Monday, June 2, 2025
پہلا صفحہپاکستان فلم ڈائریکٹریپاکستان کی پہلی پنجابی فلم ’پھیرے‘ جو سلور جوبلی ہٹ ثابت ہوئی

پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ’پھیرے‘ جو سلور جوبلی ہٹ ثابت ہوئی

پھیرے، کو پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جس زمانے میں یہ فلم بنی اور ریلیز کی گئی۔ اس دور میں پاکستانی فلمیں، بھارت میں بھی ریلیز کی جاتی تھیں۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے فلم کا نام اور موضوع ایسا چنا گیا جو کہ ہندو سماج اور روایات کا احاطہ کرتا ہے۔ پھیرے، کو پاکستان کی اوّلین پنجابی فلم ہونے کے ساتھ ساتھ پہلی سلور جوبلی فلم ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا۔

پھیرے، 28جولائی 1949 عیدالفطر کے موقع پر ریلیز کی گئی۔ لاہور میں اس فلم کا مین سنیما ’پیلس‘ تھا۔ انیس پکچرز کے بینر تلے بننے والی اس نغمہ بار رومانی فلم کی پروڈیوسرسعیدہ بانو یعنی سورن لتا تھی۔ فلم کے کریڈٹس میں اگرچہ ہدایت کار کا نام مجید دیاگیا ہے لیکن پس پردہ ڈائریکٹر نذیر تھے۔ فلم کے موسیقار غلام احمد چشتی ‘کہانی نویس رانی ممتاز‘ مکالمہ نویس و نغمہ نگار بابا عالم سیاہ پوش، جی اے چشتی اور عکاس بھائیا حمید تھے۔ یہ فلم صرف دو ماہ میں مکمل ہوئی۔
اس فلم کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ موسیقار جی اے چشتی نے ”پھیرے“ کے تمام گیت ایک ہی دن میں کمپوز کرلیے تھے۔ پھیرے، کے تمام گیت بے حد مقبول ہوئے۔ فلم ”پھیرے“ 1945 میں بننے والی ڈائریکٹر نذیر کی ایک اردو فلم”گاﺅں کی گوری“ کا ری میک تھی جس کی کاسٹ میں نورجہاں‘درگاکھوٹے اورنذیر شامل تھے۔

پھیرے“ میں نذیر ہیرو تھے جبکہ ان کی ہیروئن سورن لتا تھیں جو کہ حقیقی زندگی میں بھی ان کی بیوی تھیں۔ فلم کی دیگر کاسٹ میں ایم اسماعیل‘زینت‘ مایا دیوی‘ نذر‘ بابا عالم سیاہ پوش‘ علاﺅ الدین شامل تھے۔
انڈیا میں ’پھیرے‘ کے ڈسٹری بیوٹر فلم کی ہیروئن سورن لتا کے بھائی تھے اور ان کا جالندھر میں ہیڈآفس تھا۔ واضح رہے کہ سورن لتاکی فیملی کا تعلق سکھ مذہب سے تھا لیکن سورن لتا نے اداکارو ہدایت کار نذیر سے شادی کے لیے اسلام قبول کیااور اپنا نام سعیدہ بانو رکھ لیاتھا۔
پھیرے، کے یوں تو سبھی گیت مقبول ہوئے لیکن
منور سلطانہ کی آواز میں مینوں رب دی سوں‘ تیرے نال پیار ہوگیا وے چناں سچّی مچّی….
کی کیتا تقدیرے….
میں باگاں دی مورنی….
تاریاں دی چھانویں چھانویں….
دسونی میں کی کراں….
اور عنایت بھٹی کی سنگت میں منور سلطانہ کا ڈوئٹ
اکھیاں لاویں نہ….
عنایت بھٹی کے سولو
جے نہیں سی پیار نبھانا….
سب دی ٹونہ ٹریئے….
ایسے گیت ہیں جن کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔

پھیرے، کے موسیقار غلام احمد چشتی 1901 میں مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر میں واقع قصبے گوناچور میں پیدا ہوئے۔ انہوںنے سب سے پہلے 1938 میں فلم ’سوہنی مہینوال‘ کی موسیقی دی جو بے حد پسند کی گئی۔ بعد ازاں بابا چشتی نے فلم چمبے دی کلی، پردیسی، ڈھولا، خاموشی، منچلی، کلیاں، شکریہ، مبارک، البیلی، ضد، یہ ہے زندگی، جھوٹی قسمیں، اور دوباتیں، کی موسیقی دی۔
پاکستان ہجرت کے بعد لاہور میں انہوں نے پہلی فلم سچائی، کا میوزک دیا۔ پاکستان میں انہوں نے لگ بھگ ڈیڑھ سو فلموں کی موسیقی دی جن میں 90 فیصد پنجابی زبان کی فلمیں ہیں۔ ان کی قابل ذکر فلموں میں لخت جگر‘ پتن‘ لارے‘ مندری‘ گبھرو‘ بلو‘ دلبر‘ بلبل‘ پینگاں‘ دلابھٹی‘ گڈی گڈا‘ ماہی منڈا‘ مورنی‘ پلکاں‘ زُلفاں‘ سہتی ‘سسی، یکے ّوالی‘ جٹی‘ جگا، شیرا‘ رانی خان‘ مٹی دیاں مورتاں‘ آبرو‘ جمالو‘ رشتہ‘ موج میلہ‘ پانی‘ ڈاچی‘ ماماجی‘ میرا ماہی‘ وارث شاہ‘ ہتھ جوڑی‘ پلپلی صاحب‘ ابا جی‘ ان پڑھ‘ بانکی نار‘ بھریا میلہ‘ زمیندار‘ گوانڈھی‘ امام دین گوہا ویا‘ جانی دشمن‘ جگری یار‘ چاچاجی‘ راوی پار‘ ووہٹی‘ یار مار‘ بابل داویہڑہ‘ جگ بیتی‘ جوانی مستانی‘ چن مکھناں‘ حمیدا‘ روٹی‘ سجن پیارا‘ کنجوس‘ میلہ دو دن دا‘ جند جان‘ چن ویر‘ شیراں دی جوڑی‘ کونج وچھڑ گئی‘ گھبروپت پنجاب دا‘ لنگوٹیا‘ مکھڑا چن ورگا‘ بدنالوبدنام برا‘ بھائی چارہ‘ بھولے شاہ‘ ٹِکا متھے دا، چن پتر‘ دونین سوالی‘ سیاں‘ قادرا‘ ماں پتر‘ وچھڑے رب ملے‘ وچھوڑایارتے پیار‘ اُچیّ حویلی‘ بابا دینا‘ چانن اکھیاں دا‘ خون دا رشتہ‘ رب راکھا‘ سچا سودا‘ عشق دیوانہ‘ مالی‘ یار دیس پنجاب دے، اچا شملہ جٹ دا‘ اشتہاری ملزم‘پتردا پیار‘ خون پسینہ، دلدار‘ غیرت تے قانون‘ چن تارا‘ سوہنا ڈاکو‘ سلطانہ ڈاکو‘ دِکی تُکی‘ سانجھی غیرت یاراں دی‘ ماں صدقے وغیرہ شامل ہیں۔
بابا چشتی 25 دسمبر 1994 کو تقریباً 93 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

پھیرے، کے ڈائریکٹر اور ہیرو نذیر، ککّے زئی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں نامور ہدایت کار اے آر کاردار نے1930 میں خاموش فلم ”مسٹریس بنیڈت“ نامی فلم میں پہلی بار اداکاری کا چانس دیا تھا۔انہوں نے پہلی بولتی فلم”عالم آرائ“ کی تکمیل اور نمائش کے بعدبطور اداکار اپنے فلمی سفر کو جاری رکھا اور آب حیات‘ چندرگپت‘ بدروحی‘ دہلی کا ٹھگ‘ شری دھرم‘ پریتما‘ سنگدل سماج‘ زمانہ ‘کیپٹن کشوری‘ شیر کا پنجہ‘ پیاس‘ گھر کی لاج‘ اپنی نگریا‘ کون کسی کا‘ مڈنائٹ میل‘ جوش اسلام‘ ماں باپ، اور گاﺅں کی گوری، نامی فلموںمیں کام کیا۔ بعدازاں وہ شعبہ ہدایت کاری کی جانب آگئے اور اپنا پروڈکشن ہاؤس ہند پکچرز کے نام سے بنایا۔ اس ادارے کے بینر تلے انہوں نے متعدد فلمیں پروڈیوس اورڈائریکٹ کیں جن میں سندیسہ‘ کل یُگ‘ سوسائٹی‘ آبرو‘ سلمیٰ‘ لیلیٰ مجنوں‘وامق عذرا، اور عابدہ وغیرہ شامل ہیں۔ فلم ’عابدہ‘ کے علاوہ باقی سب فلموں میں مرکزی کردار نذیر نے خود ادا کیے۔ فلم ”گاﺅں کی گوری“ میں وہ نور جہاں کے مقابل ہیرو آئے۔ لیلیٰ مجنوں اور وامق عذرا میں ان کی جوڑی سورن لتا کے ہمراہ خوب جچی۔ نذیر صاحب کے ادارے کی بعض فلموں گھربار‘ چھیڑچھاڑ‘ ماں باپ کی لاج، اور یادگار، کو دوسرے ہدایت کاروں نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ نذیر صاحب نے تین شادیاں کیں۔ ان کی پہلی شادی اپنی ہی برادری کی ایک خاتون سکندرا سے ہوئی جس سے ایک بیٹی ثریا اور ایک بیٹا افضل نذیر تھے۔ دوسری شادی نذیر نے نیپالی نژاد اداکارہ اور اپنے زمانے کی ملکہ رقص ستارا سے کی۔ تیسری شادی نذیر نے سورن لتا سے کی۔ جن سے ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ پاکستان آکر نذیر اور سورن لتا نے فلمساز ادارے”انیس پکچرز“ کی بنیاد رکھی اور پہلی فلم ’عشق پنجاب ‘ کے نام سے بنانا شروع کی مگر بعض وجوہ کی بناءپر اس فلم کو نامکمل چھوڑنا پڑا۔ پھر انہوں نے ”سچائی“ بنائی جس میں سورن لتا اور نذیر مرکزی کرداروں میں تھے۔ سچائی کے بعد نذیر نے پھیرے ‘ لارے، انوکھی داستان‘ خاتون‘ شہری بابو‘ ہیر، صابرہ، نوراسلام‘ عظمت اسلام‘ بلوجی، اور شمع نامی فلمیں پروڈیوس کیں۔ اپنی ان فلموں کے علاوہ نذیر نے نوکر‘ حمیدہ اور سوال، میں بھی اداکاری کی۔ نذیر صاحب کا انتقال 26 اگست1983 کو ہوا۔ آخری بار انہیں سورن لتا کے ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام”سلور جوبلی“ میں ایک ساتھ دیکھا گیا۔

’پھیرے‘ کی باکس آفس پر کامیابی نے پاکستانی فلموں خصوصا پنجابی سنیما کو نئی راہ دکھائی۔ یہ فلم کراچی کے مرکزی سینما ’تاج محل‘ میں سات اپریل1950 کو ریلیز ہوئی اور پانچ ہفتے زیرنمائش رہی۔ پھیرے‘ کی غیر معمولی کامیابی کے بعد پاکستان میں پنجابی فلمیں تسلسل کے ساتھ بننے لگیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب اردو زبان کی فلموں سے زیادہ پنجابی زبان کی فلمیں بنائی جانے لگیں۔
پھیرے، کی کہانی ایک گاؤں میں بسنے والے سادہ دل انسانوں کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔
پنجاب کا ایک گاﺅں جس میں جانییعنینذیر، اس کا دوست چھجو اور جانی کی ماں رہتے ہیں۔
گاﺅں کے چوہدری کے بیٹے نتھو سے رقابت کی بنیاد پر چوہدری دونوں ماں بیٹے کو گاؤں بدر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جانی اور اس کی ماں رانی پور آجاتے ہیں۔ اس گاﺅں کا چوہدری جانی کے باپ کا دوست ہوتا ہے۔ چوہدری کا بیٹا راجویعنی علاﺅالدین آوارہ مزاج اور بدتمیز قسم کا انسان ہے۔ چوہدری کی بیٹی رانییعنیسورن لتا اور ایک لے پالک بیٹی لچھی ایک دوسرے کی ہم راز ہیں۔ جانو کی ملاقات رانی سے ہوتی ہے اور پہلی ہی ملاقات میں دونوں ایک دوسرے پر فریفتہ ہوجاتے ہیں۔ جانی کا دوست، رانی کی سہیلی لچھی پر فدا ہوجاتا ہے۔

رانی کے بھائی راجو کو اپنی بہن کا جانی سے میل ملاپ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ایک ساہوکار لچھو یعنی اداکار ایم اسماعیل کورانی پسند آجاتی ہے اور وہ راجو کو دیے گئے ادھار کی بنیاد پر رانی سے شادی کی بات چھیڑ دیتا ہے۔
ایک موقع پر رانی کا باپ چوہدری، جانی کی ماں کو اس کے شوہر کا وعدہ یاد دلاتا ہے کہ رانی، جانی کی منگیتر ہے۔لہٰذا وہ جانی کی شادی کی تیاری کرے۔ مگر راجو اس رشتے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
راجو کے کہنے پر ساہوکار لچھو بارات لے کر چوہدری کی حویلی آجاتا ہے۔ لیکن ’پھیرے‘ لینےکے وقت رانی انکارکردیتی ہے۔ راجو زبردستی کی کوشش کرتا ہے لیکن رانی نہیں مانتی۔ تب وہ اس کی سہیلی لچھی کی مدد لیتا ہے۔ لچھی، رانی کو منانے کا وعدہ کرتی ہے اور پھیرے بھی ہوجاتے ہیں لیکن رانی کی جگہ لچھی ساہو کار کی دلہن بن کر قربانی دیتی ہے۔ رسم کے مطابق دلہن کی بہن بھی سسرال ساتھ جاتی ہے۔ لہٰذا دونوں سہیلیاں ساہوکار کے گھر پہنچ کر اس کے ساتھ ڈرامہ کرتی ہیں۔ رانی، ساہوکار کو خود سے دور رکھنے کے لیے بیماری کا ڈرامہ کرتی ہے۔
ساہوکاراس کے علاج کے لیے ڈاکٹراور حکیموں کے چکر لگاتا رہتا ہے اور بالاخر ایک روز اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوجاتا ہے کہ ساہوکار کے ساتھ پھیرے، رانی نے نہیں بلکہ لچھی نے لیے ہیں۔ لچھی ساہوکار کو سارا معاملہ سمجھاتی ہے۔
دوسری جانب راجو، ساہوکار کے ادھاراور سود کی پریشانی میں رانی کو دوبارہ منڈپ میں بیٹھنے اور لچھو کے ساتھ پھیرے لینے پر مجبور کرتا ہے اور ایک بار پھر پھیرے پورے ہوجاتے ہیں۔ رانی، غم میں خود کشی کی کوشش کرتی ہے لیکن جانی اسے بتاتا ہے کہ اس کے پھیرے ساہوکار کے ساتھ نہیں بلکہ جانی کے ساتھ ہوئے ہیں۔
یوں ایک خوب صورت انجام کے ساتھ یہ فلم اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔

جب جب پنجابی زبان میں بننے والی آل ٹائم کلاسک فلموں کا ذکر ہوگا۔ اس داستان کی ابتداپھیرے، جیسی سپرہٹ میوزیکل فلم سے ہوگی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس