Thursday, September 19, 2024
پہلا صفحہتبصرےکیا جوائے لینڈ، کی آسکر نامزدگی کے لیے دھوکے اور فراڈ کا...

کیا جوائے لینڈ، کی آسکر نامزدگی کے لیے دھوکے اور فراڈ کا سہارا لیا گیا؟

آخر جوائے لینڈ جیسی سستی فلم میں ایسا کیا ہے کہ اسے دُنیا کے مختلف ممالک سے وابستہ 22 پروڈیوسرز نے مل کر پروڈیوس کیا ہے؟
ان میں پاکستانی پروڈیوسرز کی تعداد چھے ہے جن میں سرمد کھوسٹ کے علاوہ دیگر چار پاکستانی نژاد امریکی ہیں۔ فلم جوائے لینڈ، کے پروڈیوسرز کی طویل فہرست میں سب سے ذیادہ چونکادینے والا نام ملالہ یوسف زئی کا ہے۔

جوائے لینڈ، کو پاکستانی معاشرے میں متنازعہ ثابت کرنے کے لیے اس کی صنف ہی کافی ہے۔ موضوع کی طرف بعد میں آتے ہیں۔ اس فلم کو ہم جنس پرستی کے موضوع پر مبنی فلم (ایل جی بی ٹی) قرار دیا گیا ہے۔ یعنی ایسی فلم جس میں ٹرانس جینڈر یا ہم جنس پرستی کی بات کی گئی ہو۔ فرانس میں منعقدہ مشہور فلم میلے کانز، میں بھی اس فلم کو اسی کیٹے گری میں جیوری ایوارڈ سے نوازہ گیا۔

کانز، کے علاوہ بھی یہ فلم دنیا کے مختلف فلمی میلوں میں توجہ کا مرکز رہی ہے، جس کی بڑی وجہ ”اسلامی جمہوریہ“ پاکستان میں ایسی فلم کا بننا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی فلموں کو ہماری سوسائٹی میں قبولیت کی سند بھی ملتی ہے یا نہیں؟
بائیس پروڈیوسرز کی کاوش یہ فلم جس میں بڑی تعداد انڈین فلم سازوں اور یورپی و امریکی فلم میکرز کی ہے، کیا ایسی فلم کو خالصتاً پاکستانی فلم قرار دینا جائز ہے؟ کیا کئی ممالک کا یہ جوائنٹ وینچر ایک پاکستانی فلم کے طور پر آسکر جیسے پلیٹ فارم پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کی حق دار ہے؟ کیا یہ ہمارا وہ روایتی سنیما ہے، جسے ہم آسکر میں جانے والی بھارتی فلموں کی ٹکر کا سنیما کہہ سکتے ہیں؟ کیا محض آسکر میں جگہ پانے اور ایوارڈ جیتنے کے لیے ہم ایسے موضوعات کا انتخاب کررہے ہیں جو حربے اب تک بھارت جیسے سیکولر ملک نے بھی نہیں آزمائے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمیں اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے۔
اس فلم کے پیچھے کن لوگوں کا کیا خاص ایجنڈا ہے؟ ہمیں اس گھسی پٹی روایتی بحث میں بھی نہیں الجھنا چاہیے لیکن سوال تو بنتا ہے کہ آخر شرمین عبید چنائے کی بنائی آسکر کمیٹی کو کس بات کی جلدی تھی کہ پہلے جوائے لینڈ، کوآسکر کے لیے منتخب کیا گیا اور پھر اس کی پاکستان میں ریلیز کے لیے سرتوڑ کوششیں کی گئیں۔

یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا انوکھا واقع ہے کہ کسی ملک کی فلم اس ملک میں ریلیز سے قبل ہی آسکر جیوری نے دنیا کے سب سے بڑے اور معتبر ایوارڈ کے لیے منتخب کرلی۔ بعد میں آسکر نامزدگیوں کی شرائط پوری کرنے کی غرض سے ہنگامی بنیادوں پر اس فلم کی ریلیز کی کوششیں کی گئیں کیونکہ آسکر کے لیے نامزد کی گئی کسی بھی فلم کا اس ملک میں ریلیز ہونا اور سات دن تک سنیماؤں میں نمائش شرط ہے۔ جوائے لینڈ، 18 نومبر کو صرف کراچی اور اسلام آباد میں ریلیز کی جاسکی کیونکہ پنجاب گورنمنٹ نے فلم کی نمائش پر پابندی کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ اس تناظر میں جوائے لینڈ، کو آسکر میں نامزدگی تو بالاخر مل گئی ہے لیکن اس کے لیے جو راستہ اختیار کیا گیا وہ سراسر غلط اور اکیڈمی ایوارڈز جیسے ادارے سے ایک دھوکا اورفراڈ ہے۔
جوائے لینڈ، کے ڈائریکٹر صائم صادق ہیں جو اس سے قبل مختصر دورانیے کی چند فلمیں بناچکے ہیں جو مختلف فلمی میلوں میں ایوارڈز جیت چکی ہیں لیکن جوائے لینڈ، ان کی قدرے لمبی جست ہے۔ اس ایک فلم نے انہیں لائم لائٹ میں جگہ دے دی ہے۔ جس کی وجہ فلم کا موضوع ہے۔ یہ وہ شارٹ کٹ ہے جو ہمارے ملک کے اکثر فلم میکرز کو متوجہ کرتا ہے اور انہیں یہ لگتا ہے کہ پاکستان میں بنائی مذہب مخالف یا روایت شکن فلموں سے ہی وہ توجہ پاسکتے ہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے وہ روایتی کمرشل سنیما کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے اور صائم صادق کی طرح راتوں رات لائم لائٹ چاہتے ہیں۔

اس رجحان نے معاشرے کو دو مختلف طبقات میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک طبقہ ایسے ممنوعہ موضوعات کو آزادیٔ اظہار کا نام دیتا ہے تو دوسرا اسے بے حیائی گردانتا ہے۔ اگرچہ غلط دونوں نہیں ہیں کیونکہ ہم 75 سالوں سے یہ طے نہیں کر پائے کہ ہم ایک سیکولر ملک ہیں یا مذہبی؟ یہاں برسوں سے دیسی لبرلز اور مذہبی جنونیوں میں یہ جنگ چھڑی ہوئی ہے کہ یہ غلط اور وہ صحیح ہے۔ یہ قصور ظاہر ہے کہ ریاست کا ہے جو کئی دہائیوں سے اپنا قبلہ طے نہیں کرسکی۔ عوام کو جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے، وہ اسی کا پیچھا کرتے ہیں۔ اس تضاد میں سمجھ ہی نہیں آتا کہ بیبا ٹھیک ہے یاحیدر۔
یہ دونوں جوائے لینڈ، کے مرکزی کردار ہیں۔ فلم کی کہانی ایک ٹرانس جینڈر بیبا (علینا خان) اور ایک شادی شدہ مرد حیدر (علی جونیجو) کے درمیان جنسی رشتے سے متعلق ہے۔ حیدرکی بیوی ممتاز (راستی فاروق) محلے میں ایک بیوٹی پارلر چلاتی ہے۔ شوہر کو نوکری نہیں ملتی تو وہ تنگ آکر ایک دوست کے توسط سے اسٹیج ڈانسر بن جاتا ہے۔ یہاں وہ بیبا سے ملتا ہے اور پھر دونوں ایک دوسرے کی ضرورت بن جاتے ہیں۔ حیدر اپنی بیوی کو وہ جسمانی آسودگی نہیں دے سکتا، جس کی اسے طلب ہے۔ ایسی عورتیں قریبی رشتوں سے وہ طلب پوری کرلیتی ہیں۔ جوائے لینڈ، میں ڈھکے چھپے انداز میں یہ بتایا گیا ہے۔ ممتاز، اپنی دیورانی (ثروت گیلانی) سے یہ طلب پوری کرتی ہے۔ فلم کا سب سے چونکانے والا پہلو کلائمکس میں چھپا ہے جب ممتاز، پیٹ سے ہوتی ہے اور پورے گھر میں اس بات کا جشن منایا جارہا ہے کہ لڑکا پیدا ہوگا۔ حیدر کے چہرے پر خوشی کی جگہ ملال ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ بچہ اس کا نہیں۔ تو پھر کون ہے جس نے یہ تخم بویا ہے؟ ممتاز، صحن کی طرف جاتے ہوئے اپنے سسر رانا امان اللہ (سلمان پیرزادہ) کو ادائے دلبرانہ سے کہنی مارتے ہوئے گزرجاتی ہے اور سسر کے ماتھے سے پسینے کی لکیر بہہ جاتی ہے۔ یہ ہے جوائے لینڈ ، کا اصلی اور کھرا سچ جو اب تک تبصرہ نگاروں کی نگاہوں سے بھی اوجھل ہے۔ میں نے ابھی تک جوائے لینڈ، کے کسی تبصرے میں اس پہلو کا ذکر نہیں پڑھا۔ بیشتر تبصرہ نگار ٹرانس جینڈر اور ایک شادی شدہ مرد کے تعلق کو لے کر الجھے نظر آتے ہیں۔
جوائے لینڈ، کی کاسٹ میں شامل علینا خان درحقیقت ٹرانس جینڈر ہے۔ اس کے علاوہ علی جونیجو، ثروت گیلانی، سہیل سمیر، سلمان پیرذادہ، ثانیہ سعید، راستی فاروق سمیت دیگر اداکار شامل ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ پوسٹس
- Advertisment -

مقبول ترین

ریسینٹ کمنٹس