Monday, June 2, 2025
پہلا صفحہمضامینپٹھان، کے زہریلے پروپیگنڈے کو سمجھیں

پٹھان، کے زہریلے پروپیگنڈے کو سمجھیں

ابھی کچھ دن قبل معروف صحافی، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ عمر خطاب خان نے بھارتی فلم پٹھان کی نمائش سے پہلے خبردار کر دیا تھا کہ یہ ایک پروپیگینڈہ فلم ہے جس میں حسب سابق پاکستان اور اسلام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ عمر خطاب خان نے فلم کا ٹریلر دیکھ کر ساری کہانی بھانپ لی تھی یعنی دیگ سے ایک دانہ چکھ کر بتا دیا کہ نیچے کیا ہے۔

میں نے مدت ہوئی بھارتی فلمیں دیکھنا چھوڑ دی ہیں کیونکہ بھارتی سپر اسٹارز نے کارگل جنگ کے دنوں میں پاکستان کے بارے میں جو نازیبا گفتگو کی، اس نے ہمیں ’فن کی سرحد‘ کا قائل کر دیا تھا۔ پاکستان میں آج بھی چند نام نہاد لبرلز اس بات کے قائل ہیں کہ فن اور فن کار وطن کی قید سے آزاد ہے۔ نہ جانے کس بد طینت شخص نے یہ سلوگن ایجاد کیا اور ازاں بعد احساس کمتری کا شکار بھیڑ چال نے اسے مستقل اپنالیا۔ ان لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ بس یہی کہنا ہے کہ فن و فن کار کی کوئی سرحد نہیں۔

ہم پوچھتے ہیں کیا فن کار کوئی ماورائی چیز ہے؟ کیا وہ گوشت پوست کا چلتا پھرتا جیتا جاگتا انسان نہیں ہوتا؟ کیا وہ جنم نہیں لیتا؟ اگر جنم لیتا ہے تو کسی دھرتی، کسی ملک میں ہی جنم لیتا ہے اور وہ دھرتی اس کی ماں اور وطن اس کا گھر اور گھر کی چار دیواری سرحد ھوتی ہے۔ گھر کی چار دیواری نہ ہو تو بے پردگی ہوتی ہے، وطن کی سرحد نہ ہو تو غلامی مقدر بن جاتی ہے۔
راقم بھارتی فلم پٹھان کے بارے میں ماہرانہ رائے نہیں دے گا۔ کس کس نے زبردست کام کیا۔ فلاں کا فٹ ورک، ٹائمنگ، ڈائیلاگ ڈلیوری، ایکسپریشنز لاجواب ہیں۔ راقم صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ یہ ایک واقعی گھٹیا پروپیگینڈہ فلم ہے جو آج کی ہماری نسل کو مزید گمراہ اور بے خبر رکھے گی۔ اس فلم کے ایکشن سینز جو محض اسپیشل ایفکٹس کی وجہ سے تخلیق پائے، اس پر عش عش کریں گے۔ وہ اس کے ون لائنر کو نہیں سمجھ پائیں گے۔ اس فلم میں چھپے زہریلے عناصر کو نہیں بھانپ سکیں گے۔ آج کی نسل کو کیا پتہ وہ جس وطن میں رہتے ہیں، اس کا حصول کیسے ممکن ھوا؟ کتنے لاکھوں سروں کی فصل کٹی۔ کتنی عصمتیں لٹیں۔ کتنی ماؤں بہنوں نے خود کشیاں کیں۔ کتنے بچے والدین سے بچھڑے۔ کتنی ماؤں کی کوکھ اجڑی۔ آج اس وطن کے خلاف زہریلا پروپیگینڈہ کرکے ہماری قوم ہمارے ہیروز کو ولن دکھاکر کیا مقاصد حاصل کرنے کی توقع ہے۔

فلم کا ون لائنر یہ ہے کہ پاکستان دہشت پسند ہے اور شیطانی قوتوں کا آلہ کار ہے جو کروڑوں انسانوں کی جانیں لینے کا منصوبہ بناتا رہتا ہے۔ کشمیر پر اس کا موقف غلط ہے۔ ابتدا میں دکھایا گیا ہے کہ کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم کرکے اسے بھارت میں ضم کرلیا گیا ہے جس پر پاکستان میں بے چینی پائی جاتی ہے اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی اس پر رد عمل دیتی ہے اور بھارت میں دہشت گردی کے لیے شیطان سے مدد لینے کے لیے رابطہ کرتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور پاک وطن میں رہتے ہیں۔ ہم رحمان سے مدد مانگتے ہیں شیطان سے نہیں مگر فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ پاکستانی جنرل قادر اپنے ماتحت سے کہتا ہے کہ اب شیطان سے مدد مانگنے کا وقت آگیا ہے۔ وہ شیطان ایک دہشت گرد ہے جس کا نام جم ہے اور پھر اس طرح فلم میں شیطان اور پٹھان کا ٹکراؤ دکھایا گیا ہے۔

پٹھان بھارتی ایجنسی کا ایجنٹ ہے جو مافوق الفطرت ماورائی طاقت کا مالک ہے۔ اس بیچ پاکستانی ایجنٹ ڈاکڑ رابعہ کو لایا جاتا ہے جس کا لباس انتہائی واہیات ہوتا ہے۔ پوری فلم میں اس کا لباس قابل اعتراض ہے۔ پاکستانی جنرل، جم یعنی شیطان کی مدد سے بھارتی شہروں میں وائرس پھیلانے کی سازش تیار کرتا ہے جو ناکام کرتا ھے پٹھان۔ پھر بھارتیوں کی تالیاں اور فلم ختم۔ مگر ختم ہونے سے پہلے پاکستانی ایجنٹ، بھارتی ایجنٹ پٹھان کو تحفے میں دے دی جاتی ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل پروپیگنڈہ فلموں میں دکھایا گیا۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ کشمیر پر پاکستان کا موقف مبنی بر حقیقت ہے مگر پروپیگنڈے کے اس دور میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ یہ فلمیں ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہیں لیکن ہم اس کا موثر جواب نہیں دے پارہے۔ اس کے باوجود من حیث القوم ہم بھارت کی عیاریوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور ایسی فلموں کو اگر روک نہیں سکتے تو کم از کم اس کی مذمت تو کرہی سکتے ہیں؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس