنال پر محیط ہے۔ جس کے برابر ہی چار کنال پر مشتمل پلاٹ انہوں نے ایک نرسری کو کرائے پر دے رکھا تھا۔ اس کے علاوہ تماثیل تھیٹر بھی ان کی ملکیت ہے۔
افضال احمد کے انتقال کے بعد سوشل میڈیا پر یہ خبریں گرم ہیں کہ وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے یا ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ طویل بیماری کے دوران بھی ان کی بیٹیوں نے باپ کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔
ان کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کے بعد اس حوالے سے افواہیں گردش کرتی رہیں۔
اداکار افضال احمد کی شادی کیریئر کی شروعات میں ہی ان کی فیملی میں کردی گئی تھی۔ یہ شادی ان کی والدہ حمیدہ بانو کی مرضی سے ہوئی۔ دراصل افضال احمد کے والد دور جوانی میں ہی انتقال کرگئے تھے اور ان کی پرورش والدہ نے کی تھی لہٰذا وہ اپنی والدہ کا حکم ٹال نہ سکے لیکن افضال احمد اس شادی کے لیے راضی نہ تھے۔
انہی دنوں فلم انڈسٹری میں ساتھی اداکارہ بہار سے افضال احمد کا معاشقہ چل رہا تھا اور عشق کی اس داستان کی بازگشت ہیر رانجھا کی نگری جھنگ میں بھی گونج رہی تھی۔ خاندان والوں کو تو افضال احمد نے کسی طور راضی کرلیا لیکن اس فلمی معاشقے سے ان کی ازدواجی زندگی شدید متاثر ہوئی۔ بعد میں بہار بیگم نے کسی اور سے شادی کرکے افضال احمد کا دل تو توڑا ہی لیکن ان کا گھر بھی ٹوٹ گیا اور بیوی کو طلاق دے کر وہ مکمل طور پر فلمی دنیا کے ہوکر رہ گئے۔


اولاد کی پرورش میں البتہ انہوں نے کوئی کوتاہی نہ کی اور تینوں بیٹیوں کو اعلی تعلیم دلانے کے ساتھ ان کے گھر بھی بسائے۔ ان کی تینوں بیٹیوں نے بھی باپ کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور دیار غیر میں بھی ان سے مسلسل رابطے میں رہتی تھیں۔
دو دسمبر کی شب سانس لینے میں دشواری اور بلڈ پریشر میں واضح کمی کے بعد ان کی حالت بگڑ نے پر انہیں لاہور کے جنرل ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں انہوں نے صبح 6 بجے کے قریب آخری سانس لی۔ ڈاکٹرز کے مطابق انہیں سیپٹیسیمیا کا عارضہ لاحق تھا۔ ان کی تدفین اگلے روز عمل میں لائی گئی۔ امریکا سے ان کی بہن اور بیٹیاں آخری رسومات میں شریک ہوئیں۔

پاکستانی سنیما ہمیشہ ان کی دلنشیں آواز کا مقروض رہے گا۔ وہ آواز جو بے جان اور سادہ الفاظ میں زندگی بھر دیتی تھی۔ وہ آواز جس کا اُتار چڑھاؤ منظر اور مکالمے کی معنویت کا حق ادا کر دیتا تھا۔ وہ آواز جس کا تاثر، دیکھنے اور سننے والا، اپنی سماعت کی سوغات تصور کرتا تھا۔