جمال اکبر معروف گلوکار ہیں جنہیں شہنشاہ غزل اُستاد مہدی حسن کے پہلے باقاعدہ شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہیں گائیکی کے شعبے میں 55 سال سے زائد کاعرصہ ہوچکا ہے۔ گیت اورغزل گائیکی میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ پاکستان کے علاوہ بیرون ملک ان کی گائیکی کو پسند کرنےوالوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ہمسایہ ملک انڈیا میں بھی ان کے قدردان ہیں۔ انڈین فن کاروں کے بھی وہ فیورٹ رہے ہیں۔
جمال اکبر لاہور آئے تو ان سے ایک ملاقات میں جو گفتگو ہوئی وہ قارئین کی نذر ہے۔
گلوکار جمال اکبرنے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ میری پیدائش بھوپال کی ہے اورمیرے گھر والے پاکستان بننے کے بعد یہاں آئے اورکراچی میں سکونت اختیارکی۔ مجھے گائیکی کاشوق شروع سے ہی تھا، اسکول کے فنکشنز میں بھرپور حصہ لیاکرتاتھا، دوسرے اسکولوں میں ہونےوالے پروگراموں میں بھی مجھے بلایا جاتا جہاں مجھے بہت زیادہ سراہاجاتا اوراللہ کے فضل و کرم سے پہلا پرائز مجھے ہی ملتاتھا۔ ریڈیوپاکستان کراچی سے بچوں کا ایک پروگرام ہوا کرتا تھا جو ہر اتوار کو ہوتا تھا، میزبان نے مجھے سنا تو پروگرام میں آنے کی دعوت دی جس میں دس بارہ سال کی عمر کے بچے ہی شریک ہوتے تھے۔ میں نے پروگرام میں جاکر گایا تو بہت پسند کیا گیا اور اس کے بعد وہ مجھے ہر اتوار کو بلانے لگے۔ 65 کی پاک بھارت جنگ کا ماحول چل رہا تھا اور ریڈیو سے جنگی ترانے چلا کرتے تھے جن میں مہدی حسن کاترانہ ”اپنی جاں نذرکروں اپنی وفا پیش کروں“ بھی چلتا تھا۔ مجھے مہدی حسن کی آواز بہت پسند تھی اوروہ نغمہ مجھے بہت اچھا لگا اور وہ آواز میرے دل میں گھر کرگئی۔ میں جب اتوار کو اس پروگرام میں گیا تو میزبان منی باجی نے گانے کی فرمائش کی تو میں نے کہا کہ میں مہدی حسن کا گایا ہوا ”اپنی جاں نذرکروں اپنی وفاپیش کروں“ ہی گاﺅں گا۔ وہ آواز میرے دل میں ایسی بسی کہ اس دن سے مہدی حسن کو فالو کرنا شروع کردیا۔ اس سے پہلے میری آواز قدرے پتلی تھی لیکن ”اپنی جاں نذرکروں اپنی وفاپیش کروں“ گایا تو آواز تھوڑی تبدیل ہوئی تھی۔ اگرچہ مہدی حسن کی آواز سے تونہیں مل رہی تھی لیکن مجھے لگ رہا تھا کہ میرے سُر ٹھیک لگ رہے ہیں۔ میں نے وہ گایا تو بہت پسند کیا گیا۔ اس وقت ریڈیو ہی تھا۔ جو لوگ ریڈیو پرگاتے وہ راتوں رات مشہور ہوجایا کرتے تھے۔ وہاں سے گانے کی بات شروع ہوگئی۔ اگرچہ مجھے گھرسے گانے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ میرے گھر والے کافی مذہبی اور روایت پسند تھے، ادبی ذوق بھی رکھتے تھے، میرے ماموں اخضر مالوی شاعر تھے اور گھر میں مشاعرے بھی ہوتے تھے جنہیں سن سن کر مجھے شاعری سمجھنے کاشوق ہوا۔ میں گھروالوں سے چھپ کر فنکشنز میں جایا کرتا تھا۔ ساتھ پڑھائی بھی چلتی رہی۔ ہماری کاروباری فیملی ہے، بڑے بھائی جلال اکبر اب بھی فروٹ کی آڑھت کرتے ہیں، پنجاب اورسندھ میں باغات بھی ہیں۔ بڑے بھائی کوپتہ چلا کہ میرا گانے کی طرف رجحان ہے تو وہ مجھے صبح اپنے ساتھ آڑھت پر لے جاتے اورشام کو پڑھنے بھیجتے تھے تاکہ میں مصروف رہوں اورموسیقی کی طرف نہ جاسکوں۔ مجھ سے پہلے خاندان میں کوئی گائیکی کی طرف نہیں آیا تھا۔ میں پھر بھی چھپ چھپ کر رات کو فنکشنز میں چلا ہی جاتاتھا۔
اس دوران مجھے ایک ایسا گروپ ملا جس میں اخلاق احمد اور نذیربیگ (اداکارندیم) بھی شامل تھے۔ اخلاق احمد نے ”ساون آئے ساون جائے“جیسے بے شمارہٹ گانے گائے تھے، وہ اگرچہ مجھ سے پانچ سات سال بڑے تھے لیکن بالکل بھائیوں کی طرح تھے اورہم ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ بھائی جب مجھے ان کےساتھ دیکھتے توڈانٹتے کہ تم ان لوگوں کےساتھ نہ پھرا کرو۔ بندر روڈ پرجامعہ کلاتھ مارکیٹ راجہ مینشن میں ایک کمرہ تھا جہاں یہ لوگ ریاض کیا کرتے تھے۔ وہاں ایک میوزک ڈائریکٹراکبرپاشا ہوتے تھے۔ اخلاق احمد اور نذیر بیگ (ندیم) نے مجھے سنا تو کہا تمہاری آواز تو مہدی حسن سے بہت زیادہ ملتی ہے۔ اس وقت جب میری پندرہ سال عمرتھی۔ مہدی حسن کے ایک دوگانے اس وقت بہت مشہورتھے جن میں ”جس نے مرے دل کودرددیا اس شکل کومیں نے بھلایا نہیں“ اور ”مجھ کوآوازدے توکہاں ہے“ شامل تھے۔ ان گانوں سے میری ٹریننگ شرو ع ہوگئی اوراللہ نے مجھ میں یہ صلاحیت قدرتی طورپررکھی تھی کہ میں مشکل جگہیں بھی آسانی سے کہہ جاتاتھا۔ مہدی حسن سے جنون کی حد تک محبت کرتا تھا اوران سے ملنے کی میری بڑی خواہش تھی۔ انہی دنوں اتفاق سے ان کا کراچی میں ایکسیڈنٹ ہوگیا اور ان کی پسلیاں بھی ٹوٹ گئی تھیں۔ اخبارات میں ان کے حادثے کی خبرآئی توسیدھا ریڈیو پاکستان کراچی گیا جہاں ان کے بڑے بھائی پنڈٹ غلام قادر سے میری ہلکی پھلکی سلام دعا تھی۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا سنا ہے مہدی بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے توانہوں نے کہا ہاں کافی سیریس ایکسیڈنٹ ہے۔ وہ ہسپتال جانے لگے تومیں نے کہا کہ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں بھی آپ کےساتھ چلوں اوران کی عیادت کروں۔ ریڈیو کے سامنے ہی سول ہسپتال تھا جہاں مہدی حسن ایڈمٹ تھے۔ وہاں گئے تولوگوں کارش لگا تھا، ہم لوگ اندر چلے گئے تومہدی بھائی بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے۔ وہاں چند ایک لوگ تھے۔ اس وقت تک ہم انہیں مہدی بھائی کہا کرتے تھے۔ خان صاحب بعد میں کہنا شروع کیا۔ وہاں بات شروع ہوگئی کہ ان کے پاس رات اوردن کو کون کون رہے گا؟ اس وقت ان کے بچے ابھی چھوٹے تھے۔

