Tuesday, June 24, 2025
پہلا صفحہخبریںبھارت کے لیے نئی مشکل۔ پاک بھارت جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے...

بھارت کے لیے نئی مشکل۔ پاک بھارت جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت میں علیحدگی پسندانہ تحریکوں نے کارروائیاں تیز کردیں

ؓپاکستان پر حملے کے بعد خطے میں اعلانیہ جنگ چھیڑدینے والے بھارت کے لیے نئی مشکلات سر اٹھارہی ہیں۔ ایک طرف جہاں اس کی ساری فوجی طاقت پاکستان کی سرحدوں پر مصروف ہے تو دوسری جانب بنگلہ دیش، چائنا، نیپال اور سری لنکا سے اسے شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ بھارت کے بیشتر علاقوں میں چل رہی علیحدگی پسند تحریکوں کو ان ممالک کی بلاواسطہ یا بالواسطہ مدد حاصل ہے۔ پاک بھارت جنگ کی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آسام، ناگا لینڈ، میز ورام، منی پورہ اور مغربی بنگال میں علیحدگی پسندوں نے کارروائیاں تیز کردی ہیں۔
اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ علیحدگی پسند تحریکیں بھارت میں چل رہی ہیں۔ بھارت کی 14 ریاستوں میں 21 بڑی اور 53 چھوٹی آزادی کی تحریکیں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں جس کی وجہ سے بھارت اندورنی طور پر ڈپریشن کا شکار ہے۔ ان علیحدگی پسند تحریکوں میں بالخصوص ماﺅ تحریک کی وجہ سے بھارت کی سلامتی کو شدید خطرہ لا حق ہے۔ اس طرح نا گا لینڈ ،میز ورام، منی پورہ، آسام، مغربی بنگال، بہار، اُتر پردیش میں علیحدگی کی تحریکیں ما ﺅ کی طرح تیزی سے زور پکڑ رہی ہیں۔اسی طرح نکسل باڈی موومنٹ نے مغربی بنگال، بہار،اُتر پردیش کے تین بڑے صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق موجودہ بھارتی گورنمنٹ کی انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ کی سے ان تحریکوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ بھارت کے 174 ڈسٹرکٹس اس وقت عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں ہیں۔ جن کا اعتراف بھارتی وزیر اعظم اپنی تقاریر میں کئی بار کر چکے ہیں۔ بھارتی صوبے آسام میں اس وقت علیحدگی پسندوں کی 34 تنظیمیں متحرک ہیں۔ اسی طرح ناگا لینڈ کی تنظیموں نے بھی بھارت فوج کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔

ان علیحدگی پسندوں کے پاس جنگی پیمانے پر بھاری ہتھیار، توپیں، ٹینک اور میزائلز سمیت درجنوں ہتھیار موجود ہیں۔ مقبوضہ بھارتی ریاستوں میں نا صرف ان کا کنٹرول ہے بلکہ ان تنظیموں کی اپنی فوج، پولیس، آئین، عدالتیں، کرنسی، جھنڈے اور دفاتر میں ان کے باغی لیڈروں کی تصاویر آویزاں ہیں۔ یہ لیڈران پروٹو کول کے ساتھ اپنے دفاتر میں آکر بیٹھتے اور کام کرتے ہیں۔ بھارتی حکومتیں اگرچہ کئی بار ان پر پابندیاں بھی عائد کرچکی ہیں لیکن ان پابندیوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ حکومت نے ان تنظیموں کے خلاف کئی بار فوجی آپریشن بھی شروع کیے لیکن بھارتی افواج کے پورے پورے دستے ان ریاستوں میں گم ہو گئے جن کا آج تک پتہ نہیں چلا۔
شمال مشرقی بھارت کی سیون سسٹرز کہلا نے والی سات ریاستوں آسام، تریپورہ، ہماچل پردیش، میزورام، منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ کے علاوہ بہار، جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، اُڑیسہ، مدھیا پردیش، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں بھی علیحدگی پسند گروپ سرگرم عمل ہیں۔ لیکن ناگالینڈکے ناگا باغیوں اور نکسل باڑیوں کی تحریک اب بھارتی وجود کے لیے حقیقی خطرے کا روپ دھار چکی ہیں۔
ایک معروف بھارتی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق صرف آسام میں ہی 34 باغی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جو ملک کے 162 اضلاع پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔ جن میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن، برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا، آدم سینا، گورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ سرفہرست ہیں۔ دوسری جانب ایسی ہی تحریکیں ناگالینڈ، منی پو ر اور تری پورہ میں بھی جاری ہیں۔ ناگا لینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل سب سے زیادہ موثر ہے، جب کہ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگرز فورس، نیشنل ایسٹ مائنارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی اور کوکی ڈیفنس آرمی بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اسی طرح تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس، تری پورہ آرمڈ ٹرائبل فورس، تری پورہ مکتی کمانڈوز اور بنگالی رجمنٹ جدوجہد کر رہی ہیں۔ جبکہ ریاست میزورام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ علیحدگی کی تحریک کو آگے بڑھا رہی ہے۔
دوسری جانب خالصتان کا مسئلہ بھی بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کرچکا ہے۔ بھارتی پنجاب کے سکھوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف جنگ کی واضح مخالفت نے اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں کی نیندیں اڑادی ہیں کہ وہ موجودہ بھارتتقسیم ہونے سے کیسے بچائیں ؟
ان حالات میں بھارتی فوج کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ آسام، منی پور، ناگا لینڈ اور پنجاب کو بچائے یا پھر جموں کشمیر اور لداخ کا دفاع کریں؟

نیوز ڈیسک

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس