کراچی کا قدیم ترین علاقہ لیاری جو کہ کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کا قلعہ تصور کیا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے اس تاریخی بستی کوخود پیپلز پارٹی نے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچادیا اور اب حالات یہ ہیں کہ لیاری ٹاون کے قدیم اور باشعور باشندے یہاں سے کوچ کرچکے ہیں۔ لیاری کا کوئی وارث نہیں ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پہلے لیاری کو گینگ وار کے ذریعے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کا سیاسی و تاریخی تشخص مٹادیا گیا ۔ اس کے بعد بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی انسانی ضرورتوں کو عوام سے چھین کر لیاری کو کربلا بنادیا گیا ہے۔ اوراس بستی کا یہ حال پیپلز پارٹی کی حکومت اور نگرانی میں خود جیالے سیاست دانوں نے کیا ہے۔
لیاری وہ ٹاون ہے جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو پہلی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ پھربے نظیر بھٹو کو لیاری والوں نے عزت دی ۔ ان کی شہادت کے بعد بلاول بھٹو کو بھی لیاری کی نشست سے اسمبلی میں بھیجا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد سے ہی یہ علاقہ پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا جہاں سے اس پارٹی کو عزت اور اقتدار ملا ۔ شاید اسی بات کی لیاری کے باشندوں کو سزا دی جارہی ہے۔
ویسے تو پورے لیاری ٹاون میں چو دہ سے اٹھارہ گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ معمول کی بات ہے ۔ پینے کو صاف پانی دستیاب نہیں اور پچھلے تین سالوں سے گیس کا نام و نشان تک نہیں۔ لیاری کے لوگ مہنگے ایل پی جی سیلنڈرز پر گزارہ کررہے ہیں لیکن لیاری کا سب سے پوش علاقہ بہار کالونی پچھلے ایک سال سے کربلا کا منظر پیش کررہا ہے جہاں مختلف سیاسی جماعتوں میں اختیارات کی جنگ شدت اختیار کرچکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے حالیہ انتخابات میں اس علاقے کے ساتھ بڑا بھیانک مذاق یہ کیا کہ بہار کالونی میں دو بڑی سیاسی جماعتوں میں ایوان بالا اور بلدیاتی نشستوں کی غیر منصفانہ بندر بانٹ کردی۔ ایک ہی یوسی (2) میں تمام کونسلرز جماعت اسلامی کے اور یو سی چیئرمین پیپلز پارٹی کا لایا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کو پانی کی بوند بوند کے لیے ترسایا جارہا ہے۔ علاقے کی عوام صاف پانی کے لیے ترس گئی ہے۔ایک ماہ سے اوپر ہونے کو آیا ہے لیکن کراچی واٹر بورڈ بھی ان معاملات کو سدھارنے میں ناکام رہا ہے جبکہ بہار کالونی کی عوام کمشنر کراچی کو بھی کئی درخواستیں دے چکے ہیں۔ احتجاج، ریلیوں، اور مظاہروں کا بھی حکام پر کوئی اثر نہیں ہورہا۔ میئر کراچی مرتضی وہابسمیت پیپلز پارٹی کی قیادت لیاری والوں کے ساتھ اس سلوک پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔


کیا لیاری کو کربلا کے بعد فلسطین بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ کیا بہار کالونی سمیت لیاری والوں کا پیپلز پارٹی پر بھروسہ کرنا اتنا بڑا جرم بن گیا ہے کہ جیالے حکمران فرعون بن بیٹھے ہیں۔ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
کہیں بہار کالونی اور لیاری کے جیالے سیاست دان ایک اور بلوچستان کی بنیاد تو نہیں رکھ رہے؟
یہ مقام فکر ہے ان اداروں کے لیے جنہوں نے لیاری کو سیاست دانوں میں تقسیم تو کردیا لیکن اب عوام کا غم و غصہ قابو سے باہر ہونے لگا ہے۔ وہ انصا ف کی تلاش میں تمام متعلقہ اداروں کی چوکھٹ پر دستک دے چکے ہیں لیکن کے الیکٹرک، سے لے کر سوئی سدرن گیس، اور واٹر بورڈ تک کہیں ان کی شنوائی نہیں ہورہی۔
لیاری کے بچے گرمی میں بلک رہے ہیں۔ پانی کو ترس گئے ہیں اور خواتین گھروں میں گیس کی عدم فراہمی پر سراپا احتجاج ہیں ۔
لیاری والوں کو خود سندھ کی حکمران جماعت بجلی چور کہہ کر مسائل سے منہ چرالیتی ہے لیکن گیس کی عدم دستیابی کے باوجود گیس کے بلوں کی ادائیگی پر اداروں سے سوال نہیں کرتی۔ واٹر بورڈ کی نااہلی پر کوئی سرزنش نہیں کی جاتی کیونکہ واٹر بورڈ کا چیئرمین بھی تو جیالا ہے۔
لیاری کے مظلوم بلوچ، پٹھان، پنجابی، سندھی اورکچھی اپنی مظلومیت کا رونا روئیں بھی تو کس کی عدالت میں۔ لیاری بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد یتیم ہوا اورپھر بے نظیربھٹو کے بعد لاوارث بھی ہوگیا ہے۔
اگر لیاری والوں کے ووٹ کو عزت دی جاتی تو یقینا آج لیاری والے بجلی، گیس، پانی کو ناترس رہے ہوتے ۔ اب بھی وقت ہے۔ سیاست دانوں اور جیالوں سے کوئی امید نہیں۔ وہی اس پکار کو سن سکتے ہیں۔ جنہوں نے لیاری کے ووٹ کو پامال کیا اور جعلی سیاست دانوں کو عوام پر مسلط کیا۔