یہ پچاس سال پہلے کی بات ہے۔ باتوں باتوں میں میں نے کہا کہ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ دن کے وقت میں ان کے پاس آکر رہ لیا کروں اورڈیوٹی دیا کروں۔ پنڈٹ غلام قادر نے کہا کہ ٹھیک ہے، لاہور سے ایک لڑکا بھی آرہاہے پرویز۔ شام کو پرویز مہدی بھی آگیا جس سے میری پہلی ملاقات تھی۔ پنڈٹ غلام قادر نے میرا تعارف کروایا کہ یہ پرویز ہیں، اس وقت تک وہ مہدی حسن کے شاگرد نہیں ہوئے تھے۔ ہاں کراچی آنا جانا رہتا تھا اور مہدی حسن کے بہت قریب تھے۔ انہوں نے کہا کہ رات کو یہ آجائیں گے اور ساری رات کےلئے یہاں ہوں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چند روز یہ چلتارہا، میں صبح آکرمہدی حسن کے پاس بیٹھ جاتا۔ وہ دوائیوں کی وجہ سے اکثرغنودگی میں ہوتے تھے۔ ایک دن وہ تھوڑا سا اٹھے، میں نے ان کے پیچھے تکیہ لگایا تو انہوں نے میری طرف دیکھا تو میں نے سلام کیا، جس کاانہوں نے جواب دیا۔ میں وہاں بیٹھا رہا اوروقت پر انہیں دوادی، پھر وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اورمجھے کہا کہ بیڈ کے نیچے سرمنڈل رکھا ہے اسے نکالو، مجھے اس وقت سرمنڈل کا بھی نہیں پتہ تھا کہ کیا چیزہوتی ہے مجھے تو اس وقت ہارمونیم کابھی نہیں پتہ تھا۔ میں نے ان سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ سرمنڈل کیسا ہوتا ہے۔ جیسے انہوں نے کہا میں سرمنڈل تلاش کرنے کےلئے بیڈ کے نیچے گھس گیا۔ وہاں کئی چیزیں پڑی ہوئی تھیں، کچھ کھانے پینے کے برتن رکھے تھے، دس بیس سیکنڈ تلاش کرتے ہوئے ہوگئے تو انہوں نے کہا کہ نہیں مل رہا۔ پھرانہوں نے کہا وہ لکڑی کے ایک چوڑے سے بکسے میں پڑاہے، اسے نکالو، میں نے اسے نکالا اور کھول کران کے سامنے رکھ دیا۔ وہ کوئی سوتاروں والاسرمنڈل تھا، وہ اسے لے کر اس پرانگلی پھیرنے لگے اورتار کو بجانے لگے۔ حسن لطیف لاہور سے بہت بڑے میوزک ڈائریکٹرتھے،اس وقت ہوتا یہ تھاکہ میوزک ڈائریکٹر چلتے پھرتے کوئی استھائی یا انترا گلوکار کو بتادیا کرتے تھے کہ ذہن میں رکھنا اسے چندروزمیں ریکارڈکریں گے۔ مہدی حسن ایک استھائی لاہور سے لے کر کراچی آئے تھے کہ ایکسیڈنٹ ہوگیا اوروہ اسے یاد کررہے تھے کہ کہیں بھول نہ جاﺅں حالانکہ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے انکی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اورپٹیاں بندھی تھیں۔ وہ استھائی تھی ”کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کوجلانے آجاتے ہیں“ اس کا انہوں نے انترابھی کہا۔ انہیں درد ہورہی تھی اورمجھے کہا سرمنڈل رکھ دو۔ شام کو پرویزمہدی آگیا اورمیں گھرچلاگیا۔ اگلے دن پھر میں آیااور ان کے کہنے پر پھرسرمنڈل نکال کران کے سامنے رکھ دیا اوروہ اس پر گانے لگے لیکن انترے کی ایک لائن آگے پیچھے کررہے تھے جس پر وہ جھنجھلاہٹ کابھی شکارہوئے۔ میں نے انہیں کہا مہدی بھائی کل جوآپ گارہے تھے وہ اور تھا توانہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا وہ میرے ذہن سے نکل گیا۔ میں نے کہا کیا میں اسے گانے کی گستاخی کرسکتا ہوں، انہوں نے پھر میری طرف دیکھا کہ تم گاتے بھی ہو، میں نے کہا مجھے گانے کاشوق ہے۔ میں نے گنگنایا ”ان سے الگ میں رہ نہیں سکتا اس بے درد زمانے میں میری یہ مجبوری مجھ کو یاد دلانے آجاتے ہیں“ یہ سن کرانہوں نے کہا ماشاءاللہ تمارادماغ بہت تیز ہے۔ خیر انہوں نے دوبارہ کچھ گایا اورپھر کہا سرمنڈل اٹھاکر رکھ دو۔ یہ میری ان سے پہلی بات چیت تھی۔ اس کے بعد پندرہ بیس دن تک میرا ان کے پاس آناجاناچلتارہا، جس دن وہ ڈسچارج ہوکر گھر جارہے تھے تومیں پھر گیا اوران کے جانے کے بعد دراز سے ان کی کچھ چیزیں اٹھائیں جو وہ وہیں چھوڑگئے تھے، جن میں کاغذات بھی تھے جن پر ان کانام لکھاتھا وہ میرے پاس آج بھی سووینئر کے طور پر محفوظ ہیں۔ اس کے بعد لگ بھگ دوسال میرا ان سے کوئی رابطہ ہوا نہ ملاقات۔ پھرمیرے بھائی نے مجھے کل وقتی اپنے آڑھت کے کاروبارمیں لگادیا۔ صبح چھ بجے ان کےساتھ مارکیٹ جاتا اورشام کو گھر آکر تیارہوتا اورپڑھنے چلاجاتا۔ ہاں رات کوچوری چوری فنکشن بھی کرتارہا۔ اخلاق احمد اورندیم بیگ کےساتھ ہماراگروپ بن گیاتھا، جب کوئی فنکشن ہوتا تووہ مجھے چپکے سے بتادیتے اورمیں رات کو جب سب سوجاتے تودیوار پھلانگ کرچلاجاتا۔ اس طرح گائیکی کے شوق میں دیواریں بھی پھلانگی ہیں۔


گلوکار جمال اکبر نے بتایا کہ مہدی حسن جب ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر گھرچلے گئے توبعد میں ان سے ملاقات ہوئی جس کے بعد ملاقاتوں کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ جس کےلئے مجھے گھر سے بھی نکلنا پڑا کہ گھر میں رہ کر کاروبارکرو یا اگر گانا گانا ہے تو گھر چھوڑدو، اس طرح گانے کے شوق میں میں نے گھربارچھوڑدیا۔ اس وقت میں کوئی اٹھارہ سال کاتھا۔ اس دوران میرا مہدی حسن سے ایک تعلق بن گیا اورمیں انکی شاگردی میں آگیا۔ انہوں نے مجھے بہت پیاردیا۔ وہ کراچی میں ہوتے تو مجھے اپنے ساتھ رکھتے، ان کامیرا بہت ساتھ رہا،اس کے بعد میرا پورے پاکستان میںایک نام ہوگیاتھا۔میںنے ٹی وی کے سارے شوزہی کئے جن میںضیاءمحی الدین شو،جھنکاراوردیگر شوزشامل تھے۔میں نے کئی آڈیوکیسٹ بھی نکالے جوبہت مقبول ہوئے۔فلموں کے گانے بھی گائے جس کےلئے 1977-78میں لاہورآگیاتھا۔ پلے بیک سنگربننے کے بعد میرے راستے میں بہت رکاوٹیں بھی آئیں اس شعبے کے کئی لوگ میرے راستے میںآئے لیکن اللہ نے میری مدد کی اور وہ لوگ کامیاب نہیںہوسکے۔لاہورمیںرفیع خاورننھامیرے جاننے والے تھے،محمدعلی،مصطفی قریشی ،کمال احمدرضوی،سیدکمال اوردیگر فنکاربھی جب کراچی آتے تو ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں اوروہ مجھے سنتے تھے۔زیبا،نیلو،صبیحہ خانم سب لوگ میری تعریف کرتے تھے۔لاہورآکرمیںنے ایک فلم گونج کی پھرخاک اورخون ،بندھن اوردیگرفلمیںبھی کیں۔غلام محی الدین پربھی میری آوازمیں گانافلم بند ہواتھا، ننھاکی فلم”جاہل “میں بھی پلے بیک کی۔ نیفڈیک کے تحت بننے والے فلم”خاک اورخون “میں بھی میری آوازمیںتین گانے شامل تھے۔اداکاری میںمیرے محسن حسن طارق تھے۔ایک فلم ”ماضی حال اورمستقبل“بن رہی تھی جس میںرانی اورشاہدحمیدتھے،میںکراچی جارہاتھا تواس فلم کی اوپننگ ہورہی تھی اوررتن کمار اس کے چیف اسسٹنٹ تھے جن سے بھی میری بہت اچھی سلام دعاتھی،وہ جب بھی مجھے ملتے توکہتے یارتم سے فلم میںایک کریکٹرکرواناہے،خیربات آئی گئی ہوجاتی تھی۔
جمال اکبرنے بتایاکہ پی ٹی وی سے پروڈیوسراچھی آوازوں کی تلاش میںریڈیوپاکستان آیاکرتے تھے،اس وقت ایک پروڈیوسر تھے محسن علی جنہوںنے مجھے ریڈیوپرسناتوٹی وی پر گانے کی آفرکی۔میںنے کہامیںتو گھروالوں سے چھپ کرگاتاہوں ٹی وی پر آﺅں گا تو سب کوپتہ چل جائے گابہرحال گانے کامجھے جنون تھااس لئے حامی بھرلی اورپی ٹی وی کراچی چلاگیا۔اتفاق سے مشرقی پاکستان سے میوزک ڈائریکٹرکریم شہاب الدین بھی وہاں آئے ہوئے تھے جن کاایک گانا ”تیری یادآگئی غم خوشی میںڈھل گئے“بہت مقبول ہے۔کریم شہاب الدین سے مجھے ملایاگیاتوانہوںنے مجھے سن کربہت شاباش دی،مجھے وہاںپہلا گانادیاگیا”وہیں زندگی کے حسین خواب ٹوٹے میرے ہمسفر تم جہاں ہم سے چھوٹے“ وہ میرے لئے ایک بالکل نئی کمپوزیشن تھی ،بہرحال میںنے اسے گایااورریکارڈکرواکرواپس گھرآگیا۔مجھے یقین نہیں تھاکہ وہ چلے گی بھی۔چندروز بعد وہ ٹی وی پرچلی تو پورے پاکستان میںتہلکہ مچ گیااورمیری شہرت ساتویں آسمان پر پہنچ گئی۔اس کے بعد گھروالوں نے میرے ساتھ جوکیاوہ ایک الگ داستان ہے۔وہ کلام ٹی وی پرصبح سے لے کرشام تک پانچ چھ بارروزانہ چلتاتھا۔مہدی حسن ایک روزسورہے تھے اورٹی وی پرمیرا وہی گاناچل رہاتھاجس کی آواز سے ان کی آنکھ کھل گئی توانہوں نے اپنے بیٹے طارق مہدی کوڈانٹااورواپس کمرے میںجاکرلیٹے پھر اٹھ کرنیچے آگئے اورپوچھایہ میراکون ساگاناہے اورمیںنے کب گایاتھا۔طارق نے انہیںبتایاکہ یہ آپ کانہیںبلکہ ایک سنگر جمال اکبرکاگاناہے ۔مہدی حسن کی نیندتوپہلے ہی خراب ہوگئی تھی اب اڑگئی۔انہوں نے پوراگاناسناتوطارق سے پوچھاکہ جمال اکبرکہاں ہوتے ہیں میری ان سے ملاقات کرواﺅ۔ان دنوںمیںریڈیوروزانہ جایاکرتاتھا۔ایک روز میری ریکارڈنگ ہورہی تھی کہ طارق مہدی وہاں آگئے ۔میںطارق کوجب بھی دیکھتاتوانہیںمہدی حسن ہی سمجھتاتھاکیونکہ ان سے بہت زیادہ عقیدت تھی۔میں ریکارڈنگ چھوڑکر آگیااورآنے کی وجہ پوچھی تواس نے بتایاکہ اباجی آئے ہوئے ہیں اورکینٹین میںبیٹھے آپ کوبلارہے ہیں۔میںریکارڈنگ چھوڑچھاڑکرطارق کےساتھ کینٹین کی طرف چل پڑااورجاتے جاتے طارق نے مجھے ساراواقعہ سنادیا۔کینٹین کے ساتھ باغیچے میںمہدی حسن بیٹھے ہوئے تھے۔طارق نے انہیںبتایاکہ میںجمال اکبرکولایاہوں جن کاگاناسن کرآپ نے ملنے کےلئے کہاتھا۔مہدی حسن نے مجھ سے مخاطب ہوکرکہاکہ تم نے بہت اچھاآئٹم گایا تم کس کے شاگردہو،تمہاراگھرانہ کون ساہے،اس وقت مجھے گھرانوںکاتوکوئی پتہ نہیںتھا۔میںنے کہامیراگھرانہ توکوئی نہیںہے میںپورے خاندان میںاکیلاہی گانے والاہوں،پھرانہوں نے پوچھاکہ کس سے ریاض کرتے ہو؟میںنے کہاکسی کے ساتھ بھی نہیںبس آپ کے گانے سنتاہوںاوربچپن سے وہی سنتاآیاہوں اوروہی گاتے گاتے یہاںپہنچ گیاہوں۔انہوںنے کہاکہ اللہ نے تمہیں جوانعام دیاہے وہ کسی کے پاس ہوتانہیںہے،بہت زیادہ ریاضت کے بعد بھی اگر کسی کومل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ نہیںملتا۔انہوں نے کہاکہ مزیدسیکھو،تمہاری آوازاورگلہ بہت اچھاہے،ایک اچھے گلوکارکی ساری خوبیاںتم میںموجود ہیں تمہیں ادائیگی کاپتہ ہے،انہوںنے چندٹیکنیکل باتیں بھی کیں اورکہاتم مزیدسیکھوتم بہت کامیاب ہوگے۔میںنے کہاکس سے سیکھو،میرے توآئیڈیل آپ ہیں آپ کوہی گاتاآیاہوں،میری خواہش ہے آپ مجھے اپناشاگردبنالیں،انہوںنے ایک سیکنڈنہیںلگایااورایک میوزیشن سے رومال لے کرمجھے گنڈاباندھ دیااس طرح میںمہدی حسن کاباقاعدہ گنڈہ بندھ شاگرد بن گیا۔

گلوکارجمال اکبرنے بتایاکہ سابق صدر جنرل (ر)پرویزمشرف موسیقی کے بہت بڑے قدردان تھے اورخود بھی گاتے تھے۔وہ لندن میںکافی عرصہ رہے اورمیںبھی لندن میںتھاجہاں پی جے میرکے گھرپر اکثرموسیقی کے پروگرام ہوتے جس میںمشرف بھی آیاکرتے تھے۔پی جے میرمجھے پیغام دیاکرتے کہ پرویز مشرف آرہے ہیں اورآپ نے آکرگاناہے اس طرح شام کو خوب محفل جمتی جس میںشوکت عزیز بھی ہوتے تھے۔پرویزمشرف مجھ سے مہدی حسن کے اکثرگانے سناکرتے تھے۔میری گائی ہوئی غزل ”وہیں زندگی کے حسین خواب ٹوٹے“پرویزمشرف کوبہت پسندتھی اوراس کی ضرور فرمائش کیاکرتے تھے۔اس کے بعد”زندگی میںتوسبھی پیارکیاکرتے ہیں“بھی خاص طورپرسناکرتے۔”رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کےلئے آ“کی بھی اکثرفرمائش کرتے تھے۔وہ گانوں کی فہرست گھرسے بناکرلاتے تھے جوایک ایک کرکے مجھ سے سناکرتے۔وہ کسی اورکی فرمائش سننے کی بجائے کہتے کہ یہ گاناسناﺅ،کچھ گانے ایسے تھے جووہ میرے ساتھ ساتھ خود بھی گایاکرتے تھے اس طرح پرویز مشرف کے ساتھ بہت ساتھ رہا۔اللہ ان کے درجات بلندکرے۔مصطفیٰ کھر بھی میرے بڑ ے محسن ہیں وہ بھی لندن میںتھے اورمیں بھی وہاں تھاان کے گھراکثرمحفلیں ہوتی تھیں۔مولاناکوثرنیازی،عبدالحفیظ پیرزادہ کے ساتھ بھی میرا تعلق تھا۔
جمال اکبرنے آج کی موسیقی اورپہلے کی موسیقی میںفرق کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے بتایاکہ دونوں میںبہت فرق ہے،آج کی موسیقی تو وہ موسیقی رہی نہیںجوکبھی تھی یہ خراب ہوگئی ہے،ہم نے بہت محنت کی ہے لیکن آج کل لوگ محنت نہیںکرتے بلکہ شارٹ کٹ سے کامیابی تلاش کرتے ہیں،ایسے گلوکاروں کے گانے کسی کویادبھی نہیںرہتے اورنہ لوگ ان گانوں کوسنتے ہیں،پرانے گانے آج بھی چلتے ہیں اورلوگ شوق سے سنتے ہیں،مہدی حسن کے گانے آج بھی لوگ بہت شوق سے سنتے ہیں،انڈیامیںبھی لوگ مہدی حسن کے گانے سنتے ہیں۔
جمال اکبرنے بتایاکہ میںنے شاہ فیصل مسجدکے سنگ بنیادرکھنے کی تقریب میں بھی شرکت کی تھی جسے میںایک اعزازسمجھتاہوں کیونکہ ایسی چیزیں زندگی میںباربارنہیںہوتیںمجھے اس پر بہت فخرہے۔مجھے پرفارم کرتے ہوئے پچپن سال ہوگئے ہیں۔شاہ فیصل مسجداسلام آبادکاسنگ بنیادرکھاگیاتوذوالفقارعلی بھٹونے آرٹس کونسل راولپنڈی کوتین نام مدعوکرنے کےلئے ذاتی طورپردیئے تھے جن میںایک میرانام تھادوسرے سہیل رعنا اورتیسرے محمدافراہیم بھائی تھے۔اس تقریب کےلئے شاہ فیصل کومدعوکیاگیاتھالیکن ان کے انتقال کے باعث شاہ خالد آئے تھے ،تین ماہ کےلئے ہم ذوالفقارعلی بھٹوکے خاص مہمان تھے اورشکرپڑیاں کے پیچھے جنگل میںواقع ایک گیسٹ ہاﺅس میںہمیںٹھہرایاگیاتھا،ان تین ماہ کے دوران بھٹوکےساتھ کئی ملاقاتیں ہوئیں،وہاں تیس ہزار بچوں کاایک اسٹیڈیم بھی بنایاگیاتھاجوآج نہیںہے۔ذوالفقارعلی بھٹوکےساتھ بھی میری بہت رفاقت رہی۔ ذوالفقارعلی بھٹوسے بڑی عقیدت تھی اگرچہ میراسیاست سے کوئی تعلق نہیںتھا۔ ذوالفقارعلی بھٹوکے سامنے کئی بار پرفارم کیاتھا۔سب مجھے بہت پسندکرتے تھے۔1976ءکی بات ہے ہم جمعہ کاروزہ ان کے ساتھ روزہ افطارکرتے تھے اس موقع پرصنم بھٹو،مرتضیٰ اوربے نظیربھٹوبھی موجود ہوتی تھیں اورہلکاپھلکامذاق بھی چلتارہتاتھا۔وہ کبھی اسلام آباد بھی ہمیںکسی پروگرام میںبلالیتے تھے۔ میںنے ان کے سامنے بے شمار نغمے گائے پھرجب وہ جیل میںتھے توایک معمہ تھاکہ انہیںپھانسی ہوجائے گی یانہیں؟لیکن اندرکے لوگوںکوپتہ چل گیاتھاکہ پھانسی ہوجائے گی۔افتخارعارف ان دنوں پی ٹی وی کراچی میںتھے۔ایک دن انہوںنے مجھے بلایاکہ ایک ایمرجنسی ریکارڈنگ ہے،میںٹی وی پہنچ گیااورریکارڈنگ کروادی لیکن مجھے اس کے پس منظرکانہیںپتہ تھا۔میںریکارڈنگ کرواکرواپس آگیا اورتین چاردن کے بعدمیری والدہ میرے کمرے میںآئیں اورمجھے نیندسے جگادیا،صبح دس گیارہ بجے کاوقت تھاکیونکہ میںرات کوفنکشن سے فارغ ہوکر دیر سے گھرآتااورصبح دیر تک سوتاتھا۔والدہ نے مجھے کہاکہ بھٹوکوپھانسی دیدی گئی ہے۔یہ پانچ جولائی 1977ءکی بات ہے۔مجھے ان کی بات پریقین نہیںآرہاتھا۔والدہ واپس جاکرٹی وی دیکھنے لگیں۔تھوڑی دیر میںپی ٹی وی پرمیری وہی غزل لگ گئی:
”بولتی آنکھیں چپ دریامیںڈوب گئیں
شہر کے سارے تہمت گر خاموش ہوئے

وہ غزل لگی تووالدہ پھرمیرے کمرے میںآئیں کہ تمہاری کوئی نئی غزل ٹی وی پرلگی ہے جومیںنے پہلے نہیںسنی۔دروازہ کھلاتومیرے کانوںمیںبھی اس غزل کی آواز آگئی۔میںہڑبڑاکراٹھاتوسمجھ آگئی کہ اسے کیوں اس قدرایمرجنسی میںریکارڈکیاگیاتھا۔میںوہیں بیٹھ کررونے لگاپھرگاڑی کی چابی اٹھائی اورسیدھاگاڑی لے کر پی ٹی وی چلاگیاجہاں افتخارعارف کے کمرے میںگیاتووہ وہاں بیٹھے تھے،پی ٹی وی میںاس وقت تقریباًاندھیراچھایاہواتھااورکہیں کہیں روشنیاں جل رہی تھیں۔باہر بھی سناٹاتھا۔میںنے افتخارعارف سے پوچھاکہ واقعی جوخبرسنی وہ درست ہے جس پرانہوں نے کہاہاں غضب ہوگیا۔روروکر میرابراحال ہوگیا،افتخارعارف بھی رنجیدہ تھے۔تین چاردن اسی طرح تبصرہ ہوتارہاپھر جنرل ضیاءالحق کے نوٹس میںیہ بات لائی گئی کہ یہ غزل توذوالفقارعلی بھٹوکے حق میں ہے یہ لوگوں کواورزیادہ غمزدہ کررہی ہے اوران میںولولہ پیداکررہی ہے۔جنرل ضیاءالحق نے یہ سناتوفوراً وہ غزل بندکرنے کے احکاما ت جاری کردیئے،ساتھ ہی افتخارعارف کوبھی پی ٹی وی سے نکال دیا،مجھے بھی ٹی وی اورریڈیوسے بین کردیاگیا۔اس غزل کے شاعرافتخارعارف تھے اورانہیں اندازہ ہوگیاتھاکہ بھٹوکوپھانسی ہوجائے گی اس لئے انہوںنے غزل چندروز پہلے ہی مجھ سے ریکارڈکروالی تھی۔اس کے بعدافتخارعارف کوآغاحسن عابدی نے یہاں سے کسی طرح نکال کرلندن میں جاب دلوادی۔اب میںپھنساہواتھا،میں ٹی وی پرپرفارم کرسکتاتھانہ ریڈیوپر اورنہ ملک سے باہرجاسکتاتھا۔اس وقت میرا انڈیاکےساتھ ایک پروگرام کےلئے معاہدہ ہوچکاتھا،مہدی حسن وہ پروگرام کرکے واپس آچکے تھے اورمجھے وہاں جاناتھا۔میں نے مہدی حسن سے ذکرکیاکہ میںانڈیاپروگرام کےلئے جارہاہوں جس پر انہوںنے خوشی کااظہارکیالیکن میںنے انہیںبتایاکہ میرا نام توای سی ایل میںہے ملک سے باہرنہیںجاسکتاجس پرانہوںنے کہا تم لاہورآجاﺅ وہاں سے واہگہ بارڈرکے ذریعے تمہیںنکال دیں گے۔میںنے سوچاکہ اکیلاجاﺅں گاتوشایدپکڑاجاﺅں کیوں نہ کچھ اورلوگوںکو بھی ساتھ لے جاﺅں۔میںنے پھربمبئی میںاپنے پروموٹرکوفون کیاکہ یہاں ایک لڑکی نئی نئی آئی ہے اورغزل بہت اچھی گاتی ہے جس کانام منی بیگم ہے اس کوبھی میںچاہتاہوں ساتھ لے آﺅں۔ایک لڑکاکامیڈین فریدخان بھی اس وقت نیانیاآیاتھامیںنے اسے بھی کہاکہ میرے ساتھ انڈیاچلو۔ہم تینوںلاہورآگئے اورمہدی حسن سے ملے توانہوںنے کسٹم والوں کوبھی بلالیااورجانے کاساراپروگرام بن گیا،میں نے ساراانتظام کیاہواتھا۔بارڈرکراس کیاتووہاں سے ٹرین میںبیٹھ گیااوریوں ہم انڈیاپہنچ گئے وہاں پروگرام کئے۔انڈیامیںلوگ موسیقی کوبہت سمجھتے ہیں۔ہمارا تین ماہ کاپروگرام تھااورہم تین ماہ وہاں رہے پھر وہاں سے آگے کاپروگرام بنالیا،انگلینڈکااس وقت ویزہ نہیںہوتاتھامیںنے بمبئی سے ٹکٹ کٹوایااورسیدھالندن چلاگیاکیونکہ واپس پاکستان توآنہیںسکتاتھا۔87ءمیںجنرل ضیاءالحق کے طیارے کوحادثہ پیش آنے کے بعد واپس پاکستان آیا۔اب میںلندن کے ساتھ ساتھ امریکہ میںبھی رہتاہوں کیونکہ میرے پاس برطانیہ اورامریکہ کی شہریت ہے۔درمیان میں گائیکی کے ساتھ ساتھ لندن میںقیام کے دوران ایک دوبزنس بھی کئے۔