Monday, March 10, 2025
پہلا صفحہمضامینوحید مراد، افسانوی شہرت کا حامل اداکار جو مرتے دم تک ہیرو...

وحید مراد، افسانوی شہرت کا حامل اداکار جو مرتے دم تک ہیرو رہا

جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا یہی ہے اک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
لیجنڈری ہیرو وحےد مراد فن اداکاری کا سورج تھے۔ سورج جو روشنی کا منبع ہے۔ انہوں نے اپنے 21 سالہ شاندار فنی سفر میں مختلف نوعیت کے فلمی کردار ادا کئے اور خوب سے خوب تر کی خواہش جستجو کے بنا پر اپنی شخصیت کی نفی کرکے فن اداکاری کو مان و سامان اور ایسے انمول نمونے پیش کئے کہ لا زوال، شہرت، عزت اور مقبولیت بعد از مرگ بھی ان کا استقبال سفر بنی ہوئی ہے۔
رومانی اداکاری اور گانا پکچرائزیشن میں تو آج بھی پاک و ہند میں ان کا کوئی ہم پلہ نہیں ہے۔ ہاں مگر ان کے فن کے سورج کی روشنی کے اسکول آف تھاٹ سے آج بھی پاک و ہند کی فلم انڈسٹری کے نوجوان نسل کے نمائندہ فلمی ہیروز (انڈین) رنبیر کپور اور پاکستان فواد خان جیسے چاکلیٹی ہیرو امیج لڑکے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
پاکستان فلمی صنعت میں لی جنڈری ہیرو وحید مراد وہ فلمی شخصیت ہیں جو سب سے زیادہ فلمی لابی، گروپ بندی اور فلمی سیاست کا شکار ہوئے۔ انہیں دوست نما دشمن قدم قدم پر ملے حد سے زیادہ بے ضرر سادہ اور معصوم اور انتہائی بے ضرر حساس طبیعت کے مالک ہونے کی وجہ سے ان سے دوستی کا دم بھرنے والے کاروباری لوگ حقیقت میں ان کی ظاہری شخصیت کی خوبصورتی کی وجہ سے ان سے کاروباری رقابت اور حسد کرتے تھے ۔ ان کا انداز و اطوار، سج دھج، بول چال، ڈھال، گفتگو والہانہ انداز مخاطب، اعلیٰ درجے کی تعلیم، پڑھا لکھا خاندانی بیک گراﺅنڈ، حسن اخلاق اور سب سے زیادہ مروت سے پیش آنا۔ حسن اخلاق اور حد سے زیادہ مروت سے پیش آنا بھی دوسروں کو نالاں گزرتا تھا۔ قدرت نے اس قدر دل کشی سے سراپا تخلیق کیا تھا کہ ایک فلمی ہیرو کے تمام انداز اور تمام رنگ اس کی شخصیت میں سمودئےے تھے اور ان کی باڈی لینگویج کا پیکج اتنا شاندار تھا کہ جو بھی ان کو دیکھتا نظریں ان پر جم سی جاتیں اور ہر مرد و زن ان کی طرف کھچتا چلا جاتا تھا اور سونے پہ سہاگا یہ کہ وہ بے پناہ خدا داد صلاحیتوں سے رچا بسا ایک مکمل فنکار اور تخلیق کار تھا۔ ان تمام خصوصیات کی وجہ سے لوگ ان کے دوست کم اور دشمن زیادہ تھے۔ میں ان سطور میں وحید مراد (مرحوم) کے ان تمام دوست نما دشمنوں کیلئے چند سطریں لکھ رہا ہوں جو مر گئے ہیں اور جو زندہ ہیں ان الفاظ کو آئینہ سمجھ کر اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو تم سے پہلے دھرتی پر اکڑ کر چلتے تھے وہی دیکھتے تھے جو دیکھنا چاہتے تھے۔ وہی سنتے تھے جو سننا چاہتے تھے۔ وہی سوچتے تھے جو سوچنا چاہتے تھے۔ آنکھیں ہونے کے باوجود نابینا تھے۔ کان تھی مگر بہرے تھے۔ دماغ تھا مگر بیمار اور سکڑا ہوا اور آج وہ انہیں کے برابر گڑے پڑے ہیں جن کو زمین کے اوپر جوتوں کی گرد سمجھتے تھے یہ سطریں میں نے ان تمام بڑے فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسرز کےلئے رقم کی ہیں جو وحید مراد کو محض ایک دائرے کا ایکٹر سمجھتے ہوئے اپنی فلموں میں کاسٹ نہیں کرتے تھے۔ غضب خدا کا اپنے انتہائی بغض اور ہٹ دھرمی کی بناءپر ان لوگوں نے ایک اعلیٰ پائے کے با صلاحیت اداکار کو مایوس اور ناکامی کی طرف دھکیل دیا۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں حقیقت لکھنا چاہتا ہوں۔ آج ان حقیقتوں کو اپنے مضمون میں اجاگر کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ میڈم شمیم آراءماضی کی ایک خوبرو بہترین فنکارہ جس نے فلمی ہیروئن سے زیادہ بعد میں پروڈےوسر اور فلم ڈائریکٹر کے طور پر مثالی کامیابیاں حاصل کیں۔ آج کل صاحب فراش ہیں اور زندگی کی رہی سہی سانسیں لے رہے ہیں۔ انڈس وژن ٹی وی چینل پر ٹریبیوٹ ٹو وحید مراد میں اور جب کبھی بھی جب وہ تندرست تھیں ہر ٹی وی چینل اور ہر معروف فلمی اخبار میں لی جنڈری ہیرو وحید مراد کے حوالے سے ان سے وحید مراد کے متعلق تاثرات پوچھے گئے وہ ہمیشہ رنجیدہ اور دکھی دکھائی دیں۔ اور شدت جذبات سے زارو قطار رونے لگی تھیں۔ ان کی بطور پروڈیوسر پہلی فلم ”صاعقہ“ تھی جس کے ہیرو سپریم اسٹار محمد علی تھے۔ دوسری فلم پروڈیوس کی ”پھول“ کے نام سے جس کے ہیرو سپریم اسٹار ندیم اور ہدایتکار ایس سلیمان تھے۔ واضح رہے یہ اچھے کرداروں والی فلمیں تھیں۔ پھر انہوں نے پروڈےوسر اور ڈائریکٹر کے ظور پر پہلی فلم ”جیو اور جینے دو“ بنائی جس کے ہیرو وید مراد جبکہ کہانی کے ہیرو غلام محی الدین (گلو بھائی) تھے۔ ”جیو اور جینے دو“ ایک گزارا فلم تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک خوبصورت فلم ”پلے بوائے“ ڈائریکٹ کی اس فلم کے ہیرو ندیم اور ہیروئن بابرا شریف تھیں۔ ”پلے بوائے“ کا اسکرپٹ اور ندیم صاحب کا ادا کیا ہوا کردار بغور جائزہ دیکھیں ان سے زیادہ اس کردار کیلئے لیجنڈری ہیرو وحےد مراد سوٹ ایبل تھے۔ لیکن انہیں ہیر ونہیں لیاگیا۔ اس لئے کہ وہ دعویدار تھیں کہ وحید مراد انہیں بہت عزیز تھے اور انہوں نے میڈم شمیم آراءکو کزن سسٹر بنایا ہوا تھا۔ اس لئے بھرپو رتعلق داری نبھارہی تھیں کہاں ان کی فلموں میں وحید مراد کی گنجائش نکلی تھی۔ مدتوں یہ کہ ”مس ہانگ کانگ“ میں مےڈم جی آصف رضا میر، عثمان پیرزادہ میں سے کسی بھی ایک کردار میں وحید کو ایڈجسٹ کرسکتی تھیں مگر نہیں لیکن جہاں انہیں نظر آیا کہ اب میرے پاس فضول اور واجبی سا کردار وحید مراد کیلئے ہے میرے اپنے انہیں اپنی فلم میں شامل کرلیتی ہیں۔ رشتے نبھانا تو کوئی فلمی لوگوں سے سیکھے۔ سپریم اسٹار محمد علی ایک مہربان شخصیت تھے۔ ہدایتکار شباب کیرانوی سے ان کے بڑے گہرے مراسم تھے اور ان کی ہر بات خوش اسلوبی سے مان لیتے تھے۔ انہوں نے فلم ”دامن اور چنگاری“ کی پلاننگ کی اور لی جنڈری ہیر وحید مراد کو ذہن میں رکھتے ہوئے فلم کا اسکرپٹ تیار کیا تھا اور اپنی اس فلم سے وہ ایک عرصہ کے بعد وحید مراد اور زیبا کی صورت میں فلم بین کو سرپرائز دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں محمد علی اور زیبا سے الگ الگ بات کی ۔ زیبا بیگم راضی تھیں لیکن محمد علی صاحب نے انکار کردیا کہ میں تو اس فلم میں اگر وحید مراد ہوگا تو کام نہیں کرونگا اور زیبا کا تو کام کرنا ہی نا ممکن ہے اور ہاں اگر یہ فل ہم دونوں میاں بیوی کے بغیر نہیں بنانا چاہتے تو وحید مراد کو تبدیل کرکے آپ اداکار ندیم کو ہیرو لے لیں اور اس طرح ”دامن اور چنگاری“ میں محمد علی صاحب کی مداخلت کی وجہ سے وحید مراد کو فلم کی کاسٹ سے الگ کردیاگیا اگریہ فلم وحید مراد کو لے کر بنائی جاتی تو ایک عرصہ تک لوگ اس فلم کو کبھی فراموش نہ کرسکتے فلم کا اسکرپٹ اس قدر مضبوط اور ایم اشرف کا میوزک اس قدر شاندار تھا کہ وحید مراد کی غیر موجودگی کے باوجود فلم سپرہٹ ہوگئی تھی۔ لیکن اگر وحےد مراد ہوتے تو لوگ اسے محض فلم سے تعبیر نہ دیتے ایک حقیقی کہانی سمجھتے جو ایک عرصہ تک فلم بینوں کو جکڑے رکھتی جیسا کہ انڈےن فلم ڈائریکٹر یش چوپڑا کی فلم ”سلسلہ“ اپنے حقیقی کرداروں امیتابھ بچن، جیا بہادری اور ریکھا کی وجہ سے ایک یادگار ترین فلم کا درجہ رکھتی ہے۔ ہدایتکار قمر زیدی کی فلم ”پالکی“ میں بھی وحےد مراد (مرحوم) کو زیبا بیگم کا ہیرو بننے سے محروم کرنے والے بھی محمد علی صاحب تھے۔ حالانکہ ان کا دعویٰ بھی تما مزندگی یہ تھا کہ وحےد مراد (مرحوم) کو چھوٹے بھائی کا درجہ دیتے تھے۔ روبن گھوش ایک یونیک فلم موسیقار اور معروف فلمی ہیروئن شبنم کے شوہر تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ ان کی سونے کی چڑیا یعنی بیوی وحید مراد (مرحوم) پر ڈورے ڈالتی تھی۔ انہوں نے اس فلمی جوڑی کی ایک عرصہ مخالفت کی الزام پہ تھا کہ وحےد مراد اپنی فلمی ہیروئن کے ساتھ لو سین کرتے ہوئے دنیا جہان سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ ارے یار ظالم سماج یہ کیا منافقت ہے کہ جیسا گانا دادا ”نذر الاسلام“ کی فلم ”شرافت“ میں شبنم اور ندیم پر شوٹ ہوا ہے۔ ”تیرے بھیگے بدن کی خوشبو“ ایسا کوئی گانا شبنم نے وحید مراد تو کیا کسی اور فلم ہیرو کے ساتھ بھی نہیں فلمایا ایسی ڈبل پالیسی صرف وحید مراد (مرحوم) سے آپ کے حسد کا پیش خیمہ تھی۔ بلکہ تمہیں تو وحید مراد کا احسان مند ہونا چاہئے تھا جو تم دونوں میاں بیوی کو مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) سے لایا اور مغربی پاکستان کے معروف فلمی لوگوں کی صف میں لا کھڑا کیا اور کتنے ہی لوگ ہیں۔ جنہیں وحید مراد مرحوم نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا اس بے غرض انسان نے کتنے ہی فلمی لوگوں کو بنایا میں اسے یہاں سپر اسٹار میکر بھی لکھ سکتا ہوں۔ پرویز ملک، سہیل رعنا، مسرور انور، ایم عقیل خان، اقبال اختر، جان محمد، بدر منیر، نعمت سرحدی، فلم عکاس تحسین خان، زیبا بیگم، شبنم، روزینہ وغیرہ وہ فلمی معروف لوگ تھے جنہیں وحید مراد مرحوم نے قدم قدم پر سہارا دیا۔ جنہوں نے بعد میں اپنی اپنی فیلڈ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ ان میں موسیقار سہیل رعنا اس فلم معتبر ہوئے کہ سرکاری سطح پر ہر حکومتی ایونٹ میں موسیقی کیلئے انہیں کی خدمات حاصل کی گئیں لیکن یہ اعزاز کیا کم ہے کہ وحید مراد کا لایا بندہ حکومتی ایوانوں میں پہنچ گیا۔ …. وحےد مراد کس قدر خوش قسمت ہے کہ انڈین فلموں کا سدا بہار سپر اسٹار امیتابھ بچن اپنے ہر دل عزیز معروف شو ”کون بنے گا کروڑ پتی“ 2014ء میں فخر سے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کس خوبصورتی سے کہتے ہیں کہ میں نے بھی بے پناہ کام کیا۔ عزت، شہرت، دولت کے ساتھ ساتھ لوگ مجھ سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں لیکن میں اس قدر خوش قسمت نہیں جس قدر پاکستان کے ہر دل عزیز سپر اسٹار وحید مراد تھے کہ ان کی تصاویر پر خواتین نے اپنے تکیوں اور یونیورسٹی، کالج و اسکول کی کتابوں میں رکھیں یہ ایسی مقبولیت ہے جو دنیا کے کسی فلمی ایکٹر کے حصہ میں نہ آسکی حسن طارق، پرویز ملک، نذر اسلام، ایس سلیمان اور ریاض شاہد جیسے ہدایتکار پاکستان فلم انڈسٹری میں ہمیشہ ریڑھ کی ہڈی کی حےثےت رکھتے تھے۔ ان میں حسن طارق کی فلموں میں پہلے مستقل ہیرو وحید مراد ہوا کرتے تھے لیکن پھر ان کی فلموں کے اصل ہیرو شاہد ہی ہوتے تھے ان کی ایک فلم ”شمع اور پروانہ“ میں ان سے ایک ناقابل معافی غلطی ہوگئی کہ انہوں نے اپنی فلم میں اداکار ندیم کو رانی جیسی عظےم فنکارہ کا ہیر وبناکر پیش کیا فلم کی ہر چیز قابل تعریف تھی میوزک تو اس قدر ہٹ ثابت ہوا کہ ہر گانا سپرہٹ سونگ ثابت ہوا تھا۔ لیکن فلم بد ترین ناکام ثابت ہوئی۔ اگر اس فلم کے ہیرو وحید مراد ہوتے تو نتائج مختلف ہوتے کیونکہ وہ کردار وحید مراد ہی کا تھا۔ جس کے بعد میں ہدایتکار حسن طارق نے کئی بار اعتراف بھی کیا۔ ہدایتکار پرویز ملک کی آمد اور ایک سپر اسٹار ہدایتکار کا ٹائٹل ان کے پاس وحید مراد مرحوم کے مرہون منت تھا۔ انہیں اصل پہچان اور کامیابی وحید مراد مرحوم کی ذاتی فلموں سے نصیب ہوئی بعد میں یہ احسان فراموش ہوگئے اور وحےد مراد کے دوست کی بجائے دشمن کے طور پر بے حد شرت حاصل کی۔ ا کے بعد کی فلموں کے مستقل ہیر وندیم تھے۔ نذر اسلام، ایس سلیمان جیسے قابل فلم ڈائریکٹر نے ایک دو فلموں میں منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کی خاطر سپر اسٹار وحےد مراد کے ساتھ کام کیا تو لیکن وہ کام بھی قابل تعریف نہیں کہا جاسکتا۔ جبکہ ہدایتکار ریاض شاہد جیسے ہدایتکار کے ساتھ وحید مراد کو کام کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا کہنے کا مقصد کہ پاکستان کے 5 بڑے فلم ڈائریکٹر جن کی ڈائریکشن فلم کی کامیابی کی ضامن سمجھی جاتی تھی اور سپریم اسٹار محمد علی، لکی اسٹار ندیم اور وراسٹائل ایکٹر شاہد کی بے مثال کامیابیوں کے پیچھے اصل محنت اور ریاضت ان کے فلمی ڈائریکٹرز کی تھی جن کی صلاحیتوں کے طفیل اہمیت کے حامل مانے گئے۔ ان میں ایک بھی بڑا فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر یہ دعویٰ نہ کرسکے گا کہ لیجنڈری ہیرو وحےد مراد کی لا زوال شہرت و مقبولیت اور کامیابی کے پیچھے ان کی محنت و قابلیت کا ہاتھ ہے ”ہاں“ مگر اس بات کا تو ایک زمانہ اعتراف کریگا کہ ہدایتکار پرویز ملک کی کامیابیوں اور نام و مقام کے پیچھے وحید مراد کے احسانات اور مہربانیوں کا ہاتھ رہا ہے۔ شباب پروڈکشن پاکستان فلم انڈسٹری کا ایک مستند ادارہ تھا۔ شباب کیرانوی، نذر شباب اور ظفر شباب تینوں باپ بیٹوں نے دھڑا دھڑ سپرہٹ فلمیں بنائی تھیں۔ شباب کیرانوی مرحوم نے فلم ”انسانیت“ میں وحید مراد سے بے حد اعلیٰ درجے کا کردار کروایا تھا۔ لیکن ان کی بعد کی فلموں میں وحید مراد کے فلمی کردار بھرتی کے تھے۔ ان کے بیٹوں کی فلموں میں بھی وحید مراد کے کردار نمایاں اور بھرپور قسم کے نہیں تھے۔ یہ تینوں باپ بیٹے محض اپنی فلموں کی مارکیٹ ویلیو کیلئے وحید مراد کا نام استعمال کرتے رہے۔ بلکہ یوں کہہ دوں کہ جس شدت سے ان کی فلموں میں ڈی گریڈ اور فضول کردار وحید مراد کو دئےے ویسی مثال شاید دیگرفلمی ڈائریکٹرز کے مقابلے میں ان کی زیادہ تھی۔ اس سلسلے کی پہلی فلم ”تم ہی ہو محبوب میرے“ تھی جو وحید مراد مرحوم کی پہلی فلم کلر فلم تھی لیکن اس میں کوئی چیز قابل تعریف نہیں تھی سوائے وحید مراد کی موجودگی اور فلم کی موسیقی کے وہ دور دراصل وحید مراد کے عروج کا تھا۔ ورنہ اس فلم نے تو کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ ان تینوں باپ بیٹوں کی ان فلموں پر نظر ڈالتے ہیں جن میں ہیرو وحید مراد تھے ”تم ہی ہو محبوب میرے، سہیلی، شمع، شبانہ، نذرانہ، ترانہ، بہن بھائی، آواز“ وغیرہ ”آواز“ ظفر شباب کی فلم ”سنگدل“ کا ری میک تھی۔ جس میں وحید مراد کا کردار قدرے بہتر تھا اور یہ کردار پہلے ندیم ادا کرچکے تھے۔ یہاں ایک بات اور لکھتا چلوں کہ وحےد مراد کے فلمی کردار کو پہلا فلمی تھیٹر فلم ”شمع“ میں محمد علی صاحب سے کروایاگیا تھا۔ پھر تو ان کی تقریباً ہر فلم میں وحید مراد کے فلمی کردار کو تھپڑ ضرور پڑتا تھا۔ یہ بھی ان کی خاص کوالٹی تھی افسوس کی حد تو یہ ہے کہ فلم ”وقت“ اور ”ترانہ“ میں بالکل نوارد جونیئر لڑکوں (عارف، امجد) سے وحےد مراد مرحوم کے فلمی کرداروں کی تذلیل کروتے رہے کیا یوں نہیں لگتا کہ انہوں نے بھی وحید مراد کو کسی سازش اور پلاننگ کے تحت اپنی فلموں میں شامل کیا ہو۔ کیونکہ جب یہ محمد علی (مرحوم) کو فلموں میں کاسٹ کرتے ہیں تو”انسان اور آدمی، آئینہ صورت، انصاف اور قانون، دامن اور چنگاری، بھروسہ“ اور ”بوبی“ جیسی فلمیں وجود میں آتی ہیں اور لکی اسٹار ندیم کو فلموں میں کاسٹ کرتے ہیں تو خوبصورت اور لا جواب جیسی فلمیں منظر عام پر آتی ہیں ہے نا اچنبے کی بات۔
اب آتے ہیں ان فلموں کی طرف جن فلموں میں وحید مراد مرحوم کاسٹ ہوئے تھے یا ان سے کاسٹنگ کی بات ہوچکی تھی۔ پہلی فلم ہدایتکار ایس ٹی زیدی کی ”سلام محبت“ تھی اس کے بعد ”تیرے میرے سپنے، دامن اور چنگاری“ وغیرہ ان میں فلم ”سلام محبت“ آدھی سے زیادہ بن چکی تھی لیکن ان فلموں کے ہیرو محمد علی ہوگئے۔ تفصیل کیلئے کئی صفحات درکار ہیں پھر سہی۔ ایک فلم ”میرے ہم سفر“ تو خود وحےد مراد نے محمد علی (مرحوم) کو دلوائی۔ لکی اسٹار ندیم کے حصہ میں غالباً وحید مراد مرحوم کی آدھے سے زیادہ مکمل پہلی فلم ”چراغ کہاں روشنی کہاں“ پھر ”دل لگی، پہلی نظر، دامن اور چنگاری، پالکی، پاکیزہ“ وغیرہ یہ سچ ہے کہ یہ کاروباری سلسلے ہوتے ہیں لیکن یہ وحید مراد مرحوم کے بچوں کا رزق تھا۔ اخلاقی طور پر بھی انکار کیا جاسکتا تھا لیکن نہیں۔ مگر سچ کے سپنے کو چاک کرتے ہوئے ذرا اتنا ہی بتا دیں مورخ کہ کیا کبھی وحید مراد (مرحوم) نے بھی ان سپر اسٹار اپنے فلمی حریف دوستوں سے کوئی فلم چھینی ہے۔ انہوں نے وہ فلم سائن کرلی یا پھر کبھی نہیں کبھی نہیں اسے تو ہدایتکار جان محمد کی فلم ”پرکھ“ کرنے کا افسوس تھا۔ فلم سپرہٹ ہونے کے باوجود انہوں نے ہدایتکار جان محمد کی اگلی فلم کرنے سے منع کردیا تھا کہ آپ کا اور میرے اداکار ساتھی شاہد کا دوستانہ ہے جو کسی غلط فہمی اور کاروباری رکاوٹ سے ٹوٹنا نہیں چاہئے اور مشورہ دیا کہ آپ آئندہ انہی کے ساتھ کا کریں۔ ایسی فیور کبھی کسی اور فنکار نے بھی کی ہے کسی کی۔ 1960ءسے 1970ءتک وحےد مراد کا ستارہ عروج پر تھا کوئی بھی پاکستان فلمی ایکٹر ان کے سامنے ٹکنے نہیں پارہا تھا۔ اسے اس کی پوزیشن سے ہٹانے کیلئے ایک فلمی سیاسی چال رچی گئی۔ 1967ءمیں فلم اسٹار زیبا بیگم اور 1970ءکے دور میں فلم اسٹار شبنم جیسی ہیروئنوں کو ان سے دور کیاگیا۔ 1970ءکی فلم ”بازی“ جس کے ہدایتکار اقبال شہزاد تھے ایک خوبصورت فلم تھی۔ محمد علی، ندیم، نشو جس کی یہ پہلی فلم تھی اس کے اہم ستارے تھے۔ اس فلم کی کامیابی وحید مراد کو جھٹکا دینے کی کوشش تھی لیکن ان کی مقبولیت پر اثر انداز نہ ہوسکی۔
پھر ایک پلان کے تحت نذر شباب نے فلم ”شمع“ شروع کی جس می نمایاں کردار ندیم کا تھا یہ فلم اصل میں وحید مراد سے اس کا مقام چھیننے کے تحت ہی بنائی گئی تھی جیسا کہ ایک زمانے میں ”انوکی پہلوان“ اور باکسر محمد علی کے درمیان مقابلہ کروادیا تھا۔ کہاں انوکی پہلوان اور کہاں باکسر محمد علی کلے ان میں مقابلے کا کوئی تک نہیں تھا۔ ایک دنیا کا مانا جانا پہلوان جبکہ دوسرا باکسر لیکن یہ مقابلہ تو دنیا کو متوجہ کرنے کیلئے کروایاگیا تھا اور انتظایہ اس میں انتہائی کامیاب ہوگئی تھی۔ باکسر محمد علی سے کئی گنا طاقتور انوکی پہلوان اپنے حریف سے اس لئے ہار گیا تھا کہ اس نے پہلوان کو پنڈال کے رگ میں بھگا بھگا اور تھکا تھکا کر زیر کرلیا تھا اور مقابلہ جیت گیا فلم ”شمع“ کی مثال بھی ویسی تھی جب محسوس کیاگیا کہ وحید مراد کسی طرح قابو نہیں آنے پارہے تو انہیں بھی تھکا تھکا کے مقبولیت سے گرانے کا اہتمام کیاگیا اور یہ لوگ بھی کامیاب رہے۔ سپریم اسٹار محمد علی صاحب نے اس میں اہم کردار کیا تھا اور یہ قربانی بھی دی تھی کہ فلم کے وائنڈ اپ پر جو ڈرامہ انہوں نے بولنا تھا اسے تھوڑا سا تبدیل کرکے لکی اسٹار ندیم سے بلوایا گیا ورنہ یہ کبھی ہوا ہے کہ محمد علی صاحب فلم میں ہوں تمام فلم یں ان سے کام نہ لیا جائے اور وائنڈ اپ بھی وہ کسی اور کو تھام دیں۔ شمع میں پہلی بار وحید مراد، محمد علی، ندیم، بابرا شریف، زیبا اور دیبا بیگم جیسے بڑے ستاروں کو کاسٹ کیاگیا تھا۔ سب سے بڑھ کر وحید مراد، محمد علی اور ندیم جیسے تین سپر اسٹارز کو پہلی بار کسی ایک فلم میں یکجا کیا گیا تھا۔ اور فلم بینوں کیلئے یہ خاصے کی چیز تھی۔ فلم ریلیز ہوئی تو ایک زمانہ سینماﺅں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ فلم شمع نے سپرہٹ بزنس کے ساتھ گولڈن جوبلی منائی تھی۔ لیکن فلم میں وحید مراد کو روایتی ہیرو دیکھنے کے بعد ان کے مداحوں کو بے حد مایوسی ہوئی تھی۔ فلم شمع کا وہ سین بغور دیکھیں جب لکی اسٹار ندیم اپنی بیوی بابرا شریف کے کمرے میں گھس آتے ہیں اور اچانک وہاں وحید مراد بھی آجاتے ہیں وہاں آپ لکی اسٹار ندیم کو بغور دیکھ لیں انتہائی نروس اور اڑے ہوئے چہرے سے آپ ان کی اور وحید مراد کی اداکاری کا موازنہ کرسکتے ہیں لیکن یہ تو انو کی پہلوان اور باکسر محمد علی کلے کے بے تکے مقابلے جیسا مقابلہ تھا۔ وحےد مراد ایک بڑا فنکار ہی نہیں بلکہ ایک حیرت انگیز شخص تھا۔ جان بوجھ کر ان کی سازشوں کو پوار ہونے دیتا تھا۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ وہ کیا بے حد بے وقوف تھا یا انتہائی سادہ طبیعت کا مالک۔ بہر حال اس فلم کے بعد وہ سنبھل نہیں سکے اور انہوں نے کچھ غلط پلاننگ سے اپنے فنی کیریئر کو داﺅ پر لگادیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ زوال کی طرف شدت سے گامزن ہوتے چلے گئے۔
ہمارے عظےم دوست اور بھائی معروف شاعر اور کہانی نویس ریاض الرحمن ساغر کے بقول ہدایتکار شباب کیرانوی نے اپنی شہرت یافتہ فلم ”میرا نام ہے محبت“ کے لئے سب سے پہلے بابرا شریف کے ساتھ ہیرو کے طور پر وحید مراد سے بات کرلی تھی لیکن پھر یہ سوچ کر اپنا ارادہ بدل لیا کہ ایک جونیئر اور نئی لڑکی ایک منجھے ہوئے سپر اسٹار کے سامنے اداکاری میں نروس نہ ہوجائے تو انہوں نے اس وقت کے ٹی وی اداکار غلام محی الدین کو اس کردار میں کاسٹ کرلیا۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں ہم سے یہ بھی کہا تھا کہ فلم ”شبانہ“ کے اداکار شاہد والے کردار کی پہلی چوائس وحید مراد تھے۔ میں نے نذر شباب کو مشورہ دیا تھا انہوں نے ہاں بھی ظاہر کردی تھی لیکن پھر اداکار شاہد سے دوستی نبھانے کی خاطر انہوں نے یہ کردار شاہد سے کروایا۔ ریاض الرحمن ساغر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اگر شبانہ میں وحید مراد یہ کردار کرلیتے تو ہوسکتا ہے ان کے فنی سفر کی عمر بڑھ جاتی اور وہ جلدی ہم سے دور نہ ہوتے۔
کہنہ مشق فلم ڈائریکٹر ایم اکرم سے ایک انٹرویو کے دوران جب ہم نے ان سے پوچھا کے لی جنڈری ہیرو وحید مراد کیساتھ آپ کی نظر میں کون سی فلمی ہیروئن سب سے زیادہ اچھی لگتی تھی تو انہوں نے بے حد خوبصورتی سے جواب دیتی ہوئے کہا تھا کہ برصغیر پاک و ہند میں صرف دو ایسے فلمی ایکٹر تھے جو ہر فلمی ہیروئن کے ساتھ خوب جچتے تھے ایک محترم سلطان راہی اور دوسرے وحید مراد ان کے فلم میں ہوتے ہوئے کتنی فلمی ہیروئن کی ضرورت نہیں رہتی تھی کیونکہ فلم بین صرف اور صرف سلطان راہی اور وحید مراد کو دیکھنے کیلئے سینماﺅں کا رخ کرتے تھے۔ انہیں ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی کہ ان کی فلمی ہیروئن کون سی ہے۔ اداکار ناظم مرحوم کوئی معروف فلمی اداکار نہیں تھے لیکن جب وہ بھی فلم پروڈیوسر بنے اور انہوں نے ہدایتکار اقبال اختر سے فلم ”شرمیلی“ بنوائی تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے فیورٹ اداکار وحید مراد کو فلم آفر کی تھی لیکن وحےد مراد مرحوم نے فلم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ناظم سے کہا تھا کہ آج کل میری فلمیں ڈسٹری بیوٹر خریدتا نہیں ہے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری فلم بن جائی اور مارکیٹ میں بک جائے تو میرا تمہیں مشورہ ہے تم ندیم کو میری جگہ سائن کرلو۔ اداکار ناظم نے بہت کہا میں تو یہ ہی آپ کیلئے بنانا چاہتا ہوں۔ خےر وحید مراد صاحب کے بار بار منع کرنے پر انہوں نے ندیم کو فلم میں سائن کرلیا اور پہلے کیونکہ وہ خود بھی وحید مراد کیساتھ کام کرنا چاہتے تھے لیکن وحید صاحب کے منع کرنے پر انہوں نے اپنے والے کردار میں فلم اسٹار غلام محی الدین کو سائن کرلیا۔ یہ سطریں بھی لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ وحید مراد اپنے دوستوں سے دوستی صرف اپنے مالی فائدے کیلئے نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہتی تھی کہ میری وجہ سے کسی کا نقصان نہ ہو۔ ورنہ ہمارے ہاں کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے تھوڑے سے فائدے کیلئے کسی کی دل آزاری اور احساسات کا خون کرنے سے بھی بعض نہیں آتے۔ وحید مراد کے متعلق یہ بات انہوں نے 2007ءوحید مراد فلم فیسٹیول نسرین سینما کورنگی کراچی کے سینما میں ایک بھرپور عوام کے پنڈال میں سب کے سامنے کہتی تھی کہ وحےد مراد کیخلاف ایک سازش کے تحت فلم نگری اور اس کے باہر پرنٹ میڈےا کے ذریعے یہ بات بھی مشہور کی گئی تھی کہ وحےد مراد نہایت مغرور طبیعت کے مالک ہیں حالانکہ تمام زندگی انہوں نے کبھی اپنے فلم ڈائریکٹرز کو شکایت کا موقع نہیں دیا تھا وقت پر فلم کے سیٹ پر پہنچ جانا اور فلم کی تمام ٹیم سے مکمل تعاون کرنا اس کی طبیعت میں شامل تھا۔ ہر خاص و عام سے اخلاق سے پیش آنا تو جیسے اس کے ضمیر کے خمیر میں شامل تھا۔ پھر بھی اسی کے متعلق مغروریت کا لیبل ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔
سپریم اسٹار محمد علی اور لکی اسٹار ندیم تو رہے ایک سائیڈ پر اداکار شاہد کے متعلق تو بہت سے قصے مشہور تھے کہ وہ انتہائی لا پرواہ طبیعت کے مالک ہیں اور وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اپنے فلم ڈائریکٹر اور ساتھی فنکاروں سے لاپرواہی برتے تھے۔ اس کے باوجود ان کے متعلق نہ لوگوں کو شکایت تھی اور نہ ہی انہیں کبھی مغرور کیا گیا۔ لیکن وحےد مراد کے متعلق یہ بات بہت مشہور کردی گئی تھی یہاں تک کہ ان کے ایک سینئر مداح اور آل پاکستان وحید مراد لورز کلب کے ہمارے ساتھی سید شاہد رضا 1978ءمیں فلم ضمیر کے سیٹ پر اپنے پسندیدہ فلمی ہیر وحید مراد کو صرف دور سے ہی دیکھتے رہے اور قریب اس لئے نہ کئے کہ ان کے دل میں بھی یہ خوف تھا کہ شاید ہوسکتا ہے۔ وحید مراد انہیں ڈانٹ نہ دیں حالانکہ اس کے بعد شاہد رضا کئی بار وحید مراد سے ملے اور ہر بار انہیں حیرت ہوتی کہ آخر کیونکہ انہیں کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تو انتہائی سادہ طبیعت کے با اخلاق آدمی تھے۔ پاکستان فلم انڈسٹری میں سپریم اسٹار محمد علی، لکی اسٹار ندیم اور وراسٹائل خوبرو ایکٹر شاہد بلاشبہ اچھے فنکار تھے اور پانے کا کے حوالے سے ہمیں بھی ہمیشہ بہت اچھے لگے لیکن حقیقتیں نہیں جھٹلائی جاسکتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ لکی اسٹار ندیم اپنے مخصوص بڑے فلمی ڈائریکٹرز اور دو فلمی ہیروئنوں، شبنم اور بابرہ کے علاوہ کچھ بھی نہ تھے مثال کے طور پر انہیں جب کبھی بھی قد آور فنکارہ رانی بیگم کے ساتھ ہیرو بنا کر پیش کیاگیا وہ فلم ہمیشہ ناکام ہوئی۔ مطلب سیدھا اور صاف ہی کہ لکی اسٹار ندیم اپنے مضبوط فلمی ڈائریکٹرز اور فلمی جوڑوں کے ملے جلے کام کی وجہ سے سپر اسٹار کے مقام تک پہنچے تھے۔ جبکہ دوسری طرف ان کے فلمی حریف اور عام زندگی کے بہترین دوست وحید مراد کے تعاون کی بدولت کئی لوگ اپنی فلمی منزل کو پانے میں کامیاب ہوئے بلکہ یوں کہہ دیا جائے کہ وحےد مراد کو کسی نے نہیں بنایا۔ البتہ اس نے کئی لوگوں کو بنایا۔ اپنا سرمایہ فراہم کرکے انہوں نے پاکستان فلمی تاریخ کی پہلی پشتو فلم ”یوسف خان شیر بانو“ شروع کروائی جس کے پروڈےوسر نذیر حسن تھے۔ اپنے ادارے کے ملازم بدر منیر کی خواہش کو عملی جامہ دیتے ہوئے اسے پشتو سپر اسٹار بننے میں بھرپو رمدد دی۔ نعمت سرحدی، تحسین خان، جان محمد، اقبال اختر، ایم عقیل خان، پرویز ملک، سہیل رعنا، مسرور انور، زیبا بیم، روزینہ وغیرہ یہ سب کسی نہ کسی طور پر وحید مراد مرحوم کے ادارے سے وابستہ لوگ تھے۔ جو اپنی اپنی فیلڈ کے سپراسٹار ثابت ہوئے۔ ہدایتکار جان محمد کو پہلی سپرہٹ کامیابی بھی وحید مراد مرحوم کی وجہ سے مل سکی۔ جو ان کی فلم پرکھ کے ہیرو تھے حالانکہ اس فلم سے پہلے اور بعد میں ایک عرصہ تک شاہد ہی ان کی فلموں کے مستقل ہیرو تھے۔ اسی طرح 1974ءسے پہلے خلیفہ برادران کی کوئی فلمی اہمیت اور حےثےت نہ تھی لیکن جب وحےد مراد مرحوم نے ان کی فلم دولت اور دنیا میں کام کیا تو ان کے بھی دن پھر گئے بعد میں انہوں نے اپنا ادارہ بنایا اور کئی کامیاب فلیں بنائیں۔ آپ پاکستان فلمی صنعت کے فلمی لوگوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو کئی نامور ایسے ملیںگے جو خود کچھ نہ تھے ان کے پیچھے کسی نہ کسی شخصیت کا ہاتھ رہا ہے کسی نہ کسی نے انہیں ضرور بنایا ہے اور وحید مراد نے بھی کئی لوگوں کو بتایا جس کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمیں فخر ہے کہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے وحید مراد کو بنانے والا کوئی انسان نہیں بلکہ رب کائنات ہی وہ واحد ہستی ہے جس نے اسے پیدا کیا اور اسے فلمی نگر میں لاکر ہمیشہ کیلئے انمول اور امر کردیا۔
