Thursday, September 19, 2024
پہلا صفحہمضامینایک بھولا بسرا کامیاب گلوکار فضل حسین

ایک بھولا بسرا کامیاب گلوکار فضل حسین

آج سے تین چار دہائی قبل تک جب لوگ سنیما ہال سے باہر نکلتے تھے تو اکثر کے ہونٹوں پر فلم کا کوئی نہ کوئی گیت ہوتا تھااور وہ گیت اس فلم کی پہچان بن جاتا تھا۔ جو دوسروں کو بھی سنیما ہالز کی طرف کھینچ لاتا تھا۔
جب لتا منگیشکر کا ’ساری ساری رات تیری یاد ستائے‘ہوا کے دوش پر تیرتا تھا تو اقبال بانو کی ’پریشاں رات طاری ہے‘ بھی اپنے سریلے پن کا احساس دلاتی تھی۔ اس دور کے میوزک ڈائریکٹرز اور سنگرز ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششوں میںایک سے بڑھ کر ایک دھنیں پیش کررہے تھے۔ ماسٹر غلام حیدر، فیروز نظامی،بابا غلام احمد چشتی، ماسٹرعنایت حسین اوررفیق غزنوی وغیرہ کی موسیقی میں ملکہ ترنم نورجہاں، اقبال بانو، ناہید نیازی،مہدی حسن، سلیم رضا، عنایت حسین بھٹی اور منیر حسین وغیرہ نے ماحول پر سحر طاری کررکھا تھا۔

آج ہم آپ کے سامنے ایک ایسے گلوکار کا تذکرہ چھیڑنے لگے ہیں۔ جس کا کیریئر مختصر لیکن پراثر ہے۔
یہ فنکار یکم اگست 1935 کو لاہور میں پیدا ہونے والا فضل حسین تھا جو کسی بھی دھن کو امر بنانے میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔
فضل حسین ریڈیو کی دنیا کا فنکار تھا جس نے 1953 سے 1971 کے دوران اردو اور پنجابی فلمی گانے بھی ریکارڈ کرائے۔
سن 1953 میں سعادت حسن منٹو کی کہانی کو ڈائریکٹر مرتضیٰ جیلانی نے فلم ’آغوش‘ کے قالب میںڈھالا تھا جس کے اداکاروں میں صبیحہ خانم، سنتوش کمار، گلشن آرا، ایم اسمعٰیل اور شاہنواز وغیرہ شامل تھے۔یہ ایک سوشل ڈرامائی فلم تھی۔ ماسٹر عنایت حسین نے قتیل شفائی ، سیف الدین سیف اور تنویر نقوی کے کلام کواپنی دلکش موسیقی سے سنوارا تھا۔
سیف صاحب کی سنجیدہ شاعری پرفضل حسین کے سولوز ’کیاخبر تھی کہ دل ٹوٹ جاتا ہے‘ اور ’دنیا کا بھروسہ کیا سو رنگ بدلتی ہے‘ ماحول کو غمگین کردیتے ہیں۔

فضل حسین نے اپنے کیریئر میں 20 اردو فلموں میں 37 اور 17 پنجابی فلموں میں 64 کے قریب فلمی گانے ریکارڈ کرائے لیکن ان کا زیادہ وقت ریڈیو پاکستان کے ساتھ گزرا۔

فضل حسین نے تنویر نقوی کے دوگانے کوسلمٰی بیگم کے ساتھ ’کوئی دیکھے کیا کیا تیرے نینوں نے‘ سے رومانوی فضا طاری کردی تھی تو منورسلطانہ کی سنگت میں ’او دیکھو جی ذرا یہ دل نذرانہ ہے‘ نے اس میں اضافہ کردیا تھا۔
قتیل شفائی کی شاعری پر ماسٹر عنایت حسین نے فضل حسین اور منورسلطانہ کی آوازوں میں ’محبت مسکرائی جھوم اٹھی ہر شے جوانی میں، کسی کا نام شامل ہوگیا میری کہانی میں‘میں جو حسن بھرا ہے وہ کسی بھی سوگوار فضا کو رنگین بنانے کے لئے کافی ہے۔ماسٹرعنایت نے بھی اسے ماسٹر پیس بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
جب منور سلطانہ کی آوازمیں’خوشی کے آنسوؤں میں ڈوب کر دیکھو میرے دل کو، یہ کشتی ناچتی جاتی ہے موجوں کی روانی میں‘ ہوا کے دوش پر بکھر رہا ہوتا تھا تو شدید موسم میں بھی لہروں کے ہچکولے محسوس ہوتے تھے۔آج بھی یہ نغمہ سنائی دیتا ہے تو چلتے قدم ٹھہر جاتے ہیں۔ یہ گانا پاکستان کی پہلی خوب صورت رومانوی جوڑی صبیحہ خانم اور سنتوش کمار پر فلما گیا تھا جس سے اس کے حسن میں مزید چار چاند لگ گئے۔ اسے جتنی باربھی سنا جائے اس کی رنگینی کم ہونے کا نام نہیںلیتی۔
منور سلطانہ کا نام بھی بہت سے لوگوں کو کنفیوژ کرتا ہے کیونکہ تقسیم سے قبل اس نام کی دو فنکارائیں تھیں۔ ہم جس منور سلطانہ کی بات کررہے ہیں وہ مکمل طور پر گیت سنگیت سے وابستہ تھیں جو تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہو گئی تھیں۔ان کا انتقال 20 مئی 1995 کو لاہور میں ہوا۔ ان کی ہم نام منور سلطانہ اداکاری کے شعبے سے تعلق رکھتی تھیں جنہوں نے متعدد ہٹ فلموں میںکام کیا۔ ’بابل’ میں دلیپ کمار کے مقابل ہیروئن کا کردار بھی ادا کیا تھا۔ انہوں نے پوری زندگی انڈیا میں ہی گزاری جہاں ان کا انتقال 15 ستمبر 2007 کو ممبئی میں ہوا ۔
سن 1953 میں ہی فضل حسین کو ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی میں فلم ’غلام‘ کے لئے گانے کا موقع ملا جس سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ کس درجے کے گانے والے تھے۔ فضل حسین نے ساغر صدیقی کے کلام کو پکھراج پپو کے ساتھ دوڈوئٹس ’برباد ہوئے جن کے لئے‘ اور ’زخم جگر سے ملے ہیں ہم کو وفا کے بدلے‘ ریکارڈ کرائے تھے، جوکافی پسند کئے گئے تھے۔
پکھراج پپو 1950 کی دہائی کی گلوکارہ تھیں جنہوں نے اس دور کے بڑے موسیقاروں کے ساتھ گانے ریکارڈ کرائے۔ یہ اپنی خوب صورت باریک آواز سے لوگوں کو مسحور کرتی رہیں۔ ان کی مشہور فلموں میں ’طوفان‘، ’سسی‘، ’محبوبہ’ اور ’شرارے‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اقبال بانو،میڈم نورجہاں اور زبیدہ خانم وغیرہ کے سامنے یہ اپنے کیریئر کو طو ل نہ دے سکیں لیکن شائقین ان کے نغمے سن کر آج بھی محفوظ ہوتے ہیں۔

فضل حسین نے اسی سال فلم ’گلنار‘ میں ماسٹر غلام حیدر ہی کی موسیقی میں قتیل شفائی کی شاعری پر سولو ’گلہ ہے آسماں والے‘ اور تنویر نقوی کے کلام پر کورس ’ادھر دیکھتے ہیں ادھر دیکھتے ہیں‘ ریکارڈ کرائے۔
سن 1953 میں بننے والی فلم ‘محبوبہ‘ کے لئے فضل حسین نے منور سلطانہ کی سنگت میں ڈوئٹ’محبت مسکرائی جھوم اٹھی ہر شے جوانی میں‘ دوبارہ ریکارڈ کرایا جسے قتیل شفائی نے لکھا تھا اور اس کی خوب صورت دھن ماسٹر عنایت حسین نے ترتیب دی تھی۔
فضل حسین اور منورسلطانہ نے ہی 1954 کی دیوار، کے لئے مشیر کاظمی کے ڈوئٹ ’تونے کچھ سنا میں نے کیا کہا’، تنویر نقوی کی شاعری پر ’قدم قدم چل دیکھ نظارے حسن کا یہ بازار ہے….‘ اور ’یہ ہوائیں، یہ بہار جانے کہیں کیا….‘ ’ہم ہیں ہمت والے محنت والے….‘ اور’تو آجا چاند ستارے بجھنے جارہے ہیں….‘ ریکارڈ کرائے جن کی دھنیں حسن لطیف کی بنائی ہوئی تھیں۔
ماسٹر عنایت حسین نے 1954 کی ’گمنام‘ کے لئے تنویر نقوی کی شاعری پر فضل حسین کا سولو ’بھاگ یہاںسے بھاگ رے ‘ ریکارڈ کیا۔ 1954 میں ہی فضل حسین کو فلم ’مجرم‘ کے لئے کوثر پروین کی آواز کا ساتھ ملا جس میں ان کا دوگانا ’اے چاند آسمان کے میرے چاند سے کہنا….‘ اور ’اداس راتوں میںتیری یادیں ستارے بن کر….‘ عوام کے سامنے آئے۔ اس فلم کے گانوںکے لئے احمد راہی کا قلم اور طفیل فاروقی کے سنگیت نے سننے والوںکی توجہ حاصل کی۔
احمد راہی کی ہی شاعری پر رفیق غزنوی نے فضل حسین کی آواز میں فلم ’پرواز‘ کے لئے ’ایک نئی زندگی ایک نئی داستاں‘ ریکارڈ کیا۔
’جھیل کنارے‘ کے لئے فضل حسین نے کوثر پروین کی سنگت میں دو ڈوئٹس ’چندا سے پوچھ لے تاروں سے پوچھ لے….‘ اور ’تیری تصویر کہہ رہی ہے….‘ ریکارڈ کرائے جن کی دھنیں نذیر جعفری نے ترتیب دی تھیں۔
سن 1955 کی ہی ’شرارے‘ میں فیروز نظامی کی موسیقی میں تنویر نقوی کا ماجھی گیت ’ہو سفینہ ڈوبے نا….‘ ریکارڈ کرایا تھا۔
اسی سال میڈم نورجہاں، زبیدہ خانم اور ظریف کی فلم ’پاٹے خان‘ میں زبیدہ خانم کے ساتھ حزیں قادری کی شاعری اور اختر حسین اکھیاں کی موسیقی میں ڈوئٹ ’ہم تمہارا پیار میںتڑپتا رہے گا….‘ ریکارڈ کرایا تھا۔
فضل حسین کے جس گیت نے انہیں زندہ جاوید کردیا تھا وہ 1955 کی فلم ’طوفان‘ میں سیف الدین سیف کی شاعری پر بابا غلام احمد چشتی کی لازوال دھن تھی۔ یہ حیدرشاہ کی ڈائریکشن میںبننے والی ایک سماجی موضوع کے گرد گھومتی فلم تھی جس کے اداکاروں میں صبیحہ خانم، سدھیر، شعلہ، آشا پوسلے، ظریف اور اکمل شامل تھے۔فلم میں اس گیت ’آج یہ کس کو نظر کے سامنے پاتا ہوں میں، پیار کی بھولی ہوئی راہوںسے ٹکراتا ہوںمیں….‘کو ایک ڈرامائی منظر میں لالہ سدھیر پر پکچرائز کیا گیا تھا جس میں میڈم صبیحہ خانم بھی اسکرین پر جلوہ گر تھیں۔ لالہ سدھیر کی زبان سے جب ’تو نہ رو میرے لئے جان تمنا تو نہ رو، تیرے آنسو دیکھ کر بے تاب ہوجاتا ہوں میں….‘ ادا کرتے ہیں تو فلمی شائقین بھی اپنی جیبوں سے رومال نکالنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اس دھن میںبابا چشتی نے اپنا کمال فن سمو دیا تھا جسے فضل حسین نے اپنی ادائیگی اور سر سے ہمیشہ جواں گیتوں میںشامل کرا دیا تھا۔ اسے سن کر چلتے ہوئے قدم ٹھہر جاتے ہیں اور اس کی سحر آفرینی سے کوئی نکل نہیں پاتا۔
سن 1956 کی فلم ’قسمت‘ کے لئے فیروز نظامی کی موسیقی میں فضل حسین نے کوثر پروین کے ساتھ ڈوئٹ ’پیار بھرا دل توڑنے والے یہ پیار کا دستور نہیں….‘ریکارڈ کرایا۔ مذہبی موضوع پر بننے والی فلم ’نوراسلام‘ کے لئے حسن لطیف کی موسیقی میں فضل حسین نے ’پلکیں تو اٹھا نظریں تو ملا….‘ ریکارڈ کرایا جس کے شاعر تنویر نقوی تھے۔
فضل حسین نے تصدق حسین کی دھن پر 1957 کی فلم ’نگار‘ کے لئے کورس ’جشن مہتاب ہے…. ‘ اور کوثر پروین کے ساتھ ڈوئٹ ’پیا روپ نگر میں آجاؤ ہم پریت کے گیت سناتے ہیں….‘ ریکارڈ کرائے تھے۔
فضل حسین نے فلم ’نیادور‘ کے لئے تصدق حسین کی موسیقی میں زبیدہ خانم کے ساتھ ’گوری گوری او گاؤں کی چھوری آجا چوری چوری‘کے لئے اپنی آواز ملائی۔
فضل حسین نے مصلح الدین کی موسیقی میں بننے والی فلم ’دال میں کالا‘ میں آئرین پروین کے ہمراہ ایک ڈوئٹ ’لب پے نغمہ، دل میں دھڑکن….‘ میں اپنا حصہ ڈالا۔

انہوں نے زبیدہ خانم کے ساتھ ایک اور ڈوئٹ ’گھبرانا شرمانا ناں دنیا کی باتوں سے….‘ منیر نیازی کی شاعری اور حسن لطیف کی موسیقی میں فلم ‘نئی لڑکی‘ کے لئے ریکارڈ کرایا۔
فلم ’اسٹریٹ 77‘ کے لئے اختر حسین اکھیاں کی موسیقی میں ’مولا جب بھی دیتا ہے، چھپر پھاڑ کے دیتا ہے….‘ اور فلم ’سہیلی‘ کے لئے اے حمید کی موسیقی میں ’یہ دنیا گول مول ہے….‘ ریکارڈ کرائے۔
سیف الدین سیف کی شاعری اور سلیم اقبال کی دھن پرفلم ‘دروازہ‘ کے لئے نسیم بیگم کے ساتھ دوگانا ’اب ڈر کاہے کا گھونگھٹ کے پٹ کھول دے….‘ اور فلم ’دوشیزہ‘ کے لئے تنویر نقوی کی شاعری اور ماسٹرعنایت حسین کی موسیقی میں ناہید نیازی کے ساتھ ڈوئٹ ’ہر نظر اک نیا سوال ہوگیا….‘ ریکارڈ کرائے۔
سن 1963 کی فلم ’سازش‘ کے لئے ماسٹر عاشق حسین کی موسیقی میں ’او بابو میں لایا چنا جو مصالحے دار….‘ زبیدہ خانم کے ساتھ ڈوئٹ’تو ہے میرا دلربا تجھے دل دیا تیری اداؤں نے مارا‘ اور کوثر پروین کے ساتھ ’رنگ بھری رات آئی رے چندا کو ساتھ لائی رے‘ ریکارڈ کرائے۔ فضل حسین نے ماسٹر عاشق حسین کی موسیقی میں ناہیڈ نیازی اور آئرین پروین کی ہمراہی میں ’کیا من چاہے تجھ سے بالم‘ ریکارڈ کرایا۔
ماسٹر عنایت حسین نے فضل حسین سے فلم ’اعلان‘ کے لئے تنویر نقوی کی شاعری پر ’عجب گڑبڑ گھٹالا ہے….،ریکارڈ کرایا تھا۔
فضل حسین کے آخری گانے ’صدائے کشمیر‘ کے لئے ریکارڈ کئے گئے جنہیں 1971 کی فلم ’دو باغی‘ میں شامل کیا گیا۔
’دو باغی‘ جذبہ حب الوطنی کے پس منظر میں ڈائریکٹر ایم ۔ نسیم نے بنائی تھی جس میں رانی، کمال، حبیب، لہری، الیاس کاشمیری اور اسلم پرویز وغیر ہ نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے اور اس کی موسیقی امجدبوبی نے ترتیب دی تھی۔ فضل حسین نے مسعود رانا کے ہمراہ دو ڈوئٹ’بول بے خبرے، ہم یاروںمیںکون تیرا استاد ہے….‘ اور ’ہم ہیںسپاہی، فتح کے راہی….‘اور مسعود رانا کے ساتھ ’سنبھل کے چلو، یہ ہیں پیار کی راہیں….‘ ریکارڈ کرائے تھے اور یہ آخری فلم تھی جس کے ٹائٹل پر بطور سنگر فضل حسین کا نام آیا تھا۔ یہ فلم 1971 میں عید الاضحٰی کے دن 7 فروری کو ریلیز کی گئی تھی جو باکس آفس پر کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکی تھی۔
فضل حسین نے اپنے کیریئر میں ریڈیو کے ساتھ اردو فلموں کے لئے گلوکاری کی لیکن پنجابی فلم انڈسٹری کو بھی فراموش نہیں کیا۔ انہوںنے بابا جی اے چشتی کی موسیقی میں 1955 میں نمائش کے لئے پیش کی جانے والی فلم ’پتن‘ کے لئے ایک گانا ریکارڈ کرایا۔
سن 1956 میں فلم ’پینگاں‘ کے لئے بابا جی اے چشتی کی موسیقی اور شاعری میں زبیدہ خانم کے ساتھ ’لگیاں ٹور نبھاویں وے چھڈ کے نا جاویںدل جانیاں….‘ریکارڈ کرایا جسے مسرت نذیر اور اسلم پرویز پر پکچرائز کیا گیا۔
فلم ‘جبرو‘ کے لئے ماسٹر عاشق حسین کی موسیقی میں کوثر پروین کے ساتھ ’وے مینوں جدوں لے جان گے‘ ریکارڈ کیا تھا۔
فلم ’سہتی‘ کے لئے غلام احمد چشتی کی موسیقی میں عنایت حسین بھٹی، زبیدہ خانم اور عذرا سلطانہ کے ہمراہ احمد راہی کا گیت ’ڈھول دلے دیا جانیا میںتیری آں….‘ کو کافی پسند کیا گیا۔

سن 1958 کی فلم ’شیخ چلی‘ کے لئے فضل حسین اور زبیدہ خانم نے سلیم اقبال کی موسیقی میں ’میں تیری تو میرا‘ اڑیا….‘ اور اختر حسین اکھیاںکی موسیقی میں فلم ’کچیاں کلیاں‘ کے لئے ’او گینتر مینا بھلی نہ پینا….‘ ریکارڈکرائے تھے۔
اگلے سال ریلیز ہونے والی ’لکن مٹی‘ کے لئے حسن لطیف نے اپنی موسیقی میں فضل حسین کو ایک بار پھر سولو ’چھنکنا وجائی جا چھنکنا….‘ اور’جائیداد‘ کے لئے ’اک کلا تے دو یاراں….‘ اور کالے خان کی موسیقی اور اسمعٰیل متوالا کی شاعری پر عنایت حسین بھٹی کے ساتھ ’ڈنڈیاں‘ میں ’نی مورنی دی ٹور والئے….‘ ریکارڈ کرائے تھے۔
فضل حسین کی کئی فلموں کے گانوں کے ریکارڈز بھی اس دور کے دوسرے سنگرز کی طرح محفوظ نہیںرہ سکے جن میں پنجابی فلم ’ولایت پاس’ اور ’ڈولی‘شامل ہیں جن کے موسیقار بالترتیب ماسٹر عاشق حسین اور منظور اشرف ہیں۔
سن 1965 کی ’ہڈ حرام‘ کے لئے میوزک ڈائریکٹر اختر حسین اکھیاںنے فضل حسین کے ساتھ عنایت حسین بھٹی، امداد حسین، نذیر بیگم، آئرین پروین، کوثر خانم اور کورس کے ساتھ ’سنگ سرفے دے مک گئے پیندے….‘اور طفیل، عاشق جٹ اور کورس کے ساتھ ’اے ڈیرہ ہ ہڈ حراماںدا….‘ اور ’میں رانجھے دا یار پراناتو بن جا ہیر….‘ریکارڈ کیے تھے جن کے شاعر منظور جھلا تھے۔
اسی سال کی دوسری فلم ’پھنے خان‘ کے لئے حزین قادری کی شاعری پر صفدر حسین کی موسیقی میں شوکت علی،مالااور نذیر بیگم کے ہمراہ’جھانجراں چھنک دی پیاں ہانیا….‘ اور فلم ’سوکن‘ کے لئے فیروز نظامی کی موسیقی میں آئرین پروین کے ساتھ ’مینوں عشق دا سبق پڑھا دے….‘ ریکارڈ کرائے تھے۔
سن 1967 کی ’لٹ دا مال‘ کے لئے سیف الدین سیف کی شاعری پر سلیم اقبال نے فضل حسین کا سولوگانا ’لوکو سن لو میری پکار….‘ اور ’میرا ویر‘ کے لئے سلیم اقبال کی موسیقی میں احمد رشدی کے ساتھ باگڑ بلیا کنا فیر ہلیا….‘ اور اگلے سال ’دل دریا‘ کے لئے اختر حسین اکھیاں کی موسیقی میںحزیںقادری کا لکھا گیت ’اے تقدیر وی کی تقدیر اے….‘اور کوثر پروین کے ساتھ ڈوئٹ ’وے گل سن میری چن وے….‘ اور پنج دریا‘ کے لئے آئرین پروین کے ساتھ بابا عالم سیاہ پوش کا کلام بخشی وزیر کی موسیقی میں ’میاں بیوی راضی تے کی کرے گا قاضی….‘ ریکارڈ کرائے تھے۔
سن 1968 کی’ڈھول جانی‘ میں شوکت علی کے ساتھ وزیر افضل کی موسیقی میں ’بندے دا پتر ایں تے….‘ اور 1970 کی ‘سیاں‘ کے لئے مسعود رانا اور آئرین پروین کے ہمراہ بابا چشتی کی موسیقی میں ’میں نیئں اینو ویاہ سکدا….‘ ریکارڈ کرایا تھا۔
فضل حسین نے بطور سنگر ریٹائرمنٹ کے بعد 1973 میں ڈائریکٹر ایم سلیم کی پنجابی فلم ’نشان‘ کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی جس میں نغمہ، سدھیر، اقبال حسین، منور ظریف، نیئر سلطانہ، الیاس کاشمیری، افضال احمد، علی اعجاز اور ننھا وغیرہ نے کام کیا تھا۔ یہ فلم باکس آفس پر ہٹ گئی تھی ۔ اس فلم کے گانوں کابھی ریکارڈ نہیں ملتا۔ لیکن اس کے علاوہ فضل حسین کسی اور فلم کی موسیقی نہ دے سکے۔
فضل حسین نے اپنے کیریئر میں پاکستان فلم انڈسٹری کے استاد موسیقاروں کے ساتھ کام کیا جس میں ماسٹر غلام حیدر،ماسٹر عنایت حسین، فیروز نظامی ،بابا غلام احمد چشتی اور رفیق غزنوی وغیرہ شامل تھے جن کے فن کے قدردان بالی وڈ میں بھی موجود تھے۔
فضل حسین نے اپنے کیریئر میں 20 اردو فلموں میں 37 اور 17 پنجابی فلموں میں 64 کے قریب فلمی گانے ریکارڈ کرائے لیکن ان کا زیادہ وقت ریڈیو پاکستان کے ساتھ گزرا۔
فضل حسین انتہائی نفیس اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ پان اور چائے کے بہت شوقین تھے۔ ہر ایک سے اس گرم جوشی سے ملتے تھے کہ وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ انہوں نے تصنع سے پاک گھریلو زندگی گزاری لیکن اپنے ذاتی معاملات کے متعلق گفتگو سے پرہیز کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے بچوں وغیرہ کی تعداد کے متعلق بھی کسی کو علم نہیں۔
فضل حسین 26 ستمبر 1992 کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے لیکن میوزک کی دنیا میں اپنی آواز چھوڑ گئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس