فلم سنسر بورڈ سندھ کے موجودہ چیئرمین خالد بن شاہین کے تعارف کے کئی حوالے ہیں۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک خالد بن شاہین نے اپنے 35 سالہ بینکنگ کیرئیر میں مختلف شعبوں میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد بڑے عہدوں پر پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھائیں۔ نیشنل بینک، حبیب بنک سمیت کئی نجی مالیاتی اداروں سے وابستگی رہی۔ تقریباً اتنے ہی عرصے سے ٹیلی وژن کے لیے ماڈلنگ اور اداکاری بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن سے 80 کی دہائی میں منسلک ہوئے اور آج بھی مختلف ڈراموں میں ناصرف کام کر رہے ہیں بلکہ اپنے پروڈکشن ہاؤس تلے ڈرامے پروڈیوس بھی کر رہے ہیں، کم بجٹ میں معیاری موضوع کی حامل فلمیں پروڈیوس کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔
خالد بن شاہین، ٹی وی ناظرین کی نظروں میں پہلی بار آئے جب انہوں نے زیبا بختیار کے مقابل ٹیلی پلے ”انار کلی“ میں شہزادہ سلیم کے کردار میں ایسا رنگ جمایا کہ اس کی شہرت سرحد پار ہندوستان تک گئی۔ انار کلی ‘ کے ہیرو خالد بن شاہین نے اپنا سفر منی اسکرین پر جاری رکھا اور پھر زی ٹی وی کے میگا سیریل داستان، میں کام کرکے انٹر نیشنل اسٹار بن گئے۔
خالد بن شاہین امریکی یونیورسٹی سے ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کرنے والے پاکستان کے ایک ایسے جینئس بینکار ہیں جن کی خدمات کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ حبیب بینک سے نیشنل بینک آف پاکستان کے سینئر ایگزیکٹو وائس پریڈیڈنٹ، گلوبل ہوم ریمیٹنس مینجمنٹ اورکارپوریٹ کمیونی کیشن ڈویژن کے عہدے تک پہنچنے کے لیے ان کا سفر قابل رشک رہا ہے۔ خالد بن شاہین نے بینکنگ پروفیشن کا آغاز حبیب بینک لمیٹڈ سے کیا جس کے دوران متحدہ عرب امارات، افریقہ، برطانیہ اور امریکہ میں کلیدی عہدوں پر نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ 2009 میں حبیب بینک لمیٹڈ سے ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ اینڈ ہیڈ آف گلوبل ریمیٹنس ڈیپارٹمنٹ کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ دبئی میں قیام کے دوران انہیں گلوبل کارپوریٹ کمیونی کیشن میں ڈائریکٹر ریمیٹنسز کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔ خالد بن شاہین کو نیشنل بینک آف پاکستان میں سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ اور گروپ چیف بنایا گیا جس کے بعد وہ نیشنل بینک آف پاکستان ایکسچینج کے چیئرمین بنے جس کے ساتھ انہیں نیشنل بینک آف پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کی اضافی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ خالد بن شاہین کو عربی زبان پر مکمل عبور حاصل ہے جو گلف میں تعیناتی کے دوران رائل فیملی اور پاکستانی بزنس کمیونٹی میں روابط مضبوط کرنے میں کام آیا۔ خالد بن شاہین نے سعودی عرب اور مختلف اماراتی ریاستوں میں 17 سال سے زائد عرصہ خدمات سر انجام دیں۔ وہ پہلے بینکر تھے جس نے پاکستان سے باہر رہنے والے محنت کشوں کے لیے بلا معاوضہ ترسیلات زر کی انعامی اسکیمز اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے توسط سے متعارف کرائیں۔ انہوں نے امریکی یونیورسٹی سے ماسٹر آف بزنس کی ڈگری دبئی میں قیام کے دوران حاصل کی۔ 1997 میں انہیں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔
خالد بن شاہین نے متعدد ڈراموں میںاداکاری کے جوہر دکھائے،ان کے مقبول ترین ڈراموں میں انار کلی، باادب با ملاحظہ ہوشیار، حسینۂ عالم، بابر، ننگے پاؤں، ہوائیں، ساحل، یادیں، راہ گزر، برزخ، گھر ایک نگر، قصہ چہار درویش، پیلا پانی، جیٹھانی، ماں صدقے، دل تو بھٹکے گا، وغیرہ شامل ہیں۔ زی ٹی وی کے لیے 133 اقساط پر مشتمل سیریل داستان، بھی ان کے کریڈٹ پر ہے جو شارجہ میں شوٹ کیا گیا۔

ان دنوں خالد بن شاہین چیئر مین فلم سنسر بورڈ سندھ کی حیثیت سے کافی فعال دکھائی دیتے ہیں۔ بحیثیت چیئرمین ان کے بعض اقدامات اور بیانات کی گونج اسلام آباد کے ایوانوں میں بھی سنی جارہی ہے۔
س: آپ بطور چیئرمین سندھ فلم سنسر بورڈ، اس عہدے سے وابستہ ذمے داریوں کو کس طرح نبھارہے ہیں؟
ج: کسی بھی عہدے پر فائز ہونے کے بعد آپ پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ ان ذمے داریوں کو نبھانے کے لیے کیا انداز اپناتے ہیں۔ طاقت اور اختیار کسی عہدے میں نہیں، اس انسان میں ہوتا ہے جس کویہ سب ملتا ہے، وہ درست اور غلط کا فرق سمجھتے ہوئے فیصلے کرتا ہے۔ میں نے اس عرصے میں جو محسوس کیا، وہ یہ ہے کہ موجودہ ذمے داری اور یہ کام اتنا آسان نہیں ہے، یہ انتہائی حساس نوعیت کی ذمے داری ہے۔ اس کام کی حساسیت کو گہرائی سے سمجھا نہیں گیا اور ماضی کے تناظر میں جس طرح اس شعبے اور عہدے کو اہمیت ملنی چاہیے تھی، وہ نہیں د ی گئی۔ اس کام کو پہلے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا لیکن اب امید ہے کہ بتدریج صورتحال بہتر ہوگی۔ فلمی صنعت بھی اپنے قدموں پر کھڑ ی ہوچکی ہے۔ ہمارے فلم سازوں بشمول فنکاروں نے ثابت کر دیا ہے، ہم دوبارہ سے اچھی فلمیں بنانے کے قابل ہوگئے ہیں۔ ماضی کی شاندار کامیابیوں کے بعد کچھ عرصہ خاموشی رہی، اب ہماری فلمیں پھر سے کامیابیاں سمیٹ رہی ہیں۔ دی لیجنڈ آف مولا جٹ، نے پوری دنیا میں ہماری فلم انڈسٹری کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ اس فلم نے انڈین فلم میکرز کی بھی آنکھیں کھول دی ہیں۔ اب حکومتی سطح پر بھی اس شعبے کو مزید سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کامیابیوں کا تسلسل جاری رہ سکے۔ ہمیں بحیثیت پاکستانی اپنی بہترین صلاحیتوں کو عالمی سنیما کے سامنے ثابت کرنا ہے، جس طرح دنیا بھر کے سنیما میں جدید فلمیں بن رہی ہیں، وہ اپنی ثقافت کو دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں، ہمیں بھی ان کے دو بدو اسی طرح کام کرنا ہے تاکہ ہمارا سنیما بھی دنیا بھر کے فلم بینوں کے سامنے اپنی جداگانہ شناخت حاصل کرسکے اور ہم پروپیگنڈے پر مبنی سنیما کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔

س: آپ بحیثیت چیئرمین فلم سنسر بورڈ سندھ کسی بھی فلم کو نمائش کی اجازت دیے جانے یا روکے جانے پر کس طرح فیصلہ کرتے ہیں؟
ج: صرف اکیلا چیئرمین کچھ نہیں ہوتا، ہمارا ایک جامع بورڈ ہے، جس کے اراکین، فلم کے مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، جب وہ کسی فلم کو نمائش کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو دراصل وہی فیصلہ چیئرمین کا بھی ہوتا ہے۔ ہم سب مل کر فیصلہ کرتے ہیں پھر اس فیصلے پر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے بھی ہوتے ہیں۔ میرے عرصے کے دوران بھی کچھ ایسے موقع آئے جب ہم کسی فلم کے بارے میں فیصلہ کر چکے تھے مگر اس پر اسلام آباد یا پنجاب بورڈ کی طرف سے اعتراضات آئے، ہم نے اس پر ہم آواز ہو کر کہا کہ یہ ہم سب کا اجتماعی فیصلہ ہے، ہم نے پوری ذمے داری سے نبھایا، کیونکہ ہم غیرجانبدارانہ فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کی مثال جوائے لینڈ، جیسی فلمیں ہیں۔
س: پاکستان میں تین فلم سنسربورڈز کام کر رہے ہیں، اس میں آپ کے بورڈ کی حیثیت کیا ہے اور فیصلہ کس کی مرضی سے ہوتا ہے، کیونکہ فلم میکرز کے ساتھ اس نوعیت کی ذیادتی کے واقعات عام ہیں کہ سندھ اور پنجاب بورڈز نے فلم پاس کردی لیکن فیڈرل بورڈنے فلم پر اعتراض اُٹھادیا جس کے نتیجے میں پروڈیوسرز کو مالی نقصان برداشت کرنا پڑا؟
ج: میں نے جب یہ منصب سنبھالا تو مجھے بھی یہ پتہ چلا کہ تین الگ اور خود مختار سنسربورڈز پنجاب، سندھ اور اسلام آباد فعال ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کے تحت سندھ اور پنجاب کے فلم سنسر بورڈ زآزادانہ حیثیت میں اپنا کام کررہے ہیں اور یہ دونوں بورڈز کسی کوجوابدہ نہیں ہیں۔ ویسے بھی ان اداروں کا کام فلم سازوں کی مد د کرنا اور فلمی صنعت کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے، بجائے اس کے ہم اس کو بیوروکریسی کے دفتری تکلفات میں الجھائیں۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے فلم میکرز کو آسانی ہو، وہ ملک کے جس حصے میں بھی کام کر رہے ہوں، وہیں پر اپنی فلمیں سنسر کروا سکیں۔ آئینی طور پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ جس طرح دنیا بھر میں فلم سازی کے مرکز میں ہی سنسر بورڈکا ہیڈ آفس ہوتا ہے تو کراچی کو سنسر بورڈ کا مرکز ڈیکلیئر کیا جائے اور پنجاب بورڈ ہمارے فیصلوں کو اینڈورس کرے۔ اسی طرح جو پروڈیوسرز پنجاب بورڈ سے فلم سنسر کرانا چاہیں، انہیں لاہور میں ہی سنسر سرٹیفیکٹ مل جائے، ہمارا صوبہ اسی سرٹیفیکٹ کو اینڈورس کردے گا۔ دنیا بھر میں اسی طرح ہوتا ہے، بولی وڈ کا مرکز ممبئی ہے تو کیا وہ اپنی فلمیں دہلی سے سنسر کراتے ہیں۔ اسی طرح وہاں اُن کے ریجنل بورڈز کام کررہے ہیں جو ریجنل فلموں کو سنسر سرٹیفیکٹ جاری کرتے ہیں۔

س: پاکستان میں دو طرح کے مکتبہ فکر ہیں، ایک کا خیال ہے، پاکستان میں انڈین فلمیں ریلیز ہونی چاہئیں تاکہ مقامی فلم سازوں کو بھی محنت کرنی پڑے اور وہ معیاری کام کریں، جبکہ دوسرے طبقہ کا خیال ہے کہ انڈین فلموں کی پاکستان میں نمائش نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے مقامی ہنرمندوں کا حق مارا جاتا ہے، اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
ج: اس بات کے جواب کے لیے ماضی میں جانا پڑے گا۔ پاکستان کے نامور پہلوان ”بھولو برادران“ ہوتے تھے، وہ پاکستان میں ہی کشتی لڑتے اور خطابات وغیرہ بھی جیت لیا کرتے تھے، پھر ان کی کشتی ایک جاپانی پہلوان ”انوکی“ سے ہوئی، جس میں ان کو شکست ہوئی تو انہیں اندازہ ہوا، وہ کتنے پانی میں ہیں۔ تب انہیں یہ احساس بھی ہوا کہ ہم اگر دنیا میں نہ نکلے تو نئے علوم سے محروم رہیں گے۔ اس مثال کی روشنی میں میرا جواب واضح ہے، انڈین فلموں کو یہاں نمائش کے لیے پیش ہونا چاہیے تاکہ ہم ان سے مقابلہ کرنا سیکھ سکیں، بس ایسی فلمیں ریلیز نہیں ہونی چاہئیں جن میں تعصب اور تشدد ہو کیونکہ ہمارا معاشرہ بڑی مشکل سے عدم تشدد کی طرف آیا ہے، اس ماحول کو برقرار رکھنا چاہیے، یہ کام فلم سازوں اور تقسیم کاروں کا ہے کہ وہ ان پہلوﺅں سے فلموں کی نمائش میں اپناذمے دارانہ کردار نبھائیں۔
س: ایک خیال موجودہ پاکستانی فلمی صنعت کے بارے میں یہ ہے کہ انہیں جدید ٹیکنالوجی، گرافکس اور دیگر سہولتوں سے استفادہ کرنا تو آگیا ہے مگر جو چیز ابھی تک غائب ہے، وہ ”فلم کی کہانی اور موضوعات“ ہیں، اس پر آپ کیا کہتے ہیں۔
ج: دیکھیں کسی بھی فلمی صنعت کی ضرورت دو طرح کی فلمیں ہوتی ہیں، ایک تو کمرشل اور دوسری آرٹ فلمیں، جن میں کہانی بھی ہوتی ہے اور موضوع بھی لیکن کمرشل فلمیں دیگر اور پہلوﺅں سے بنائی جاتی ہیں، اب اس وقت ہماری موجودہ فلمی صنعت جس مرحلے میں ہے، وہ آرٹ موویز بنانے کے قابل نہیں اور ہمیں کمرشل فلموں کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ باکس آفس مضبوط ہو، پروڈیوسرز کا مالی طور پر نقصان نہ ہو۔ انڈیا میں صورتحال الگ ہے، وہ کمرشل فلموں سے اتنا کما لیتے ہیں کہ ایک آدھ آرٹ فلم بھی بنا لیتے ہیں، چاہے ان کا اس سے کمانا مقصود نہ ہو۔ ہمارے ہاں تو ابھی کمرشل فلموں کی طرف ہی جانا پڑے گا، جب سلسلہ چل پڑے گا تو یہی فلم میکرز آرٹ فلمیں بھی بنائیں گے۔ ہمارا فلمی ماضی بہت سنہری تھا، آج ہمارے پاس کل ملا کر شاید 150 اسکرینز ہیں جن پر فلم چلتی ہے، جبکہ ماضی میں 1100 یا 1200 اسکرینز ہوا کرتی تھیں۔ اب ہماری فلم پاکستان میں اور بیرون ملک کافی دیر تک چلتی ہے تو پھر کماتی ہے، اب دیکھیے انڈیا میں ہزاروں کی تعداد میں اسکرینز ہیں، ان کے لیے پیسے کمانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

س:چیئرمین فلم سنسر بورڈ سندھ کی حیثیت سے مستقبل میں کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس سے فلمی صنعت کو فائدہ ہوسکے؟
ج: میں ہوں یا میری جگہ کوئی اور، جو بھی اس عہدے پر فائز ہوگا، اس کو اور حکومت کو شانہ بشانہ چلنا ہوگا۔ ارباب اختیار کو اس کام کی باریکی سمجھنا ہوگی، فلم میکرز کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی تاکہ دنیا بھر میں ہمارا مثبت تصور جائے۔ فلموں کے ذریعے دکھانا ہوگا کہ پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے، پاکستانی فلموں کی مقبولیت کے ذریعے ہی پاکستان کی ترقی جڑی ہوئی ہے، اس لیے ہمیں اپنی اپنی ذمے داریوں کو نبھاناہوگا۔ پروپیگنڈہ سنیما کا جواب دینا آنا چاہیے، یہ سب ہمارے کرنے کے کام ہیں۔
س: موجودہ دور میں بھی سنسر بورڈ کے قوانین تقریباً وہی ہیں جو ضیاالحق کی مارشل لا حکومت نے لاگو کیے تھے، کیا ان قوانین کوموجودہ دور کے تناظر میں اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی؟
ج: سنسرشپ ایکٹ کو اپ ڈیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے، اس بات کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور انہیں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے، میں اس بات سے متفق ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے فلم ساز بہت ڈر کر فلم بنارہے ہوتے ہیں، انہیں ہر وقت خطرہ رہتا ہے کہ نہ جانے کون سی بات کی وجہ سے ان کی فلم کا فلاں حصہ سنسر نہ ہوجائے، جس سے ان کا مالی اور تخلیقی نقصان ہوتا ہے۔ یعنی سیدھے لفظوں میں سب کے لیے ایک جیسی پالیسی ہونی چاہیے۔
س: اداکاری کب اور کیسے شروع کی ؟
ج: میں بہت کم عمر تھا جب ٹیلی وژن پر چلا گیا تھا لیکن جب والد صاحب کو پتہ چلا تو بہت ڈانٹ پڑی، جس کی وجہ سے ایکٹنگ کیرئیراس وقت شروع نہ کرسکا، پھربنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب بینکنگ کیرئیر شروع ہوا تو اپنے شوق کی خاطر دوبارہ ٹیلی وژن سے ناطہ جوڑا۔ 80 کی دہائی میں میرا پہلا کھیل ”برزخ“ تھا، اس میں معروف اداکار شفیع محمد کے ساتھ میرا کردار تھا، وہ مریض تھے اور میں ان کا سائیکیٹرسٹ تھا، اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ برزخ، کے ڈائریکٹر اقبال انصاری صاحب تھے، بعد میں ان کے ساتھ انار کلی، بھی کیا۔




س: آپ کا ایک بڑا پہلو بینکنگ کیرئیر ہے اور دوسرا پہلو شوبز سے وابستگی، ان پہلوﺅں سے بھی کچھ قارئین کو معلومات فراہم کیجیے۔
ج: جی ہاں، بینکنگ سیکٹر میں گزشتہ 35 برسوں سے مصروف عمل ہوں۔ پاکستان اور بیرون ملک کئی اہم عہدوں پر فائز رہا، جتنا پرانا تعلق میرا بینکنگ کے شعبے سے ہے، اتنے ہی عرصے سے شوبز سے بھی وابستہ ہوں کیونکہ میں ایک بینکر کے طور پر جنون کی حدتک اپنے کام سے محبت کرتا رہا اور اس میں ترقی کی منازل درجہ بہ درجہ طے کر تارہا، جبکہ شوقیہ طورپرماڈلنگ اور اداکاری کرتا تھا مگر میں ایک سنجیدہ بینکر تھا جس کے لیے میں نے بہت جان ماری اور مجھے اس کا فائدہ بھی ہوا۔ میں جب اسسٹنٹ وائس پریزیڈنٹ بن رہا تھا ایک بینک کا تو اسی وقت ساتھ ساتھ میرے ڈرامے بھی پاکستان ٹیلی وژن پر چل رہے تھے۔ دس بارہ سیریلز کرلیے تو میری پوسٹنگ دبئی ہوگئی، وہاں میں نے ایک انڈین ڈرامے ”داستان“ میں کام کیا جس کے ڈائریکٹر فاروق مسعودی تھے، یہ سیریل شارجہ میں شوٹ ہوا اور 1995 میں زی ٹی وی سے آن ایئر ہوا۔ یہ دو بزنس ٹائیکونز کی رائیولری کی کہانی تھی، اس کی کاسٹ میں پرمیت سیٹھی، ناؤنی پریہار، اشیش ودیارتھی، وریندرا سکسینا، سریش اوبرائے، نکی انیجا والیا وغیرہ لیڈنگ کاسٹ میں تھے، یہ سیریل قریباً دو سال چلا۔ فاروق مسعودی نے ہی ایک فلم ”رہ گزر“ میں کام کروایا۔ گاہے بگاہے پاکستانی ڈراموں میں بھی کام کیا۔ جو ڈرامے مجھے یاد ہیں، ان میں ٹیلی پلے حسینۂ عالم، تھا جس کی کاسٹ میں انیتا ایوب، امبرایوب اور ایلیا شاہ شامل تھیں۔ ایک تاریخی سیریل بابر، کیا ،جس کے ڈائریکٹر قاسم جلالی تھے، فاطمہ ثریا بجیا اس کی رائٹر تھیں، اس میں، میں نے سردار ملک احمد یوسف زئی کا کردار کیا۔ حیدر امام رضوی کا ایک سیریل ننگے پاؤں، جوکہ این ٹی ایم پر چلا، اس میں ڈی آئی جی کا رول کیا۔حیدر صاحب کا ہی ایک سیریل ہوائیں، بھی کافی پاپولر ہوا۔ سمیجو صاحب کا ایک سیریل یادیں، این ٹی ایم پر چلا۔ بجیا کا ایک سیریل گھر ایک نگر، بھی کافی مشہور ہوا۔ اقبال لطیف صاحب کی ایک سیریز زندگی، میں وکیل کا کردار تھا۔ قاسم جلالی صاحب کے ساتھ پیلا پانی، بھی یادگار رہا لیکن جلالی صاحب کے ساتھ میرا جو سیریل سب سے زیادہ کامیاب رہا، اس کے ڈائریکٹر تو حیدر امام رضوی تھے البتہ یہ سیریل قاسم جلالی صاحب سے منسوب ہوگیا۔ باادب باملاحظہ ہوشیار، میں جلالی صاحب نے اپنی اداکاری سے ایسی جان ڈال دی کہ یہ ڈرامہ انہی کی وجہ سے یاد رکھا گیا۔ میں نے اس میں شہزادہ عُزمی کا کردار ادا کیا۔ اس کے رائٹر اطہر شاہ خان جیدی تھے۔ میری ایک سیریز قصہ چہار درویش، بھی کافی پاپولر ہوئی۔ حالیہ برسوں میں علی رضوی مرحوم کا سیریل ساحل، اے آر وائی کے لیے کیا۔ ٹی وی ون کے لیے رمضان سیریل جنت، کیا جس کے ڈائریکٹر فرحان تجمل تھے۔ حسیب علی کے ساتھ جیٹھانی، اور ماں صدقے، حسیب حسن کے ساتھ جیو کے لیے سیریل دل تو بھٹکے گا، عاصم علی کے ساتھ ٹی وی ون کے لیے تو جو نہیں، اور بے شمار کام ہے لیکن یاد نہیں رکھ پاتا۔ کئی کمرشلز بھی کرچکا ہوں جن میں صبا قمر اور شائستہ لودھی کے ساتھ ویسٹرن یونین اور نیشنل بنک کے کمرشلز کافی چلے۔ ساتھ ساتھ پروڈکشن بھی کر رہا ہوں۔
س: آپ نے بینکنگ کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ہے؟
ج: مجھے اپنا کیرئیر بنانے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بھی شوق رہا۔ میرے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا عنوان ”رول آف فارن ریمنٹنسزاِن پاکستانی اکانومی“ تھا۔ یہ 2014 میں مکمل ہوا۔ اس سے پہلے ایم بی اے اور دیگر کئی ڈگریاں حاصل کر چکا تھا۔ عربی زبان پر عبور بھی اسی تعلیمی جنون کا حصہ تھا۔ عربی زبان میں ابتدا سے ہی دلچسپی تھی، میں زمانہ طالب علمی میں عربی پڑھتا اور پڑھاتا رہا۔ میں حکومت پاکستان کا عربی مترجم بھی رہا۔ اسی توسط سے کئی اہم شخصیات کا مترجم رہا، جن میں متعدد پاکستانی اعلیٰ شخصیات کے علاوہ امام کعبہ اور دبئی کی رائل فیملی بھی شامل ہے۔

س: آپ نے کئی جہتوں میں کام کیا ہے، کون ساشعبہ سب سے عزیز ہے؟
ج: میں کبھی بھی دل سے اداکاری کو نہیں مانتا تھا اور بینکنگ کو زیادہ اہمیت دیتا تھا لیکن اتنے برس گزرنے کے بعد مجھے اندازہ ہواکہ میری پہچان اور حوالہ شوبز ہی بنی۔ میڈیا اور شوبز میرے دل سے زیادہ قریب ہوگیا ہے۔ مجھے دنیا بھر میں شوبز سے زیادہ پہچان ملی، جس سے مجھے اندازہ ہوا، میڈیا اور شوبز سب سے اہم چیز ہے، کسی بھی عہدے پر تو لوگ آتے جاتے رہتے ہیں لیکن شوبز کی پہچان سے آپ کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتے۔
س: فلم کے شعبے میں بھی اداکاری کی پیشکش ہوئی؟
ج: جن دنوں پاکستان ٹیلی وژن پر میرا ڈراما سیریل ”باادب با ملاحظہ ہوشیار“ چل رہا تھا تو حیدر امام رضوی نے مجھے بتایا کہ ہدایت کار الطاف حسین نے آپ کو اپنی نئی فلم میں کاسٹ کرلیا ہے۔ اس زمانے میں جو فلم کا ماحول تھا، اس کو دیکھتے ہوئے اس پیشکش کو منع کر دیا تھا، میرا شوق صرف ٹیلی وژن کی حد تک ہی محدود رہا، انڈین فلموں میں کام کرنے کا تھوڑا بہت شوق تھا، بلکہ میں 1991 میں انڈیا بھی گیا۔ برکھارائے کے ہاں ٹھہرا، وہ ہمارے ایک مشترکہ دوست کی جاننے والی تھیں، اس وقت پاکستانی اداکارہ انیتا ایوب، زیبا بختیار، نگہت چوہدری اور دیگر کئی فنکار انڈیا میں موجود تھے مگر میری بات زیادہ آگے نہ بڑھ سکی۔




س: آپ ٹی وی پروڈکشن بھی کررہے ہیں، اس حوالے سے کچھ بتائیے۔
ج: میں نے ”ساحل“ اور”یادیں“ دو ڈرامہ سیریلز پروڈیوس کی تھیں جو 2005 میں نجی چینل پر چلیں۔ ”بے چاری نادیہ“ کے عنوان سے نجی چینل پر ایک سوپ حال ہی میں پروڈیوس کیا، جس کی ایک سو تیس قسطیں تھیں۔ یہ میری اور اعجاز اسلم کے پروڈکشن ہاﺅس کی مشترکہ کاوش تھی۔ ایک اور ڈرامہ سیریل ”تو جو نہیں“ بھی ہماری مشترکہ پروڈکشن تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ڈراموں میں کردار نبھا رہا ہوں، جن میں سے کئی ڈرامے آن ایئر اور کئی زیرتکمیل ہیں۔
س: موجودہ دور میں فلمی منظر کافی بدل گیا ہے،اب فلم میں کام کرنے یا پروڈیوس کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
ج: میں نے اس حوالے سے دوسال ریسرچ ورک کیا اور پھر میری یہ سمجھ میں آیا کہ ابھی چانس نہیں لے سکتا، کیونکہ میرا سارا پیسہ بہت محنت سے کمایا ہوا ہے، اس کا ٹیکس بھی دیتا ہوں تو اس طرح نہ ہو کہ کسی ایسے جھٹکے میں وہ سارا سرمایا بہہ جائے۔ میں نے ساری زندگی ملازمت کی ہے لہٰذا میرے ریسرچ ورک سے مجھے اندازہ یہ ہوا کہ ابھی مجھے فلم کے شعبے میں بڑی پروڈکشن نہیں کرنی چاہیے، البتہ اچھے اسکرپٹ کی تلاش میں ہوں، منفردموضوع کے ساتھ کم بجٹ والی کوئی فلم ہو تو میں ضرور بنانا چاہوں گا۔ جہاں تک اداکاری کی بات ہے تو فلم میں کسی اچھے کردار کی پیشکش ہوئی تو اس پر ضرور غور کروں گا۔ اب تو اداکاری اور سنسر بورڈ کو ہی کل وقتی جاب سمجھ کر نبھارہا ہوں۔