Monday, March 10, 2025
پہلا صفحہمضامینسندھی فلموں اور ڈرامہ انڈسٹری کا بڑا نام رشید صابر

سندھی فلموں اور ڈرامہ انڈسٹری کا بڑا نام رشید صابر

رشید صابر پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری خصوصاً سندھی سنیما کا ایسا نام ہے، جنہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج ان کے مداح مرحوم کی دسویں برسی منارہے ہیں۔ ان کا انتقال 7 دسمبر 2012 کو کراچی میں ہوا۔ رشید صابر 10 جنوری 1945 کو موجودہ ضلع سجاول کے تعلقے جاتی میں پیدا ہوئے۔ والد نے ان کا نام عبدالرشید ولد عبداللہ میندرو رکھا۔ رشید صابر کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا۔ اس گھرانے میں کئی جید علما پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے الفیض، سے حاصل کی۔ انہوں نے فقہ اور حدیث سے فیض یاب ہونے کے بعد حیدرآباد میں واقع اورنٹیل کالج سے ادیب فاضل (مولوی فاضل) کی سند حاصل کی اور نور محمد ہائی اسکول میں عربی کے استاد مقرر ہوئے۔ اسی دوران 1972 میں بی اے اور پھر ایم اے کی ڈگری سندھ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ وہ سندھی کے علاوہ اردو، عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ رشید صابر مرحوم نے دو کتابیں بھی تصنیف کیں جواسلامک اسٹڈیز کے موضوع پر ہیں۔ یہ کتابیں بی اے اور ایم اے کے تدریسی نصاب میں شامل ہیں۔ انہوں نے کتاب ’’صفاالضمائر‘‘ کا سندھی میں ترجمہ ’’ماٹیوتن ملیر‘‘ کے نام سے کیا ہے۔

ان پر لکھی جانے والی کتابوں میں ’’مولوی عبدالرشید میندرو سے لے کر رشید صابر تک‘‘ میں رشید صابر کی شخصیت کے بارے میں مختلف شخصیات کے تاثرات شامل ہیں جبکہ ’’رشید صابر جا چونڈ ریڈیو ڈرامہ‘‘ میں ان کے منفرد اور مشہور ریڈیو ڈرامے شائع کیے گئے ہیں۔ تیسری کتاب ’’رشید صابر جا ٹی وی ڈرامہ‘‘ بھی شائع ہوچکی ہے۔

اداکار محمد علی کے ہمراہ ایک فلم کے منظر میں

انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ کے بعد جب جنگی قیدیوں کی واپسی شروع ہوئی تو انہوں نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے لیے یادگار ڈرامہ ’’نیت پھٹنڈی باکھ‘‘ تحریر کیا۔ رشید صابر مرحوم نے ریڈیو کے لیے تقریباً 300 کے لگ بھگ ڈرامے تحریر کیے ہیں جو منفرد موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی وی کے لیے لاتعداد دستاویزی فلمیں، دینی پروگرامز، خاکے اور تقاریر تحریر کیں۔ مذاحیہ ریڈیو پروگرام ’’گلدستو‘‘ کا اسکرپٹ بھی تحریر کرتے تھے۔ رشید صابر مرحوم نے ریڈیو پاکستان کی جانب سے سال 2001-2002 کا بہترین رائٹر کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ ان کے انتقال کے بعد 2 مرتبہ ریڈیو پاکستان کراچی کی طرف سے صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے۔

ریڈیو پاکستان میں جن پروڈیوسرز کے ساتھ کام کیا اُن میں سید منظور نقوی، نصیر مرزا، شیخ ابراہیم، ارشاد اعوان، ممتاز اعوان، نصیر سومرو، نثار میمن، کوثر بڑرو، گل حسن قریشی، جہانگیر قریشی، ممتاز شیخ، آغا محمد علی، خلیل چنا اور نوراللہ بگھیو قابل ذکر ہیں۔
پی ٹی وی پر معلومات عامہ کے پروگرامز ’’وینجھار‘‘ اور ’’پرکھ“ کے لیے سوال و جواب بھی وہی تحریر کرتے تھے۔ رشید صابر مرحوم نے دستاویزی پروگرام ’’واء سواء‘‘ ’’حال احوال‘‘ سمیت مقبول سندھی ڈرامہ سیریز ’’ناٹک رنگ‘‘ کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے۔ پی ٹی وی پر انہوں نے اعجاز علیم عقیلی، بیدل مسرور، محمد بخش سمیجو، ہارون رند، ذوالفقار نقوی، سمیع بلوچ، منظور قریشی، منظور مگسی، اقبال سعید انصاری، فیض بگھیو، اقبال احمد، بادل جمالی، نعیم بلوچ، حسین خانزادہ، مقبول شجراع، ہارون جمالی، فدا سومرو، الطاف سومرو اور سلطانہ صدیقی جیسے پروڈیوسرز کے ساتھ کام کیا۔ سندھی پرائیوٹ چینلز کے ٹی این اور سندھ ٹی وی سے بھی ان کے کئی ڈرامے نشر ہوئے۔ کے ٹی این چینل پر نور جوکھیو جبکہ سندھ ٹی وی پر ڈاکٹر عبدالکریم راجپر کے ساتھ کام کیا۔ انہوں نے اردو پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے لیے جو ڈرامے تحریر کیے ان میں ’’ساحل سے دور‘‘ کی ڈائریکشن پہلی مرتبہ اداکار طلعت حسین نے دی۔ دیگر ڈراموں میں میرا کیا قصور، زندگی کا زہر، چودہویں کی رات، آئینہ، وغیرہ شامل ہیں۔

انیس سو اناسی میں کراچی اسٹیج کے لیے سندھی ناٹک ’’فلور نمبرون‘‘ سے بنیاد ڈالی اور بعد ازاں کافی تعداد میں اسٹیج ڈرامے تحریر کیے۔ ان اسٹیج ڈراموں میں جانے نہ پائے، ایک انار دو بیمار، گھوٹ ان موٹ، قرض مرض فرض، آڈی پچھا، شادی یا تعدی، شادی شان واری، دلگیر دامن گیر، مکس پلیٹ، کھٹی آیو خیر سان، شادی یا بربادی، نمایاں ہیں۔ سندھی فلموں کی ترقی کے لیے بھی انہوں نے اپنا مثبت کردار اداکیا۔ 1984 میں اس وقت کے صدرِ مملکت ضیاء الحق کی طرف سے بلائے گئے فلمی اجلاس میں انہوں نے سندھی فلم انڈسٹری کی بھرپور نمائندگی کی اور سندھی فلموں کا ٹیکس معاف کروایا۔ رشید صابر مرحوم کی تحریر کردہ سندھی فلموں میں گھاتو گھر نہ آیا، طوفان، پھل ماچھی، برسات جی رات، سہنا سائیں، ہو جمالو، قیدی، مہران جاموتی، اور اردو فلم آخری گولی، شامل ہیں۔ ان فلموں میں انہوں نے اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ رشید صابر مرحوم نا صرف اپنی تحریروں بلکہ صداکاری، اداکاری اور ہدایتکاری میں بھی منفرد مقام رکھتے تھے۔ انہیں کئی نجی ادارں کی جانب سے بھی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس