ایوریڈی پکچرز کا نام فلمی صنعت میں ایک معتبر حوالہ رکھتا ہے۔ اس ادارے کا ایک شان دار ماضی اور سنہری تاریخ ہے۔ ایوریڈی پکچرز کے بانی جگدیش چند آنند تھے جو انتہائی دیانت دار، اصول پسند، محبت وطن فلم میکرمشہور تھے۔ 1946 میں اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ ایوریڈی نے گزشتہ 70 سالوں میں 650 سے زیادہ ہالی وڈ، بولی وڈ اور زیادہ تر پاکستانی فیچر فلمیں ریلیز کی ہیں۔ جبکہ 250 سے زیادہ ٹی وی شوز اور متعدد تفریحی پروگرام بھی پروڈیوس کیے ہیں۔ ایک زمانے میں ایوریڈی پکچرز مغربی اور مشرقی پاکستان میں کام کرنے والی واحد فلمی کمپنی تھی۔ جگدیش چند آنند کا شمار کامیاب ترین فلم میکرز میں ہوتا تھا۔ انہوں نے پاکستان فلم انڈسٹری کو بام عروج پر پہنچانے کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ ایوریڈی پکچرز نے ابتدا میں کئی سال تک بھارتی فلموں کی ڈسٹری بیوشن کی تاہم 65 کی پاک بھارت جنگ کے بعد پڑوسی ملک کی فلموں پر پابندی کے نتیجے میں ایوریڈی پکچرز نے پاکستان فلم انڈسٹری کی ترقی اور ملک میں نئے سنیما گھروں کو سپورٹ کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

جگدیش صاحب نے پاکستان فلم اور سنیما انڈسٹری کے لیے ترقی کی نئی راہیں ہموار کیں۔ انہوں نے فلم سسی(1954)، سے باقاعدہ پاکستان میں فلم پروڈکشن کا آغاز کیا۔ اس فلم کے پروڈیوسر جگدیش چند آنند اور ڈائریکٹر داؤد چاند تھے۔ یہ کلاسک رومانوی کہانی پر مبنی کاسٹیوم فلم تھی۔ مرکزی کردار سدھیر اور صبیحہ خانم نے ادا کیے تھے۔ یہ پاکستان کی پہلی سپر ہٹ گولڈن جوبلی فلم تھی۔ پہلی فلم کی کامیابی کے بعد ایوریڈی پکچرز نے پاکستان فلم انڈسٹری میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے حوالے سے پاکستانی بزنس کمیونٹی کو فلم اور سنیما انڈسٹری میں سرمایہ کاری میں شراکت داری کے لیےراغب کیا۔


ایوریڈی پکچرز نے کراچی کے علاوہ لاہور کے فلمی مرکز لکشمی چوک میں اپنا وسیع وعریض آفس قائم کیا جو فلم انڈسٹری کا مرکزی آفس سمجھا جاتا تھا۔ 1977 میں جب ایوریڈی پکچرز کے بانی جگدیش چند آنند کا انتقال ہوا، تو سب نے کہا کہ اب ایوریڈی پکچرز ختم ہوجائے گا مگر جگدیش چند آنند کے صاحب زادے ستیش چند آنند نے اپنے والد کی جگہ ذمہ داری سنبھالی اور ایوریڈی پکچرز کے نام اور بینر کو مزید آگے بڑھایا۔ انہوں نے ہر مشکل دور میں پاکستان فلم انڈسٹری کو پروڈکشن اور ڈسٹری بیوشن کے ذریعے سپورٹ کیا۔ نئے ہزاروی سال میں بھارتی فلموں کی امپورٹ کو قانونی دائرہ کار میں شامل کرکے پاکستانی سنیما گھروں کی رونقیں بحال ہوئیں تو اس موقع پر بھی ایوریڈی پکچرز نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ایوریڈی پکچرز نے ٹی وی پروڈکشنز میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اس وقت بھی متعدد ٹی وی چینلز پر ایوریڈی پکچرز کے ڈرامے کامیابی کے ساتھ آن ایئر ہیں۔ فلم سے متعلق میگزین شو ’باکس آفس‘ ہر اتوار کی شام پی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے۔ اس خاندان کی تیسری نسل یعنی ستیش صاحب کی صاحب زادی تانیا آنند برطانیہ اور بین الاقوامی دفاتر کی سربراہ بھی ہیں۔
ستیش چند آنند کسی ٹی وی چینل یا پرنٹ میڈیا کو انٹرویو دینے سے گریز کرتے ہیں مگر میٹرو لائیو کے لیے راقم کی دیرینہ فرمائش پروہ اس بات چیت کے لیے آمادہ ہوئے۔

میٹرولائیو: 50 کی دہائی میں ایوریڈی پکچرز کی بنیاد آپ کے والد جگدیش چند آنند نے رکھی تھی۔ آپ نے ایوریڈی پکچرز کو کب جوائن کیا؟ شوق تھا یا بس والد کے بزنس کو آگے بڑھانے کے لیے فیملی بزنس کو جوائن کیا؟
ستیش چند آنند: سب سے پہلے تو آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے میٹرو لائیو کی جانب سے میرے ساتھ پاکستان فلم انڈسٹری اورسنیما کے مستقبل اور ماضی کے حوالے سے یہ نشست رکھی۔ میں انٹرویو وغیرہ دینے کا قائل نہیں ہوں مگرعمرخطاب صاحب اور آپ سے دیرینہ دوستی اور تعلق کی وجہ سے انکار نہیں کرسکا۔ میں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کے اس کاروبار کو مزید آگے بڑھایا۔ ہمارا فلم سے کافی لگاﺅ تھا۔ میں نوجوانی میں والد کے آفس ان کے ہمراہ جاتا تھا۔ اس کام کو قریب سے دیکھا اور اپنے والد سے سیکھا بھی ہے۔ 1977 میں ایوریڈی پکچرز کی باگ ڈورسنبھالی اور آج تک اس کاروبار سے جڑا ہوں اور یہی کام روز اول سے میرا شوق اور پروفیشن ہے۔

میٹرولائیو: ماضی میں ایوریڈی پکچرز کا نام فلم پروڈکشن اور ڈسٹری بیوشن میں سر فہرست تھا مگر اب دیگر ادارے اس شعبے میں آپ سے آگے نکل گئے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟
ستیش چند آنند: میں اس بات سے بالکل متفق ہوں۔ اب فلم پروڈکشن اور تقسیم کاری بہت مشکل اور رسکی کام بن چکا ہے۔ اب پروڈیوسرز خود ڈسٹری بیوٹرز اور ڈائریکٹر بن گئے ہیں۔ اب فلمیں ایک ایک شو پر چل رہی ہیں۔ گزشتہ دور میں فلموں کی ریلیز کا ایک مکمل پلان ہوا کرتا تھا۔ سنگل اسکرین سنیماؤں میں ہاﺅس فل کے بورڈ اکثر نظر آتے تھے۔ عوام کا رش سنیما گھروں میں دکھائی دیتا تھا۔ آج جدید سنیما گھروں کے ٹکٹ ریٹس کافی مہنگے ہیں، جس کی وجہ سے عوام بالخصوص مڈل کلاس نے سنیما آنا چھوڑ دیا ہے۔ کسی زمانے میں سنیما بینی غریبوں کی واحد تفریح تصور کی جاتی تھی، ٹانگے والا، رکشے والا، ریڑھی والا، ہر بندہ فلم دیکھ لیتا تھا۔ اب یہ لگژری میں آگیا ہے۔ اگر ٹکٹ کے ریٹ کم ہوں گے تو عام فلم بین اپنی فیملی کے ہمراہ سنیما گھروں کا رُخ کریں گے اور سنیما انڈسٹری اور فلمی صنعت مزید ترقی کرے گی۔ میری نظر میں ماضی کا سنیما ہم سب کے لیے ذیادہ فائدے کا اور منافع بخش کاروبار تھا۔

میٹرولائیو: بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ تقسیم کاروں نے جو ماضی میں بویا ہے، آج وہی کاٹ رہے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ماضی میں آپ لوگ فلم سازوں اور سنیما مالکان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر سارامنافع خود نچوڑ لیتے تھے، آج سنیما مالکان آپ کے ساتھ وہی کچھ کررہے ہیں؟
ستیش چند آنند: آپ سچ کہہ رہے ہیں۔ آج کل فلم بزنس سراسر گھاٹے کا سودا اور فلم پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹرز کے لیے غیر منافع بخش کاروبار بن کر رہ گیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس ایک نام نہاد فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن ہے مگر ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کا وجود نہیں رہا۔ سنیما مالکان کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہوگا ورنہ یہ انڈسٹری جلد ختم ہوجائے گی۔ ہمیں ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کو صحیح معنوں میں فعال کرنا ہوگا۔ آپ نے دیکھا کہ حال ہی میں تمام ڈسٹری بیوٹرز کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ چھوٹی عید پر پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں، کسی کو پراپر شوز نہیں ملے۔ سب کا نقصان ہوا۔ پھر بڑی عید پر ہمیں قائد اعظم زندہ باد، کی ریلیز میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اب دی لیجنڈ آف مولا جٹ، کی مثال دیکھ لیں۔ 30ستمبر کو اس فلم کی بکنگ آفیشل اوپن کردی گئی لیکن کئی سنیماؤں نے شوز ہی نہیں دیے۔ کروڑوں روپے کی فلم ہے، اس کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا یہ فلم انڈسٹری کے لیے قابل قبول صورت حال ہوسکتی ہے۔
میٹرولائیو: ما ضی میں ایوریڈی پکچرز نے بے شمار فلمیں پروڈیوس کیں۔ اس زمانے میں فلموں کا بجٹ کتنا ہوتا تھا۔ سنیما، پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹرکا شیئرکس تناسب سے ہوتا تھا؟




ستیش چند آنند: ماضی میں فلم کا بزنس ہم سب کے لیے ایک منافع بخش کاروبارتھا۔ مجھے یاد ہے ہانگ کانگ کے شعلے، ہم نے اس زمانے میں 15 لاکھ اور بنکاک کے چور17 لاکھ روپے میں بنائی اور ان فلموں نے اس زمانے میں 60 سے70 لاکھ روپے کا کاروبار کیا تھا، جس میں سب کو منافع کے ساتھ بونس بھی ملتا تھا۔ ہاتھی میرے ساتھی 40 لاکھ روپے کی فلم تھی، اس کا بزنس 90 لاکھ روپے کا تھا۔ دیوانے تیرے پیار کے، کا صرف کراچی میں بزنس 50 لاکھ روپے کا تھا۔ اسی طرح چیف صاحب، نے ایک کروڑ روپے کا بزنس کیا تھا۔ ہر لحاظ سے فلم بزنس ایک بہترین کاروبار تھا۔ آج کا باکس آفس غیر معیاری فلموں اور مہنگے ٹکٹ ریٹس کی وجہ سے نقصان کا باعث ہے۔
میٹرولائیو: آپ کی نظر میں بھارتی فلموں کی نمائش سنیما گھروں کی رونقیں بحال کرنے میں اورسنیما انڈسٹری کے فروغ کے حوالے سے سود مند ہے؟
ستیش چند آنند: میری نظر میں سنیما انڈسٹری کی بحالی کے حوالے سے بھارتی فلموں کی نمائش سو فیصد ضروری ہے۔ میں ایک محب وطن پاکستانی ہوں مگر اس بات سے انکار نہیں کہ ہمارے پاکستانی ہر نئی انڈین فلم کو کسی نہ کسی ذرائع سے ضرور دیکھتے ہیں۔ اگر ہم ایک بار پھر صرف کمرشل انڈین فلمیں قانونی طریقے سے پاکستانی سنیما گھروں میں پیش کریں گے تو اس سے سنیما اور فلم انڈسٹری کو فائدہ ہوگا۔
میٹرولائیو: کیا وجہ ہے کہ کسی زمانے میں کراچی اور حیدرآباد میں سب سے زیادہ سنیما گھر تھے لیکن اب لاہور اور پنجاب کے دیگر بڑے شہر ہم سے سنیماﺅں کی تعداد میں آگے ہیں۔ آپ کا ادارہ کراچی میں نئے سنیماؤں کی تعمیرمیں سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتا؟
ستیش چند آنند: آپ نے اچھا سوال کیا ہے۔ کراچی میں سو سے زائد سنیما ہوا کرتے تھے مگراب کراچی پاکستان کے دیگر شہروں سے بالخصوص لاہور سے پیچھے نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی میں عوام کو سیاست اور مہنگائی نے تفریح سے دور کردیا ہے۔ مگر اب مجھے لگتا ہے کہ ہالی وڈ فلموں نے کراچی کی عوام کو فلم بینی کی جانب راغب کردیا ہے۔ جہاں تک ایوریڈی پکچرز کی سنیما بزنس میں سرمایہ کاری کی بات ہے تو اس حوالے سے میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ میں فلم اور ٹی وی پروڈکشن اور تقسیم کاری میں ہی بے حد مصروف رہتا ہوں۔
میٹرولائیو: جس طرح آج بھی ہم بھارت کی پرانی کلاسک فلمیں ٹی وی یا ڈیجیٹل میڈیا پر دیکھتے ہیں، ان کی پرنٹ اور ساﺅنڈ کوالٹی بہتر نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس ہماری پاکستانی کلاسک فلمیں غیر معیاری پرنٹ کوالٹی کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ کیا آپ کا ادارہ پرانی پاکستانی فلموں کو نئے انداز میں یوٹیوب پر پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟

ستیش چند آنند: مجھ سے اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ لوگ پاکستانی فلموں بالخصوص ماضی کی سدا بہار فلموں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان پر ریسرچ کرتے ہیں۔ مگر افسوس ہم نے اپنی فلموں کے پرنٹس کو محفوظ نہیں رکھا۔ ان تمام فلموں کے خام پرنٹس گوداموں میں رکھے رکھے گل سڑ گئے۔ جس طرح بھارت نے اپنی فلم انڈسٹری کو گورنمنٹ سطح پر سنبھالا، ہم نے اپنی فلموں کے ریکارڈ کو ضائع کردیا ہے، جس کے لیے ہم سب برابر کے مجرم ہیں۔
میٹرولائیو: نئی حکومت نے فلم انڈسٹری کو جو مراعاتی پیکج دیا ہے، آپ اس سے مطمئن ہیں؟
ستیش چند آنند: میری نظر میں موجودہ گورنمنٹ نے جو مراعات ہمیں دی ہیں، وہ آج تک کسی حکومت کی جانب سے نہیں ملی ہیں۔ اس سے فلم اور اس سے جڑے لوگوں کو بہت زیادہ فائدہ ملے گا۔
میٹرولائیو: ایوریڈی پکچرز کے آنے والے پروجیکٹس پر کچھ روشنی ڈالیں؟


ستیش چند آنند: اس وقت ہمارا ادارہ ذیادہ تر ٹی وی ڈرامے پروڈیوس کررہا ہے۔ یہ کام ہمارے جنرل منیجر انیس خان دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم فلموں سے متعلق اپنے ٹی وی پروگرام ”باکس آفس“ کو نئے انداز میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک میگا بجٹڈ فلم پر بھی کام ہورہا ہے۔ یہ فلم بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے بنارہے ہیں کیونکہ میں نے اندازہ لگایا ہے کہ اب چھوٹے بجٹ کی کوئی فلم نہیں چلے گی۔ اب صرف وہی فلم چلے گی جو انٹرنیشنل مارکیٹ کو مد نظر رکھ کر بنائی جائے گی۔
میٹرولائیو: سنا ہے آپ اپنی بھانجی جوہی چاؤلہ کے ساتھ مل کر انڈین اور پاکستانی آرٹسٹوں کو لے کر یہ فلم پلان کررہے ہیں؟
ستیش چند آنند: جوہی چاؤلہ ایک تجربہ کار پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹر ہیں مگر میں یہ پروجیکٹ ان کے ساتھ نہیں کررہا ہوں البتہ مشورہ کرکے انہیں اس پروجیکٹ میں شامل ضرور کروں گا۔ میری نئی فلم پاکستان فلم انڈسٹری کی مہنگی ترین فلم ہوگی۔