پاکستان فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور فلم مولا جٹ، میں سلطان راہی کے مقابل نوری نت، کے کردار سے شہرت پانے والے نام ورولن مصطفی قریشی کا کہنا ہے کہ وہ نئی آنے والی فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی کامیابی کے لیے پراُمید ہیں لیکن یہ 35کروڑ کی لاگت سے مکمل ہونے والی ایک مہنگی فلم ہے۔ ہماری فلم غریبانہ تھی جسے لوگوں کی پسند نےامیرانہ بنادیا۔ مولا جٹ، سے قبل بھی سلطان راہی کے ساتھ پنجابی فلمیں کرچکا تھا جن میں جیلر تے قیدی، وغیرہ باکس آفس پرکامیاب ہوئیں لیکن مولا جٹ، ہم دونوں کے کیریئر کاسنگ میل ثابت ہوئی۔ اس فلم کی کامیابی کا کریڈٹ فلم کے پروڈیوسر سرور بھٹی کو جاتا ہے، جن کی ذاتی دلچسپی نے فلم کو کلاسک کا درجہ دلوایا۔ یہ باتیں انہوں نے میٹرو لائیو ٹی وی کو خصوصی انٹرویو کے دوران کہیں۔

ماضی کے عظیم اداکار کا مذید کہنا ہے کہ مجھے ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کے نام پر اعتراض ہے۔ لیجنڈ یہ نہیں، میں اور سلطان راہی ہیں۔ سلطان راہی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک سیدھا سادا درویش صفت انسان تھا،شوٹنگ پر آتا تو اکثر جلدی میں اپنی وِگ بھی الٹی لگالیتا تھا۔ جب پنجابی فلموں کا ڈاؤن فال آیا تو انہیں اُردو فلموں میں کاسٹ نہیں کیا جاتا تھا، جس پر وہ اکثر فلم سازوں سے گلہ کرتے تھے جبکہ میں پنجابی فلموں کے ڈاؤن فال کے بعد اُردو فلموں میں مصروف ہوگیا۔

میں ایک جانب راہی کے ہمراہ پنجابی فلمیں کررہا تھا جبکہ دوسری جانب ہانگ کانگ کے شعلے، بنکاک کے چور، تین یکے تین چھکے، چوروں کا بادشاہ، وغیرہ میں بھی کاسٹ ہورہا تھا۔ جان محمد کے علاوہ اقبال کاشمیری اور دیگر ہدایت کاروں کی اُردو فلموں میں بھی بے حدمصروف رہا۔ مصطفی قریشی کا کہنا ہے کہ پنجابی فلموں کا زوال راہی صاحب کے انتقال سے پہلے شروع ہوچکا تھا۔ وہ اگر زندہ بھی رہتے تو پنجابی فلموں کا کوئی مستقبل نہیں تھا۔ جس ٹائپ کی فلمیں بن رہی تھیں، ان سے عوام اکتاچکے تھے۔

مصطفی قریشی نے اپنے ماضی کے حوالے سے بتایا کہ وہ ایڈوانی گلی حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ریڈیو سے آغاز کیا۔ شمیم آراکو پسند کرتے تھے، ان کی ایک فلم’آگ کا دریا‘ کی شوٹنگ دیکھنے گیا تو فلم کے عکاس رضا میر نے اپنی اگلی فلم’لاکھوں میں ایک ‘کا اہم کردار آفرکردیا۔ ابتدا میں ہندو ولن کا کردار کرنے سے ہچکچارہا تھا لیکن پھر کچھ لوگوں کے سمجھانے پر وہ فلم سائن کرلی۔ اس کے بعد لاہور میں فلموں کی لائن لگ گئی۔

ہدایت کار الطاف حسین نے پہلی بار پنجابی فلم ’چار خون دے پیاسے‘میں سائن کیا تو پنجابی نہیں آتی تھی۔ ڈائیلاگز یاد کرنے میں مشکل کا حل یہ نکالا کہ ٹھہر ٹھہر کر مکالمے ادا کرتا تھا جو کہ اسٹائل بن گیا اور پھر یہی ڈیمانڈ کیا جانے لگا۔
مصطفی قریشی نے مذید بتایا کہ انہوں نے ایک فلم ’ندیا کے پار‘شروع کی، جس کی شوٹنگ 1971کی جنگ کے دوران بھی جاری رہی۔ فلم سازی کا تجربہ خاصا تلخ ثابت ہوا۔ اس فلم میں تان سین کا کردار ادا کیا جوکہ میری امیج سے بالکل ہٹ کر تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ دھرمیندراور کرکٹر یوراج سنگھ کے والد اداکار یوگ راج سنگھ سمیت بولی وڈ کے کئی ایکٹرز ان کے مداح ہیں اور آج بھی فون کرکے خیریت دریافت کرتے ہیں۔ مولاجٹ، کودھرمیندر نے دوبار فلمایا۔ ایک پنجابی فلم ’پتر جٹاں دے‘ بنائی اور پھر اسی کہانی پر ’جینے نہیں دوں گا‘بنائی۔ میری فلم ’وڈیرا‘بھی بولی وڈ میں ’دھرم یدھ‘کے نام سے کاپی کی گئی۔
مصطفی قریشی نے بتایا کہ انہیں کئی بار بولی وڈ فلموں میں کام کرنے کی آفر ہوئی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ میں پڑوسی ملک کی پنجابی فلموں کو بھارتی نہیں کہتا بلکہ مشرقی پنجاب کی فلمیں کہتا ہوں، ان فلموں کو ضرور پاکستان میں ریلیز ہونا چاہیے اور ہماری فلمیں وہاں ریلیز کی جائیں۔
ہماری فلموں کو مارکیٹنگ کی ضرورت ہے۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ فلم انڈسٹری بھی ایک منافع بخش سیکٹر ہے۔ کرونا کے بعد سنیما انڈسٹری کومکمل بحالی کے لیے مراعات کی ضرورت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا شیدائی رہا، انہوں نے فلم انڈسٹری اور فن کاروں کے لیے بہت کچھ کیا،وہ فن کے قدردان تھے۔ انہوں نے نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیف ڈیک)جیسا ادارہ بنایا۔ آج بھی اس قسم کے ادارے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ایوانوں میں وہ لوگ بیٹھے ہیں جنہیں کلچر کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔ میں ساری زندگی پیپلزپارٹی کا حامی رہا لیکن اب ان سولہ کروڑ عوام کی خاموش اکثریت کے ساتھ کھڑا ہوں جن کی کوئی آواز نہیں ہے۔
اپنی آنے والی فلم ’تیرے باجرے دی راکھی‘سے متعلق انہوں نے بتایا کہ اس میں پہلی بار میں اور میرا بیٹا عامر قریشی مدمقابل ہیں۔ سید نور نے اس بار کہانی پر بڑی محنت کی ہے۔ فلم کے پروڈیوسر صفدر ملک خصوصی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان حالات میں بھی کروڑوں روپے کی سرمایا کاری کررہے ہیں۔ یہ فلم ضرور پنجابی سنیما کے ریوائیول میں مددگار بنے گی۔

مصطفی قریشی کے اس طویل انٹرویو کی ویڈیو ریکارڈنگ آپ ہمارے یوٹیوب چینل میٹرو لائیو ٹی وی پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ انٹرویو دو اقساط میں موجود ہے۔