نشیمن سنیما، کسی زمانے میں کراچی کے دلکش سنیما گھروں میں سے ایک ہوا کرتا تھا۔ یہاں لگنے والی اردو اور پنجابی فلموں میں فیملیز کا رش دکھائی دیتا تھا لیکن پھر وقت اور حالات کی ستم ظریفی نے فلم بینوں کے پسندیدہ نشیمن کو اجاڑ دیا۔ اور آج اس سنیما کی حالت قابل رحم ہے۔
یہ سنیما 70 کی دہائی کے وسط میں ایک مشہور کاروباری شخصیت میاں غلام مرتضیٰ آفتاب نے بڑے شوق اور لگن سے تعمیر کروایا تھا۔ نشیمن کے علاوہ وہ چار دیگر سنیماؤں کے بھی مالک تھے جو لاہور میں واقع تھے۔




میاں غلام مرتضیٰ آفتاب صاحب کی انفرادیت تھی کہ ان کے تمام سنیماؤں کے نام ’ن‘ سے شروع ہوتے تھے۔ لاہور میں واقع ان کے سنیماؤں میں ناز، نگینہ، نگار اور نائلہ سنیما شامل تھے۔ جب انہوں نے کراچی میں اس سنیما کی بنیاد رکھی تو اس کا نام بھی ن سے نشیمن رکھا گیا۔ انہوں نے ایک فلم ’دل میرا دھڑکن تیری ‘ بھی پروڈیوس کی تھی، جو 1968میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کی کاسٹ میں شمیم آرا، وحید مراد اور رانی شامل تھے۔
نشیمن کا تعمیراتی ڈیزائن بھی بڑا دلفریب ہے۔ سنیما کی مرکزی عمارت کا بیرونی حصہ دیو قامت ہاتھی کے ڈیزائن میں تعمیر کیا گیا ہے جبکہ اندرونی حصے میں گیلری کی طرف جانے والی راہدری کے ساتھ دیوار پر نقش و نگارکی صورت میں خطے کی ثقافت کی عکاسی کی گئی ہے۔

اوپر گیلری کی طرف جاتے ہوئے ایک آبشار بھی اس سنیما کے منفرد ڈیزائن کا حصہ تھی۔ جو یہاں آنے والے فلم بینوں کے ذوق ِ لطافت کو تسکین پہنچاتی تھی مگر اب یہ سب خواب ہوجائے گا کیونکہ نشیمن سنیما کے موجودہ مالکان اسے فروخت کرنے کا ارادہ باندھ چکے ہیں اور عنقریب نشیمن سنیما بھی اپنا وجود کھوبیٹھے گا۔
نشیمن سنیما کا افتتاح یکم اگست 1975 کو ہوا تھا اور یہاں جو پہلی فلم ریلیز کی گئی، وہ ہدایت کار پرویز ملک کی ’پہچان ‘ تھی۔ اس کی کاسٹ میں ندیم ،شبنم، منور سعید، صبیحہ خانم، قوی خان، اور نیر سلطانہ شامل تھے۔ نشیمن، فلم پہچان ، کا مین سنیما تھا۔
اس کے بعد یہاں کئی کامیاب اردو اور پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں جنہوں نے بڑی بڑی جوبلیاں منائیں۔
- کراچی کی قدیمی بستی لیاری ٹاؤن بہار کالونی کے بلدیاتی مسائل نقص امن کی طرف بڑھنے لگے
- پاکستانی فلم لو گرو، کی دنیا بھر میں دھوم، 21 کروڑ کمالیے
- عیدالاضحیٰ پر دو بڑی پاکستانی فلموں لو گرو، اور دیمک، میں کانٹے کا مقابلہ
- پاکستان میں ٹام کروز کی مشن امپاسیبل۔ دا فائنل ریکننگ، نے سنیماؤں کی رونقیں بحال کردیں
- پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین مشترکہ فلم سازی کی کوشش رنگ لانے لگی
نشیمن سنیما پر زیر نمائش رہنے والی فلموں میں سسرال، کامیابی، انتخاب، بدلتے رشتے، منزل، سچائی، جوش، صاحب جی، سونا چاندی، ٹھگ بادشاہ، مہندی، گہرے زخم، دشمنی، رشتہ، چپکے چپکے، تیس مار خان، عبادت، دل نے پھر یاد کیا، یہ زمانہ اور ہے، سرگم، آج کا دور، میرا انصاف، پابندی، رنگیلے جاسوس، چوروں کا دشمن، الزام، انٹرنیشنل گوریلے، قاتل کی تلاش، لیڈر، عبداللہ دی گریٹ، کڑیوں کو ڈالے دانہ، بیٹا، ہاتھی میرے ساتھی، گجر دا ویر، سائرن، یار چن ورگا، قسم، مستی خان، وعدہ، گناہ، اور جیوا، قابل ذکر ہیں۔

نوے کی دہائی کے وسط میں یہ سنیما اسلم ناتھا اور ان کی بیگم گلاب ناتھا کی ملکیت میں آگیا۔ 1995 میں نشیمن سنیما نئے مالکان کو منتقل ہوگیا۔ اس زمانے میں سنیما کا سودا دو کروڑ 25 لاکھ روپے میں طے پایا۔ آج اس پراپرٹی کی مالیت تین ارب روپے سے زائد ہے۔
ناتھا فلمز کے نام سے ان کا پروڈکشن اور ڈسٹری بیوشن ادارہ بھی تھا۔
ان کے ڈسٹری بیوشن ادارے کے تحت ریلیز ہونے والی فلمیں بھی اس سنیما کی زینت بنا کرتی تھیں جبکہ بطور فلم ساز ان کی فلمیں بھی نشیمن سنیما پر ریلیز کی گئیں جن میں آج کا دور، ان کی سب سے کامیاب فلم تھی۔ اس کے علاوہ الزام، پابندی، مستی خان، وغیرہ بھی ان کی ذاتی پروڈکشنز تھیں۔


اردوفلمیں بحران کا شکار ہوئیں تو اس سنیما میں پنجابی اور پشتو فلموں کی نمائش شروع ہوگئی۔ اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
نشیمن سنیما کاپرانا پروجیکٹر خستہ حالی کا شکار ہوچکا ہے اور اب قابل استعمال نہیں ہے کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے 35 ایم ایم پر فلمیں بننے کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔ اب یہاں پشتو فلموں کی نمائش عام گھریلو استعمال والے پروجیکٹر سے کی جاتی ہے ، جس کے لیے لیپ ٹاپ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ فلمیں عام یو ایس بی یا ڈی وی ڈی سے پلے کی جاتی ہیں۔

اس سنیما کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ فلم کے دوران گانوں میں ڈسکو لائٹس آن کردی جاتی تھیں جس سے فلم بینوں کا لطف دوبالا ہوجاتا تھا۔ یہ روایت یہاں اب بھی برقرار ہے اور فلم میں گانوں کے دوران ان ڈسکو لائٹس کو آن کردیا جاتا ہے۔
نشیمن سنیما عام طور پر بند ہی رہتا ہے اور صرف نئی پشتو فلموں کی نمائش کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس کی وجہ مالکان یہ بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں بدترین لوڈشیدنگ کے باعث سنیما جنریٹر پر چلایا جاتا ہے جو کہ افورڈایبل نہیں ہے۔ ان حالات میں امکان یہی ہے کہ جلد ہی نشیمن سنیما کو بھی فروخت کردیا جائے گا اور اس کہ جگہ کوئی رہائشی پلازہ یا شاپنگ مال تعمیر کردیا جائے گا اور ہم آنے والی نسلوں کو محض نشیمن سنیما اور یہاں لگنے والی یادگار فلموں کی کہانیاں ہی سناتے رہ جائیں گے۔