Monday, March 10, 2025
پہلا صفحہمضامیناظہارقاضی، پاکستانی سنیما کا امیتابھ بچن

اظہارقاضی، پاکستانی سنیما کا امیتابھ بچن

چوبیس دسمبر 2007 کی شب جب میرے اور اظہار قاضی بھائی کے مشترکہ دوست انور شاہ صاحب نے مجھے ان کے انتقال کی خبر دی تو جیسے زمین قدموں تلے سے سرک گئی۔ یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اتنا پیارا انسان یوں اچانک دنیا سے ناطہ توڑ لے گا لیکن موت ایک اٹل حقیقت ہے اور اسے تسلیم کیے بنا چارہ بھی نہیں ہے۔ اظہار بھائی کے برادر نسبتی عاصم نے بتایا کہ اظہار بھائی اپنے سسرال میں تھے، عید کے تیسرے دن ان کی سالی کے بیرون ملک فون پر نکاح کے بعد ایک رسمی سی گھریلو تقریب میں تمام اہل خانہ اکٹھے تھے۔ اچانک اظہار بھائی کسی کام کے لیے اُٹھے اور سر کے بل فرش پر جاگرے۔ ان کے سر سے خون بہنے لگا۔ اہل خانہ انہیں فوری طور پرقریبی ہاسپٹل لے کر روانہ ہوئے لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔

ہم سب کے چہیتے اظہار بھائی بالآخر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ جس خالق سے وہ بے پناہ عشق کرتے تھے۔ جن سے ملنے کی انہیں ہمیشہ سے آرزو تھی اور جہاں باری باری ہم سب کو جانا ہے۔ آج اظہار قاضی مرحوم کے مداح، احباب اور لواحقین ان کی پندرہویں برسی منارہے ہیں۔

اظہار بھائی کو تو کوئی عارضہ بھی نہ تھا، سگریٹ بھی چھپ چھپ کر پیتے تھے، وہ بھی صرف دوستوں کی محفل میں۔ دل کے معاملے میں اتنے کھرے تھے کہ عارضہ قلب کا امکان تک نہ تھا، شوگر لیول بھی ٹھیک تھا، بس کبھی کبھار کمر میں تکلیف کی شکایت کرتے تھے۔ وہ بھی اس وجہ سے کہ فرشی نشست کے عادی تھے۔ ڈاﺅن ٹوارتھ کی اصطلاح ان پر پوری طرح صادق آتی تھی کیوں کہ وہ در حقیقت عجزہ و انکساری کا پیکر تھے۔ اظہار بھائی سے میری رفاقت 15 سالوں پر محیط تھی۔ 24 دسمبر2007 کی شام اظہار بھائی کو سپرد خاک کرکے واپس آنے کے بعد ذہن کے پردے پر گزرے ماہ و سال کے وہ مناظر فلیش بیک کی صورت چلنے لگے جن کی یادیں نہ جانے کب تک آبدیدہ کرتی رہیں گی۔

ان کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ انہوں نے اپنی پروفیشنل اور فیملی لائف کو ہمیشہ جدا جدا خانوں میں رکھا۔ گھر پر وہ ایک شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے کا کردار پوری دیانت داری سے نبھاتے رہے تو فلم اسٹوڈیوز میں ان کے پروڈیوسرز اظہار بھائی کے پروفیشنل ازم کی مثال دیا کرتے تھے۔ انہوں نے جتنا عرصہ فلم انڈسٹری میں گزارا، اپنی شرائط پر کام کیا اور کبھی اپنے پروفیشن سے بے ایمانی نہیں کی۔ وہ ان چند فن کاروں میں شامل تھے جن کا نام کبھی انکم ٹیکس نادہندگان کی فہرست میں نہیں آیا۔
اظہار بھائی کے والدین اگرچہ فلم لائن کے حق میں نہیں تھے لیکن جب انہوں نے اسٹیل مل کی جاب چھوڑ کر فلم انڈسٹری سے وابستگی کا حتمی فیصلہ کرلیا تو ان کے والد نے یہ نصیحت کی کہ اگر اس کام کو ایمان داری اور دیانت کا دامن تھام کر کرسکتے ہو تو بے شک کرو لیکن یاد رکھنا کہ نیکی اگر بھرے بازار میں کروگے تو کوئی تمہاری ستائش نہیں کرے گا اور برائی بند کمرے میں بھی کی تو اس کی آواز سو میل تک سنی جائے گی۔
بلا شبہ اظہار بھائی نے اس انڈسٹری میں جتنا عرصہ بھی گزارا، ان کی پاک دامنی، شرافت، عاجزی اور اصول پسندی کی گواہی وہ لوگ بھی دیتے ہیں جنہیں ان سے خدا واسطے کا بیر تھا ۔

سن 97ء میں ان کے گھر ڈیفنس زیڈ بلاک لاہور میں جب اظہار بھائی سے ملاقات کے لیے دیرینہ دوست ندیم انصاری کے ساتھ رات ایک بجے پہنچا تو گھر والے سورہے تھے۔ رات کے اس پہر ملاقات کا وقت انہی کے کہنے پر طے ہوا تھا کیونکہ دن بھر وہ اپنی شوٹنگز میں مصروف رہتے تھے۔ اظہار بھائی نے ناصرف ہم سے ملاقات کے لیے اپنی نیند قربان کردی بلکہ بھابھی کو کہہ کررات کے اس پہر کھانے اور چائے وغیرہ کا اہتمام کیا۔ باتوں باتوں میں وقت کا اندازہ ہی نہ ہوسکا اوررات کے تین بج گئے ۔
ان کے ساتھ گپ شپ، بندے کو زمان ومکاں کے قید سے آزاد کردیا کرتی تھی۔ اس رات ایک اورعجیب مشاہدہ بھی ہوا۔ اظہار بھائی کی گفتگو میں قرآن و حدیث کے حوالے شامل ہونے لگے تھے۔ وہ قرآن پاک کی مختلف آیتیں بیان کرکے ان کا ترجمہ اور تفسیر پیش کرتے۔ ساتھ ہی تاکید کی کہ عربی زبان سے ضرور واقفیت ہونی چاہیئے۔ ان دنوں وہ مولانا ملک مرتضیٰ مرحوم کی صحبت کا گہرا اثر لینے لگے تھے۔
مولانا صاحب نے شوبز کی آمدنی کے حوالے سے ان کی رہنمائی کی تھی کہ جس شعبے میں آپ کام کرتے ہیں، وہاں آپ نفس عمارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں اور اگر دن بھر شوز کی رنگینیوں میں گزارنے کے بعد بھی آپ خود کو گناہوں سے آلودہ ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو نا صرف آپ کی روزی حلال ہے بلکہ آپ نفس کے جہاد کا ثواب بھی پاتے ہیں۔

اظہار بھائی صوم وصلوة کے بے حد پابند تھے۔ اکثر ہماری بیٹھکوں کے دوران نماز کا وقت ہوجاتا اور محفل میں تین چار لوگ موجود ہوتے تو وہ جماعت کھڑی کرکے امامت فرماتے۔ ان کی قرأت میں رونگٹے کھڑے کردینے والا سوز اور خوش الحانی تھی۔
وہ جب تک لاہور میں رہے، صرف ان سے ملاقات کے لیے جانا ہوتا تھا۔ اظہار بھائی کے سیکرٹری عاصم اُن کے معمولات کی خبر دیتے رہتے تھے۔ کراچی شفٹ ہوجانے کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ کچھ عرصہ وہ پراپرٹی بزنس سے بھی وابستہ رہے۔ برسوں بعد کراچی لوٹنے پر ان کے تاثرات تھے کہ اس شہر نے کافی ترقی کرلی ہے۔ سڑکیں کشادہ ہوگئی ہیں، بڑے بڑے پل بن گئے ہیں مگر اس شہر کے باسیوں کے دل تنگ اور انسانی جذبوں ورشتوں کے پل ٹوٹ گئے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ رشتوں کو نبھایا جائے۔ اسی لیے فیملی کے تمام افراد ان پر نازاں تھے۔ وہ اپنے بھائیوں کے لاڈلے، بہنوں کے چہیتے، بیٹیوں کے دل کی راحت، ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور بیگم کی جان تھے۔ بیٹیوں سے انہیں بے پناہ پیار تھا اور ان کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے۔ بے حد مصروفیات کے دنوں میں بھی بچوں کا ہوم ورک خود دیکھتے تھے۔ خصوصاً ان کی دینی تعلیم کے لیے بے حد فکر مند تھے۔ شادی کے چند ماہ بعد بیگم کے ساتھ حجاز مقدس کے لیے روانہ ہوئے جہاں مکہ المکرمہ میں ان کی پہلی بیٹی حبا، کی پیدائش ہوئی۔ ان کے تمام بچوں کے نام بامعنی ہیں مثلاً پہلی بیٹی کی پیدائش کو خدا کا انعام قرار دیتے ہوئے اس کا نام حبا (تحفہ) تجویز کیا۔ دوسری بیٹی کا نام حنا (خوشی) رکھا۔ جب ان کے یہاں تیسری بیٹی پیدا ہوئی تو ایک حدیث پاک کے مفہوم کے مطابق (جس مسلمان کی تین بیٹیاں ہوں، اس کے لیے جنت کا معاہدہ ہے )، کو سامنے رکھتے ہوئے، اس کا نام ملحہ (مقدس معاہدہ) رکھا۔ یعنی انہوں نے رب تعالیٰ سے جنت کا معاہدہ کرلیا۔ اس کے بعد خدا نے انہیں ایک اور بیٹی کی رحمت سے نوازا تو اس کا نام کنزا (خزانہ) رکھا گیا، یعنی ان چار بیٹیوں نے ان کا خزانہ مکمل کردیا۔ میں نے ستمبر 2002 میں ماہ نامہ سپراسٹارڈسٹ میں شایع ہونے والے ایک مضمون میں اظہار قاضی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں دُعا دی تھی کہ خد انہیں اولاد نرینہ سے نوازے۔ اس دُعا پر وہ بس مسکرا کر رہ گئے تھے۔ قریباً ڈھائی سال بعد 26 فروری 2005 کو ان کا فون آیا کہ ’تمہاری بھابھی ہاسپٹل میں ہیں لیکن تمہاری دُعا قبول نہیں ہوئی‘۔
میں نے کہا ’ارے اظہار بھائی! کوئی بات نہیں، خدا نے آپ کے نصیب میں رحمت ہی رحمت جو لکھ دی ہے۔ آپ تو ویسے بھی ہر حال میں خدا کی رضا پر خوش رہنے والے انسان ہیں‘۔
اگلے لمحے اُن سے اپنی خوشی مزید دبائی نہ جاسکی اور وہ جھٹ سے بولے! ”مبارک ہو، تمہاری دُعا واقعی قبول ہوگئی ہے۔“ رب العزت نے انہیں شادی کے 16 سال بعد بیٹے کی نعمت سے نوازا تھا۔ ابراہیم، کی پیدائش پر وہ اپنی جذباتی کیفیت اور خوشی کو چھپانے میں ناکام ہورہے تھے۔ اب جبکہ اظہار بھائی اس دنیا میں نہیں رہے، ان کے جان نشین کے لیے دل سے یہی دُعا نکلتی ہے کہ خدا اس میں باپ جیسے اوصاف اور خوبیاں دے۔ اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ ان جیسے اعلیٰ ظرف انسان روز روز نہیں پیدا ہوا کرتے مگر اظہار بھائی جیسے فرشتہ صفت انسانوں کی آج کی دنیا میں ضرورت ہے۔ وہ جو کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتے تھے اور ہمیشہ خدا کی ذات پر کامل یقین و بھروسہ رکھتے تھے۔ اپنی انتہائی پریشانیوں، کرب یا تنہائی میں بھی وہ ربِ ذوالجلال سے ہی رجوع کرتے تھے اور کلام پاک کا سہارا لیتے تھے۔

ان سے آخری ملاقات، رمضان کے آخری عشرے میں گھر پر ہوئی تھی۔ ان ناقابل فراموش گھڑیوں کے ہمنوا، ڈرامہ نگار ابن آس اورہمارے صحافی دوست انور بیگ بھی تھے۔ طے یہ ہوا تھا کہ آدھے گھنٹے میں واپس آجائیں گے مگر اظہار بھائی نے دو گھنٹے تک روک لیا۔ یہ ملاقات بھی زمان و مکاں کی قید سے آزاد تھی۔ اظہار بھائی بولتے رہے اور ہم سنتے رہے۔ سیاست، معیشت، شوبز سے لے کر الیکشن تک کے موضوعات زیر بحث آئے۔

چوبیس دسمبر 2022 اظہار قاضی مرحوم کو ہم سے بچھڑے پورے چار سال بیت گئے ہیں لیکن ان کی یادوں، باتوں اور قربت کی مہک آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ انہیں بھلانا آسان نہیں ہے۔
خدا اُنہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس