نومبر میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ’ٹچ بٹن‘ کا ٹریلر ریلیز ہوئے دس دن ہوچکے ہیں لیکن اے آروائی کی دیگر فلموں کی نسبت اس فلم کے ٹریلر کو سوشل میڈیا پر ملنے والا ریسپانس بے حد پھسپھسا ہے۔ اب تک یوٹیوب پر اس فلم کو محض 18 لاکھ لوگوں نے دیکھا ہے جبکہ عام طور پر اے آر وائی فلمز کے ٹریلرز کو ہفتے بھر میں 50 لاکھ سے زائد لوگ دیکھ لیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس فلم کے ٹریلر ری ویو کے بعد یوٹیوب پر فلم کے ٹریلر کو بوسٹ کرکے مطلوبہ ہدف حاصل کرلیا جائے تاہم اب تک یہ اے آر وائی کی کسی بھی فلم کا حالیہ برسوں میں سب سے کم زور ٹریلر ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں۔

ٹچ بٹن، کا ٹریلر دیکھ کر سب سے پہلے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ کہانی یا کردار آپ نے کہاں کہاں دیکھ رکھے ہیں۔ پھر آپ کو یاد آتا ہے کہ بولی وڈ سے دھڑکن، جان من، یووراج سمیت پاکستانی فلموں طیفا ان ٹربل، پنجاب نہیں جاؤں گی، لندن نہیں جاؤں گا، اور دم مستم، کو ایک گرینڈر میں مکس کرلیا جائے تو ’ٹچ بٹن‘ جیسا شاہکار وجود پاتا ہے۔ یہ محض چند فلمیں ہیں جن کی سچویشنز سے مماثلت کی بنا پر ہم یہ بات کررہے ہیں، ورنہ یہ اس قدر روایتی کہانی ہے کہ اس پر درجنوں فلمیں بن چکی ہیں، جو ظاہر ہے آدیئنس نے سب نہیں دیکھی ہوں گی لیکن کہانی کا روایتی پن اور دیسی فارمولے سب ظاہر کررہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کہانی اس قدر روایتی اور سیدھی سادی ہے کہ محض ٹریلر دیکھ کر ایک عام ناظر کی سمجھ میں سب کچھ آجاتا ہے۔ مثلاً یہ دو ایسے بھائیوں (کزنز) کی کہانی ہے جن میں سے ایک کاکا (فرحان سعید) گاؤں کی گوری شکیلہ (سونیا حسین) پر مر مٹتا ہے۔ دوسرے بھائی ثاقب (فیروز خان) کی ترکی میں لینا (ایمان علی) سے دوستی ہے۔ جب لینا اور ثاقب پنجاب آتے ہیں تو ثاقب کو شکیلہ سے اور کاکے کو لینا سے محبت ہوجاتی ہے۔ یہاں سے کہانی بولی وڈ ٹوئسٹ لیتی ہے اور پھر ایک فلم سے نکل کر کہانی دوسری فلم میں داخل ہوتی ہے۔

اس روایتی اور بار بار کی دہرائی کہانی و اسکرپٹ کا کریڈٹ جاتا ہے ٹی وی انڈسٹری کی مقبول عام رائٹر فائزہ افتخار کوجنہیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ ٹی وی ڈراموں میں تو گرائنڈ کیے ہوئے اسکرپٹ چل جاتے ہیں لیکن فلم کا ناظر بڑا شاطر ہے۔ اسے آسانی سے بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ (اصولی طور پر تو یہ بات پروڈیوسرز کو سوچنی چاہیے کہ وہ اس اسکرپٹ پر فلم بنا کیوں رہے ہیں؟) بدقسمتی سے ٹی وی ڈرامہ انڈسٹری کی کوئی خاتون رائٹر اب تک کامیاب فلم نہیں لکھ سکی۔ سیما غزل، عمیرہ احمد وغیرہ کی ناکامی کے بعد اب فائزہ افتخار سے یہ تجربہ کروایا گیا ہے۔ دیکھتے ہیں باکس آفس پر اس کا کیا انجام ہوتا ہے تاہم ٹریلر کی حد تک ٹچ بٹن، کی ہائپ کافی کم زور نظر آتی ہے۔ ٹریلر میں ایک بھی ایسا ڈائیلاگ نہیں ہے جو گہرا اثر چھوڑجائے۔ اس قدر برے اسکرپٹ کے بارے میں بھی ایک گھوسٹ رائٹر کا دعوا ہے کہ یہ اسکرپٹ اس کا لکھا ہوا ہے۔

ٹریلر کی حد تک ہی سہی لیکن صرف اس فلم کا لُک ہی طیفا ان ٹربل، سے متاثر نہیں ہے بلکہ فرحان سعید کی ایکٹنگ بھی علی ظفر جیسی محسوس ہوتی ہے۔ اب یہ ارادی کوشش ہو یا غیرارادی لیکن فرحان کی ڈائیلاگ ڈلیوری تک میں علی ظفر جھلکتا ہے۔ فیروز خان کی اسکرین اپیئرنس کمال ہے۔ اسی طرح ایمان اور سونیا بھی خالص فلم مٹیریل ہیں۔ عروہ حسین کا کردار مختصر ہے لیکن شاید وہ پنجاب نہیں جاؤں گی، والا رنگ جمادے۔ سہیل احمد کو ہر فلم میں ایک جیسے کردار مل رہے ہیں۔ یہ اس پائے کے ایکٹر کے ساتھ سراسر ذیادتی ہے۔ دم مستم، سے پنجاب نہیں جاؤں گی، اور لندن نہیں جاؤں گا، ایک ہی سیریز کی فلمیں لگتی ہیں۔ حالانکہ ابھی حال ہی میں انڈین پنجابی فلم ’بابے بھنگڑا پاندے نیں‘ میں انہیں اس قدر بھرپور کردار کرنے کو ملا جو اَب تک کسی پاکستانی فلم میں نصیب نہ ہوسکا۔ نورالحسن، سمیعہ ممتاز، گل رعنا، راحیلہ آغا سمیت دیگر اداکاروں کی پرفارمنس پر فلم کے تفصیلی تبصرے میں روشنی ڈالی جائے گی۔

اس فلم کی دو خوبیاں جن کی وجہ سے اس فلم کو پسند کیا جاسکتا ہے یا باکس آفس پر اسے تھوڑی بہت توجہ ملے گی، وہ ہیں‘ سنیماٹوگرافی اور میوزک۔
فلم کا میوزک بہت شاندار ہے اور ٹریلر میں دکھائے یا سنائے گئے سبھی گانے میلوڈیئس ہیں۔ نوید ناشاد کو اس بات کا پورا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس فلم کا یونیک سیلنگ پوائنٹ ان کا کام ہے۔
فلم کے سنیما ٹوگرافر سلمان رزاق اوریالسن ایوسی(ترکی) ہیں۔ ترکی کو شاید ہی اس سے قبل کسی فلم یا ڈرامے میں اس قدر حسین زاویوں سے فلم بند کیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر ٹچ بٹن، اگر باکس آفس پر اچھا بزنس کرتی ہے تو اس کا سارا کریڈٹ میوزک، اسٹار کاسٹ اور اے آر وائی کی اسٹرونگ مارکیٹنگ و پروموشن کو جائے گا لیکن فلم باکس آفس پر کچھ اچھا نہیں کرسکی تو اس کی اکلوتی وجہ فلم کا اسکرپٹ ہوگا جو ٹریلر میں ہی سب واضح کرگیا ہے۔