وحید مراد، محمد علی، ندیم، شاہد 1970ءسے 1980ءتک انتہائی عروج پر تھے اور یہی فلمی پریڈ حقیقت میں پاک فلمی صنعت کے انتہائی عروج کا تھا۔ 1970ءسے 1980ءتک جن بڑے فلم ڈائریکٹر کا طوطی بولتا تھا۔ ان میں پرویز ملک، نذر الاسلام، ایس سلیمان اور بعد میں ان میں محمد جاوید فاضل بھی شامل ہوگئے تھے اور ان کے علاوہ شباب پکچرز کے شباب کیرانوی، ظفر شباب، نذر شباب شامل تھے۔ ان سب بڑے اور منجھے ہوئے ڈائریکٹرز اور پروڈےوسرز کی پہلی ترجیح محمد علی، ندیم اور شاہد تھے جبکہ اس دور میں وحید مراد سے اعلیٰ سے اعلیٰ اور معیاری کام لے سکتے تھے لیکن نہیں۔
…. نذر الاسلام، پرویز ملک ایس سلیمان نے تو جیسے قسم کھا رکھی تھی کہ کچھ بھی ہوجائے وحےد مراد کو ہرگز اپنی فلموں میں ہیرو نہیں لینا۔ اس دور میں واحد وحید مراد ایسا ایکٹر تھا جو ماٹھے سے ماٹھے فلم ڈائریکٹرز اور ٹےم کے ساتھ ہٹ پر ہٹ فلمیں دیتا رہا اور فلمی سیاست و منافقت کا شکار ہونے کے باوجود پاکستان فلمی صنعت کا تیسرا اہم ستون بنا رہا۔ اداکار شاہد جیسا وراسٹائل فلمی ایکٹر لاکھ محنت اور کوشش کے باوجود بھی چوتھا ستون نہ بن سکا۔ آپ 1970ءاور 1980ءکا دور بغور دیکھیں آپ کو محمد علی، ندیم، وحید مراد مرحوم کے علاوہ پاکستان فلم انڈسٹری میں کچھ دکھائی نہ دیگا۔ اس شور میں اداکار ندیم سب سے مہنگے بکنے والے فلمی ہیرو تھے میں تو انہیں ہمیشہ سے قسمت کا دھنی فلمی ہیر وسمجھتا ہوں اور اپنے فلمی کیریئر کی پلاننگ اور کرداروں کے انتخاب میں جتنی سوجھ بوجھ انہیں تھی کسی اور فلمی ہیروز کو نہ تھی اس قدر خوش قسمت تھے ان کے پاس اپنا نہ اداکاری کا انداز تھا نہ تجربہ لیکن یہ اپنے بڑے ڈائریکٹرز، پروڈےوسرز اور اپنی دو بڑی فلمی ہیروئنوں شبنم، بابرا شریف کے سہارے ایک عرصہ تک سپر اسٹار کی حےثےت سے پاکستان کے ٹاپ اسٹار ہیرو رہے۔ کہا جاتا ہے سب سے بڑی پاکستان کی ہٹ فلموں کے ہیرو ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی سچ ہے کہ یہ اپنے بڑے فلمی ڈائریکٹرز اور دو بڑی پروفیشنل فلمی ہیروئنوں کے سہارے کے بغیر کچھ بھی نہ تھے۔ مثال کے طور پر صبیحہ خانم کے بعد اداکارہ رانی بیگم (مرحوم) کو ایک بہترین ڈرامہ بولنے والی بڑی اداکارہ مانتا ہوں۔ اداکار ندیم کو جب کبھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا وہ ہمیشہ ان کے سامنے نروس اور بونے بونے محسوس ہوئے۔ اسی طرح اداکارہ آسیہ مرحوم کے ساتھ بھی ان کی ڈائریکٹ ہیرو کے طور پر کوئی ہٹ فلم نہیں جبکہ دوسری طرف وحید مراد نے عالیہ، نجمہ، روزینہ آسیہ جیسی ہیروئنوں کے ساتھ بھی ہٹ فلمیں دیکر ہمیشہ ثابت کیا کہ وہ کسی بھی بڑے فلم ڈائریکٹر پروڈیوسر یا کسی بڑی ہیروئن کے سہارے نہیں چلتے رہے بلکہ ماٹھی سے ماٹھی فلمی ٹیم کو سہارا دیکر آگے بڑھتے رہے ہیں۔ یہی حقیقت ہے ورنہ ان جیسا پورے ورلڈ سے کوئی ایک فلمی ایکٹر یا کوئی مثال لے آئیں کہ زندہ رہے تو مثال نہ تھی۔ مگر گئے تو 31 سال کے بعد بھی بے مثل ، بے نظیر ہوگئے ہیں ان کی لا زوال مقبولیت اور شہرت کا سورج آج بھی اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے کیونکہ وحید مراد ایک دور کا نہیں کئی صدیوں کا ہیرو تھا اور ہمیشہ کئی صدیوں کا پسندیدہ فلمی ہیرو رہے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس