اگر آپ نے 1963 میں ریلیز ہونے والی فلم ”جیسن اینڈ دی آرگونٹس“ دیکھی ہے تو اس میں دکھائے گئے حیرت انگیز مناظر سے ضرور لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ اس زمانے میں فلم ساز کمپیوٹر ایفیکٹس نہ ہونے کی وجہ سے کٹھ پتلیوں سے کام لیتے تھے اور ہالی وڈ میں آج استعمال ہونے والے بصری اثرات ویژل ایفیکٹس کے سوفٹ ویئرز ایڈوب، ایف ایکس ہوم، آٹوڈیسک، میکسن، ہوڈینی، فاؤنڈری اور بلیک میجک ڈیزائن کے بجائے خصوصی اثرات اسپیشل ایفیکٹس کا استعمال کیا جاتا تھا اور اس خصوصی اثرات کے تخلیق کار وں میں ریمنڈ فریڈرک ہیری ہاؤسن کا اپنا ایک مقام تھا۔ جنہوں نے کٹھ پتلیوں کے ذریعے اسٹاپ موشن ماڈل اینیمشن کی ایک شکل بنائی جو ناصرف جیسن اینڈ دی آرگونٹس، بلکہ دیگر طلسماتی فلموں میں بھی استعمال ہوئے۔ اسٹاپ موشن متحرک فلم سازی کی ایک ٹیکنک ہے جس میں مختلف اشیا کو جسمانی طور اور انفرادی طور پر فوٹو گرافی کے فریم کے درمیان چھوٹے اضافے میں جوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ حرکت کرتی یا جگہ تبدیل کرتی ہوئی دکھائی دیں بعد میں ان کو فلمی فنکاروں کے ساتھ بھی جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ عمل پکسیلیشن کہلاتا ہے۔


جیسن اینڈ دی آرگونٹس، کے لئے ریمنڈ فریڈرک ہیری ہاؤسن نے انتہائی اہم اور فلم بینوں کے لئے متاثر کن اسٹاپ موشن اینی میشنز تخلیق کیے۔ فلم بینوں کو حیران کرنے کے لیے انہوں نے مختلف ڈیزائن کی کٹھ پتلیاں تخلیق کیں۔ ان ہی کٹھ پتلیوں میں ایک کٹھ پتلی ٹالوس تھی جسے حرکت پذیری کے ذریعے ایک دیو ہیکل مخلوق بنادیا گیا اور اس کے ہاتھ میں تلوار تھما دی گئی۔ کانسی کا ٹالوس دیو کافی جدوجہد کے بعد تخلیق کیا گیا۔ ٹالوس دراصل 14 انچ کی ایک کٹھ پتلی تھی جسے اسٹاپ موشن اینی میشنز کے ذریعے دیو ہیکل جن بنادیا گیا اور اس کے پاؤں سے نکلنے والا مائع سرخ سیلوفین تھا جسے متحرک کرکے بہتا ہوا خون بنادیا گیا۔

آج مذکورہ بالا سوفٹ ویئرز کے برعکس ماضی میں اسپیشل ایفیکٹس کے لیے مکینیکل سہارے لیے جاتے تھے جن میں ابتدائی خصوصی اثرات خصوصی کیمرے کے عدسے کے ذریعے فنکاروں کے پیچھے متحرک پس منظر کو پیش کرنے کی ٹیکنک استعمال میں لائی جاتی تھی۔ اس کے بعد سیلولائیڈ فلم کے الگ الگ ٹکڑوں کو یکجا کرنا اور کسی تصویر کے حصے کو تبدیل کرنا ممکن ہوجاتا تھا۔ اس طرح سندباد کو قالین پر بیٹھے ہوا میں اڑنا ممکن بنانے کے علاوہ دھماکہ خیز مواد سے تباہی، جنگوں کے مناظر فلم کے سیٹ پر ہی میکانکی طور پر خصوصی اثرات سے بنائے جاتے تھے۔ اس وقت ہر فلم اسٹوڈیو کے اپنے اسپیشل ایفکیٹس ہوتے تھے۔ کمپیوٹر سوفٹ ویئر آنے کے بعد یعنی کمپیوٹر جنریٹڈ امیجری (سی جی آئی) کا رجحان بڑھا اور نجی کمپنیوں نے کام شروع کردیا۔ جن میں جارج لوکاس اور آئی ایل ایم انڈسٹریل لائٹ اینڈ میجک سب سے زیادہ فلمیں تخلیق کررہا ہے۔




- کراچی کی قدیمی بستی لیاری ٹاؤن بہار کالونی کے بلدیاتی مسائل نقص امن کی طرف بڑھنے لگے
- پاکستانی فلم لو گرو، کی دنیا بھر میں دھوم، 21 کروڑ کمالیے
- عیدالاضحیٰ پر دو بڑی پاکستانی فلموں لو گرو، اور دیمک، میں کانٹے کا مقابلہ
- پاکستان میں ٹام کروز کی مشن امپاسیبل۔ دا فائنل ریکننگ، نے سنیماؤں کی رونقیں بحال کردیں
- پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین مشترکہ فلم سازی کی کوشش رنگ لانے لگی
کمپیوٹر کے برعکس ریمنڈ فریڈرک ہیری ہاؤسن اپنی فلموں میں جو خصوصی اثرات استعمال کرتے وہ اسٹاپ موشن ماڈل اینی میشن تھے جسے ”ڈائینامیشن“ کہا جاتا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے ہارڈ ویئر کااستعمال کیا اور حرکت پذیری کی ٹیکنک استعمال کی۔ اسٹاپ موشن ایک حرکت پذیری ٹیکنک ہے جو کسی چیز کو خود ہی حرکت کرتی دکھاتی ہے۔ جیسن اینڈ دی آرگونٹس، اپنے وقت کی پہلی فلم ہے جس میں انہوں نے اپنے وقت کا بہترین ”جادو“ دکھایا ہے۔ اس فلم کے علاوہ انہوں نے ون ملین ایئر بی سی، میں بھی خصوصی اثرات کے ذریعے ڈائناسارس تخلیق کیے۔


جیسن اینڈ دی آرگونٹس، میں چارمنٹ کی انسانی ڈھانچوں کی لڑائی کے مناظر پیش کیے گئے ہیں۔ ان چار منٹ کے مناظر کے لیے انہوں نے چار مہینوں تک جدوجہد کی۔ کولمبیا پکچرز کارپوریشن کی جیسن اینڈ دی آرگونٹس، میں ڈھانچوں کی لڑائی، انسانی دھڑ والی مچھلی، انسانی چمگاڈرکے اڑنے کے ایسے مناظر پیش کیے کہ عوام داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ کراچی کے ریو سنیما پر ایک بار جیسن اینڈ دی آرگونٹس، دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جب انسانی دھڑ والی مچھلی نمودار ہوئی تو عوام کے اسٹل کیمرے کے رخ ریو کی اسکرین پر تھے اور فلش کی بوچھاڑ سے سنیما فلش لائٹس سے جگ مگا اٹھا۔