Monday, June 2, 2025
پہلا صفحہمضامینماضی کی مقبول ہیروئن ممتاز ایک بار پھر فلم کے پردے پر...

ماضی کی مقبول ہیروئن ممتاز ایک بار پھر فلم کے پردے پر جلوہ گر ہونے کو تیار

پاکستانی فلمی صنعت میں کراچی کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کمال، محمد علی، زیبا، وحید مراد، شمیم آرا، ندیم، بابرہ شریف، دیبا کے علاوہ بے شمار فن کار ہیں جن کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ فلمی دنیا میں سپراسٹار بن کرجگمگائے۔ ایسے ہی فن کاروں میں ایک نام فلم اسٹار ممتاز کا بھی ہے۔ جو کراچی میں پیدا ہوئیں اور لاہور جاکر ایک نامور فلمی ہیروئن بنیں۔
اداکارہ ممتاز 70 کے عشرے میں انجم کے نام سے فلمی دنیا میں متعارف ہوئیں۔ ان کا اصل نام رفعت ہے۔ بعد میں ان کا فلمی نام ممتاز رکھا گیا۔

سال 1971 میں ہدایت کار ایس ٹی زیدی کی اردو فلم ”سلام ِمحبت“ ان کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں محمد علی اور زیبا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ تقریباً 200 فلموں میں ممتاز نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی آخری ریلیز ہونے والی فلم ”گھائل“ تھی جو 1997 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ہدایت کار حسنین تھے۔
ممتاز کو اصل شہرت فلم ”ضدی“ کے آ ئٹم سونگ ”چھڈ میری وینی نہ مروڑ“ اور بنارسی ٹھگ کے گانے ”اَکھ لڑی بدوبدی“ سے ملی۔ ان دونوں گانوں پر ان کا رقص دیدنی تھا۔ وہ مقبولیت کے اس زینے پرجا پہنچیں کہ اردو اور پنجابی فلموں میں بہ طور ہیروئن کاسٹ ہونے لگیں۔ ممتاز اس دور کے اردو اور پنجابی فلموں کے کام یاب ہیروز کے مقابل بہ طور ہیروئن پسند کی گئیں۔

اداکار محمد علی کے ساتھ فلم حیدر علی، وحید مراد کے ساتھ دشمن، اور محبت زندگی ہے، ندیم کے ساتھ جب جب پھول کھلے، امبر، شاہد کے مقابل شکار، جادو ، منور ظریف کے ساتھ پیار کا موسم، نوکرووہٹی دا، سدھیر کے ساتھ لاٹری، یوسف خان کے ساتھ جبرو، شریف بدمعاش، سلطان راہی کے ساتھ سدھا رَستہ، چڑھدا سورج، علی اعجاز کے ساتھ دبئی چلو، سالا صاحب اور دھی رانی، جیسی یادگار فلموں میں بہ طور ہیروئن آئیں اور کام یاب رہیں۔
ایک زمانے میں ممتاز، اپنے دور کی حسین اور گلیمرس اداکارہ ہونے کی وجہ سے فلم بینوں میں بے حد مقبول تھیں۔ خواتین بھی انہیں بے حد پسند کرتی تھیں۔ حسن و رعنائی کا دل فریب مرکب، جو اپنے گلابی چہرے کی بدولت دیگر اداکاراؤں میں اپنے نام کی طرح ممتاز نظر آتی تھیں۔ ممتاز کا فلمی نام انہیں اداکارہ شمیم آرا نے دیا تھا، جنہیں وہ اپنی محسن اور استاد مانتی ہیں۔
ممتاز کے زیادہ تر فلمی کردار دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ ممتاز کے لیے وجود میں آئے تھے۔ اگر انہیں کسی فلم میں شاہانہ کردار دیا گیا تو ان کے چہرے کی تمکنت اور وقار دیدنی ہوتا۔ تاریخی فلم حیدر علی، میں راج کماری شکیلہ کا شاہانہ کردار اس بات کی تصدیق اور سند پیش کرتا ہے۔ فلم انتظار، اور محبت زندگی ہے، میں ان کے ماڈرن کردار اور ڈریسز نے نیا ٹرینڈ سیٹ کیا۔ ان پر فلمایا ہوا ایک گانا ”تت تورو تارا تارا“ اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ انہیں تت تو رو تارا گرل کہنے لگے۔

اپنے فنی کیریئر کے آغاز پر فلم ”سلامِ محبت“ کی شوٹنگ کے دوران انہیں معروف مصنف، فلم ساز اور ہدایت کار ریاض شاہد نے دیکھا تو کہا کہ یہ لڑکی ایک دن بہت بڑی اداکارہ بنے گی۔ کچھ عرصے بعد ہی ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔
ممتاز 70 کی دہائی میں پاکستانی باکس آفس کی سپرہٹ ہیروئن تسلیم کرلی گئیں۔ پوری انڈسٹری میںان کے حسن و فن کے چرچے تھے۔ کراچی میں پیدا ہونے والی اس اداکارہ نے نہ صرف اردو فلموں میں شہرت پائی، بلکہ وہ پنجابی زبان کی فلموں میں بھی بے حد کام یاب رہیں۔ ایک طرف باکس آفس پر ان کی اردو فلمیں، رنگیلا اور منور ظریف، دشمن، شکار، بھول، تم سلامت رہو، تلاش، انتظار، دیدار، روشنی، محبت زندگی ہے، جب جب پھول کھلے، صورت اور سیرت، پیار کا موسم، ان داتا، منزل، کوشش، امبر، خوشبو ، ذرا سی بات، وغیرہ سپر ہٹ ہوئیں تو دوسری جانب پنجابی سینما پر ان کے رقص اور اداکاری کی دھوم مچی ہوئی تھی۔
ممتاز کی کامیاب پنجابی فلموں میں ضدی، بنارسی ٹھگ، لاٹری، سدھا رستہ، جادو، نوکر ووہٹی دا، شریف بدمعاش، شوکن میلے دی، دبئی چلو، سوہرا تے جوئی، مسٹر افلاطون، سالا صاحب، دادا سکندر، وریام، دوبیگھ زمین، نوکر تے مالک، باﺅجی، دلاں دے سودے، راکا، کالا سمندر، بالا گاڈی، اور دھی رانی، ناقابل فراموش ہیں۔

کراچی میں جب ممتاز کی کوئی اردو یا پنجابی فلم ریلیز ہوتی تھی تو مرد و خواتین کی بڑی تعداد اسے دیکھنے آتی تھی۔ ان دنوں کراچی میں سینما ہاﺅسز کی تعداد ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی۔ کراچی کا نشاط سینما اپنی مثال آپ تھا۔یہاں ممتاز کی سب سے پہلی فلم دشمن، 1974 میں ریلیز ہوئی، جس نے شان دار گولڈن جوبلی منائی۔ دشمن، کے بعد فلم کوشش، جب اس سینما پر 1976 میں ریلیز ہوئی تو ممتاز پرفلمائے ہوئے گانوں نے ہرعام و خاص پراس کے رقص کا سحر طاری کردیا۔ اس فلم میں ”مہندی لگے گی میرے ہاتھ پھرڈینگ ڈینگ“ ،”مرادوں والی رات ہے“ اور سدابہار سپرہٹ گیت ”بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں“ نے مقبولیت کے سارے ریکارڈز توڑ دیے۔
کراچی کاپلازہ سینما ممتاز کی فلم فرض، کا مین تھیٹر تھا۔اس کے بعد اسی سنیما پر تم سلامت رہو، دیدار، تلاش، اور زنجیر، نے بھی کام یاب بزنس کیا۔

کراچی صدر کے علاقے میں واقع اوڈین سینما پر ممتاز کی فلموں لاٹری، بھول، شرارت، جیو اور جینے دو، پنجابی فلم جبرو، دبئی چلو، شاہین اوردو بیگھ زمین، نے زبردست بزنس کیا۔
کراچی کے ایک اور مشہور سینما گوڈین پر ممتاز کی جن فلموں شاندار بزنس کیا ان میں جب جب پھول کھے،ہار گیا انسان، صورت اور سیرت، شوکن میلے دی،اَن داتا کے نام نمایاں ہیں۔ کوہ نور سینما پر ممتاز کی فلم احساس، ریلیز ہوئی تھی،جس میں شبنم اور ندیم نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔

اس کے بعد ایکشن فلم شکار، روشنی، پرستش، امبر، نے سپرہٹ بزنس کیا۔
کراچی کے قدیم ناز سینما میں فلم بنارسی ٹھگ، نے شاندار گولڈن جوبلی منائی۔ پیار کا موسم، جس میں منور ظریف نے ممتاز کے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ سپر ہٹ کامیڈی میوزیکل فلم میں اسی سینما کی زینت بنی تھی۔
بمبینو سینما پر ممتاز کی سب سے پہلی فلم انتظار، پیش کی گئی تھی، جس میں ممتاز کی اداکاری اور رقص، فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوئے تھے۔
فلم میں جب ممتاز پر فلمایا ہوا گانا ’میں موم کی گڑیا ہوں‘ اسکرین پر نمودار ہوتا تو سینما ہال میں فلم بین تالیوں سے اپنی محبتوں کا اظہار کرتے تھے۔ عظیم تاریخی فلم حیدر علی، کو بھی اسی سینما پر ریلیز کیا گیا۔

لیرک سینما پر ممتاز کی یادگار فلم خوشبو، ریلیز ہوئی، جس میں اداکار شاہد اور رانی نے ممتاز کے والدین کے کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم نے شان دار کام یابی حاصل کی۔ ذرا سی بات، اور کندن، بھی اس سینما پر ممتاز کی کام یاب فلمیں تھیں۔
کراچیکے قدیم سینما جوبلی پر ممتاز کی یادگار نغماتی سپرہٹ فلم جادو، نے کام یابی کے نئے ریکارڈز قائم کیے۔اس فلم کا ایک گانا ”جادوگرا “ سپرہٹ ثابت ہوا۔ اس گانے میں بین کی دھن پر ممتاز کے دلفریب رقص پر فلم بین سکوں کی بارش کردیتے تھے۔ جادو، کے علاوہ ضدی، شریف بدمعاش، جینے کی راہ، بھی کام یاب اور یادگار ثابت ہوئیں۔
ممتاز نے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا۔ کئی فلموں میں انہیں بہترین اداکارہ کا نگار ایوارڈ بھی ملا۔ ان میں جادو، حیدر علی، نظام ڈاکو، سوہرا تے جوائی اور دھی رانی،شامل ہیں۔

ممتاز کی ناقابل فراموش فلموں میں گنگوا، ریمانڈ، دو راستے، جینے کی سزا، یہاں سے وہاں تک، دو نشان، مسٹر افلاطون، راجا صاحب، جرم اور قانون، سمندر پار، پکار، ایک جان ہیں ہم، شرمیلی، شیشے کا گھر، قسم خون دی، جبرو، اپنے ہوئے پرائے، ہار گیا انسان، گڈی، شرارت، سوہنی مہینوال، زنجیر، ضدی، میرے اپنے، بے اولاد، جانی دشمن، وغیرہ شامل ہیں۔ ممتاز کی پنجابی فلموں کی تعداد 88 ہے جبکہ 47 کے قریب ان کی اردو فلمیں ہیں۔ ان کی ایک فلم سندھی زبان میں بھی بنی تھی، جس فلم کا نام فیصلو ضمیر جو،ہے۔
نوے کی دہائی میں ممتاز لاہور کے مشہور باری اسٹوڈیو کے اونر راحیل باری سے شادی کرکے کینیڈا میں سکونت پزیر ہوگئیں۔ اب برسوں بعد وہ اپنے وطن پاکستان لوٹی ہیں اور اپنے بیٹے ذیشان باری کو فلم انڈسٹری میں متعارف کرانے کے لیے سرگرم ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس