تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں سہیل احمد (عزیزی) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لٹریچر فیسٹیول میں ادیبوں اور فنکاروں کی تعداد دیکھ کر پسینہ آنے لگتا ہے کہ اتنے بڑے لوگوں کی موجودگی میں کیا بولا جائے۔ انہوں نے کہا کہ غلطی نکلتے رہنا زندگی ہے اور تکمیل موت ہے۔ وہ خوش نصیب ہے جس کے اندر غلطی نکالی جائے۔ بگڑے ہوئے فرد میں تو اس کا باپ بھی غلطی نہیں نکالتا۔ ادب زندگی آسان کر دیتا ہے، نوجوانوں کو ادب سے سیکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہاوت سچ ہے کہ باادب بامراد۔ آرٹ کیا ہے؟ یہ تخلیق ہے جو اللہ تعالی کی صفت ہے جو سب سے بڑا تخلیق کار اور صفائی پسند ہے۔ جو شخص جسم کے اندر سے بغض، نفرت اور غلط چیزیں نکال لے وہ اللہ کے قریب ہو جاتا ہے۔ ثقافت بزرگوں کی روایت کو زندہ رکھنا ہے۔ ہمارے بزرگ کرسی خالی ہونے کے باوجود اپنے بزرگوں کے سامنے بیٹھتے نہیں تھے۔ ہم عظیم قوم سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیں عظیم ہونا چاہیے۔

سہیل احمد نے کہا کہ دنیا میں سب سے زیادہ نشہ شہرت ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اتنی ہی شہرت دے جتنی ہضم ہو جائے۔ شہرت کی الٹی ماں کو بھی اچھی نہیں لگتی، لہٰذا عاجزی میں طبیعت خراب نہیں اچھی ہو جائے گی۔ ترقی کی منزلیں طے کرنے میں راستہ یاد رکھو کہ واپسی میں تکلیف نہ ہو۔ نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ اپنے سے بڑے کی بہت عزت کرو جو آپ سے پہلے دنیا میں آیا وہ عزت کا حق دار ہے۔ نوجوانوں کو اپنی زندگی کا آمدنی کے حساب سے ذائقہ بنانا چاہیے پھر دوسرے کی کوئی چیز اچھی نہیں لگے گی۔ سوشل میڈیا ہمارے ہاتھ میں ایسا ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں ماچس آجائے۔ اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ماچس کا استعمال کیا ہے وہ جنگل جلا دیتا ہے۔ آج ہمارا جنگل جل رہا ہے۔ بے عمل عالم نحوست پھیلاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعضاکی شاعری اب اعضا کی نمائش ہو گئی ہے۔ جس طرح ایک ہندو ہم سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، اسی طرح مسلمان ہندو جیسا ڈانس نہیں کر سکتا۔ آرٹسٹ کو وہ نہیں دکھانا چاہیے جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ جو تم دیکھنا چاہتے ہو اس کو اتنا اچھا کرو کہ لوگ دیکھنے لگیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ آج تک کسی اسمبلی نے ثقافت پر بات نہیں کی۔ آرٹ اچھی بات کو عوام تک پہنچانے میں پل کا کام کرتا ہے۔ سہیل احمد سے اس گفتگو میں محمد احمد شاہ نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